کرونا ویکسین حلال یا حرام: مسلم حلقوں میں چھڑنے والی اس بحث کا پسِ منظر جانیں

image
 
کرونا وائرس کے سبب سال 2020 کو تاریخ کا بدترین سال قرار دیا جا رہا ہے جس نے دنیا بھر کو بری طرح متاثر کیا ہے- ایک جانب تو اس کے سبب کروڑوں لوگ متاثر ہوئے لاکھوں لوگ جانوں سے ہاتھ کھو بیٹھے اور کروڑوں لوگ بے روزگار ہو گئے- اس وائرس کے پھلاؤ کو روکنے کے ساتھ ساتھ دنیا بھر کے سائنسدان اس کی ویکسین کی تیاری کی کوششوں میں جت گئے جس میں کسی حد تک کامیابی بھی حاصل ہوئی ہے مگر اب تک یہ ویکسین دنیا کے ہر ملک کو مہیا نہیں کی جا سکی ہے-
 
ویکسین کس کو کہتے ہیں
ویکسین درحقیقت بائلوجیکل مادہ ہوتا ہے جو کہ کسی بھی جراثیم سے بنایا جاتا ہے مگر اس کی تیاری کے دوران اس جراثيم کو اتنا کمزور کر دیا جاتا ہے کہ جب اس کی تھوڑی سی مقدار جسم میں داخل کی جاتی ہے تو بیماریوں سے مقابلہ کرنے کی طاقت جو جسم میں موجود ہوتی ہے اس بیماری کا مقابلہ کرنے کی طاقت حاصل کر لیتی ہے اور اس طرح وہ تمام افراد جن کو ویکسین لگ چکی ہوتی ہے وہ اس بیماری کا جراثیم یا وائرس جسم میں داخل ہونے پر اس کا مقابلہ کرتے ہیں- دنیا اس سے قبل چیچک طاعون جیسی بڑی بیماریوں کو ان کی ویکسین سے شکست دے چکی ہے اور حالیہ دنوں میں پولیو اور خسرہ جیسی بیماریوں کی ویکسین بھی ان بیماریوں کے خلاف مقابلہ کرنے میں اہم کردار ادا کر رہی ہیں-
 
ویکسین کو محفوظ رکھنے کا طریقہ
ویکسین کی تیاری کے بعد سب سے اہم مرحلہ اس کی ترسیل ہوتا ہے جس میں یہ خظرہ موجود ہوتا ہے کہ درجہ حرارت کی تبدیلی کے سبب یہ ویکسین اپنا اثر کھو سکتی ہے- اس وجہ سے اس کو محفوظ رکھنے کے لیس ایک مادے جیلاٹن کا استعمال کیا جاتا ہے یہ جیلاٹن پروٹین پر مشتمل ہوتا ہے جو کہ جانوروں کی کھال سے یا اس کے ٹشوز سے تیار کیا جاتا ہے اور عام طور پر اس کی تیاری میں زیادہ تر سور کی کھال کا استعمال کیا جاتا ہے-
 
image
 
کیا کرونا ویکسین حلال ہے یا حرام
کرونا ویکسین کے حلال اور حرام ہونے کے حوالے سے مسلم حلقوں میں ایک بحث کا آغاز ہو گیا ہے کیوں کہ ماضی کی طرح اگر اس ویکسین میں بھی سور کی چربی شامل ہوئی تو مسلمان حلقے اس کو حرام قرار دے رہے ہیں- اس حوالے سے دنیا کے سب سے بڑے مسلم ملک انڈونیشیا کے علما کے ایک وفد نے چین کا دورہ کیا اس دورے میں ان کے ہمراہ ان کے سفارتکار بھی تھے جن کا مقصد چین میں تیار ہونے والی کرونا ویکسین کا اپنے ملک کے لیے آرڈر دینا تھا مگر اس کے ساتھ ساتھ علما کا مقصد یہ دیکھنا تھا کہ کیا یہ ویکسین حلال ہے یا حرام-
 
اس حوالے سے برطانوی اسلامی میڈیکل ایسوسی ایشن کے جنرل سیکریٹری ڈاکٹر سلمان وقار کا یہ کہنا ہے کہ اس وقت کرونا ویکسین کی طلب کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا ممکن نہیں ہے کہ موجودہ ویکسین کو سور کی چربی کے بغیر تیار کیا جا سکے تاہم فائزر ، موڈرینا اور آسٹرازینیکا نامی کمپنیوں کے ترجمان جو کہ کرونا ویکسین کی کامیابی کا دعویٰ کر چکی ہیں یہ کہہ رہی ہیں کہ ان کی ویکسین میں سور کے اجزا شامل نہیں ہیں- مگر بہت سارے ممالک جو کہ اس ویکسین کا آرڈر قبل از وقت دے چکی ہیں ان کو وہی ویکسین موصول ہوں گی جس میں سور کے اجزا پہلے سے شامل ہیں-
 
image
 
ویکسین کا استعمال جائز ہے
یونی ورسٹی آف سڈنی کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر ہارون رشید کا اس حوالے سے یہ کہنا ہے کہ ماضی میں بھی سور سے حاصل ہونے والی جیلاٹن کے حوالے سے مسلم حلقوں میں بحث جاری تھی اور اسلامی حلقوں نے اس کو جائز قرار دیا تھا- کیوں کہ اس کے استعمال نہ کرنے سے بڑے نقصان کا اندیشہ ہو سکتا ہے اس کی حمایت میں وہ 2018 میں انڈونیشیا کے ایک واقعے کا حوالہ دیتے ہیں جہاں پر ان کے علما نے خسرہ کی ویکسین کے استعمال سے منع کیا تھا جس کے نتیجے میں انڈونیشا میں خسرہ بہت تیزی سے پھیلنے لگا جس کے بعد ان کی اسلامی علما کونسل نے ویکسین کو جائز قرار دیا تھا-
YOU MAY ALSO LIKE: