مسلمانوں کی تجارت سے دوری اور بگڑتے معاشی حالات

ایک بڑی مصیبت یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں چھوٹے موٹے کاروبار کو شان کے خلاف سمجھاجاتاہے ، اس کے مقابلے میں معمولی ملازمت اور مزدوری کو ترحیج دی جاتی ہے ، جب کہ یہ ملازمتیں کچے دھاگے کی مانند ہوتی ہیں ، کب مالک مستقل چھٹی دے کر گھر روانہ کردے اس کی کوئی گارنٹی نہیں ہو تی ، مزدوروں کے استحصال کے واقعات بھی آئے دن رونما ہو تے رہتے ہیں ، اس کے مقابلے میں معمولی تجارت کر نے والے اور گمٹی لگا کر چھوٹی موٹی دکان چلا نے والے پورے وقار کے ساتھ زندگی گزارتے اور ترقی کی راہیں طے کرتے ہیں ۔ لاک ڈاؤن میں خاص طور پر اس کا تجر بہ ہوا، کروڑوں ملازمت پیشہ افراد کو ملازمت سے ہاتھ دھو نا پڑا، تنخواہیں

عہد حاضر میں عالمی سطح پر کسبِ معاش کے جتنے ذرائع اور وسائل ہیں ان میں تجارت بہت ہی اعلیٰ، معیاری ، باوقار اور بابرکت ذریعہ ہے، دنیا کے بڑے بڑے اصحاب ثروت اسی پیشے سے وابستہ ہیں ، آج دنیا میں وہی قومیں عزت ووقار کی زندگی گزار رہی ہیں ، جو معاشی واقتصادی اعتبار سے مضبوط ومستحکم ہیں ، دنیا بھر کے مسلمان جہاں اس وقت دیگر مسائل سے جوجھ رہے ہیں وہیں ان کے ساتھ ایک بڑا مسئلہ معاش کا ہے ، خاص طور سے ہندوستانی مسلمان اس وقت معاشی بد حالی کے بدترین دور سے گزررہے ہیں ، ملازمتوں میں ان کی حصے داری آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں ہے ، حکومت کی غلط پالیسیوں نے ملک کے کسانوں کو بھی تباہی کے دہا نے پر پہنچادیا ہے ، لاک ڈاؤن کے سبب مزدوروں کو کام نھیں مل پارہا ہے ، مسلمانوں کے خلاف ایک طبقے کی مسلسل زہر افشانیوں کے سبب مسلم نوجوانوں کو کوئی جلد کام پر رکھنے کے لیے تیار نہیں ہو تا ، ایسے میں مسلم معاشرے کو معاشی بد حالی سے نکلنے کےلیے تجارت کے بابر کت پیشے کی طرف پوری منصوبہ بندی کے ساتھ پیش قد می کر نے کی ضرورت ہے ،تاریخی حوالے گواہ ہیں کہ تجارت عہدِ قدیم سے معزز طبقات کاذریعہ ٔ معاش رہاہے ۔ اسلام کی صبح صادق سے پہلے زمانۂ جاہلیت میں بھی تجارت کا عام رواج تھا۔عربوں کے قافلے اونٹوں اور گھوڑوں پر سامان تجارت لاد کر کئی کئی دنوں تک میلوں کا سفر طے کرتے تھے۔یہ قافلے سمندری سفر کے ذریعے بھی اپنا سامانِ تجارت ایک ملک سے دوسرے ملک منتقل کرتے تھے۔ مکہ میں بھی ہر سال کئی تاریخی میلے منعقد ہوا کرتے تھے،جن میں سامان عیش وطرب اوراسباب سیرو تفریح کے ساتھ بڑے بڑے تجارتی بازار بھی لگا ئے جاتے تھے، اور دور دور کے تاجر اپنی تجارت کے فروغ کے لیے اس میں شریک ہو تے تھے،خود اہل مکہ بھی اپنا سامان دوسرے شہروں میں لے جا کر فروخت کرتے تھے۔ سر کار دوعالم نے بھی صغر سنی میں اپنے چچا ابوطالب کے ساتھ ایک تجارتی قافلے میں ملک شام کاسفر فر مایا ۔اسلام کی آمد اور بعثتِ نبوی کے بعد تجارت وکاروبار کو ایک نیا رخ ملا ، صدق وصفا کا پیغام عام ہوا، امانت ودیانت کی تعلیم عام ہوئی ،تجارت کے رہنما اصول مرتب ہوئے، ان رہنما اصولوں پر عمل پیرا ہو کر ہمارے بزرگوں نے ایک زمانے تک تجارتی منڈیوں میں اپنا اثر ورسوخ برقرار رکھا، طبقۂ علما نے بھی ایک زمانے تک تجارت ہی کو اپنا ذریعۂ معاش بنایا ، آج بھی اس پیشے سے وابستہ علما عزت ووقار کی زندگی گزاررہے ہیں ،اس پیشے کی برکتیں آج بھی جگ ظاہر ہیں ، لیکن موجودہ دور میں ہماری قوم نے بہت حد تک اس بابرکت پیشے سے کنارہ کشی اختیار کررکھی ہے ۔
