فتح مکہ کا عظیم الشان واقعہ رمضان سن ۸ ہجری میں پیش
آیا، جس کی بدولت بیت اﷲ میں توحید خالص کا احیا ء ہوا اور اسے بتوں کی
آلائش سے پاک کیا گیا۔ اس کی بدولت اسلام کو پورے عالم عرب میں بھرپور قوت
میسر آئی ، کیونکہ بیت اﷲ کی بدولت مکہ مکرمہ کو خصوصی اہمیت حاصل تھی اور
بہت سے قبائل قریش اور حضوراکرم ﷺ کے درمیان کشمکش کے حتمی نتیجے کے انتظار
میں تھے۔ چنانچہ فتح مکہ نے رسول اﷲ ﷺ کی سیاسی برتری پر مہر تصدیق ثبت
کردی ، اور اس عظیم واقعہ کے بعد پورے عرب کے لوگ جوق درجوق اسلام میں داخل
ہوتے چلے گئے۔ جس کا تذکرہ قرآن کریم کی سورۂ نصر میں بھی کیا گیا ہے۔
فتح مکہ کے واقعہ کا بنیادی سبب جمادی الاول سن ۸ ہجری میں قریش کی جانب سے
صلح حدیبیہ کی خلاف ورزی بنا۔ جس کے بعد رسول اﷲ ﷺ نے مکہ روانگی کی
تیاریاں شروع کردیں۔ اتحادی قبائل کے پاس قاصد بھیجے او انہیں بھی اس حملے
میں شرکت کی دعوت دی۔ جنگی تیاریوں اور روانگی کو اس قدر خفیہ رکھا گیا کہ
قریش کواس کی کانوں کان خبر تک نہ ہوئی ، جب لشکر اسلام مکہ مکرمہ کے
مضافات میں پہنچ گیا، تب انہیں اس کی اطلاع ہوئی۔
ضروری تیاریوں کے بعد رسول اﷲ ﷺ اپنے جاں نثار صحابہ کرام ؓ کے ہمراہ بہت
شان وشوکت کے ساتھ ۱۰ ؍ رمضان المبارک کو مدینہ منورہ سے روانہ ہوئے۔ راستے
میں بھی مختلف قبائل کے لشکر آآ کر ملتے رہے اور لشکر کی تعداد دس ہزار
نفوس تک جاپہنچی۔ رسول اﷲ ﷺ اور صحابہ کرام ؓ روزے سے تھے ۔ جب مدینے سے
تین سو کلومیٹر دور اور مکہ سے ۸۶ کلومیٹر پہلے ایک چشمے کدید پر پہنچے تو
آپؐ نے بھی روزہ کھول لیا اور تمام لوگوں نے بھی (صحیح بخاری)۔
مؤرخین اور سیرت نگاروں کا اتفاق ہے کہ سرکار دوعالم ﷺ ۱۰؍ رمضان المبارک
کو مدینہ سے روانہ ہوئے اور ۱۹؍ تاریخ کو مکہ مکرمہ پہنچے۔ فتح کی تاریخ
میں اختلاف ہے ، ۱۲، ۱۳، ۱۶، ۱۷، ۱۸ یا ۱۹ ؍ رمضان المبارک ۔ البتہ اس بات
پر اتفاق ہے کہ یہ واقعہ رمضان سن ۸ ہجری میں ہوا ، اس کی صحیح مسلم میں
صریح روایا ت ہیں۔
رسول اﷲﷺ کے مکہ مکرمہ میں داخلے سے قبل قریش کے بعض سردار آپؐ کی خدمت میں
حاضر ہوئے اور قبول اسلام کا اعلان کیا۔ رسول اﷲ ﷺ کے رضاعی بھائی اور
چچازاد ابوسفیان بن حارث بن عبدالمطلب " ابواء "کے مقام اور عبداﷲ بن ابی
امیہ بن مغیرہ " سقیا اور عرج" کے درمیان ایک مقام پر رسول اﷲ ﷺ سے ملے اور
اسلام قبول کیا۔
رسول اﷲ ﷺ کے چچا حضرت عباس بن عبدالمطلب ؓ بھی آپؐ کو راستے میں ملے، ابن
ہشام کے مطابق وہ مقام جحفہ تھا۔ وہ اپنے اہل خانہ کے ہمراہ ہجرت کرکے
مدینہ منورہ جارہے تھے۔ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ عباسؓ غزوہ بدر سے پہلے
