ہمارے مددگار معاشرے میں ذلیل و خوار کیوں؟

منجھلے بیٹے عادل نے پوچھا جوتے بنانے والے کو چمار کہتے ہیں؟

‎ہم نے خواہ مخواہ ہی کچھ جل کر جواب دیا جوتے بنوانے والوں کو چمار کہتے ہیں

وہ حیرت سے ہمیں تکنے لگا ہم نے مزید کہا جوتے بنانے والے کو چمار کہنے اور سمجھنے والے اصل میں خود چمار ہوتے ہیں

اب تو بچہ بیچارہ واقعی میں سٹپٹا کے رہ گیا ۔ عادل کی اردو خاصی کمزور ہے اوپر سے اردو مواد بھی کم ہی اس کے زیر مطالعہ رہتا ہے ۔ ایسے میں کہیں کسی پوسٹ پر اسے لفظ چمار لکھا ہؤا نظر آیا تو اس نے اردو ٹو انگلش ڈکشنری پر جا کر سرچ کیا تو چمار کے معنی شُو میکر لکھے ہوئے تھے ۔ اب وہ اسی بات پر حیران تھا کہ جوتے بنانا مرمت کرنا یا انہیں سنوارنا چمکانا تو ایک ہنر مندی اور مہارت کا کام ہے تو کسی شخص کو گھٹیا یا نیچ بتانے کے لیے لفظ چمار آخر کیسے استعمال کیا جا سکتا ہے؟ اور اگر یہ پیشہ اتنا ہی باعث ذلت ہے اور اس سے وابستہ آدمی اتنا ہی گیا گذرا ہوتا ہے تو اس کی خدمات سے فیض اٹھانے والے کہاں سے معزز ہو گئے؟ اس کی سوچ اپنی جگہ درست تھی مگر ہمارا بھی رویہ یقیناً بہتر نہیں تھا کیونکہ ہمیں معلوم نہیں تھا کہ اس نے یہ لفظ پہلے کبھی پڑھا یا سنا نہیں تھا اسی وجہ سے ہم نے جواب میں طنز کیا تھا ۔ اور یہ کوئی فرضی واقعہ نہیں ہے ابھی چند روز پہلے کی بات ہے تب سے ذہن میں تھا کہ اس موضوع پر قلم اٹھایا جائے ۔

کیونکہ یہی حال اور بھی دوسرے کئی پیشوں کو نہایت ہی حقیر و ذلیل سمجھے جانے کا ہے ۔ ہم لوگ ٹیکس چوری ملاوٹ رشوت خوری ذخیرہ اندوزی چور بازاری غرض ہر طرح کی بےایمانی کرنے والوں کی تو عزت کرتے ہیں انہیں سر آنکھوں پر بٹھاتے ہیں ان سے رشتہ داریاں بھی جوڑ لیتے ہیں مگر تعلیم کی کمی غربت اور کچھ موروثیت کی بناء پر اپنے آبائی پیشوں کو اپنائے رکھنے والے ہنرمندوں کاریگروں اور محنت کشوں راج مزدوروں کو تک نہایت ہی کمتر و نیچ جانتے ہیں ۔ ان کے ساتھ نہایت ہی تحقیر اور ہتک آمیز رویہ اپناتے ہیں ۔ انہیں اس لائق ہی نہیں سمجھتے کہ ان کے ساتھ سیدھے منہ بات ہی کر لیں ۔ آخر اتنا تکبر کیوں؟ اس دنیا کو چلانے اور نظام ہستی کو رواں دواں رکھنے میں انہی ان پڑھوں معمولی لوگوں کا کتنا بڑا حصہ ہے وہ اس مشنری کا کتنا اہم اور ناگزیر پرزہ ہیں یہ کسی نے سوچا؟ آج اگر سارے خاکروب اپنا کام چھوڑ کر گھر بیٹھ جائیں تو کتنا بڑا بحران کھڑا ہو جائے گا اس کا تو تصور بھی کرنا محال ہے ۔ ہماری جہالت کا تو یہ حال ہے کہ ہم صفائی کرنے والے کو کچرے والا کہتے ہیں جبکہ کچرے والے تو ہم خود ہوتے ہیں ۔ کچرا کس کا ہوتا ہے اس کا یا ہمارا؟ تو پھر کچرے والا کون ہؤا وہ یا ہم؟ یہ جتنے بھی چھوٹے موٹے اور بظاہر گھٹیا مگر حقیقتاً انتہائی صبرآزما کام کرنے والے اللہ کے بندے ہیں ہمیں تو ان کا شکرگزار ہونا چاہیئے کہ ان کی وجہ سے ہماری زندگی آسان ہے یہ کیڑے مکوڑے اگر دنیا سے ناپید ہو جائیں تو ہماری دو کوڑی کی اوقات نہیں رہے گی ان کی مدد و معاونت کے بغیر ۔ سماجی و تمدنی تاویلات اپنی جگہ مگر ہم اتنا تو کر سکتے ہیں کہ ان کے ساتھ اخلاق کے ساتھ پیش آئیں اپنے رویے سے ان کی دل شکنی کا سبب نہ بنیں انہیں کمتر اور حقیر ہونے کا احساس نہ دلائیں بلکہ ان کا حوصلہ بڑھائیں کہ وہ بھی سماج کا ایک قابل قدر اور اہم حصہ ہیں ۔ اور اس کام میں کچھ بھی خرچ نہیں آتا نہ ہی کوئی محنت لگتی ہے اگر ہم اتنا بھی نہیں کر سکتے تو پھر تف ہے ہماری تعلیم اور تربیت پر ۔

‎خیر پھر لفظ چمار کے ضمن میں جب تھوڑی تلاش و تحقیق کی تو معلوم ہؤا کہ بنیادی طور پر یہ سنسکرت زبان کے لفظ چرم یعنی کھال سے ماخوذ ہے جو کہ اردو لغت میں چمڑا کہلاتا ہے اور اسی مناسبت سے مردہ جانوروں کی کھال اتارنا اسے خشک کرنا پھر رنگنا اور اس سے جوتے چپل وغیرہ تیار کرنے والا کاریگر چمار کہلاتا ہے اور یہ کام یعنی دباغت نچلی ذات کے ہندوؤں کے ایک طبقے سے مخصوص ہے ۔ اور پھر کسی کمینے سفلے شخص کے لیے بھی لفظ چمار استعمال کیا جانے لگا بلکہ اس ترکیب کو لغت میں بھی شامل کر دیا گیا ۔ ویسے تو ہمارے ہاں چمڑے سے متعلق کام کاروبار مسلمان بھی کرتے ہیں یہ باقاعدہ ایک صنعت ہے اور جوتی گانٹھنے مرمت کرنے کا کام یقیناً اپنی غربت پسماندگی اور ناخواندگی کی بناء پر کرتے ہیں اسی وجہ سے سماجی اعتبار سے کم حیثیت گردانے جاتے ہیں ۔ اور یہ سماج کا المیہ ہے کہ کسی کے پاس دولت چاہے کتنے بھی ناجائز و حرام ذریعے سے آئی ہو وہ معزز کہلاتا ہے اور انتہائی محنت و مشقت سے حق حلال کی روزی کمانے والا اپنے پیشے کی بناء پر حقارت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے ۔
 

Rana Tabassum Pasha(Daur)
About the Author: Rana Tabassum Pasha(Daur) Read More Articles by Rana Tabassum Pasha(Daur): 228 Articles with 1854325 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.