آج اکثر تجارتی مراکز پر غیروں کا قبضہ ہے ، وہ مکمل طور پر تجارت و معیشت کو اپنے قابو میں کیے ہوئے ہیں،چھوٹے چھوٹے بازاروں میں بھی انھیں کا بول بالا ہے، کثیر مسلم آبادی والے علاقے کی مارکیٹ میں بھی مسلمانوں کی کوئی بڑی دکان نظر نہیں آتی ، دوچار چھوٹی موٹی دکانیں اگر کہیں نظر آبھی جائیں تو ان کی طرف کوئی توجہ نھیں کرتا ،حالاں کہ آج جس طرح مسلمانوں کو اچھےڈاکٹر،ماہرانجینئر،قابل اساتذہ اور دیگر شعبہاے حیات کے ماہرین کی ضرورت ہے، اسی طرح مسلمانوں کوایسے دیانت دارتاجروں کی بھی ضرورت ہے جو مسلمان ہونے کے ساتھ ساتھ ایماندار ی ، صداقت ، قوم کی ہمدردی اور ملت اسلامیہ کی فلاح وبہبودی کے جذ بات سے سرشارہوں۔
آج ہمارے سماج کے نوجوان حصول معاش کے لیے در بدر کی ٹھوکریں کھارہے ہیں ، دہلی ، ممبئی ، پنجاب ، گجرات ، بنگلور جیسے شہروں کا سفر کرتے ہیں ، وہاں انھیں ناقابل برداشت ذلتوں کا سامنا ہو تا ہے ، ان کے ساتھ جانوروں جیسا سلوک کیا جاتا ہے ۔ یہ نوجوان بڑی محنت ومشقت کے بعد ہزار ذلتیں جھیلتے ہوئے جب دوچار ہزار روپے کماکر گھر واپس ہو تے ہیں تو خون پسینے کی اس گاڑھی کمائی کو اپنے علاقے کے ان دکانداروں کے ہاتھوں میں ڈال آتے ہیں ، جو ان کے خلاف مسلسل سازشوں میں شریک ہو تے ہیں ، جو ان کے وجود کو ہی مٹانے پر آمادہ ہیں، جن کے ذہن ودماغ میں ان کے خلاف نفرت وعداوت کا ایک شعلہ بھڑک رہا ہوتا ہے،جو بظاہر تو مسکر اہٹ بکھیر تے ہیں ، لیکن اندر حقارت منافرت کا لاوا ابل رہا ہوتا ہے۔ ایسے میں یہ سوال ذہن ودماغ میں بار بار کچوکے لگاتا ہے کہ آخر مسلمان خود تجارت کا پیشہ کیوں اختیار نھیں کرتا ؟ کیوں کسان اور مزدور اپنا استحصال دیکھ کر بھی اپنے معاشی مستقبل کو تاب ناک بنانے کے لیے ٹھوس لائحۂ عمل نھیں تیار کرتا؟؟ اس میدان میں مسلمانوں کو خاطر خواہ کام یابی کیوں نھیں ملتی ؟؟؟
بعض مسلم تاجروں کی شکایت رہتی ہے کہ حکومت کی پالیسی اور مسلم تاجروں سے اکثریتی طبقہ کی بے رخی کی وجہ سے ہمیں اس میدان میں کام یابی نھیں مل پاتی ،ہم اس دلیل کو مکمل طور پر خارج بھی نھیں کر سکتے ، لیکن ان علاقوں کے سلسلے میں کیا کہا جائے گا جہاں مسلمان ستر فی صد کی آبادی میں ہیں، وہاں بھی مسلم دکاندار کام یاب نھیں ہو پاتے ؟، دن بھر اپنی دکان پر بیٹھ کر حسرت بھری نگاہوں سے قریب کی دکان کی بھیڑ کو تک رہے ہو تے ہیں ۔ میں نے اس سلسلے میں بڑی گہرائی سے دونوں فریق کے رویوں ، طریقوں اور کام یابی و ناکامی کے اسباب کا مطالعہ کیا ہے، کئی سالوں تک میں نے دونوں طرح کی دکانوں میں خریداری کر کے دونوں کے درمیان کا فرق محسوس کیا ہے،دو دہائی کے اس تجر باتی عمل میں حیرت انگیز انکشافات ہو ئے ہیں ،یہ انکشافات ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کرتے ہیں کہ تجارت ومعیشت کے جو اصول قرآن وحدیث نے مسلمانوں کی فلاح وبہبودی کے لیے وضع کیے تھے ، آج غیر مسلم دنیا ان پر عمل پیرا ہو کر ترقی کے منازل طے کررہی ہے اور عالمی ، ملکی و علاقائی معیشت میں سنگ میل کی حیثیت اختیار کر چکی ہے ، جب کہ خود مسلمان ان اصول وقوانین کو پس پشت ڈال کر دن بہ دن معاشی تباہی وبر بادی کی گہری کھائی میں گرتے جارہے ہیں ۔

