محترم قارئین کرام ! یہ ساری کائنات اللہ پاک کی قدرت و
قوت کا شاہکار ہے ، اس عالمِ رنگ و بو میں اللہ تعالی نے ایسے ایسے عجائبات
رکھے ہیں کہ جب عقل انسانی کے سامنے ان میں بعض راز آشکار ہوتے ہیں تو عقل
دنگ رہ جاتی ہے۔
عام قانونِ قدرت یہی ہے کہ انسان کے جسم سے جب روح نکل جاتی ہے تو اس کا
جسم ساکت وجامد رہ جاتا ہے،لیکن اللہ پاک بعض اوقات اپنے اس عام قانون کو
تبدیل فرماکر لوگوں پر اپنی صفتِ قدرت کا اظہار فرماتا ہے تاکہ لوگ درجۂ
یقین سے عین القین کی طرف ترقی کریں ۔اور دیکھیں کہ اللہ والوں کی اللہ پاک
کی بارگاہ میں کیا قدر ومنزلت ہے؟اس حوالے سے یہ واقعہ بہت حیرت انگیز ہے ،
ملاحظہ کیجیے !
حضرت عبدالملک بن عمیر بیان کرتے ہیں کہ مجھے حضرت سیدناربعی بن خراش رحمۃ
اللہ تعالیٰ علیہ نے بتایا:ہم تین بھائی تھے اور ہم میں سب سے زیادہ عبادت
گزار اور سب سے زیادہ روزے رکھنے والا ہمارا منجھلا بھائی تھا(اُن کا نام
مسعود بن حراش تھا)،ایک مرتبہ میں اپنے دونوں بھائیوں کو چھوڑ کر ایک جنگل
چلا گیا، جب میں واپس آیاتو مجھے بتایا گیاکہ میرا وہ عبادت گزاربھائی
قریب المرگ ہے۔جب میں اس کے پاس پہنچا تو معلوم ہوا کہ ابھی کچھ دیر پہلے
اس کا انتقال ہو چکا ہے۔ لوگوں نے اُسے ایک کپڑے میں لپیٹا ہوا تھا۔ میں اس
کے لئے کفن لینے چلاگیا، جب کفن لے کر آیا تو یکایک میرے اس مردہ بھائی کے
چہرے سے کپڑا ہٹ گیا۔ اس نے مجھے مسکراتے ہوئے سلام کیا۔ میں نے بڑی
حیرانگی کے عالم میں جواب دیا اور اس سے پوچھا : اے میرے بھائی !کیا تم
مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہوگئے ہو ؟اس نے کہا:جی ہاں!الحمدللہ میں دوبارہ
زندہ ہوچکا ہوں،اور تم سے جدا ہونے کے بعد میں اپنے ربّ کی بارگاہ میں حاضر
ہوا ،میرا ربّ مجھ سے بہت خوش ہے اور میرار بّ مجھ سے ناراض نہیں۔ اس نے
مجھے سبز رنگ کے ریشمی حُلِّے عطا فرمائے اور میں نے اپنا معاملہ تمہارے
معاملے سے بہت آسان پایا لہٰذ اتم نیک اعمال کی طر ف خوب رغبت کرو او رسستی
بالکل نہ کرو! اور (موت) سے بے خبرنہ رہو! دنیا سے رخصت ہونے کے بعدالحمد
للہ میری ملاقات رسول اللہ ﷺ سے ہوئی، آپ ﷺنے فرمایا : جب تک تم نہیں آؤ
گے میں تمہاری (قبر ) سے نہیں جاؤں گا۔ لہٰذا تم میری تجہیز وتکفین میں
جلدی کرو اور بالکل دیر نہ کرو قبر میں میری ملاقات حضور ﷺ سے ہوگی ۔ پھر
اس کی آنکھیں بند ہوگئیں ، اور اس کی روح اس طر ح آسانی سے اس کے بد ن سے
نکلی جیسے کوئی کنکر جب پانی میں ڈالا جاتا ہے تو آسانی سے تہہ میں اتر
جاتا ہے۔ جب یہ واقعہ اُم المؤمنین حضرت سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ
تعالیٰ عنہا کے سامنے بیان کیا گیا تو انہوں نے اس کی تصدیق فرمائی اور
فرمایا: ہم یہ حدیث بیان کرتے تھے کہ اس اُمت میں ایک شخص ایسا ہوگا جو
مرنے کے بعد بات کرےگا ۔ حضرت سیدنا ربعی بن حراش رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
فرماتے ہیں:میرا وہ بھائی سخت سردی کی راتو ں میں بہت زیادہ قیام کرتا، اور
سخت گرمیوں کے دنوں میں ہم سے زیادہ رو زے رکھتا تھا ۔ (حلیۃ الاولیا
ء،ج:۴،ص:۳۶۷)
اس واقعہ میں تین افراد کا ذکر ہوا ہے۔ہم بالترتیب ان کا مختصر تعارف پیش
کرکے اختتام کی طرف آتے ہیں :(1)حضرت عبدالملک بن عمیر:ان کی کنیت ابو عمر
ہے، آپ قرشی کوفی تھے،یہ نسبت قرش کی طرف ہے نہ کہ قریش کی طرف۔ حضرت
عثمان کی شہادت سے تین سال قبل آپ کی ولادت ہوئی ، کوفہ کے قاضی رہے کوفہ
