آئیے! سب سے بڑی معاشی لعنت کا جائزہ لیتے ہیں

کسی نے بالکل صحیح کہا ہے کہ "مصیبت کبھی تنہا نہیں آتی". جب بیروزگاری سے واسطہ پڑتا ہے تو یہ اپنے ساتھ ساتھ مفلسی، بھوک و افلاس اور بیماریاں ساتھ لاتی ہے تو دوسری طرف بےروزگار افراد اپنی اور اپنے اہل وعیال کی "پیٹ کی آگ" کو بجھانے کے لئے عصمت فروشی، ڈاکہ زنی،چوری چکاری، بےایمانی،عدم مساوات، جھوٹ، ناانصافی اور دھوکہ دہی جیسی اخلاقی اور سماجی برائیوں میں ملوث ہو جاتے ہیں۔

بے روزگاری ایک معاشی لعنت ہے۔جس میں ملازمت کے خواہشمند افراد تعلیم یافتہ اور ہنر مند ہونے کے بعد بھی نوکری کے حصول کیلئے دھکے کھا رہے ہوتے ہیں۔ بے روزگاری کا مسئلہ عالمی طور پر ایک حقیقت ہے۔ ترقی یافتہ ممالک کے ساتھ ساتھ ترقی پذیر ممالک بھی اسکی لپیٹ میں ہے۔ بین الاقوامی لیبر آفس (آئی ایل او) کی ایک نئی رپورٹ کے مطابق میں بیروزگار افراد کی تعداد پچھلے دس سالوں میں 188 ملین سے 2020 میں 190.3 ملین تک تجاوز کر چکی ہے۔ ایک مشاہدی سروے کے مطابق اگر بے روزگاری ایسی ہی بڑھتی رہی تو 2023 تک بےروزگار افراد کی تعداد 199.8 ملین تک جانے کا خدشہ ہے۔

اس مسلسل مسئلہ کو حل کرنے کیلئے ہمیں اس کے پیچھے وجوہات کو جائزہ لینا چاہئے اگرچہ اس مسلسل مسئلہ کے بہت سے سبب ہیں جن میں سے کچھ یہ ہیں۔

پہلی وجہ یہ ہے کہ، بڑھتی ہوئی آبادی اور بےروزگاری کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ ہے۔ بڑھتی ہوئی آبادی نے جہاں معیار زندگی کا خاتمہ، ماحولیاتی آلودگی جرائم غربت کی شرح میں اضافہ،پانی اور کھانے کے تنازعات میں اضافہ، قدرتی وسائل کی قلت جیسے مسائل کو جنم دیا ہے وہی بے روزگاری جیسا مسئلہ بھی اپنے پنجے گاڑ رہا ہے۔ لیبر مارکیٹ میں آنے والے افراد کی بڑی تعداد کو روزگار فراہم کرنا ممکن نہیں ہوسکتا۔2015 سے 2020 تک عالمی آبادی پچھلے پانچ سالوں میں 7.3 بلین سے7.8 بلین تک بڑھ گئی ہے۔ درحقیقت ہر ممالک میں ملازمت کے متلاشی افراد کی تعداد اتنی تیزی سے بڑھ رہی ہے کہ ترقیاتی منصوبوں کی طرف تمام تر کوششوں کے باوجود سبکو روزگار فراہم کرنا ممکن نہیں رہا۔چین، ہندوستان اور پاکستان جیسے ترقی یافتہ ممالک میں یہ بات مکمل واضح ہے۔

دوسری اہم وجہ، عالمی سطح پر تیز رفتاری کے ساتھ تکنیکی تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں جو روزگار کے بڑھتے ہوئے مسئلہ میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ ہبت سے ایسے کام جو انسانی ہاتھ کرتے تھے آج کل وہ مشینوں اور ٹیکنالوجی کے ذریعے کئے جا رہے ہیں۔ جدید ٹیکنالوجی نے جہاں صنعتوں اور کمپنیوں میں پیداوار کو تیز اور زیادہ درست بنا دیا ہے وہی کم ہنرمند افراد کی جگہ لے لی ہے۔ اس کے نتیجے میں بہت سے لوگ بےروزگار ہو گئے ہیں۔ مثلاً پرسنل کمپیوٹرز نے جب ٹائپ رائٹرز کی جگہ لی تو ٹائپ رائٹر بے روزگار ہو گئے۔ بین الاقوامی لیبر آفس کے مطابق تکنیکی ترقی سے اس پر خاص اثر پڑا ہے۔ اگر براہ راست یا بالواسطہ دونوں اثرات کا محاسبہ کیا جائے تو شبہ ہے کہ تکنیکی تبدیلیوں سے روزگار کی مکمل تباہی ہو تی ریے گی۔