اب ہم یہاں تجارت کے چندعام اصول ذکر کررہے ہیں جو احادیث کریمہ اور سیرت صحابہ سے مستفاد ہیں ، عام طور پر مسلم تاجر اُن سے دور نظر آتے ہیں ۔

خوش اخلاقی ونرم خوئی :
ایک کام یاب تاجر اور دکاندار کا خوش خلق اورخوش مزاج ہو نا انتہائی ضروری ہے ، بد مزاج اور درشت خو دکانداروں سے خریدار بھاگتے ہیں ، تاجر اور دکان دار کو اپنے ہر خریدار کا مسکراہٹ کے ساتھ استقبال کر نا چاہیے ، لیکن ہمیں اکثر مسلم دکانداروں کے یہاں اخلاقی دیوالیہ پن نظر آتا ہے ، مزاج میں ایسی تعلی ہوتی ہے کہ کسٹمر کے ساتھ عزت واحترام کا معاملہ کر نے کی بجاے حقارت آمیز لب ولہجے میں گفتگو کرتے ہیں ، دہلی کی جامع مسجد کے سا منے کثیر تعداد میں مسلم دکانیں ہیں ، جب آپ ان دکانوں کے سامنے سے گزریں گےتو آپ کو بڑے والہانہ انداز میں آئیے جناب ، تشریف لائیے جناب ، کیا خدمت کی جائے جناب ، جیسے الفاظ سے بلایا جائے گا ، لیکن اگر اتفاق سے آپ کو ان کا سامان پسند نھیں آیا اور بغیر خریداری کیے واپس ہو گئے تو مادر پدر کی گالیوں پر اتر آئیں گے ،اور اگر زیادہ کچھ کہا تو دھکے دے کر نکالا بھی جائے گا ، ظاہر ہے کہ ایسی دکانوں میں شریف لوگ نہ جانے ہی میں عافیت سمجھتے ہیں۔ یہ ایک مثال ہے ، کم وبیش ملک کے مختلف حصوں کے یہی حالات ہیں ۔ چند سالوں قبل مجھے ویلور تمل ناڈو جانے کا اتفاق ہوا، رمضان کا مقدس مہینہ تھا ، ایک مسجد میں نماز کے لیے پہنچا ، واپسی پر دیکھا کہ اللہ کے کسی بندے کو میری چپل پسند آگئی تھی ، ننگے پاؤں چپل خرید نے کےلیے مسلم دُکان تلاش کر نے لگا ، بمشکل ایک مسلم بوٹ شاپ ملا ، دیار غیر میں تھوڑی سی راحت محسوس ہو ئی ، لیکن دکان دار مجھےاجنبی مسافر سمجھ کر روکھے لہجے میں اوٹ پٹانگ ریٹ مانگنے لگا، چپل تو ان کے منھ مانگے ریٹ پر خرید لیا ،لیکن اس مسلم دکان دار کی ترش روئی اور اکھڑ پن نے مجھے انتہائی کبیدگی میں مبتلا کر دیا ، کئی دن کے قیام کے دوران وہیں کے غیر مسلم دکان داروں کے رویے بھی دیکھے ، وہ بہت اچھے انداز میں پیش آتے ، تجارتی نقطۂ نظر سے ہی سہی لیکن ہمدردی کا مظاہرہ کرتے ، اب آپ بتائیں کہ ان حالات میں کوئی خریدار مسلم دکان داروں کے یہاں جاکر اپنا دماغ کیوں خراب کرے گا ؟۔ اسلام میں نرمی اور خوش خلقی کا رویہ اختیار کرنے کی عام حالات میں بھی تعلیم دی گئی ہے، لیکن تجارت کے شعبے میں اس کی خاص طور پر تاکید کی گئی ہے۔ رسول اکرم نے ایسے تاجر کے لیےجو خرید و فروخت میں نرمی کا رویہ اختیار کرے، دعا فرمائی ہے۔ ارشاد فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ اس شخص پر رحم فرمائے جو بیچتے وقت، خریدتے وقت اور تقاضا کرتے وقت فیاضی اور نرمی سے کام لیتاہے‘‘۔ [صحیح بخاری ، کتاب البیوع، بابُ السُّھُوْلَۃِ وَالسَّمَاحَۃِ فِي الشِّرَاء وَالْبَیْعِ، وَ مَنْ طَلَبَ حَقًّا فَلْیَطْلُبْہُ فِي عَفَافٍ، بروایت جابر بن عبداللہ، رقم: ۲۰۷۶ ]

