پنج رکن اسلام دے تے چھیواں فریدا ٹک
جے کر چھیواں نہ ملے تاں پنجے ای جاندے مک
بچے نا صرف معصوم بلکہ ہمارے مستقبل کے معمار ہیں، کچھ عرصہ سے مہنگائی،
بیروزگاری اور مالی مشکلات نے مستقبل کے ان معماروں کی بڑی تعداد کیلئے
مشکلات پیدا کر دی ہیں، کیونکہ غربت، افلاس اور دیگر وجوہات سے تنگ والدین
اپنے بچوں کی وہ تعلیم و تربیت و نشونما نہیں کر پا رہے جو مالی طور پر
مستحکم طبقہ اپنے بچوں کی کر رہا ہے، اس طرح غریب کا بچہ بچپن سے ہی اپنے
والدین کا سہارا بننے کی جدوجہد میں لگ جاتا ہے، آپ نے ایسے لا تعداد بچے
بازاروں میں بوٹ پالش، مشروبات، چپس، پھل، مرونڈا اور کھانے پینے کی دیگر
اشیاء فروخت کرتے دیکھے ہونگے، اسی طرح چھوٹے بڑے کارخانوں، ورکشاپوں،
بھٹوں، دکانوں اور کاروباری اداروں میں بھی آپ کو ایسے لا تعداد کمسن پھول
محنت مزدوری کرتے ملیں گے، جن کی عمر ابھی پڑھنے اور کھیلنے کودنے کی ہو
گی۔
گزشتہ رات کی بات ہے کہ راقم بازار کے چوک میں گاڑی میں بیٹھا کسی کا
انتظار کر رہا تھا کہ ایک 11/12 سال کے لگ بھگ عمر کا ہاتھ میں واٹر کولر
تھامے بچہ ’’آنڈے گرم آنڈے‘‘ کی صدا لگاتا میرے قریب سے گزرنے لگا تو میں
نے اسے روک کر اپنی طرف متوجہ کرتے ہوئے بچے سے نام پوچھا تو اس نے
معصومانہ لہجے میں اپنا نام سیف بتایا تو میں نے دلجوئی کیلئے ایک انڈا
خرید کر سیف سے سوال کیا کہ آپ اتنی سردی میں رات گئے یہ کام کیوں کر رہے
ہیں، تو بچے نے ایک لمبی آہ بھر کر کہا صاحب آپکو کیا پتہ غربت کیا کیا ناچ
نچاتی ہے، پھر ہچکیاں بھرتے لہجے سے سیف کہنے لگا کہ صاحب میرا والد
ڈرائیور تھا جو تین سال قبل ایک حادثہ میں اﷲ کو پیارا ہو گیا، میں (بچہ)
گھر میں تین بہنوں کا اکلوتا بھائی ہوں، چونکہ بہنوں کو کام پہ بھجوانا
میری غیربت کیخلاف تھا اس لئے میں سردیوں میں انڈے اور گرمیوں میں اسی کولر
میں فیکٹری سے کلفیاں لے کربیچتا ہوں، گھر میں ماں کپڑے سی لیتی ہے، کچھ
ماں کما لیتی اور کچھ میں (بچہ)۔ اس طرح گھر کا چولہا بھی گرم ہے اور تین
بہنیں تعلیم بھی حاصل کر رہی ہیں، بہنیں تعلیم حاصل کر کے ڈاکٹر، انجینئر
بنیں گی تو میری زندگی کا مقصد پورا ہو جائے گا، بچہ یہ بات کہہ کر اپنی
منزل کی طرف چلا گیا اور میں سوچ میں پڑ گیا کہ کمبخت غربت نے اس معصوم سے
اس کا بچپن ہی چھین لیا ھے جس پر مجھے معروف ادیب کالم نگار اے ڈی شاہد کا
قول یاد آگیا کہ "غربت ایک ایسی لعنت ھے جو دوستوں عزیزوں رشتہ داروں کے
ساتھ چلنے نہیں دیتی اور دشمنوں سے لڑنے نہیں دیتی "۔ میرے ذہن میں آئے روز
اخبارات میں شائع ہونے والے واقعات جن میں اس طرح کے معصوم بچے جو محنت
مشقت کرتے ہیں کے ساتھ زیادتی اور کئی واقعات میں زیادتی کے بعد قتل کی
منظر کشی سامنے آنے لگی، ابھی میں سوچوں میں گم تھا کہ وہ دوست آ گیا جس کے
انتظار میں میں تھا اور ہم بھی اپنی منزل کی طرف روانہ ہو گئے۔ پاکستان
دنیا میں چائلڈ لیبر کرانے والے ممالک میں سرفہرست بتایا جاتا ہے جہاں غربت
