تحریر از ابوحمزہ محمد عمران مدنی
والدین کا مقام قرآن کی روشنی میں
اللہ تعالی کا فرمان عالیشان ہے:(وَقَضٰی رَبُّکَ اَلَّا تَعْبُدُوْا
اِلَّا ٓ اِیَّاہُ وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا اِمَّا یَبْلُغَنَّ
عِنْدَکَ الْکِبَرَ اَحَدُہُمَآ اَوْ کِلَاہُمَا فَلَا تَقُلْ لَّہُمَآ
اُفٍّ وَّ لَا تَنْہَرْہُمَا وَ قُلْ لَّہُمَا قَوْلًا کَرِیْمًاوَاخْفِضْ
لَہُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَۃِ وَ قُلْ رَّبِّ ارْحَمْہُمَا
کَمَا رَبَّیَانِی صَغِیرًا) (بنی اسرائیل:23۔24)
ترجمہ کنزالایمان: اور تمہارے ربّ نے حکم فرمایا کہ اُس کے سوا کسی کو نہ
پوجو. اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو. اگر تیرے سامنے ان میں ایک یا
دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو اُن سے ہوں نہ کہنا. ا ور اُنہیں نہ جھڑکنا.
ا ور اُن سے تعظیم کی بات کہنا. ا ور اُن کے لیے عاجزی کا بازو بچھا، نرم
دلی سے۔ اورعرض کر: اے میرے ربّ!تو اُن دونوں پر رحم کر جیسا کہ ان دونوں
نے مجھے بچپن میں پالا۔
اور ارشاد فرماتا ہے:(وَ وَصَّیْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَیْہِ
حُسْناً)(العنکبوت:8)
ترجمہ کنزالایمان: اور ہم نے آدمی کو تاکید کی اپنے ماں باپ کے ساتھ بھلائی
کی۔
والدین کی نافرمانی کی مذمّت احادیث کی روشنی میں
نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا: کیا میں تمہیں کبیرہ گناہوں میں سے سب سے بڑا
گُناہ کی خبر نہ دوں؟ پھر آپ ﷺ نے اُن گناہوں میں والدین کی نافرمانی کو
بھی ذِکر فرمایا۔ (صحیح مسلم ،رقم:۸۷،ص:۵۹)
نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالی کی رضا والد کی رضا میں ہے۔ اور
اللہ تعالی کی ناراضگی والد کی ناراضگی میں ہے۔(ترمذی،ج:۳،ص:۳۶۰،رقم:۱۹۰۷)
نبی پاک ﷺ نے فرمایا: باپ جنت کے دروازوں میں سے درمیانی دروازہ ہے اگر تو
چاہے تو اُس کی حفاظت کر۔ اور اگر چاہے تواُسے ضائع
کردے۔(ترمذی،ج:۳،ص:۳۶۰،رقم:۱۹۰۶)
نبی کریم ﷺ نے فرمایا: جنّت ماں کے قدموں کے نیچے ہے۔ (مسند
الشھاب،رقم:۱۱۹،ج:۱،ص:۱۰۲)
یعنی،والدہ کے لیے تواضع اختیار کرنا اور اُسے راضی کرنایہ دخولِ جنت کا
سبب ہے۔
نبی پاک ﷺ کی بارگاہ میں ایک شخص حاضر ہوا جو آپﷺکے ساتھ جہاد کرنے کے لیے
آپ ﷺسے اجازت طلب کررہا تھانبی پاک ﷺ نے اُ س سے پوچھا: کیا تیرے والدین
زندہ ہیں؟ عرض کیا:جی ہاں! ارشاد فرمایا: تو اُن دونوں کی خدمت میں کوشش
کر۔ (صحیح البخاری ،رقم:۳۰۰۴،ج:۲،ص:۳۱۰)
نبی پاک ﷺ نے ارشاد فرمایا تیرے حُسنِ سلوک کے سب سے بڑے مستحق تیری ماں
اور تیراباپ اور تیری بہن اور تیرا بھائی ہیں۔پھر جو رشتے میں جتنا قریب ہو