ایک اور روایت میں ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا : ’’اللہ تعالیٰ نےاس شخص کو جنت میں داخل کردیاجو بیچنے اور خریدنے میں نرمی کا معاملہ کیا کرتا تھا‘‘۔[سنن ابن ماجہ، کتاب التجارات، بابُ السَّمَاحَۃِ فِي الْبَیْعِ، بروایت عثمان، رقم ۲۲۰۲]

ان روایتوں کا تقاضہ ہے کہ مسلمان تاجر کو خرید و فروخت میں نرمی اور خوش اخلاقی کا رویہ اختیار کرنا چاہیے، یہ ایک ایسی پالیسی ہے جس کے ذریعہ تاجر بہت کم وقفہ میں گاہکوں کے درمیان اپنی ساکھ قائم کرسکتا ہے ، لیکن افسوس کا پہلویہ ہے کہ مسلمان تاجر عام طور پراس صفت سے خالی نظر آتے ہیں جب کہ دوسری قوموں کے تاجروں نے اس پالیسی کو سختی سے اپنا لیا ہے جس کے دنیوی ثمرات سے وہ مستفیض ہو رہے ہیں۔

کم منافع پر اکتفا :
ہمارے اکثر مسلم دکان دار کم وقت میں زیادہ منافع کمانے کی پالیسی پر عمل پیرا ہو تے ہیں ، گاہک بد ظن ہو جائے ، دکان چھوڑدے ،دوسرے خریداربھی متاثر ہو جائیں ،لیکن یہ صاحب اپنے منافع میں ذرہ برا بر کمی کر نے پر آمادہ نہیں ہوتے ، اس کے بر خلاف ہم نے متعدد غیر مسلم دکان داروں کو آزمایا ، بار بار ان سے سامان خریدا، اور بعض اوقات ان سے ان کی توقع سے زیادہ رقم کم کرایا ، انھوں نے تھوڑی سی منفعت کو پس پشٹ ڈال کر ہماری ضد کے سامنے ہتھیار ڈال دیا اور ہمیں مستقل خریدار سمجھ کر کم منافع یا بغیر منافع کے ہی سامان دے دیا ، ہم نے غور کر کے یہ نیتجہ نکالا کہ اکثر غیر مسلم دکان دار اصول تجارت سے واقف ہوتے ہیں، وہ عارضی منفعت کو نھیں دیکھتے، بلکہ اپنے کسٹمر کو بکھرنے سے بچانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ دراصل کم نفع لے کرزیادہ مال فروخت کرنا ایک ایسی پالیسی ہے جس سے تجارت کافی اوپر اٹھ جاتی ہے۔ سلف صالحین کی عادت مبارکہ بھی یہی تھی کہ کم نفع پر زیادہ مال فروخت کرنے کوزیادہ نفع حاصل کرنے کے انتظار سے مبارک سمجھتے تھے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کوفہ کے بازار میں چکر لگاتے تھے اور فرماتے تھے کہ اے لوگو! تھوڑے نفع کو نہ ٹھکراؤکہ زیادہ نفع سے بھی محروم ہوجاؤگے۔ حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ سے ایک بار لوگوں نے پوچھاکہ آپ کس طرح اتنے دولت مند ہوگئے؟ تو انھوں نے فرمایاکہ میں نے تھوڑے نفع کو بھی کبھی رَد نہیں کیا۔ جس نے بھی مجھ سے کوئی جانور خریدنا چاہا میں نے اسے روک کر نہ رکھا بلکہ فروخت کردیا۔ ایک دن ایک ہزار اونٹ اصل قیمت پرفروخت کردیے اور ہزار رسیوں کے سواکچھ نفع حاصل نہ کیا۔[کیمیاے سعادت ، ص: ۲۸۰]