مسلمان ہوچکے تھے بلکہ بعض مؤرخین کے مطابق وہ ہجرت مدینہ سے قبل ہی اسلام
لاچکے تھے۔ لیکن اپنے اسلام کو خفیہ رکھا تھا۔
مکہ مکرمہ کے قریب مرالظہران پر پڑاؤ ڈالا گیا اور فوجیں دور دور تک پھیل
گئیں۔حضور اکرم ﷺ کے حکم سے تمام فوج نے الگ الگ آگ روشن کی، جس سے تمام
صحرا وادیِ ایمن بن گیا۔فوج کی آمد کی بھنک قریش کے کانوں میں پڑچکی تھی،
تحقیق کیلئے انہوں نے ابو سفیان بن حرب،حکیم بن حزام (حضرت خدیجہ ؓ کے
بھتیجے) اور بدیل بن ورقاء کو بھیجا۔انہیں حضرت عباس ؓ مل گئے ، وہ رسول اﷲ
ﷺ کی خچری پر سوار تھے۔ وہ اس کوشش میں تھے کہ قریش کی طرف کوئی قاصد
بھیجیں ، تاکہ رسول اﷲ ﷺ کے مکہ میں داخلے سے قبل وہ آکر مصالحت کرلیں۔
حضرت عباس ؓ کی کوششوں سے دربار رسالت ؐ میں پہنچنے کے بعد ابوسفیان نے
اسلام قبول کرلیا، مگر کچھ پس وپیش کے بعد۔ ابوسفیان کے ساتھ آنے والے دیگر
دو سرداران ِ قریش بُدیل بن ورقاء اور حکیم بن حزام رسول اﷲ ﷺ کی خدمت میں
پہنچتے ہی مسلمان ہوگئے تھے۔
مکہ مکرمہ میں اسلامی فوج کے داخلے کے وقت حضور اکرم ﷺ نے حضرت عباسؓ سے
ارشاد فرمایا کہ ابوسفیان کوتنگ پہاڑی راستے پر کھڑا کردوتا کہ افواج الٰہی
کا جلال آنکھوں سے دیکھیں کچھ دیر کے بعد دریائے اسلام میں تلاطم شروع ہوا
، قبائلِ عرب کی موجیں جوش مارتی ہوئی بڑھیں، تمام قبائل کے لشکر ایک ایک
کرکے گزرتے رہے۔ اس کے بعد مہاجرین اور انصار کا لشکر گزرا جس میں حضور
اکرم ﷺ بھی تھے۔ رسول اﷲ ﷺ کا بڑا پرچم سیاہ اور چھوٹا سفید رنگ کا تھا۔
آقائے دوجہاں ﷺ مکہ کی بالائی جانب کداء سے مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے۔ آپؐ
پر انتہائی خشوع وخضوع طاری تھا۔ دل تشکر کے جذبات سے معمور تھا، زبان پر
سورۂ فتح جاری تھی۔ آپ ؐ اونٹنی پر سوار تھے اور عام فاتحین کی طرح فخرو
غرور سے گردن اکڑی ہوئی نہیں تھی، بلکہ تواضع کا یہ عالم تھا کہ سر مبارک
جھکا ہوا تھا اور اتنا جھکا ہوا تھا کہ اونٹنی کے کجاوے سے لگا جاتا تھا۔
آپؐ نے مقام حجون میں ایک خیمے میں قیام فرمایا۔
اعلان کردیا گیا کہ جو شخص ہتھیار ڈال دے گا یا ابوسفیان کے ہاں پناہ لے
گایا دروازہ بند کرلے گا یا بیت اﷲ میں داخل ہوجائے گا اس کو امن دیا جائے
گا۔ تاہم قریش کے ایک گروہ نے مقابلے کا قصد کیا اور حضرت خالدبن ولیدؓ کے
فوجی دستے پر تیر برسائے، جس سے تین اصحاب ( یعنی حضرت کرز بن جابر فہریؓ ،
حضرت حبیش بن اشعرؓ اور حضرت سلمہ بن المیلادؓ) نے شہادت پائی ۔ حضرت خالدؓ
نے مجبور ہوکر حملہ کیا، یہ لوگ ۱۳ لاشیں چھوڑ کر بھاگ نکلے ۔ حضور اکرمؐؐ
نے تلواروں کا چمکنا دیکھا تو حضرت خالدؓ سے بازپرس کی ، لیکن جب یہ معلوم
ہوا کہ ابتدا مخالفین نے کی تو حضورؐ نے ارشاد فرمایا کہ قضائے الٰہی یہی
