دسمبر کی ٹھٹھرتی صبح تھی سڑک پر ٹریفک کا ہجوم تھا ایک
بچہ سڑک پار کرتے ہوئے زخمی ہوگیا مجھے بچے کی معصومیت دیکھ کر اپنے بچوں
کا خیال آیا اور فورا اس بچے کی مدد کوآگے بڑھااس کے گھر کا پتہ پوچھا تو
اس نے ایک ہوٹل کا پتہ بتایا مزید جاننے پر معلوم ہوا کہ بچہ سو روپیہ
دیہاڑ پر ایک ہوٹل پر کام کرتا ہے مجھے سن کر حیرت ہوئی میں نے بچے سے
پوچھا کہ کیا وہ سکول نہیں جاتا بچے کے چہرے پر اب معصومیت کی جگہ سنجیدگی
نے لے لی تھی میں نے بچے سے کہا کہ وہ گھر جا کر آرام کرے کل کام پر آ جائے
گا مگر بچے نے جواب دیا کہ وہ گھر کا واحد کفیل ہے اور ایک دن کام پر نہ
جانے کی وجہ سے اس کی ایک دن کی تنخواہ کاٹ لی جائے گی
بچےجو کسی ملک کا اثاثہ اور سرمایہ ہوتے ہیں جب وہ حالات سے مجبور ہوکر
ہنسنے کھیلنے کی عمر میں کام کرنے جاتے ہیں تو یہ معاشرے کیلئے ایک خطرناک
مقام ہوتا ہے
سکول جانے کی کی عمر میں میں کام کرتے ہوئے اس بچے کو دیکھ کر احساس ہوا کہ
ہمارے ہاں بے شمار ایسے بچے ہیں جو بعض اوقات چائے خانوں ہوٹلوں بس اڈوں
اور گھروں میں کم تنخواہ پر کام کرتے ہیں لوگ کم تنخواہ پر ان بچوں کو اپنے
گھروں میں ملازمت دیتے ہیں ہیں ہیں بچوں سے سے ہر طرح کا کام لیتے ہیں ہیں
اور انہیں اپنی درندگی اور ہوس کا نشانہ بھی بنا تےہیں
پاکستان میں مزدور بچوں کا قانون بنے 14 سال گزر گئے ہیں مگر ابھی تک اس
قانون پر عمل درآمد نہیں ہو سکا
مزدور بچوں پر آخری سروے 1996 میں ہوا تھا اس کے مطابق ملک میں 36 لاکھ
مزدور بچے ہیں مگر یہ سروے کے اعدادوشمار ہیں اصل میں ان کی تعداد کہیں
زیادہ ہے ہے
چائلڈ لیبر پر کام کرنے والی تنظیموں اور حکومت کے دعوے اپنی جگہ مگر حقیقت
یہی ہےکہ ہمارے سامنے ایسے بچے موجود ہیں جو ہمیں مختلف جگہوں پر کام کرتے
ہوئے نظر أتے ہیں
ملک میں بھڑتے ہوئے تعلیمی اخراجات اور دن بدن بڑھتی ہوئی مہنگائی کے پیش
نظر چائلڈ لیبر میں کئی گنا اضافہ ہو چکا ہے ہے لہذا چائلڈ لیبر کے خاتمے
کے لیے صرف حکومتی اقدامات کو ہی کافی نہ سمجھا جائے بلکہ معاشرتی سطح پر
بھی اس کی اس کے لئے کام کرنے کی اشد ضرورت ہے
|