اُس کامرتبہ ہے۔ (سنن النسائی،رقم:۲۵۲۹،ص:۴۱۶)
نبی پاک ﷺنے فرمایا: والدین کا نافرمان، احسان جتلانے والا، شراب کا عادی
اور جاد و کی تصدیق کرنے والا جنت میں داخل نہ ہوگا۔ (سنن
النسائی،رقم:۵۶۸۳،ص:۸۹۵)
کفر و شرک کے ماسوا جن گناہوں کے مرتکبین کے بارے میں جنّت میں داخل نہ
ہونے کی وعید احادیثِ مبارکہ میں آئی ہے اُن کی مختلف تاویلیں کی گئی ہیں
اگر اُس گُناہ کی حرمت قطعی الثّبوت وقطعی الدّلالۃ ہوتو اِس صورت میں اُن
کو حلال جاننے والے کے بارے میں یہ احادیث مبارکہ اپنے ظاہر پر ہوں گی کہ
ایسے لوگ اصلاً کبھی جنّت میں داخل نہ ہوں گےاور اگر گناہ کا مرتکب اُسے
حرام جاننے کے باوجود کرےتو اِس صورت میں یا تو مراد یہ ہے کہ وہ ابتداً
جنت میں داخل نہیں ہوگا بلکہ اپنے گُناہوں کی سزا بھگت کر یا اللہ تعالیٰ
کے عفو و درگزر فرمانے کی صورت میں بے سزا جنّت میں داخل ہوگا۔ حدیث میں
فرمایا گیا کہ قاطع رحم، متکبر وغیرہ جنت میں داخل نہیں ہوں گے۔ تو ایک
تاویل یہ ہے کہ وہ خاص اُس جنّت میں داخل نہیں ہوں گے جو اِن گُناہوں سے
احتراز برتنے والے کے لیے تیار کی گئی ہےاور ایک تاویل یہ ہے کہ اِن
گُناہوں کا ارتکاب اللہ تعالیٰ کو غضبناک کرتا ہے اور اِن گُناہوں کی نحوست
برے خاتمے کا سبب ہوسکتی ہےجس کی پاداش میں جنّت کا داخلہ ہمیشہ کے لیے
حرام ہوجاتا ہے۔
حضر ت عبداللہ بن عَمرو رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں: ایک اعرابی نے
بارگاہِ رسالت میں حاضر ہو کر عرض کیا: یارسول اللہ!ﷺ کبیرہ گُناہ کیا
ہیں؟ارشا د فرمایا: اللہ تعالی کے ساتھ شرک کرنا۔اس نے پھر عرض کیا: پھر
کونسا گناہ بڑاہے؟ارشاد فرمایا: والدین کی نافرمانی کرنا۔ اس نے دوبارہ عرض
کی: پھر کون سا گُناہ بڑا ہے؟ ارشاد فرمایا: جھوٹی قسم کھانا۔ (صحیح
البخاری،رقم:۶۹۲۰،ج:۴،ص:۳۷۷)
نبی پاک ﷺ نے ارشاد فرمایا: احسا ن جتانے والا،والدین کا نافرمان اور عادی
شرابی جنّت میں داخل نہ ہوگا۔
حضرت ابوبکرۃ رضی اللہ تعالی عنہ نے مرفوعاً روایت کیا: تمام گُناہوں میں
سے جس گُناہ کی سزا اللہ چاہتا ہے قیامت تک موخر فرمادیتا ہے مگر والدین کی
نافرمانی کہ والدین کے نافرمان کو وہ جلدی سزا دیتا ہے۔ (شعب
الایمان،رقم:۷۸۸۹،ج:۶،ص:۱۹۷)
نبی پاک ﷺنے ارشاد فرمایا: اولاد اپنے والد کا بدلہ نہیں چکاسکتی مگر یہ کہ
اُسے اُس کا والد اپنا مملوک پائے، چاہے تو اُسے فروخت کردےاور چاہے تو
اُسے آزاد کردے۔ (صحیح مسلم،رقم:۱۵۱۰،ص:۸۱۲)
نبی پاک ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالی نے اُس شخص پر لعنت فرمائی ہے جواپنے
والدین کو لعنت کرے۔(المستدرک للحاکم،رقم:۷۳۳۶،ج:۵،ص:۲۱۲)
