اسلام مشکل میں کیوں ( دوسرا حصہ)

 تمام مسلمان ر وز اول سے ہی اس بات پر یقین کرتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ وحد و لاشریک ہمیں دیکھ رہا ہے اور جو عمل بھی ہم کرتے ہیں وہ اﷲ کی نظر میں ہے اور اﷲ تعالیٰ ہمارے درمیان موجود ہے کیونکہ قران کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ کوئی دو آدمی سرگوشی کرتے ہیں تو ان میں تیسرا میں ہوتا ہوں اگر تین آ دمی سرگوشی کرتے ہیں تو چوتھا میں ہو تا ہوں ۔ لوگوں کا مکمل یقین تھا اور اب بھی ہے مگر اسوقت گناہ کی شرح کم تھی مسلمان سودی کاروبار نہیں کرتے تھے یہ کاروبار حضور اکرمﷺ کے دور میں یہودیوں کے پاس تھا اور آپ ﷺ کے بعد بھی یہودیوں کے پاس ہی رہا اس طرح جائیداد کی تقسیم میں بھی شرح کا خیال رکھا جاتا تھا خاص کر لڑکیوں کے بارے میں ڈنڈی نہیں ماری جاتی تھی لوگوں میں خوف خدا تھا لوگوں میں علم کی کمی ضرور تھی لیکن علما ء کرام جو مسئلہ لوگوں کو بتاتے تھے لوگ اس پر عمل کرتے تھے عام لوگوں میں دینی بحث بہت کم تھی کیونکہ لوگ یہ سمجھتے تھے کہ اگر کسی مسئلے میں غلط بیانی ہو گئی تو اﷲ تعالیٰ دیکھ رہا ہے اور ہم پکڑے جائیں گے ۔ علمائے کرام نے لوگوں کے دل میں یقین کے ساتھ یہ بات ڈال دی تھی کہ اﷲ تعالیٰ اور اسکے محبوب ﷺ سے محبت کا ثبوت ہی یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ کے احکام اور سنت نبوی پر عمل کیا جائے جتنا ان باتوں پر عمل کرے گا وہ شخص اتنا ہی اﷲ تعالیٰ اور اس کے محبوب اکرم ﷺ کے نزدیک ہو گا اور اتنا ہی وہ محبوب ہو گا اور اس شخص کو اﷲ تعالیٰ اور اسکے محبوب سے اتنی ہی محبت ہو گی جتنا وہ عمل کرے گا ۔علماء کرام سادہ ہوتے تھے اور بغیر کسی لگی لپٹی کے بات بیان کر دیتے تھے ۔ اسلام زیادہ تر صوفیا کرام نے پھلایا اور تقریباً سب علمائے کرام تھے وہ خود بھی سنت نبوی پر من و عین عمل کرتے تھے اور لوگوں کو بھی ایسا کرنے کی ہدایت کرتے تھے ۔

1857 کی جنگ آزادی کے ساتھ ہی تیرہویں صدی کا اختتام ہوا اور چودہویں صدی شروع ہوئی اس کے ساتھ ہی دنیا اسلام میں تین مسئلے پیدا ہوئے پہلا مسئلہ دنیا اسلام میں مسلمانوں کی حکومتوں کا خاتمہ شروع ہو گیا برصغیر میں مسلمانوں کی حکومت ختم ہو گئی اور انگریزوں نے برصغیر پر مکمل قبضہ کرلیا۔بر صغیر میں انگریزوں نے اسلام میں کافی مداخلت کی اپنے من پسندلوگوں میں جاگیریں تقسیم کیں یعنی وڈیراشاہی نظام کی بنیاد رکھی ملک میں مو لوی صاحبان کوگاوئں کے مکھیا کے انڈر کمانڈ کر دیا جبکہ مکھیا ڈائر یکٹ طور پر انگریز حکومت کا تنخواہ دار ہوتا تھا اسی طرح شہر وں میں مساجد کے امام انگریز حکومت کے ملازم بنا دئے گئے ۔جو امام صاحب دوسرے فرقے کے خلاف بہتر طریقے سے بیان دیتا تھا اس کی تنخواہ بڑھادی جاتی اور جو بیچارہ سادہ تقریر کرتا اس کی تنخواہ روک دی جاتی یا فارغ کر دیا جاتا ( یہ سلسلہ آج بھی رائج ہے جو امام صاحب یا نعت خواں بیشک کوئی دینی علم نہ رکھتا ہو مگرمخالف فرقے کے لئے چند الفاظ یا شعر کہ دے تو لوگ اس پر نوٹوں کی بارش کر دیتے ہیں )
1916 میں سلطنت عثمانیہ کا خاتمہ ہو گیا ۔ انگریز نے خطہ نما عرب کو فتح کر کے اپنے من پسند لوگوں میں تقسیم کر دیا اور ان کو اس خطے کا بادشاہ بنا دیا ۔ ان خطوں میں بھی انگریز حکومت کے نمائندے 1948 تک باقائدہ طور پر کمانڈ کرتے رہے اور آج بھی عرب ریاستیں ملکہ برطانیہ کو سلا م کرتیں ہیں اور اسرائیل کے خلاف بیان دینے سے گریز کرتی ہیں ۔ سعودی عرب حکومت نے ایک اچھا اقدام کیا کہ ملک میں انصاف کا اسلامی نظام قائم کیا ہے اور سزائیں بھی اسلامی ہیں اور اسلامی سزاؤں کے اضافہ کی وجہ سے اسلام کے ایک فرقے کا نظام ہے دوسرے فرقے کومداخلت کی اجازت نہیں جس کی وجہ سے وہاں فر قہ واریت بھی نہیں ۔ جرائم کی شرح دنیا میں سب سے کم ہے ۔پچھلے دنوں سعودی شہزادوں پر کرپشن کیسزکے الزام لگے اور گرفتاریاں ہوئیں اگلے دن فیصلہ آگیا اور سزائیں سنادیں گئیں لیکن پاکستان میں حکمرانوں پر کرپشن کے الزام لگے دو سال تک مقدمہ چلتا رہا دو سال بعد سزائیں سنائیں گئیں اب بھی اپیل کا حق باقی ہے عین ممکن ہے اپیل میں بری ہو جائیں سعودی عرب کے نظام انصاف اور پاکستان کے نظام انصاف میں زمین و آسمان کا فرق ہے ۔