وقت کی پابندی:
تاجر خاص طور سے دکان چلانے والے افراد کے لیے اوقات کا پابند رہنا انتہائی ضروری ہے ، دکان کھولنے اور بند کر نے کا وقت متعین ہونا چاہیے ، بلا ضرورت دکان بند کر کے غیر حاضر رہنا خریداروں کو بدظن کرتا ہے ، لوگ ایسی دکانوں کی بجاے دوسری دکانوں سے اپنی ضروریات کی تکمیل کو ترجیح دیتے ہیں ،ہمارے مسلم بھائی صبح دیر تک سونے کے عادی ہو چکے ہیں ، خاص طور سے ٹی وی اور موبائل کی لَت نے ان کی راتوں کو بے چین اور صبحوں کو بے برکت بنادیا ہے ، چوراہے پراگراپنی اور غیر کی دو چائے کی دکانیں ہوں تو آپ کوصبح سب سے پہلے غیر مسلم کے ہوٹل میں چائے دستیاب ہو گی ، مسلمان جسے صبح سویرے اٹھ کر فجر کی نماز ادا کرکے اپنے کاروبار میں مشغول ہوجانا چاہیے تھا ، وہ طلوع آفتاب کے بعد تک بستر پر پڑا رہتا ہے، اور غیر مسلم صبح تڑکے اٹھ کر سیر وتفریح کے لیے بھی جاتے ہیں اور وقت پر اپنی دکان بھی کھولتے ہیں، مندی کا زمانہ ہو یا بھیڑ بھاڑ کا موسم ،وہ ہمیشہ اپنے معمول کے پابند ہو تے ہیں ، ہمارے ادارے کےپاس ان کی کچھ دکانیں ہیں ، گھڑی کی سوئی دیکھ کر پورے وثوق کے ساتھ بتایا جاسکتا ہےکہ ان کی دکان کھلی ہو گی یا بند ہو چکی ہو گی۔افسوس کہ آج ہمارے مسلم بھائی ان اصولوں سے نا آشنا ہیں ، یا آشنا ہونے کے باوجود اس پر عمل پیرا ہونے میں ناکام ہیں ۔

صحابی رسول حضرت عبد الرحمن ر ضی اللہ عنہ بڑے تاجر شمار کیے جاتے تھے ، ان کے بارےروایت ہے کہ جب انہوں نے بنی قینقاع کے بازار میں تجارت شروع کی تھی تو ان کا معمول تھا کہ وہ بازار صبح سویرے چلے جاتےاور تجارت کے کاموں میں مشغول ہوجایا کرتے تھے۔انھوں نے معمولی تجارت سے اپناکام شروع کیا، پھر ان کا شمار عرب کے بڑے تاجروں میں ہو نے لگا۔[صحیح بخاری، کِتَابُ منَاقِبِ الْأَنْصَارِ، بَابُ إِخَاء النَّبِيِّ ﷺ بَیْنَ الْمُھَاجِرِیْنَ وَالْأَنْصَارِ، رقم ۳۷۸۰،ملخصاً]