تیسری بڑی وجہ یہ ہے کہ بڑھتی ہوئی مہنگائی بےروزگاری کی وجہ ہے۔بڑھتی ہوئی مہنگائی میں صنعتی عہدے داران کیلئے یہ دشوارگزار مرحلہ ہوتا ہے کہ ملازمین کو معمول کی زیادہ سے زیادہ تنخواہ یا اجرت دے سکے اور زیادہ سے زیادہ ملازمین کو بھرتی کر سکیں۔ ملازمین اشیاء خوردونوش دوائیوں اور دیگر ضروریات زندگی کی چیزوں کی قیمتوں میں اضافے سے کم اجرت والی نوکری نہیں کرتے، ان کے گھریلو اخراجات با مشکل پورے ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر، اگر بجلی اور پیٹرول کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے تو یقیناً یہ ان صنعتوں اور کمپنیوں کی معیشت کو متاثر کرے گا جو اس توانائی کے ذرائع پر منحصر ہے۔ بعض اوقات کمپنیوں کو معاشی بحران اور صنعتی زوال کی وجہ سے بجٹ میں کمی کرنے کیلئے کچھ ملازمین کو فارغ کردیتے ہیں اور کچھ عہدے منسوخ کر دیے جاتے ہیں جسکی وجہ سے بیروزگاری کی شرح میں کافی حد تک اضافہ دیکھنے میں آتا ہے۔

چوتھی بڑی وجہ ، ہم ہر جگہ کام کرنے والی جگہوں پر سفارش کے بڑھتے رجحان کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ اس حقیقت سے قطع نظر آپ چاہے نجی شعبے میں یا سرکاری شعبہ میں نوکری تلاش کر رہے ہو، سفارشات کی بھرمار وہاں موجود رہتی ہے۔اس قسم کی معاشرتی برائیاں بھی بےروزگاری کی ایک بڑی وجہ ہے۔ محنتی،تعلیم یافتہ اور ہنر مند لوگوں کو اچھی نوکری نہیں ملتی کیونکہ انکے اوپر کسی کا ہاتھ نہیں ہوتا۔ پاکستان سمیت دنیا بھر میں اس طرح کی ترجیحی سلوک عام ہے۔ نوکریوں کو میرٹ اور قابلیت کی بنیاد پر نہیں بلکہ اعلیٰ عہدیداران کی سفارشات اور رشوت کی بنیاد پر دی جاتی ہے۔