لعنت کسے کہتے ہیں؟
لعنت، لغت میں بمعنی طرد واِبعاد کے ہے، اور اہلِ شریعت کبھی اس سے طرد
واِبعادِ رحمتِ الٰہی وبہشت سے اور کبھی طرد واِبعاد جنابِ قُربِ اور رحمتِ
خاص و درجہ سابقین سے مراد لیتے ہیں پہلے معنی کافروں کے ساتھ خاص ہیں جس
شخص کا کفر پر مرنا یقینی ہو، جیسے: ابو جہل ،ابولہب اُس پر لعنت
جائز۔انبیاء وملائکہ کی لعنت،اُن لوگوں کے لیے ہوتی ہے، جن کا کفر پر مرنے
کا باِعلامِ الہی اُنہیں علم ہوتا ہے، یا وہ کا فروں پر با وصف ِ کفر لعنت
کرتے ہیں۔
دوسری قسم گُناہگاروں کو بھی شامل ہے جس جگہ قرآن میں لفظ لعنت کا
گُناہگاروں کے حقّ میں وارد ہے وہاں دوسرے معنی مراد ہیں مگر جواز اِس قسم
کا بھی بوصفِ عام مذموم ہےجھوٹوں پر اللہ کی لعنت ہو کہہ سکتے ہیں کسی خاص
جھوٹے مسلمان پر لعنت کرنا جائز نہیں ہے۔ شیخ محقّق فرماتے ہیں:لعنت کرنا
کسی پر جائز نہیں سوا اُس کے جس کے کافر مرنے کی مخبرِ صادق (ﷺ) نے خبر دی
اور کافرِ مخصوص پر کہ ایمان اُس کا دمِ اخیر محتمل ہو لعنت نہ کریں۔
اصل اس باب میں یہ ہے کہ کسی پر لعنت کرنے میں کوئی ثواب نہیں پس احتیاط
اِسی میں ہے کہ جس کے انجام سے اطلاع نہ ہو اُس پر لعنت نہ کرے۔ اگر وہ
لائقِ لعنت ہے تو اس پر لعنت کہنے میں تضییعِ وقت ہے اور وہ جو لعنت کا
مستحق نہیں، تو گُناہِ بے لذّت۔ اسی واسطے امام عبداللہ یافعی یمنی”مراٰۃ
الجنان“ میں فرماتے ہیں: کسی مسلمان پر لعنت اصلًاجائز نہیں، اور جو کسی
مسلمان پر لعنت کرے، وہ ملعون ہے۔ حضرت وہب بن مُنبِّہ علیہ الرحمۃ سے
منقول ہے: اللہ عزّوجلّ نے حضرت موسی عَلیٰ نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ
الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے ارشاد فرمایا: اے موسیٰ! اپنے والدین کی عزّت
کر!پس بلاشبہ جو اپنے والدین کی عزّت کرے گامیں اُس کی عمر میں اضافہ کردوں
گا اور اُسے ایسی اولاد دوں گا جو اُس کے ساتھ بھلائی کرے گی۔ اور جو اپنے
والدین کی نافرمانی کرے گا میں اُس کی عمر میں کمی کردوں گااور اُسے ایسی
اولاد دوں گا جو اُس کی نافرمانی کرے گی۔ (الزواجر،ج:۲،ص:۱۴۰)
حضرت کعب رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا: اُس ذات پاک کی قسم جس کے قبضہ
قدرت میں میری جان ہے! اللہ تعالی بندے کو ہلاک کرنے میں جلدی کرتا ہےجب کہ
وہ اپنے والدین کا نافرمان ہو وہ ضرور اُسے جلد عذاب دیتا ہے۔ اور بلاشبہ
اللہ بندے کی عمر میں اضافہ فرمادیتا ہےجب کہ وہ اپنے والدین کے ساتھ نیکی
کرنے والا ہو، وہ ضرور اُس کی بھلائی، اور خیر میں اضافہ فرماتا
ہے۔(الزواجر،ج:۲،ص:۱۴۰)
اللہ پاک ہمیں والدین جیسی عظیم نعمت کی قدر کرنے کی توفیق دے!
|