وقت بڑی تیزی سے گزر رہا ہے ,اپنے مقصد اور مفاد کے حساب
ہم نے دین کا رخ موڑ لیا ہے, دنیا کی ترقی, عارضی شان, ختم ہونے والے وقار,
چند پل کی دلی تسکین, کی غرض سے روزانہ ہمارے گھروں میں, دفتروں میں,
بازار, دوکان, دوستوں کی محفل میں ایک دوسرے کی غیر موجودگی میں گفتگو کرنا
اپنا حق سمجھتے ہیں اور دلیل یہ دیتے ہیں کہ ہم اپنا غصہ نکال رہے ہیں, اس
ایسا کیا تو تھا, کیا میں بات نہ کروں, کیا میں غلط بات کر رہا ہوں,
وغیرہ..... لاشعوری میں ایسا گناہ روز کرتے رہتے ہیں اور توبہ بھی نہیں
کرتے بلکہ ایک طبقہ عورتوں کا تو کہتا ہے کہ اللہ معاف کرنے والا ہے ہم
اللہ سے معافی مانگ لیں گئے یا لیتے ہیں, ان بیمار ذہن کو کوئی سمجھاۓ کہ
ایک دفعہ لاعلمی میں گناہ ہو جاۓ تو معافی قبول ہو جاتی ہے لیکن اگر جان
بوجھ کر, سوچ سمجھ کر, علم رکھتے ہوۓ بار بار گناہ کیا جاۓ تو یہ اللہ کو
پسند نہیں پھر بے شک بند پانچ وقت کا نمازی ہی ہو کیونکہ اللہ کو توبہ پر
استقامت پسند ہے,
چغلی غیبت حسد انسانی جسم پر خطرناک قسم کے بد اثرات پیدا کرتا ہے جس سے
خون میں وائٹ سیل کو ختم کرنا معدہ کا کینسر دل دماغ اور روح کو دیمک کی
طرح کھوکھلا اور کمزور کرنا ہے۔اسلام نے قرآن وحدیث کے زریعے منع کیا ہے
غیر مسلم سائنسدانوں نے اس پر تحقیق کر کے اس سچ کو ثابت کیا ہے۔
پیٹھ پیچھے کسی کی بَدگوئی کرنا قطعی طور پر حرام ہے۔ یہ بد گوئی اگر سچی
ہے تو غیبت، اگر جھوٹی ہو تو بہتان اور اگر دو آدمیوں کو لڑانے کے لیے ہو
تو چغلی ہے۔
شریعت ان تینوں چیزوں کو حرام کرتی ہے۔
آج کل ہمارے معاشرے میں ایک بہت ہی بڑا حرام کام بالکل معمولی سمجھ کر عام
ہو چکا ہے جہاں چند لوگ اکٹھے ہو جائیں کسی غیر موجود کی برائیاں اور نقص
بیان کرنا شروع کر دیتے ہیں قرآن پاک میں اس معمولی سمجھ کر کیے جانے والے
گناہ کو غیبت کا نام دیا گیا ہے، ارشاد باری تعالی ہے۔
♧ وَیلُُ لّکُلّ ھُمَزةٍ لُّمَزة•
تباہی ہے ہر اس آدمی کہ ليے جو منہ در منہ برائی کرتا ہے اور جو پیٹھ پیچھے
برائی کرتا ہے۔
(سورة الھمزہ،آیت 1 )
♧ چغلی کہتے ہیں کسی کی بات فساد پھیلانے، جھگڑا پیدا کرنے کی غرض سے دوسرے
تک پہنچانا، اسے عربی میں نمیمہ کہتے ہیں اور چغلی کرنے والے کو نمام کہتے
ہیں، یہ بھی گناہ کبیرہ ہے ، حدیث شریف میں ہے۔
: لَا یدخل الجنّة نمّام•
چغلخور جنت میں نہیں جائے گا۔
یاد رہے غیبت کہتے ہیں پیٹھ پیچھے کسی کی برائی کرنا کہ اگر وہ شخص سن لے
تو اسے بری لگے ، یہ بھی گناہ کبیرہ ہے، قرآن میں سختی کے ساتھ اس سے منع
فرمایا گیا ہے اور اسے مردار بھائی کا گوشت کھانے کے برابر قرار دیا گیا
ہے۔ اسی طرح قرآن مجید میں کسی پر بہتان تراشی سے بھی منع کیا گیا ہے۔ یہ
بھی گناہ کبیرہ ہے۔
♧ وَلَا تَلمِزُوا اَنفسَکُم” اور آپس میں ایک دوسرے کو عیب نہ لگاو“
(الحجرات،آیت 11/49)
♧غیبت کرنے والوں کے لیے ذلیل و رسوا ہونے کی بھی وعید ہے۔
حضرت ابو برزہ اسلمی کہتے ہیں رسول اللہ نے فرمایا: اے لوگو! جو زبان سے
ایمان لائے ہو لیکن تمہارے دلوں میں ایمان داخل نہیں ہوا، لوگوں کی غیبت نہ
کرو اور نہ ہی انکے عیبوں کے پیچھے پڑو بےشک جو شخص لوگوں کے عیبوں کے
پیچھے پڑ جائے گا اللہ اس کے عیبوں کے پیچھے پڑ جائے گا اور اللہ جس کے
عیبوں کے پیچھے پڑ جائے اسے اس کے گھر میں ہی ذلیل کرتا ہے۔
(ابو داؤد،کتاب الادب، باب فی الغیبة)
غیبت دنیا میں بھی ذلیل و رسوا کرنے کی وجہ بنتی ہے اور آخرت میں بھی سخت
عذاب کی وعید ہے۔
حضرت انس بن مالک کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
معراج کے دوران میں میرا گزر ایسے لوگوں پر ہوا جن کہ ناخن سرخ تانبے کے
تھے جن سے وہ اپنے چہروں اور اپنے جسموں کو نوچ نوچ کر زخمی کر رہے تھے میں
نے پوچھا: اے جبرائیل! یہ کون لوگ ہیں؟حضرت جبرائیل نے بتایا: یہ وہ لوگ
ہیں جو دوسروں کا گوشت کھاتے تھے (غیبت کرتے تھے) اور اس طرح ان کی عزتوں
سے کھیلتے تھے۔
(ابو داؤد،کتاب الادب،باب فی الغیبة)
غیبت کی ہلکی اور چھوٹی بات بھی جہنم میں جانے کا سبب ہے۔
حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے:’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غیبت
کا مفہوم سمجھانے کے لیے لوگوں سے دریافت کیا:- کیا تم جانتے ہو غیبت کیا
ہے؟ لوگوں نے عرض کیا:- اللہ اور اسکے رسول ہی بہتر جانتے ہیں۔ آپ صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: “غیبت یہ ہے کہ تو کسی کا ذکر اس طرح کرے جو اسے
ناگوار ہو” عرض کیا گیا: اگر کسی میں وہ بات پائی جاتی ہو جو میں کہہ رہا
ہوں تو اس صورت میں کیا خیال ہے؟ رسول اللہ نے فرمایا:- اگر وہ ناپسندیدہ
باتیں اس میں موجود ہوں تو تم نے اسکی غیبت کی اور اگر وہ باتیں اس میں
موجود ہی نہیں تو اس پر تم نے بہتان طرازی کی ہے۔
(صحیح مسلم)
اس ارشاد نبوی سے معلوم ہوا کہ کسی شخص کے خلاف اسکے پیچھے جھوٹا الزام
لگانا بہتان ہے اور اسکے عیبوں کو بیان کرنا غیبت کے زمرہ میں آتا ہے،غیبت
چاہے زبان سے کی جاے یا اشارے کنائے سے حرام ہی کہلاے گی۔ اللہ تعالٰی ہم
سب کو چغلی، بہتان تراشی اور غیبت جیسے کبیرہ گناہوں سے بچنے کی توفیق عطا
فرمائے۔
الفاظ تھوڑے سخت ہیں، لیکن سچ ہیں۔
یاد رکھیں! اسلام میں موسیقی سختی سے حرام ہے۔
*جو لوگ موسیقی کو اپنی روح کی غذا کہتے ہیں، میرا ان سے سوال ہے کہ کسی
فوت شدہ کی میت پہ گانے کیوں نہیں بجائے جاتے؟ تب کیوں
اللہ تبارک و تعالیٰ سے دعائیں مانگی جاتئ ہیں؟ حالانکہ تب ہی لبرل (آزاد
خیال، ماڈرن) لوگوں کے لیے صحیح وقت ہوگا نا کہ وہ گانے بجائیں اور مرنے
والوں کی روحوں کو غذا دیں۔ ان کو سکون پہنچائیں۔*
*صرف ایسے ہی موقعوں پہ ہمارے اندر کا روایتی مسلمان جاگتا ہے۔افسوس صد
افسوس!!*
*یہ بات ذہن نشین کرلیں کہ گانا بجانا شیطان کا سب سے بڑا ہتھیار ہے۔*
*سکالر کہتے ہیں کہ "موسیقی شیطان کا ہتھیار ہے"۔ یہ انسان کے دل پہ غلبہ
پالیتا ہے۔ اور اس کو یاد الہی سے غافل کردیتا ہے۔ آپ نے غور کیا ہوگا کہ
ہم اپنے فون کی ساری موسیقی 2-3 گھنٹوں میں سن لیتے ہیں اور بعض اوقات تو
اپنی نمازیں بھی چھوڑ دیتے ہیں۔ دل کرتا ہے کہ اور گانے سنوں۔*
*سکالرز کا متفقہ موقف ہے کہ موسیقی کالے جادو، جنات کے غلبے کا سبب بنتی
ہے کیونکہ یہ ھے ہی شیطان کی چیز!!*
آج کی دھن فحاش ہے، عریاں ہے، گندی ہے، گھٹیا ہے۔ یہ آپ کو ناچنے پہ مجبور
کرتی ہے۔ تھڑکنے پھڑکنے پہ مجبور کرتی ہے۔ اور یہ حقیقت ہے۔
اللہ تعالی ہم سب کو معاف فرمائے۔*
*بہت سے ایسے کیسز بھی ہیں جن میں مرنے والے شخص کی زبان پہ کلمے کی بجائے
