ہمارے حال میں ماضی کو زندہ رکھنے والے !
(Athar Masood Wani, Rawalpindi)
اطہر مسعود وانی
پاکستان کی اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد' پی ڈی ایم' کے ملک کے چاروں صوبے میں چھ جلسوں کے بعد عمران خان حکومت کے خاتمے اور منصفانہ و شفاف انتخابات کے مطالبے میں ایک ماہ کا وقفہ دیتے ہوئے یکم فروری سے اگلے اقدام کا فیصلہ کیا گیا ہے۔' پی ڈی ایم' رہنمائوں کے مشاورتی اجلاس جاری ہیں تاہم عوام کو سڑکوںپر لانے کی تحریک میں چار ہفتے کو وقفہ کیا گیا ہے۔' پی ڈی ایم ' کے گوجرانولہ، ملتان،پشاور،کراچی ،کوئٹہ ،لاہور اور بہاولپورکے سات جلسوں سے اپوزیشن کے مطا لبات واضح طور پر سامنے آئے اور ان جلسوں میں پہلی بار اپوزیشن کی طرف سے فوج کی حاکمیت کو چیلنج کیا گیا۔' پی ڈی ایم ' کے اس موقف کو ملک میں وسیع پیمانے پر حمایت حاصل ہوئی اور عوامی حلقوں کے علاوہ دانشور اور سنجیدہ حلقوں میں بھی اس حقیقت کا اعتراف کیا گیا ہے ملک میں اقتدار اور حاکمیت کو آئین کا پابند رکھنا ناگزیر ہے اور اسی طرح ملک کو بہتری کی طرف مائل کیا جا سکتا ہے۔
یقینا ' پی ڈی ایم' رہنمائوں نے اس بات پر غور کیا ہو گا کہ چھ جلسوں کے بعد حکومت کے خلاف جدوجہد میں ایک ماہ کا وقفہ دینے کے کیا مضمرات ہو سکتے ہیں اور اس عرصے میں کیا کیا تبدیلیاں رونما ہو سکتی ہیں۔بلاشبہ پاکستان میں اقتدار اور حاکمیت کی کشمکش میں یہ مہینہ اہم ہے۔ اس عرصے میں تمام قوتوں کی طرف سے، خصوصا پس پردہ کوششیں تیز ہوں گی۔ اقتدار والے اپوزیشن اتحاد کو تقسیم کرنے، ان میں انتشار ڈالنے کی اپنی کوششیں تیز تر کئے ہوئے ہیں،غیر مرئی قوت کی پس پردہ کوششیں محسوس کی جار ہی ہیں اور اپوزیشن اتحاد کی طرف سے بھی یکے بعد دیگرے مشاورتی اجلاس کئے جا رہے ہیں۔
حکومتی حلقوں کی طرف سے اس بات کا پروپیگنڈہ کیا جا رہا ہے کہ دسمبر ختم ہونے کے باوجود اپوزیشن اتحاد نے اسمبلیوں سے استعفے نہیں دیئے جبکہ صورتحال کا مکمل احاطہ کرنے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ جلسے، دھرنے، لانگ مارچ،استعفے،یہ سب مقصد حاصل کرنے کے طریقے ہیں اور موقع محل کے مطابق کوئی بھی طریقہ استعمال میں لایا جا سکتا ہے۔تاہم یہ حقیقت ہے کہ اپو زیشن کے تیز و تند چھ جلسوںکے بیانیہ کے بعد عوام اپوزیشن اتحاد سے مزید سخت اور ایسے موثر اقدامات کی توقع کر رہے ہیں جس سے معاملات فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو سکیں۔بعض حلقوں کا خیال ہے کہ فوج کی طرف سے عمران خان حکومت کی قربانی دی جا سکتی ہے تاہم چند حلقوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ فوج عمران خان حکومت کی سرپرستی ختم نہیں کرے گی کیونکہ اس سے فوج کی حاکمیت کا تعمیر کردہ تمام نظام ہی منہدم ہو جائے گا۔
حکومت کی طرف سے عوام کونئے سال کے موقع پر ' یکم اپریل' کی طرح کا بیان دیا ہے کہ'' مہنگائی جلد قابو میں لاتے ہوئے ختم کر دی جائے گی، ملکی اقتصادی صورتحال میں بہتری کے اشارے ملنا شروع ہو گئے ہیں''۔ لیکن ملک کے بد بخت عوام کا نصیب ان خوش کن بیانات سے مستفید ہونے کے امکانات نہیں رکھتا۔عوام کی تو خیر ہے لیکن ملکی نظام چلانے والے بھی ابتر اقتصادی صورتحال سے پریشان ہیں اور انہیں اس حوالے سے ایسے '' دیگر'' ذرائع استعمال کرنا پڑ رہے ہیں جو چند سال کی معیاد رکھنے والے عہدیداروں کو تو شاید وقتی فائدہ پہنچا سکے لیکن ملک اور عوام ان زخموں کو عشروں تک چاٹتے اور خود کو کوستے رہیں گے۔
بعض حلقے اس بات کو بھی موضوع بنا رہے ہیں کہ اپوزیشن کے لانگ مارچ کا رخ اسلام آباد کی طرف ہو گا یا راولپنڈی کی طرف؟ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اپوزیشن اتحاد جواضح بیانیہ ،مطالبات لے کر چل رہا ہے، اس کے پیش نظر اسلام آباد کی طرف مارچ کا ہد ف بھی راولپنڈی ہونا غیر واضح نہیں ہے۔یہ سمجھنا بھی زیادہ مشکل نہیں ہے کہ اپوزیشن رہنمائوں کی جانیں شدید خطرات سے دوچار ہیں۔سرکاری سطح پر تو پہلے ہی کہہ دیا گیا ہے کہ دہشت گرد اپوزیشن رہنمائوں کی جانیں لینے کے درپے ہیں۔حالیہ معاملات کو ماضی اور تاریخ کی روشنی میں دیکھنے والے تو یہ کہتے ہیں کہ اقتدا ر کے حامل اپنی حاکمیت کو قائم رکھنے کے لئے آخری حدوں تک بھی جا سکتے ہیں کیونکہ معاملہ اس اقتدار کا ہے جسے ساٹھ سال سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود آئینی وقانونی شکل نہیں دی جا سکی ۔
|