صخرغامدی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا: اللھُمَّ! بَارِکْ لِامَّتِي فِي بُکُورِھَا۔یعنی اے اللہ! میری امت کے لیےدن کے ابتدائی حصے میں برکت ڈال دے ۔

حضرت عمارہ بن حدید نے کہا کہ صخر ایک تاجر آدمی تھے، وہ اپنی تجارتی کارندوں کو دن کے اول حصے میں روانہ کیا کرتے تھے، چنانچہ وہ مال دار ہوگئے تھے اور ان کی دولت بہت بڑھ گئی تھی۔ [سنن ترمذی، کتاب البیوع، بابُ مَاجَآء فِي التَّبْکِیْرِ بِالتِّجَارَۃِ، رقم ۱۲۱۲]

جھوٹ ، فریب اور دھوکہ دہی سے اجتناب:
جھوٹ ، دغا اور فریب جیسے مذموم اوصاف عام مسلمان کے اندر پایا جانا بھی از حدمذموم اور مومنانہ شان کے خلاف ہے ،لیکن اگر مسلمان تاجر کے اندر یہ اوصاف پیدا ہو جائیں تو آخرت کے ساتھ اس کی دنیا بھی تباہ ہو جائے گی، تجارت اور خرید وفروخت کے معاملات انتہائی صاف شفاف ہو نے چاہیے، خریدار کو دھو کا دے کر کبھی بھی تجارت میں کام یابی نھیں حاصل کی جاسکتی ، آج ملٹی نیشنل کمپنیاں بھی اسی اصول پر عمل پیرا ہیں ، ایم زون[Amazon] اورفِلپ کارٹ [Flipkart]، جیسی معروف کمپنیاں بھی اپنے خریداروں کو سامان کی ڈیلوری کے بعد پسند نہ ہو نے کی صورت میں یا سامان غیر معیاری نکلنے کی صورت میں ایک ہفتے کے اندر واپس کر نے کی سہولت دیتی ہے ، کمپنی کے مقامی نمائندے گھر پر آکر سامان واپس لے جاتے ہیں ، اس کے عوض میں دوسرا معیاری سامان ڈیلور کیا جاتا ہے ، لیکن ہمارے مسلم معاشرے کے چھوٹے چھوٹے دکانداروں کا حال یہ ہے کہ اگر سامان خرید نے کے بعدآپ واپس کر نے یا بدلوانے کے لیے پہنچ گئے تو پھر ان کے چہروں کا جغرافیہ بدل جاتا ہے،ناراضگی کا اظہار کرتے ہیں اور کسٹمر کے ساتھ ایسا حقارت آمیز برتاؤ کرتے ہیں کہ وہ کبھی دوبارہ اس دکان کا رخ کر نے کی حماقت نھیں کرتا،اور اگر اجنبی خریدار غلطی سے ایک دودن کی تاخیر سے پہنچا تو اسے پہچاننے سے ہی انکار کر بیٹھتے ہیں ۔
حضرت رفاعہ بن رافع انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا: ’’تاجر لوگ قیامت کے دن فاجر اور گنہگار اٹھائے جائیں گے،سوائے ان لوگوں کے جنہوں نے [اپنی تجارت میں]تقوی، نیکی اورسچائی کی روش اختیار کی‘‘۔ [سنن ترمذی،کتاب البیوع، باب مَاجَآء فِي التُّجَّارِ وَ تَسْمِیَۃِ النَّبِیِّ ﷺ إِیَّاھُم، رقم ۱۲۱۴]

امام سلیمان بن احمد طبرانی نےسر کار دوعالم کا ارشاد نقل فر مایا :مَنْ غَشَّنَا فَلَیْسَ مِنَّا وَالْمَکْرُ وَالْخِدَاعُ فِي النَّارِ۔ یعنی جوشخص دھوکے بازی کرے وہ مجھ سے نہیں اور دغابازی اور فریب کا انجام جہنم ہے۔[المعجم الکبیر للطبرانی، امام سلیمان بن احمد طبرانی رقم ۱۰۲۳۴]