بے روزگاری کی پانچویں بڑی وجہ ملازمت کے لئے مہارت اور تعلیم کی کمی ہے۔ یہ تب ہوتا ہے جب کسی شخص کی قابلیت اس کی ملازمت کی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کیلئے نا کافی ہوتی ہے۔اسے ہم ساختی بے روزگاری کہتے ہیں۔ ایسے افراد میں کمپیوٹر میں مہارت، مینیجمینٹ اور مواصلاتی طریقوں کا فقدان ہوتا ہے۔ بہت سے لوگ مختلف کمپنیوں میں کام کرتے ہیں لیکن وقت کے ساتھ ساتھ ادارے کے اندر یا ملکی معیشت کی سطح پر ساختی تبدیلیاں آگئی ،جو ہنر اور صلاحیتیں کام کرنے کیلئے لوگوں کے پاس ہیں ان کی مانگ اب نہیں رہی یا تو کم ہو گئی ہے۔ مثال کے طور پر، کسی صنعت میں مشینیں کام کرتی ہیں لیکن یہاں اب روبوٹ کام کرنے لگے، بیک وقت کارکنوں کو اعلیٰ سطح کی مہارت کی ضرورت ہوتی ہے۔ ان روبوٹ کو ڈیل کرنے کا طریقہ آپ نے سیکھ لیا تو ٹھیک ہے ورنہ آپ کو نوکری سے فارغ کردیا جاتا ہے۔ اس صورتحال کی ایک بڑی ذمہ داری موجودہ تعلیمی پالیسی پر بھی ہے ۔ ہماری بیشتر تعلیم محض نصابی ہو کر رہ گیا ہے جو کہ عملی زندگی اور مختلف پیشوں میں کوئی فائدہ یا مد د نہیں دیتی ۔ دوسری کی یہ ہے کہ تعلیم میں ملکی ضرورت کا خیال نہیں رکھا جاتا جس وجہ سے بہت کی ڈگریاں نوکری کے حصول میں مددگار نہیں ہوتی ۔ آج کل ملک میں انجینئروں کی بے روزگاری کا مسئلہ بھی کافی اہم ہے ۔ ہمارے تعلیمی نظام میں صرف پرچے کلیئر کرنے کی حد تک کتابیں یاد کروائی جاتی ہیں ۔ ہمیں صرف رٹو طوطے کی طرح معاشیات کی تعریفیں رٹوائی جاتی ہیں نہ کہ معاشیاتی مسائل کے حل کے طریقے بتلائے جاتے ہیں۔ ہمیں صرف تعلیمی اداروں میں کامیاب لوگوں کے اقوال یاد کروائے جاتے ہیں یہ نہیں بتایا جاتا کہ آخر انہوں نے ایسی کونسی حکمت عملی اپنائی تھی جسکی وجہ سے وہ تاریخ کے سرخرو شخص بنے۔ طالب علموں کو انفرادی اور اجتماعی مسائل کے حل کے طریقے بتلائے نہیں جاتے۔ مذید یہ کہ، کالج اور یونیورسٹی سے نکل کر مارکیٹ میں سو لوگوں کے سامنے باہمت اور با وقار طریقے سے اپنی بات کیسی کرنی چاہیے آسکا طریقہ بھی آج کے ڈگری یافتہ طالب علم کو نہیں معلوم ہوتا۔ ان سب کا قصور وار ہمارا بوسیدہ تعلیمی نظام ہے۔

بے روزگاری کے تین بڑے اثرات ہیں۔ سب سے پہلےبے روزگاری انسان کو نفسیاتی طور پر بھی متاثر کرتی ہے۔ بے شمار مطالعات میں بے روزگاری اور خود اعتمادی اور عدم اعتماد کے درمیان تعلقات کا انکشاف ہوا ہے جس کا نتیجہ افسردگی، اضطراب اور تناؤ کی بڑھتی ہوئی سطح ہے جو نفسیاتی امراض ، ذاتی نا اہلی اور بے کارگی کا باعث بنتی ہے۔ ڈاکٹر ایم برینر کے ذریعہ 1979 میں "نفسیات پر معاشرتی ماحولیات کے اثر و رسوخ" کے بارے میں ایک تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ اوسطا بے روزگار افراد کی تعداد میں ہر 10٪ اضافہ کل اموات میں 1.2 فیصد اضافے کا سبب بنتا ہے ، ایک قلبی مرض میں 1.7 فیصد اضافہ ، 1۔3 فیصد زیادہ سروسس کیسز ، 1.7 فیصد زیادہ خودکشی ، 4.0فیصد زیادہ گرفتاریوں اور 0.8 فیصد زیادہ حملوں کی اطلاع پولیس کو دی گئی۔

دوسرا بڑا اثر فرد کی معاشی زندگی پر پڑتا ہے۔ہمیں یہ معلوم ہے کہ ہم بغیر پیسے کچھ نہیں خرید سکتے۔کھانا ، لباس اور رہائش کے اخراجات ہم مستقل آمدنی سے پورے کر سکتے ہیں۔ بےروزگاری کی وجہ سے ، بے روزگار افراد مالی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے قابل نہیں ہوتے۔ بےروزگاری اور اوپر سے مہنگائی کا بے قابو جن، جس نے نا صرف مزدور اور نچلے طبقہ سے دو وقت کی روٹی تک چھین لی ہے بلکہ انہیں اپنے بچوں سمیت خود کشی کرنے پر بھی مجبور کردیا۔ مثال کے طور پر ، جو لوگ کرایہ ادا کرنے میں ناکام رہتے ہیں وہ بے گھر ہوجاتےہیں۔ جسکی وجہ سے بہت سے لوگ جرائم پیشہ عناصر بن جاتے ہیں۔ بے روزگاری مختلف سرگرمیوں میں شامل ہونے سے بھی روکتی ہے اس کے نتیجے میں قومی معیشت متاثر ہوتی ہے ۔

اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتے ہیں کہ،
"جو قومیں اپنی حالت خود بدلنا نہیں چاہتی تب تک اللہ رب العزت بھی ان کی حالت نہیں بدلتا"۔

جہاں ہماری نظریں صرف موجودہ مسائل کو اٹھاتی ہے وہیں انکا حل تلاش کرنے کے لیے بھی سوچنا چاہیے۔

بےروزگاری جیسی لعنت سے نجات کے لیے کچھ ترجیحات پیش کرنا چاہوں گی۔

حکومت اور نجی شعبے دونوں اس مسلسل مسئلہ کو حل کرنے کے لئے پہل کریں۔ مناسب اقتصادی منصوبہ بندی، ملک میں مؤثر سرکاری پالیسیوں کے قانون اور آرڈر کی صورتحال بہتر کریں۔

بچے دو ہی اچھے والی پولیسی رائج کی جائے ۔

زراعت کے شعبے میں تازہ ترین ٹیکنالوجی استعمال کرنا چاہئے؛ پیشگی مشینری کا استعمال پاکستان میں زراعت کی پیداوار کو بڑھانے میں مدد کرسکتا ہے. تقریبا 44٪ لوگ زراعت سے ملازمت حاصل کرتے ہیں، جو ملک کے مجموعی جی ڈی پی کے 20.9 فیصد ہے. لہذا اس شعبے کو بڑھانے کی سنجیدگی سے سوچا جائے.

پیشہ وارانہ اور تکنیکی تربیت یعنی سلائی کڑھائی، ویلڈنگ، آٹو مکینک اور بجلی کے کاموں کی تربیت کی طرف رجحان کو فروغ دیا جائے تاکہ لوگ خود کام کر سکے۔

حکومت کو چاہئے کہ وہ جوانوں کیلئے ایسے منصوبے شروع کریں نوجوانوں کو چھوٹے موٹے قرضے دیئے جائے تاکہ دس پندرہ لوگوں سے کوئی کاروبار یا فیکٹری شروع کر سکیں ایسے کاروبار بڑھے گا اور مذید لوگوں کو ملازمت کا موقع ملے گا۔

مشینوں سے کم اور انسانی ہاتھ سے زیادہ سے زیادہ کام لیا جائے تاکہ بےروزگاری کی بڑھتی ہوئی شرح پر قابو پایا جا سکے ۔

تعمیراتی صنعتوں کو بڑھاوا دینی کی جامعہ حکمت عملی اپنائی جائے یاد رکھیں کہ ملک میں جب جب تعمیراتی صنعتیں ترقی کریں گی اس سے تمام صنعتیں اور کارخانے بڑھے گے، مثال کے طور پر،جب ملک میں زیادہ گھر اور پلازہ بنیں گے تو ان تعمیراتی کاموں میں استعمال ہونے والی اشیاء مثلاً سیمنٹ، سریا ، پینٹ، فرنیچر،قالین، پردے ،شیشےاور الیکٹرانک سازوسامان کی پیداوار میں اضافہ ہو گا۔جس کی بدولت ملکی معیشت ترقی کی راہ پر چل پڑے گا۔

سو سالہ قدیم تعلیمی نظام اور نصاب کو تبدیل کیا جائے اساتذہ کی تربیت اور نصاب میں جدیدیت لائی جائے۔ بچوں کو نصابی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ غیر نصابی سرگرمیوں اور عملی تعلیمات سے ہم کنار کیا جائے۔

 

Zarmeen Yousuf Khan
About the Author: Zarmeen Yousuf Khan Read More Articles by Zarmeen Yousuf Khan: 11 Articles with 13104 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.