گانے تھے۔ اور وہ گانے بولتے ہوئے ہی مرگیا۔*
*کچھ واقعات ایسے بھی ہیں جن میں سفر کے دوران گاڑی میں گانے لگے تھے اور
گاڑی کا ایکسیڈنٹ ہوگیا۔ آپ خود سوچیں، کیا وہ لوگ ایمانی حالت پہ مرے ہوں
گے؟ اللہ تبارک و تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرتے ہوئے مرے ہوں گے؟*
*آپ خود ذرا ایسی موت کا تصور کریں۔ کیا جنت کہیں نظر آرہی ہے؟
حدیث; بیہقی نے جابر رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ سے روایت کی، کہ رسول ﷲ صلَّی
اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہ وسلَّم نے فرمایا کہ ’’گانے سے دل میں نفاق اوگتا
ہے، جس طرح پانی سے کھیتی اُوگتی ہے۔‘‘
حدیث : طبرانی نے ابن عمررضی اللّٰہ تعالٰی عنہما سے روایت کی، کہ ’’رسول ﷲ
صلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہ وسلَّم نے گانے سے اور گانا سننے سے اور
غیبت سے اور غیبت سننے سے اور چغلی کرنے اور چغلی سننے سے منع فرمایا۔‘‘
حدیث : بیہقی نے ابن عباس رضی اللّٰہ تعالٰی عنہما سے روایت کی، کہ رسول ﷲ
صلَّی اللّٰہ علیہ والہ وسلم
اپنے بھائی کی غیر موجودگی میں اس کی برائی بیان کرنے کو غیبت کہتے ہیں۔
لیکن غیبت میں نیت کا برا ہونا ضروی ہے ۔ لیکن چغلخوری میں بدنیتی کا ہونا
بھی ضروی نہیں ۔ چغلخوری میں غیبت اور دوسرے مسلمان کو تکلیف پہنچانے کی
خواہش اور نیت بھی ہے اس لیے چغلخوری غیبت سے بدتر گناہ ہے ۔
غیبت اور چغل خوری ہمارے معاشرہ میں عام ہے ۔ حالانکہ نماز ، اذکار ودیگر
عبادات کیساتھ گناہوں سے بچنا اصل دینداری ہے ۔ کاش یہ حقیقت ہمارے دلوں
میں بیٹھ جائے ۔
کعب احبار رحمتہ اللہ علیہ کابیان ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام قحط کے
زمانہ میں تین مرتبہ قوم کو لیکر دعا کیلئے نکلے لیکن دعا قبول نہیں ہوئی ۔
عرض کیا الہٰی تیرے بندے تین مرتبہ دعا کے لیے نکلے تونے ان کی دعا قبول
نہیں فرمائی ؟ وحی آئی اے موسیٰ ! تمہاری جماعت میں ایک چغلخور ہے اسکی وجہ
سے دعا قبول نہیں ہوتی ۔ موسیٰ علیہ السلام نے عرض کیا ۔ الہٰی وہ کون شخص
ہے بتا دیجئے تاکہ اس کو نکال دیا جائے ؟ ارشاد فرمایا ۔ موسیٰ ہم چغلی سے
منع کرتے ہیں اور خود چغلی کریں ۔ کیا یہ مناسب ہے سب مل کر توبہ کرو ۔
چنانچہ سب نے مل کر توبہ کی ۔ اس کے بعدنورمول ہوئی اور قحط دور ہو گیا۔
لیکن ہم اس کے برخلاف ایسے شخص سے بڑے اکرام اور جذبہ محبت سے پیش آتے ہیں
۔
جنت سے محرومی : قرآن وحدیث میں چغلی پربڑی سخت وعیدیں آئی ہیں۔ ایک حدیث
میں ہے کہ حضور اقدس ﷺ کا ایک مرتبہ دو قبروں پر گزر ہوا تو فرمایا ان
دونوں قبر والوں پر عذاب ہو رہا ہے ۔ ان میں ایک پیشاب کی چھینٹوں سے نہیں
بچتے تھے اور دوسرے کو اس لیے عذاب ہو رہا ہے کہ وہ دوسروں کی چغلی بہت کیا
کرتے تھے۔
راز فاش کرنا : امام غزالی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ دوسروں کا کوئی راز فاش
کردینا بھی چغلی کے اندر داخل ہے ۔ ایک آدمی یہ نہیں چاہتا ہے کہ میری یہ
بات دوسروں پر ظاہر ہو وہ بات اچھی ہو یا بری ۔ یہ جو اسکا راز آپ نے ظاہر
کر دیا ۔ یہ بھی چغلی کے اندر داخل ہے ۔ (ماخوذ از:" آج کا سبق "صفحہ 157
تالیف :مفتی اعظم حضرت مولانا محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ)
|