ناپ تول میں کمی :
ناپ تول میں کمی کرنا ایک بدترین اخلاقی بیماری ہے جو آج کے بازاری نظام میں ایک وبا کی شکل اختیا ر کرچکی ہے، اس جرم میں ہر طبقےکے لوگ شامل ہیں ، خاص طورسے چھوٹے دکان دار اس میں زیادہ ملوث ہیں ، افسوس کہ ہمارے مسلم بھائی بھی اس بری عادت کے شکار ہیں ، کئی بار ہم نے دکان داروں کی چوری پکڑ نے کے بعد اصلاح کی غرض سے سمجھانے کی کوشش کی تو بہانے بنانے لگے۔ ہمیں یادرکھنا چاہیے شریعت کی نگاہ میں یہ ایک بدترین قسم کی خیانت ہے کہ پیسے تو پورے لیے جائیں اور سامان کم دیا جائے۔ قرآن کریم میں اس کی سخت الفاظ میں مذمت کی گئی ہے۔ ارشاد خداوندی ہے:
وَيْلٌ لِّلْمُطَفِّفِيْنَۙ۰۰۱ الَّذِيْنَ اِذَا اكْتَالُوْا عَلَى النَّاسِ يَسْتَوْفُوْنَٞۖ۰۰۲ وَ اِذَا كَالُوْهُمْ اَوْ وَّ زَنُوْهُمْ يُخْسِرُوْنَؕ۰۰۳
ترجمہ: کم تولنے والوں کی خرابی ہے وہ کہ جب اوروں سے ناپ لیں تو پورالیں اور جب انھیں ناپ تول کر دیں تو کم کردیں۔[المطففین /۱،۲،۳،]

حضرت شعیب علیہ السلام کی قوم میں بھی یہ برائی عام تھی جس کی اصلاح کی آپ نے کوششیں کیں ، لیکن جب وہ نہیں مانے تو ان پر اللہ تعالیٰ کا عذاب نازل ہوا۔ اسی لیےرسول اکرم نےاپنی امت کو اس سے متنبہ فرمایاکہ اس لعنت میں گرفتار ہوکر کہیں وہ بھی غضب الٰہی کا شکار نہ ہوجائیں۔ آپ نے ناپ تول کرنے والوں سے فرمایا: ’’ تم لوگ دو ایسے کام کے ذمے دار بنائے گئے ہو [یعنی ناپنا اور تولنا]جن میں [کوتاہی کے سبب] تم سے پہلے کی [بعض] امتیں ہلاک ہوگئی ہیں‘‘۔ [سنن ترمذی، ابواب البیوع،بَابُ مَاجَآء فِي الْمِکْیَالِ وَالْمِیْزَانِ، بروایت عبداللہ بن عباس، رقم ۱۲۱۷؍ ۱۲۲۱]۔

ناپ تول میں دیانت داری سے گاہکوں میں اعتماد پیدا ہوتا ہے اور تجارتی تعلقات زیادہ دنوں تک استوار رہتے ہیں۔ لیکن اگر ناپ تول میں کمی کی عادت خریداروں پر عیاں ہو جائے تو ایسی دکانوں کی ویرانی یقینی ہو جاتی ہے۔