تھی۔
فتح مکہ کے بعد رسول اﷲ ﷺ نے حکم دیا کہ بیت اﷲ سے بتوں کو نکال کر اسے پاک
صاف کردیا جائے۔ حضور ؐ بتوں کی شکست و ریخت میں بنفس نفیس شریک ہوئے ۔ آپ
ؐ نے اپنے دست مبارک میں ایک لکڑی پکڑی ہوئی تھی جس سے بتوں کو گراتے جاتے
تھے اور فرمارہے تھے کہ حق آگیا اور باطل مٹ گیا ، بلاشبہ باطل (ہمیشہ سے )
مٹنے ہی والا ہے (سورۂ بنی اسرائیل )۔ بتوں کی تعداد تین سو ساٹھ (۳۶۰)
تھی۔ کعبہ کے اندر حضرت ابراہیم ؑ ، اسماعیل ؑ ، اسحق ؑ اور بی بی مریم ؑ
کی تصاویر اور مجسمے بھی تھے۔ جب کعبہ بتوں کی آلائش سے پاک ہوگیا تو آپؐ
کعبہ میں داخل ہوئے اور دورکعت نماز پڑھی، حجر اسود کو بوسہ دیا اور بغیر
احرام کے بیت اﷲ کا طواف کیا۔ اس موقع پر آپؐ نے سیاہ عمامہ باندھا ہوا
تھا۔ پھر آپؐ نے حضرت بلال ؓ کو اذان دینے کا حکم دیا۔ بلال ؓ نے کعبہ کی
چھت پر چڑھ کر اذان دی۔
جب بیت اﷲ اور اس کے اردگرد کی تطہیر ہوگئی تو رسول اﷲ ﷺ نے مختلف علاقوں
میں نصب بڑے بڑے بت گرانے کے لئے مختلف دستے بھیجے ۔ ان میں بنو ثقیف کے
علاقے بطن نخلہ میں عزّی اور قُدید کے علاقے میں نصب بت منات قابل ذکر ہیں۔
مکہ مکرمہ فتح کرنے کے بعد عام فاتحین کی طرح قتل عام کا حکم نہیں فرمایا ،
خاص طور پر اپنے اس آبائی شہر میں جہاں آپؐ کی زندگی دوبھر کردی گئی تھی
اور مشرکین نے اعلان نبوت کے بعد حضور ؐ پر عرصۂ حیات تنگ کردیا تھا اور
آپؐ کو تیرہ سال تک بے پناہ تکلیف اور اذیتیں دی تھی۔ لیکن آپؐ کے فیصلے نے
تاریخِ انسانی کو ورطہ ٔ حیرت میں ڈال دیا۔ آپؐ نے تمام اہل مکہ کو بیت اﷲ
کے قریب جمع ہونے کا حکم دیا ۔ جب اس لوگ جمع ہوگئے اور شدید اضطراب کے
عالم میں رسول اﷲ ﷺکے فیصلے کا انتظار کرنے لگے تو آپؐ نے ان سب کو عام
معافی دے دی۔ اس موقع پر آپؐ نے اسلام کی بنیادی تعلیمات پر مبنی کئی خطبے
بھی دئیے۔ عام معافی کا اثریہ ہوا کہ مشرکین جوق درجوق اسلام میں داخل ہوتے
چلے گئے۔ حضور ؐ صفا پہاڑی پر کئی روز تک لوگوں سے سمع و طاعت پر بیعت لیتے
رہے۔
رسول اﷲ ﷺ نے عام معافی سے نو مردوں اورچھ یا آٹھ عورتوں کو مستثنیٰ کیا
تھا کہ انہیں قتل کردیا جائے، چاہے وہ کعبہ کے پردوں سے لٹک جائیں۔ اس کی
وجہ یہ تھی کہ انہوں نے رسول اﷲ ﷺ کو شدید تکلیف پہنچائی تھی اور مسلمانو ں
کے خلاف سنگین جرائم کے مرتکب ہوئے تھے۔ تاہم رحمت للعالمین ؐ نے ان میں سے
نصف سے زائد کو معافی دے دی اور انہوں نے اسلام قبول کرلیا۔ جن میں عکرمہ
بن ابی جہل ؓ سرفہرست ہیں۔
مکہ مکرمہ میں حضور اکرمﷺ کا قیام پندرہ دن تک رہا، جب یہاں سے روانہ ہوئے
تو حضرت معاذ بن جبل ؓ کو اس خدمت پر مامور کرکے گئے کہ لوگوں کو اسلام کے
مسائل اور احکام سکھائیں۔
|