کے مشہور تابعی تھے۔بڑے عالم ثقہ تھے ایک سوتین سال عمر ہوئی اور ۱۳۶ھ۔ میں
ذی الحجہ کے مہینے میں وفات ہوئی۔(الطبقات الکبری ، طبقات الكوفيين، الطبقة
الثالثة،۲۴۱۳- عبد الملك بن عمير،ج:۶،ص:۳۰۷)
(2)حضرت سیدناربعی بن حراش ہیں ، ان کا مکمل نام ربعی بن حراش بن جحش بن
عمرو الغطفانی تھا،ان کے القابات یہ بیان کیے گئے ہیں الامام، القدوة،
الولی، الحافظ، الحجۃ،۔ ان کی کنیت ابو مريم تھی ۔انہوں نے درج ذیل صحابہ
سے سماع کیا ہے :حضرت عمر بن الخطاب، حضرت علی بن ابی طالب، حضرت ابوموسى
اشعری، حضرت ابو مسعود بدری، حضرت حذيفہ بن اليمان، ابو بكرة الثقفی
وغیرہ۔نیز ان حضرات نے آپ سے سماع کیا ہے :ابو مالك الاشجعی،منصور بن
المعتمروغیرہ ۔
حضرت حارث غنوی بیان کرتے ہیں :حضرت ربعی بن حراش نے قسم کھائی تھی کہ جب
تک مجھے آخرت میں اپنا ٹھکانہ معلوم نہ ہو جائے میں نہیں ہنسوں گا ۔حارث
غنوی کہتے ہیں : آپ کو غسل دینے والے نے بتایا کہ ہم جب تک حضرت کو غسل
دیتے رہے اس وقت تک آپ مسلسل مسکرا رہے تھے ۔آپ کا انتقال ۸۱ھ۔ یا
۸۲ھ۔میں میں ہوا ،سالِ وفات کے بارے میں دیگر اقوال بھی ہیں ۔(سیر اعلام
النبلا، الطبقة الثانیۃ من التابعين،۵۰۶ - ربعي بن حراش بن جحش بن عمرو
الغطفاني ،ج: ،:ص۳۱۴۔۳۱۶)
(3)حضرت عاشہ صدیقہ کی ذات محتاجِ تعارف نہیں لیکن حصولِ برکت کے لیے ہم
صدیقہ کے مختصر حالات یہاں ذکر کرتے ہیں :اُم المؤمنین حضرت سیدتنا عائشہ
صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا:آپ ابوبکر صدیق کی دختر تھیں آپ کی والدہ کا
نام ام رومان بنت عامر ابن عویمر تھا، حضورﷺ نے اعلانِ نبوت کے دسویں سال
مکہ معظمہ میں آپ سے نکاح کیا یعنی ہجرت سے تین سال پہلے۔۲ دو ہجری ماہِ
شوّال میں مدینۂ منورہ میں رخصتی ہوئی اس وقت آپ کی عمر شریف صرف نو برس
تھی،نو سال حضور انورﷺ کے ساتھ رہیں حضور انورﷺ کی وفات کے وقت آپ کی عمر
شریف اٹھارہ سال تھی،آپ کےعلاوہ کسی کنواری خاتون سے حضورﷺ نے نکاح نہیں
کیا،آپ بے مثال عالمہ، فقیہہ ،فصیحہ، فاضلہ تھیں حضور ﷺسے بہت سی احادیث
روایت فرمائیں تاریخ عرب پر بڑی خبر تھی،اشعار عرب پر بڑی نظر تھی مدینہ
منورہ میں ۱۷ سترہ رمضان منگل کی رات وفات ہوئی،وصیت فرمائی تھی کہ مجھے
رات میں دفن کیا جائے آپ جنت البقیع میں مدفون ہیں، حضرت ابوہریرہ نے
نمازجنازہ پڑھائی، اس وقت مروان مدینہ کا حاکم تھا امیر معاویہ کا زمانۂ
خلافت تھا۔خلاصۂ تہذیب میں ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ سے دو ہزار دوسو دس
احادیث مروی ہیں جن میں ۱۷۴ متفق علیہ ہیں اور ۵۴ احادیث میں امام بخاری
اور ۶۸ احادیث میں امام مسلم منفرد ہیں ۔(وفیات الأعیان ،حرف العین
،۳۱۸۔ام المومنین عائشۃ ،ج:۲،ص:۸۔۱۰بزیادۃ )
پیارے دوستوں!اللہ پاک کی ذات نقطہ نواز ہے ۔حدیث پاک میں ہے کہ ایک بدکار
عورت ایک پیاسے کتے کو پانی پلانے کی وجہ سے بخش دی جاتی ہے۔ اللہ پاک نے
حضرت مسعود کو یہ مقام و مرتبہ کس نیکی کی بنا ءپر عطا فرمایا ،یہ بات تو
اللہ پاک ہی جانتا ہے۔ البتہ حضرت سیدنا ربعی بن حراش رحمۃ اللہ تعالیٰ
علیہ نے اپنا وجدان بیان کرتے ہوئےفرمایا : "میرا وہ بھائی سخت سردی کی
راتو ں میں بہت زیادہ قیام کرتا، اور سخت گرمیوں کے دنوں میں ہم سے زیادہ
رو زے رکھتا تھا ۔"اس جملے میں ہمارے لیے بہت کچھ سیکھنے سمجھنے کا سامان
ہے ، ہم اللہ پاک سے دعاگو ہیں کہ ان تمام پاک طینت ہستیوں کے طفیل دنیا
میں ہمیں اپنی عبادت کی خوب توفیق عطا کرے ! اورہمارا بھی خاتمہ بالخیر
فرمائے! آمین
|