مولانا مفتی زرولی خان کا سانحۂ ارتحال

یہ کائنات تیزی سے اپنے انجام کی جانب گامزن ہے، اﷲ رب العالمین کے سوا کوئی نہیں جانتا کہ قیامت کا حتمی وقت اور تاریخ کب ہے لیکن چہار سُو نفسی نفسی کی بڑھتی پکاراور تاریک رات جیسے فتنوں کا ظہوردیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ قیامت کی بڑی نشانیوں کا ہیبت ناک سلسلہ کسی بھی لمحے شروع ہونے کو ہے۔بڑی نشانیوں سے پہلے جو علامات صغریٰ نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کے احکام و فرامین سے ثابت تھیں وہ عصر ِ حاضر میں روز روشن کی طرح عیاں ہیں۔بالخصوص ایک عرصہ سے جید علماء کرام کی پے در پے سفر آخرت پر روانگی سے حق اندیش طبقے کا یہ احساس قوی تر ہو رہا ہے کہ دنیا کی بساط لپیٹنے کا وقت اب بہت دور نہیں۔

علامات قیامت کے بارے میں نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایاتمہیں اسی طرح چھانٹ دیا جائے گا جس طرح اچھی کھجوریں ردّی کھجوروں سے چھانٹ لی جاتی ہیں، چنانچہ تمہارے اچھے لوگ اُٹھتے جائیں گے اور بدترین لوگ باقی رہتے جائیں گے۔حضرت عبد اﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہ نے فرمایا تمام علماء صالحین اور فقیہ ایک ایک کرکے اُ ٹھتے جائیں گے اور تم ان کا بدل نہیں پاؤ گے۔

بلا شبہ شیخ الحدیث حضرت مولانا مفتی زرولی خان رحمۃ اﷲ علیہ کا شمار انہی علماء اکابرین میں ہوتا ہے جن کا بدل اس زمانے میں کہیں نظر نہیں آتا۔ آپؒ بحیثیت بانی مہتمم جامعہ احسن العلوم کراچی تقریباً 40برس سے قرآن و حدیث کی تدریس میں مصروف تھے یہاں تک کہ گزشتہ 4برس کی علالت اور 3ماہ سے شدید بیمار ہونے کے باوجود منبر و محراب کی خدمت سے الگ نہیں ہوئے اور دروس کا سلسلہ جاری رکھا۔

مولانا مفتی زر ولی رحمۃ اﷲ علیہ بنیادی طور پر پٹھان تھے اور آپ ؒ کے لب و لہجے پر پشتوزبان کا اثر قدرے نمایاں تھا، لیکن آپؒ کا دلپذیر کلام ، عربی اردو فارسی اور پشتو زبان میں شاعری، متقدمین و متاخرین کے ازبر حوالہ جات، سیاق و سباق کے تناسب سے طنز ،چٹکلے اور ضرب المثل آپ ؒ کے طرز بیان کو چار چاند لگا دیتے ، پٹھان، پنجابی ، بلوچی ، سندھی اور مہاجر سب آپ کے انداز تقریر کے یکساں اسیر تھے۔

آپؒ کی چند ایک صفات نے آپ کو اپنے ہم عصر رفقاء و علماء سے منفرد بنا دیا۔ من جملہ ایک نمایاں اور خاص عادت یہ تھی کہ برسر مسند و منبر حق بات کواسی صاف گوئی اور بے باکی ساتھ بیان فرماتے جو دارالافتاء کا بنیادی تقاضا ہوا کرتی ہے ۔مخلوق کا خوف اور جمہور کی سوچ کبھی آپؒ کو سچ بیان کرنے سے روک نہیں پائی۔ آپ ؒ کسی ملامت کرنے والے کی ملامت اور عداوت رکھنے والے کی شرارت کو خاطر میں لائے بغیر اپنے دینی جذبات کا اظہار فرماتے چلے جاتے اس بات سے قطع نظر کہ کس کس کی مصلحت اور کس کس کی منفعت سچ کی زد میں آئے گی ۔ آپؒ کی دینی غیرت و حمیت عقل و خرد کے تابع نہیں تھی بلکہ آپ کے عشق و علم کا مظہر ہوا کرتی تھی۔


بقول اقبالؒ ؂
عقل عیار ہے سو بھیس بدل لیتی ہے
عشق بے چارہ نہ زاہد ہے نہ ملا نہ حکیم

حضرت مفتی صاحب رحمہ اﷲ کو نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم اور صحابہ کرامؓ سے دیوانگی کی حد تک عشق تھا لہٰذا کسی لگی لپٹی کے بغیر اور ڈنکے کی چوٹ پر ختم نبوت اور ناموس صحابہؓ کے دفاع سے اپنی تقاریر و تحاریر کو مزین رکھتے تھے،حتیٰ کہ دشمنان صحابہ کے ساتھ روابط و قرابت رکھنے والے مشاہیرکو بھی آڑے ہاتھوں لیتے۔ ’’الحب فی اﷲ و البغض فی اﷲ ‘‘ کی عملی تصویر تھے، گرم اور ٹھنڈی تار کا امتزاج ہی ان کے طرزبیان کا حُسن تھا۔ ان کی یہی برجستگی اور حق گوئی ناموس رسالت و ناموس صحابہ کے متوالوں کا دل موہ لیتی تھی۔بلا شبہ قرب قیامت کے فتنوں ، بدعتوں اور توہین رسالت و توہین صحابہ کی منظم سازشوں کے درمیان علماء حق کا فرض یہی ہے کہ وہ احیائے دین کے لیے ہر ممکن کوشش جاری رکھیں ۔ اسی اصول پر عمل کرتے ہوئے حضرت مفتی صاحب رحمتہ اﷲ علیہ سچ بیان کرتے ہوئے کسی اپنے بیگانے کی ناراضی و خفگی کو خاطر میں نہیں لاتے تھے۔
بقول اقبال ؂
اپنے بھی خفا مجھ سے ہیں بے گانے بھی ناخوش
میں زہر ہلاہل کو کبھی کہہ نہ سکا قند
مشکل ہے کہ اک بندۂ حق بین و حق اندیش
خاشاک کے تودے کو کہے کوہ دماوند

اﷲ تعالیٰ حضرت مفتی صاحب رحمہ اﷲ کی مغفرت فرمائے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ آمین
 

Qazi baha ur rahman
About the Author: Qazi baha ur rahman Read More Articles by Qazi baha ur rahman: 20 Articles with 26739 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.