ہزارہ قوم ہم شرمندہ ہیں۔۔۔۔۔۔

بحیثیت پاکستانی أج اپنے أپ کو قوم کہتے ہوۓ بڑی شرم محسوس ہو رہی ہے، ۲۲ کروڑ افراد پر مشتمل یہ ملک شاید ایک مسکن تو ہو سکتا ہے وطن نہیں۔ اس میں سندھی ، پنجابی، بلوچی، پٹھان تو رہتے ہیں لیکن شاید انسان نہیں۔ پچھلے چودہ سال میں اسی پاکستان کے بڑے صوبے بلوچستان میں دو ہزار سے زیادہ انسانوں کو صرف اس لیۓ شہید کر دیا جاتا ہے، کہ وہ یزیدی سوچ سے اختلاف رکھتے ہیں کون کہتا ہے یزید مر گیا وہ أج بھی اس معاشرے میں موجود ہے، کبھی طالبان کی شکل میں، کبھی القاعدہ، کبھی داعش تو کبھی لشگر جھنگوی تو کبھی سپاہ صحابہ. أج بھی بہت سے میر جعفر اس معاشرے میں موجود ہیں جو ان حیوانوں کے ناپاک عزایم کی أبیاری دل و جان سے کر رہے ہیں۔ اگر نہ کر رہے ہوتے تو اسامہ اتنے برس ایبٹ أباد کی خوبانیوں کے مزے نہ لے پاتا، اے پی ایس کے سینکڑوں معصوموں کا قاتل احسان اللہ ڈنکے کی چوٹ پر ہماری افواج کی حراست سے فرار ہو کر زندگی کے مزے نہ لوٹ رہا ہوتا۔ لسٹ کافی لمبی ہے پھر کبھی سہی، ہماری بے حسی کا عالم تو یہ ہے کہ گیارہ شہداء کی مائیں پچھلے پانچ روز سے اپنے بچوں کے لاشے لے کر ماینس ۱۰ ڈگری میں اس شغل اعظم کا انتظار کر رہی ہیں، جو اسلام أباد کے گرم کمرے میں بیٹھا عوام کے شغل میلے کا اہتمام کر رہا ہے۔ ان بیچاریوں کو نہیں پتہ کہ اس ریاست مدینہ کے بانی کے لیۓ ترکی فنکاروں سے ملاقات زیادہ ضروری ہے ناکہ ان روتی بلکتی مائوں بہنوں کو سہارا اور تسلی دینا۔ وہ منافق اعظم جو ٹائیگر نام کے کتے کے مرنے پر، اس کی یاد میں پوری نوجوان نسل پر مرتب فوج تو کھڑی کر دیتا ہے مگر ہاۓ ری مصروفیت ۴۰ منٹ سرکاری جہاز میں بیٹھ کر ان مظلوموں کے دکھوں کا مداوا کرنے نہیں نہیں جاسکتا، کیونکہ اسے ڈر ہے کہ ان وقت کے یزیدوں کے أباءو اجداد خفا نہ ہو جائیں ۔ میں أج اپنے ان بھائیوں سے ضرور پوچھنا چاہوں گا، جنہوں نے منافق اعظم کی حمایت میں اپنے ماں باپ، دوست، بہن بھائ سب رشتے ناتے نظر انداز کر دیے تھے، کیا اس انسان نما حیوان کے لیۓ جس کی انا انسانیت کے قد سے اونچی ہے سب کچھ تیاگ دیا تھا۔

بس اور الفاظ نہیں اللہ شہداء کو محمد و أل محمد کے صدقے جنت میں اعلی مقام عطا فرمائیں اور لواحقین کو صبر جمیل اور میرے بھولے بھالا بہن بھائیوں کو عقل سلیم جو اب بھی تبدیلی نام کے سراب کا پیچھا کر رہے ہیں۔

غسل میت نہ کہنا میرے غسل کو
اجلے ملبوس کو مت کفن نام دو
میں چلا ہوں علی سے ملاقات کو
جس کی تھی أرزو وہ گھڑی أگئ
 

Qasim raza naqvi Naqvi
About the Author: Qasim raza naqvi Naqvi Read More Articles by Qasim raza naqvi Naqvi: 42 Articles with 54165 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.