چودہویں صدی میں مسلمانوں کو یہ یقین دلایا گیا کی ہمیں اﷲ تعالیٰ دیکھ رہا ہے اور نبی اکرم ﷺبھی حاضر ہیں اور دیکھ رہے ہیں یعنی اب ہماری نگرانی ایک ہستی کے علاوہ دو ہستیاں کر رہی ہیں پہلے ایک سپروائزر تھا اب دو سپروائیزر ہو گئے ہیں ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ہم برائیوں سے مکمل طور پر کنارہ کشی کر لیتے ہم پہلے سے بہتر مسلمان ہوتے ہم ہر برائی کرنے سے پہلے سوچتے کہ اب ہم میں رسول اکرمﷺ موجود اور ہمیں اب رسول اکرم ﷺ دیکھ رہے ہیں اگر ہم کو آپ ﷺ سے محبت ہے توآپﷺ کی موجود گی میں اور آپ ﷺکے سامنے کوئی ایسا کام نہ کریں جس سے آپ ﷺ ناراض ہوں کیونکہ آپ ﷺ کی ناراضگی اﷲ تعالیٰ کی ناراضگی ہے مگر ایسا ہوا نہیں ہم میں ہر وہ برائی آگئی ہے جو پہلے دوسرے مذاہب میں تھی جوأ عام ہے رشوت ایسے رچ بس چکی ہے کہ اب رشوت کہا ہی نہیں جاتا بلکہ خدمت کہا جاتا ہے رشوت سے انصاف کا خون کیا جاتا ہے پوری کی پوری عدالت رشوت سے خرید لی جاتی ہے سود کو منافع کا نام دیدیا گیا ہے وعدہ خلافی عادت بن چکی ہے دھوکا دینا کاروبار کا حصہ بن چکاہے ملاوٹ کو ملاوٹ سمجھا ہی نہیں جاتا کم تولنا کاروبار کا حصہ ہے ۔

اس وجہ سے پاکستان میں بھی سعودی عرب جیسا نظام انصاف ہو نا چاہیے اور جس طرح سعودی عرب اور دوسرے اسلامی ممالک میں یک فرقہ نظام ہے مثلاً سعودی عرب میں امام احمدؒ بن حمبل ایران میں امام جعفر صادق ؒ عراق میں امام ابو حنیفہ ؒ کا نظام تھا مگر امریکہ نے آکر شیعہ سنی فسادات پیداکردیے عراق میں سنی امام ابو حنیفہ یعنی حنفی فرقہ ہے مگر ہمارے حنفی جیسا نہیں عرا ق میں حنفی یارسول اﷲ ﷺ اور حاضر ناظر کا تناذع اور مسئلہ بیان نہیں کر تے دربار مکمل آباد ہیں ان پر چادریں بھی چڑھائی جاتیں ہیں ہمارے ہاں حنفی دو فرقوں میں بٹے ہوئے ہیں حنفی دیوبندی اور حنفی بریلوی ۔ دونوں ایک دوسرے کو دیکھنا نہیں چاہتے ایک دوسرے کے پیچھے نماز نہیں پڑھتے ایک دوسرے کو کافر تک قرار دے دیتے ہیں اس کا بھی علما ء کرام کو مل بیٹھ کر حل نکالنا چاہیے ۔

 

Muhammad Hanif
About the Author: Muhammad Hanif Read More Articles by Muhammad Hanif: 15 Articles with 12860 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.