پاکستان اور چین کی دوستی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ
آزمائش کی ہر گھڑی پر پورا اتری ہے اور متعدد مواقعوں پر اس کا عملی اظہار
بھی کیا گیا ہے۔ کووڈ۔19کی سنگین صورتحال کے تناظر میں بھی دونوں ملکوں نے
نہ صرف سیاسی و سفارتی میدان میں ایک دوسرے کی بھرپور حمایت کی ہے بلکہ
انسداد وبا کے لیے درکار لازمی سامان کی فراہمی ، طبی ماہرین کے درمیان
تبادلوں اور دیگر تمام ذرائع سے ایک دوسرے کی مدد کی گئی ہے۔وفاقی وزیر
برائے سائنس وٹیکنالوجی فواد چوہدری نے ابھی حال میں اعلان کیا کہ چینی
کمپنی سائنو فارم سے کووڈ۔19ویکسین کی بارہ لاکھ خوراکیں خریدی جائیں گی جس
سے انسداد وبا کے امور کو آگے بڑھانے میں مدد ملے گی۔
دونوں ممالک کی جانب سےوبائی صورتحال کے باوجود چین۔پاک اقتصادی راہداری
منصوبہ جات تیز رفتاری سے آگے بڑھائے جا رہے ہیں جو یقینی طور پر پاکستان
کے معاشی استحکام کے لیے نہایت اہمیت کے حامل ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان نے
حال ہی میں اپنے ایک بیان میں کہا کہ پاکستان انسداد غربت ،صنعتوں کی
ترقی،زرعی پیداوار میں اضافے کے لئے چین کے تجربات سے رہنمائی لے گا۔انہوں
نے کہا کہ پاکستان میں صنعت کاری کے عمل میں چین بہترین شراکت دار ہے۔ایسا
پہلی مرتبہ نہیں ہے کہ وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے چین کے ترقی کے
تجربے سے سیکھنے کی خواہش ظاہر کی گئی ہو ،انہوں نے متعدد مواقعوں پر چین
کی تیز رفتار ترقی کو پاکستان کے لیے ایک ماڈل قرار دیا ہے۔چین نے جس انداز
سے ایک قلیل مدت میں 80کروڑ سے زائد لوگوں کو غربت سے نجات دلائی ہے بلاشبہ
پاکستان سمیت دیگر تمام ترقی پزیر ممالک کے لیے ایک مثال ہے۔پاکستان کو
درپیش بڑے مسائل میں غربت اور بے روزگاری سر فہرست ہیں ،چین کو بھی ماضی
میں انہی مسائل کا سامنا رہا ہے مگر دوراندیش قیادت ،چینی دانش اور مضبوط
پالیسی سازی کی بدولت چین نے ان مسائل سے موئثر طور پر نمٹتے ہوئے نہ صرف
روزگار کے نئے مواقع پیدا کیے ہیں بلکہ غربت کے مکمل خاتمے سے اس وقت چین
ایک جدید سوشلسٹ خوشحال معاشرے کی تعمیر کے لیے کوشاں ہے۔
اسی طرح چین نے جس غیر معمولی انداز سے حالیہ برسوں میں صنعتی شعبے کو فروغ
دیا ہے اور بیرونی سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کی گئی ہے ، دیگر دنیا میں
اس کی مثال نہیں ملتی ہے۔یہ چین کی مضبوط اقتصادی منصوبہ بندی کا ثمر ہی ہے
کہ ایک ایسے وقت میں جب دنیا کی تمام ترقی یافتہ اور ترقی پزیر معیشتیں
دباو کا شکار ہیں اور دنیا کو شدید اقتصادی بحران کا سامنا ہے، چین مثبت
معاشی نمو کی حامل واحد بڑی معیشت ہے۔یہ امر خوش آئند ہے کہ پاکستان بھی سی
پیک کی بدولت چین کے ترقیاتی ثمرات سے فائدہ اٹھانے کے لیے ٹھوس اقدامات کر
رہا ہے، صنعتکاری کے فروغ کی بات کی جائے تو پاکستان بھر میں خصوصی صنعتی
اقتصادی زونز بنائے جا رہے ہیں جس میں کوشش کی جائے گی کہ ملکی اور غیر
ملکی صنعتکاروں کو پرکشش مراعات دی جائیں۔اس کا فائدہ یہ ہو گا کہ پاکستانی
برآمدات کو فروغ ملے گا اور معاشی مسائل بالخصوص بیرونی قرضوں کے حل میں
مدد مل سکے گی۔اس ضمن میں پاکستان چینی پالیسی سازوں اور صنعتکاروں کے ساتھ
مشاورت سے برآمدات کے فروغ سے متعلق رہنمائی لے سکتا ہے۔
پاکستان کی اعلیٰ قیادت نے چین کے زرعی شعبے کی ترقی سے بھی سیکھنے کی
خواہش ظاہر کی ہے۔حالیہ برسوں میں چین نے زراعت کو جدید خطوط پر استوار
کرتے ہوئے اناج کی مستحکم پیداوار کو یقینی بنایا ہے اور گزشتہ سترہ برسوں
سے چین میں فصلوں کی مسلسل شاندار پیداوار حاصل ہوئی ہے۔ اگرچہ پاکستان بھی
ایک زرعی ملک ہے لیکن یہاں زرعی پیداوار کم ہے۔اس کی ایک بڑی وجہ روایتی
زرعی طریقے اور جدید مشینری اور تحقیق کا نہ ہونا ہے۔زراعت کی اہمیت کے پیش
نظر چین۔پاک اقتصادی راہداری کے دوسرے مرحلے میں دونوں ممالک کے درمیان
زرعی تعاون اور زرعی ٹیکنالوجی کے تبادلے کو کلیدی اہمیت حاصل ہو گی۔اس سے
ایک فائدہ تو یہ ہو گا کہ پاکستان میں خوراک کے تحفظ بالخصوص اناج کی
پیداوار میں مدد ملے گی تو دوسری جانب زرعی شعبےمیں روزگار کے وسیع مواقع
بھی سامنے آئیں گے۔ چین اس لحاظ سے منفرد ہے کہ یہاں کسانوں کو بھی جدید
ٹیکنالوجی کی مدد سے ای۔کامرس سے متعارف کروایا گیا ہے اور دیہی علاقوں کے
کاشت کار اب گھر بیٹھے اپنی زرعی مصنوعات باآسانی آن لائن فروخت کر سکتے
ہیں۔پاکستان میں انٹرنیٹ کی ترقی کی بدولت مستقبل میں پاکستانی کسانوں کو
بھی اس جانب راغب کیا جا سکتا ہے جس سے بے شمار ثمرات حاصل ہو سکتے
ہیں۔پاکستان کے دیہی علاقوں میں نوجوانوں کی اکثریت روزگار کے لیے شہروں کا
رخ کرتی ہے لیکن جب انہیں اپنے مقامی علاقے میں ہی ای –کامرس جیسے موئثر
پلیٹ فارمز میسر آئیں گے تو یقیناً وہ خودروزگاری کو ترجیح دیں گے جس سے
اقتصادی سماجی ترقی میں مدد ملے گی اور بے روزگاری ،غربت جیسے پیچیدہ مسائل
سے احسن طور پر نمٹا جا سکے گا۔چین۔پاک روایتی دوستی کا تقاضا بھی یہی ہے
کہ ایک دوسرے کے تجربات سے سیکھتے ہوئے مشترکہ مستقبل کے حامل معاشرے کی
تعمیر کی جائے اور ایک ساتھ مل کر ترقی و خوشحالی کی جستجو کی جائے۔
|