عدم استقلال:
کسی بھی پیشہ میں کام یابی حاصل کر نے اوراس میدان میں امتیازی مقام پانے کے لیے مسلسل جد وجہد کی ضرورت ہوتی ہے ، بڑے صبر آزما حالات سے دوچار ہو نا پڑتا ہے ، کئی مشکل مقامات آتے ہیں ، جہاں حوصلوں کو باقی رکھنا اور میدان میں جمے رہنا کسی چیلنج سے کم نہیں ہو تا ، لیکن جو لوگ دُھن کے پکے ہو تے ہیں وہ کبھی بھی نا مساعد حالات کے سبب اپنے ارادوں میں تزلزل نہیں پیدا ہو نے دیتے ، کام یاب تجارت کی راہیں بھی پُر خار وادیوں سے ہو کرگزرتی ہیں ، کم ہی خوش نصیب ایسے ہو تے ہیں جنھیں ابتدائی مرحلے میں ہی کام یابی مل جاتی ہے، اکثر لوگوں کو کرب آمیز لمحات سے گزرناپڑ تا ہے، اس کےلیے عزم و استقلال اور بلند حوصلوں کی ضرورت ہوتی ہے ، ہم نے کئی کئی سالوں تک ویران دکانوں کو رفتار پکڑتے دیکھا ہے ، میری قیا م گاہ کے سامنے ایک بوڑھے میاں کی الماریوں کی دکان ہے ، سال بھر قبل بازار کے آخری چھور پر انھوں نے اپنی دکان کا افتتاح کیا،ایک سال تک شاید دس پندرہ دن میں کوئی ایک گاہک آتا ہوگا، لیکن انھیں دکان میں ہمیشہ وقت پر پابندی کے ساتھ موجود دیکھا، اب ان کی دکان کا قرب وجوار میں تعارف ہو چکاہے ، دھیرے دھیرے خریداروں کی تعداد بڑھنے لگی ہے، تجارت کے میدان میں قدم جما نے کے لیے اسی طرح کے پکے دُھن کی ضرورت ہوتی ہے ، ہمارے بہت سارے نوجوان چند دنوں کے بعد اکتا جاتے ہیں ، اور جلد ہی ناکامی کا شکوہ کر نے لگتے ہیں ، یہ اصول تجارت کے بالکل خلاف اور انتہائی غیر دانش مندا نہ عمل ہے ۔ بہت سارے پڑھے لکھے جوان ملازمت کے حصول کے لیے اپنی زندگی کا اکثر حصہ بے کاری میں گزار دیتے ہیں ، جب کہ چھوٹی موٹی تجارت کے ذریعہ بھی وہ اپنے معاش کا انتظام کر سکتے ہیں ۔

ایک بڑی مصیبت یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں چھوٹے موٹے کاروبار کو شان کے خلاف سمجھاجاتاہے ، اس کے مقابلے میں معمولی ملازمت اور مزدوری کو ترحیج دی جاتی ہے ، جب کہ یہ ملازمتیں کچے دھاگے کی مانند ہوتی ہیں ، کب مالک مستقل چھٹی دے کر گھر روانہ کردے اس کی کوئی گارنٹی نہیں ہو تی ، مزدوروں کے استحصال کے واقعات بھی آئے دن رونما ہو تے رہتے ہیں ، اس کے مقابلے میں معمولی تجارت کر نے والے اور گمٹی لگا کر چھوٹی موٹی دکان چلا نے والے پورے وقار کے ساتھ زندگی گزارتے اور ترقی کی راہیں طے کرتے ہیں ۔ لاک ڈاؤن میں خاص طور پر اس کا تجر بہ ہوا، کروڑوں ملازمت پیشہ افراد کو ملازمت سے ہاتھ دھو نا پڑا، تنخواہیں رو کی گئیں ،مزدوروں کو تو قیامت خیز حالات کا سامنا کر ناپڑا، اب تک حالات نارمل نھیں ہو سکے ہیں ، جب کہ تجارت پیشہ افراد جلد ہی اس بحران سے نکلنے میں کام یاب ہو گئے ہیں، بلکہ بعض نے تو ان ہنگامی حالات میں بھی خوب کمائی کی ہے،یہ ساری باتیں اس بات کا تقاضا کرتی ہیں کہ اپنی معاشی بدحالی دور کر نے کے لیے ہمارے سماج کےافراد بھی تجارت میں حصے داری قائم کریں ، خاص طور سے ہمارے علاقہ اتر دیناج پور اور کشن گنج جہا ں کے سادہ لوح مسلمان ماڑواریوں اور بنگلہ دیشی رفیوجیوں کے ہاتھوں لٹ رہے ہیں ، یہ دونوں قسم کے لوگ اس علاقے کی تجارت پر ایک زمانے سے قابض ہیں ، مسلم تاجروں کی نااہلی کے سبب یہ جس طرح چاہتے ہیں مسلمانوں کا استحصال کرتے ہیں ، ایسے میں مسلم جوانوں کو تجارت کے پیشے سے وابستہ ہو کر اپنی قوم کی فلاح وبہبود اور اپنے معاشی استحکام کے لیے جد وجہد کر نے کی سخت ضرورت ہے۔
 

محمد ساجد رضا مصباحی
About the Author: محمد ساجد رضا مصباحی Read More Articles by محمد ساجد رضا مصباحی: 56 Articles with 93699 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.