اور افلاس کے مارے ہزاروں نے لاکھوں سیف ملک بھر میں مختلف طرح کی محنت و
مشقت کر کے اپنا اور اپنے کنبے کا پیٹ پال کر سہانے مستقبل کی آس لگائے
ہوئے ہیں، دوسری طرف دنیا بھر کے ترقی یافتہ ممالک میں چائلڈ لیبر پر
پابندی پر سختی سے عملدرآمد ہو رہا ہے، ان ممالک میں ایسے بچوں کی تعلیم و
تربیت کے ساتھ انہیں معاشرے کا اچھا شہری بنانے کا فرض حکومتوں کے ذمہ ہے
اور ایسے بچوں کے والدین کے رہنے اور انہیں ضروریات زندگی کی سہولتیں فراہم
کرنے کیلئے سرکاری سطح پر ادارے قائم ہیں، اور ان ممالک میں چائلڈ لیبر
کرانے کے مرتکب اداروں کے مالکان کو پابند سلاسل کرنے کی سزائیں موجود
ہیں۔پاکستان میں بھی چائلڈ لیبر کا قانون عرصہ دراز سے موجود ہے، مگر 1996
کے بعد اب تک حکومت پاکستان کی طرف سے ملک میں کام کرنے والی چائلڈ لیبر کا
سرے سے سروے ہی نہیں کیا گیا، 2002ء میں ملک میں پہلی بار سرکاری سطح پر
عالمی چائلڈ لیبر ڈے منایا گیا، اور چاروں صوبوں میں ہونے والی تقریبات میں
چائلڈ لیبر پر قابو پانے کا عزم کیا گیا، مگر اس پر عملدرآمد کی شرح مختلف
شعبوں میں گرمی، سردی، دھوپ، چھا?ں میں اپنی مجبوریوں کے پیش نظر کام کرتے
نظر آئے بچے ہیں، ایک اندازے کے مطابق اس وقت پنجاب میں 22 لاکھ، بلوچستان
میں 9 لاکھ، سندھ میں 11 لاکھ، کے پی کے میں ساڑھے 4 لاکھ، گلگت بلتستان
میں سوا دو لاکھ کے لگ بھگ بچے مشقت کی چکی میں پس رہے ہیں، جن میں سے
اکثریت اپنے نام بھی کھو چکے ہیں اور معاشرے نے انہیں بلا، کوڈو، چھوٹو، کن
ٹٹا، سوئچ، ببلو، موٹو کے ناموں کا لیبل لگا دیا ہے۔
چائلڈ لیبر کے خاتمے کیلئے ملک میں قیام پاکستان کے بعد چلڈرن ایکٹ 1991ء،
ایمپلائمنٹ چلڈرن ایکٹ 1995ء نافذ ہوئے جبکہ قیام پاکستان سے قبل کے مائنز
چلڈرن ایکٹ 1923ء، چلڈرن ایکٹ 1933ء، فیکٹری ایکٹ 1934 کے قانون بھی موجود
ہیں، جن کے تحت بچوں سے مشقت لینا جرم قرار دیا گیا ہے، جن کے تحت چائلڈ
لیبر کرانے والے اداروں کے مالکان کو ایک سال تک سزا ہو سکتی ہے، مگر ریاست
کے کسی ذمہ دار نے آج تک چائلڈ لیبر کے حوالے سے موجود ان قوانین پر
عملدرآمد کیلئے کوئی اقدام نہیں کیا، چانکہ چائلڈ لیبر کیلئے قائم اداروں
کے افسران و اہلکاران نے چپ سادھ رکھی ہے اور اگر وہ کارروائی کرتے بھی ہیں
تو ایسے فعل کے مرتکب اداروں کے مالکان کو چند ہزار جرمانہ کر دیا جاتا ہے
جس سے سرمایہ دار کو کوئی فرق نہیں پڑتا؟
کپتان جی آپ نے تو ملک کو ترقی یافتہ اور ریاست مدینہ بنانے کا دعوی کر
رکھا ہے، مگر آپ کے دور میں بھی سینکڑوں نہیں لاکھوں بچے محنت مزدوری کر
رہے ہیں، کپتان جی ضرورت اس امر کی ہے کہ ایسے بچوں کیلئے تمام صوبوں میں
بلا تفریق ایسے ادارے قائم کیے جائیں جہاں رکھ کر ان بچوں کی بہتر تعلیم و
تربیت کی جا سکے، اور ساتھ ایسے والدین جو مجبورا اپنے بچوں کو مشقت کیلئے
بھجواتے ہیں کیلئے بھی ایسے ادارے قائم ہونے چاہئیں جن میں انہیں ضروریات
زندگی کی سہولت میسر ہو کیونکہ
تو کی جانے یار امیرا
روٹی بندہ کھا جاندی اے
|