موت مجھے چھو کر گزر گئی مگر درود شریف پڑھتے ہی سب ٹھیک ہونے لگا، معروف صحافی انصار عباسی نے دوسری زندگی پانے کے بعد سب بتا دیا

image
 
کرونا وائرس کی دوسری لہر نے عام انسانوں کے ساتھ کئی معروف شخصیات کو بھی نشانہ بنایا جس میں ہر مکتبہ فکر کے لوگ شامل ہیں- حال ہی میں معروف اسکالر مولانا طارق جمیل نے بھی اس بیماری سے روبصحت ہونے کے بعد اپنے ویڈیو پیغام میں لوگوں کو اس بیماری کی ہلاکت خیزی کے بارے میں آگاہ کیا اسی طرح دی نیوز کے رپورٹر معروف صحافی انصار عباسی پر کرونا کا وار عام لوگوں سے بہت مختلف انداز میں ہوا-
 
ان کا یہ کہنا تھا کہ انہوں نے اور ان کے خاندان والوں نے جب کرونا کا ٹیسٹ کروایا تو ان کو کسی قسم کی علامات نہ تھیں مگر ان کا ٹیسٹ مثبت آیا تو انہوں نے خود کو قرنطینہ کر لیا- یکم دسمبر کی صبح جب وہ سو کر اٹھے تو ان کی طبیعت ٹھیک تھی اور انہوں نے کچھ دیر دھوپ میں بیٹھ کر اخبار پڑھنے کا فیصلہ کیا مگر اچانک ان پر بے ہوشی طاری ہوگئی-
 
انصار عباسی کا یہ کہنا تھا کہ انہوں نے سب سے یہی سنا تھا کہ کرونا وائرس انسان کے اعضائے تنفس پر حملہ کرتا ہے مگر ان کے ساتھ معاملہ مختلف ہوا اور ان کے دماغ پر اس وائرس نے حملہ کر کے ان کی یاداشت کو بری طرح متاثر کیا اور وہ بے ہوش ہو گئے- انصار عباسی کا یہ کہنا تھا کہ ان کی عمر 51 سال ہے اور وہ بنیادی طور پر ایک صحت مند انسان تھے اور کرونا وائرس کی پہلی لہر کے بعد انہوں نے اپنی قوت مدافعت کو بڑھانے کے لیے اپنا بہت خیال رکھا- مگر کرونا وائرس کے اس حملے سے انہیں ہسپتال پہنچا دیا جہاں پر وہ اپنی آنکھیں تک کھولنے سے قاصر تھے-
 
 
یہاں تک کہ سخت پیاس کے عالم میں وہ اس قابل بھی نہ تھے کہ وہ پانی مانگ سکیں اس دوران ان کے سارے ٹیسٹ یعنی بلڈ پریشر ، شوگر سی ٹی اسکین سب نارمل تھے مگر وہ بے ہوش تھے- اسی دوران ان کے ساتھ ایک معجزہ ہوا ان کی چھوٹی بیٹی نے ان کو کہا کہ بابا آپ درود شریف کیوں نہیں پڑھتے بیٹی کی آواز سنتے ہی انصار عباسی کا کہنا تھا کہ انہوں نے درود شریف پڑھنا شروع کر دیا جس کے ساتھ ہی ان کی یاداشت واپس آنا شروع ہو گئی اور ان کی زبان سے وہ تمام اذکار جاری ہو گئے جو وہ عام طور پر صبح شام پڑھتے تھے اور اس کے ساتھ ساتھ ان کی بے ہوشی بھی ختم ہونا شروع ہو گئی اور ان کو لگا کہ ان کو دوسری زںدگی مل گئی ہو-
 
اس کے بعد ان کو چوبیس گھنٹوں ہسپتال رکھنے کے بعد ڈاکٹروں نے گھر جانے کی اجازت دے دی جس کے بعد انہوں نے گھر آکر معمول کی دوائيں شروع کر دیں اس دوران کچھ کمزوری اور سردی محسوس کی تین چار دن بعد جب معمول کے چیک اپ کے لیے وہ ڈاکٹر کے پاس گئے تو ان کی حالت بگڑ گئی- اس بار کرونا نے ان کے اعضائے تنفس کو نشانہ بنایا اور ان کی حالت اتنی خراب ہو گئی کہ ان کے لیے ایک قدم بٹھانا بھی دشوار ہو گیا اور ڈاکٹروں نے ان کو ایک بار پھر ہسپتال داخل کر لیا-
 
image
 
ہسپتال میں دس دن تک داخل رہنے کے دوران انہوں نے مشکل ترین وقت گزارا ان کے پھیپھڑے بری طرح متاثر ہوئے تھے اور وہ مستقل طور پر آکسیجن کے سہارے سانس لینے پر مجبور ہو گئے- ہسپتال سے واپس آنے کے بعد جب کہ ان کا ٹیسٹ نیگٹو ہو چکا ہے اس کے باوجود اب تک وہ سانس لینے کے لیے آکسیجن سلنڈر کے محتاج ہیں- اس موقع پر انہوں نے اپنے ویڈیو پیغام کے ذریعے سب سے یہ درخواست کی کہ اس بیماری کو معمولی نہ سمجھیں یہ نہ صرف جان لیوا ہے بلکہ جو اس سے بچ جاتے ہیں وہ بھی ساری عمر اس کے موذی اثرات کے سبب اس سے پریشان رہتے ہیں اس سے بچنے کی واحد صورت احتیاط ہے-

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

YOU MAY ALSO LIKE: