جامعہ القرویین، دنیا کی قدیم ترین یونی ورسٹی جو تاحال قائم ہے |
عام طور پر مصر کے
دارالحکومت قاہرہ میں واقع جامعہ الازہر کو دنیا کی قدیم ترین یونی ورسٹی مانا
جاتا ہے لیکن غالباً بہت سے لوگوں کو یہ جان کر تعجب ہوگا کہ گنیز بک آف
ریکارڈز کے مطابق دنیا کی قدیم ترین یونی ورسٹی جامعہ الازہر نہیں بلکہ یہ
اعزاز افریقہ ہی کی ایک اور مسلم یونی ورسٹی ’جامعہ القرویین‘ کوحاصل ہے، جو
859ء میں قائم کی گئی تھی۔
اور یونی ورسٹی بھی کوئی عام قسم کی نہیں، بلکہ وہ جس سے دنیائے اسلام کی دو
عظیم ترین شخصیات نے تعلیم حاصل کی ہے، یعنی ابن العربی اور ابن خلدون۔
اس سے پہلے کہ ہم اس یونی ورسٹی کے بارے میں مزید تفصیلات پیش کریں، یہ بتانا
ضروری معلوم ہوتا ہے کہ گنیز بک کے اس شعبے کا تعلق ان یونی ورسٹیوں سے ہے
جوبغیر کسی تعطل کے آج تک علم کی روشنی بکھیررہی ہیں، اور ان میں وہ تعلیمی
ادارے شامل نہیں ہیں جو زمانہٴ قدیم میں تو قائم تھے لیکن اب کام نہیں کررہے۔
اگر قدیم یونی ورسٹیوں کی بات کی جائے تو عام طور پر پاکستانی شہر ٹیکسلا میں
قائم تکشا شیلا یونی ورسٹی کو دنیا کی سب سے قدیم یونی ورسٹی ماناجاتاہے، جس کی
بنیاد 700قبل مسیح میں رکھی گئی تھی۔ لیکن بدقسمتی سے یہ یونی ورسٹی وقت گزرنے
کے ساتھ نیست و نابود ہوگئی اور آج اس کا وجود صرف چند کھنڈرات کی صورت میں
موجود ہے۔ |
تو ذکر ہو رہا تھا مراکش کے تاریخی شہر فیض کی جامعہ القرويين کا،
جو دنیا کی قدیم ترین ایسی یونی ورسٹی ہے جو آج تک قائم و دائم ہے۔اس کے مقابلے
میں قاہرہ کی جامعہ الازہر 971ء میں قائم کی گئی تھی، گویا عمرمیں یہ القرویین
سے 112 برس چھوٹی ہے۔
ابھی فیض نیا نیا آباد ہوا تھا کہ اس کے حکمران نے یہ دعا مانگی: ’اے خدا، اس
شہر کوایسا علمی مرکز بنا دے جہاں قانون، سائنس اور تیری کتاب کی تعلیم دی جائے۔
اس حاکم کی دعا یوں قبول ہوئی کہ ایک متموّل سوداگر کی بیٹی فاطمہ الفہری نے
اپنے باپ کے مرنے کے بعد ترکے میں ملنے والی دولت سے ایک عظیم الشان مسجد بنانے
کا تہیا کرلیا۔ جب مسجد بنی تو اس زمانے کے رواج کے مطابق اس کے ساتھ ایک مدرسہ
بھی قائم کیاگیا۔ یاد رہے کہ جامعہ الازہر کا آغاز بھی مسجد سے ملحق مدرسے کے
طور پر ہواتھا۔
جب فاطمہ کا مدرسہ چل پڑااور اس میں دور دور سے طلبا علم کی پیاس بجھانے کے لیے
آنے لگے تو اس عہد کے سلاطین بھی متوجہ ہوئے بغیر نہ رہ سکے اور انہوں نے اس
مدرسے کو اپنی سرپرستی میں لے لیا۔ جلد ہی وہ وقت آیا کہ جب مدرسے میں پڑھنے
والے طلبا کی تعداد آٹھ ہزار سے تجاوز کر گئی۔ آنے والی صدیوں میں مسجد اور
مدرسے میں مسلسل توسیع ہوتی رہی اور مدرسہ جامعہ القرویین کہلانے لگا۔
جامعہ القرویین میں صرف دینی علوم ہی نہیں بلکہ دنیاوی علوم بھی پڑھائے جاتے
تھے جن میں صرف و نحو، منطق، طب، ریاضی، فلکیات، کیمیا، تاریخ اور حتیٰ کہ
موسیقی تک شامل تھے۔
جامعہ سے اسلامی تاریخ کی کئی بلند قامت شخصیات وابستہ رہی ہیں، ہم پہلے ہی
عظیم صوفی شیخ الاکبر ابن العربی اور تاریخ دان ابنِ خلدون کا ذکر کر چکے ہیں۔ |
پوپ سلوسٹر ثانی جنھوں نے یورپ میں عرب ہندسے اور صفر کو متعارف کرایا |
اس تاریخی ادارے نے عالمِ اسلام اور مغرب کے درمیان صدیوں تک علمی اور ثقافتی
پل کا فریضہ سرانجام دیا ہے۔ یونی ورسٹی کے فارغ التحصیل طلبامیں کئی غیر مسلم
علما بھی شامل ہیں۔ مثال کے طور پر یورپ میں عربی ہندسے اور صفر کا تصور متعارف
کروانے والے پوپ سلوسٹر ثانی اسی یونی ورسٹی کے طالبِ علم تھے۔ سلوسٹر ثانی
999ء سے 1003ء تک پوپ کے عہدے پر فائز رہے ہیں۔
ان کے علاوہ مشہور یہودی طبیب اور فلسفی موسیٰ بن میمون بھی اسی جامعہ کے طالبِ
علم تھے۔ |