وصیّت رسول اللہ ﷺ کی عظیم سنّت

پیارے دوستوں ! وصیّت رسول اللہ ﷺ کی عظیم سنّت ہے ،لیکن آج اس عظیم سنّت کی ادائیگی سے غفلت برتی جارہی ہے۔ اس مضمون میں اوّلًا ہم وصیّت کا لغوی واصطلاحی معنی اور وصیّت کے بعض ضروری احکام ذکر کرتے ہیں پھر وصیّت کی مشروعیت ،اہمیّت ،اور اس کے بعض فوائد کو بیان کریں، ۔ وبالہں التّوفیق

وصیّت کا لغوی معنی اتّصال ہے ، اور وصیّت کو وصیّت اس لیے کہا جاتا ہے کیو نکہ یہ مرنے والے کے معاملات کے ساتھ ملی ہوئی ہوتی ہے ۔بالفاظِ دیگروصیّت کرنے والا وصیّت کے ذریعے اپنی زندگی سے متعلق امور ، اپنی زندگی کے بعد سے متصل کردیتا ہے ۔

وصیّت کا شرعی معنی یہ ہے : بطورِ احسان کسی کو اپنے مرنے کے بعد اپنے مال یا منفعت کا مالک بنادینا۔
وصیّت کا رکن یہ ہے کہ وصیّت کرنے ولا اس طرح کہے :فلاں شخص کے لئے میں نے اتنے مال کی وصیّت کی ۔

وصیّت میں چار چیزیں ہوتی ہیں(۱)موصِی یعنی وصیّت کرنے والا ،( ۲)موصیٰ لہ یعنی جس کے لئے وصیّت کی جائے ،(۳)موصٰی بہ ، یعنی جس شے کی وصیّت کی جائے (۴)وصی یعنی، وہ شخص جس کو وصیّت کی جائے۔

وصیّت کا رکن ایجاب و قبول ہے، وصیّت کرنے والے کی طرف سے ایجاب اور جس کے لئے وصیّت کی جائے اس کی طرف سے قبول ہوتا ہے ۔اور یہ بھی یاد رہے کہ وصیّت قبول کرنے ، نہ کرنے کا اعتبار وصیّت کرنے والے کی وفات کے بعد ہوتا ہے ،جس کے لیے وصیّت کی گئی اگروہ وصیّت کرنے والے کی زندگی ہی میں اسے قبول کر لے یایا ردّ کردے تواس کا اعتبار نہیں ۔

وصیّت کا شرعی حکم یہ ہے کہ جس مال کی وصیّت کی گئی ہو،وہ اسی طرح موصیٰ لہ کی ملکیت میں داخل ہوجاتا ہے جیسا کہ بطورِ ہبہ دیا ہو ا مال ، ھبہ قبول کرنے والے کی ملک میں داخل ہوجاتا ہے ۔

جب بندے پر حقوق اﷲکی ادائیگی باقی نہ ہو ،تو وصیّت کرنا مستحب ہے ۔اوراگر بندے کے ذمّے حقوق اﷲکی ادائیگی باقی ہو ، مثلًااس پر فرض نمازیں باقی ہیں ، یا حج فرض ہونے کے باوجود نہیں کیا ۔ یا فرض روزہ ترک کیا تھا ، اور اس کی قضاء کرنی تھی اور نہیں کی تو اس صورت میں ان امور کے لئے وصیّت کرنا واجب ہے۔

وصیّت کی اقسام اس کی چارا قسام ہیں۔(۱)واجب جیسے زکاۃ، کفارے،روزہ ونماز کی وصیّت کرنا۔ (۲)مباح مثلًامالدار لوگوں کے لئے وصیّت کرنا ۔(۳) مکروہ جیسے :فاسق وفاجر لوگوں کے لئے وصیّت جب کہ غالب گمان ہوکہ وہ اس مال کو گناہ کے کام میں استعمال کریں گے۔(۴)اس کے علاوہ کے لئے وصیّت کرنا مستحب ہے۔

مستحب یہی ہے کہ انسان تہائی سے کم مال میں وصیّت کرے ،اس کے ورثاء خواہ مالدار ہوں یا محتاج ہوں ۔اورجس کے پاس کم مال ہو تو اس کے لئے یہ افضل ہے کہ وہ ورثاء ہونے کی صورت میں وصیّت نہ کرے ،تاکہ تمام ہی مال ورثاء کو مل جائے ۔

ثلث مال سے زیادہ کے بارے میں کی گئی وصیّت نافذ نہیں ہوتی ،بلکہ اس صورت میں بھی وصیّت ثلث ہی میں نافذ ہوتی ہے ،لیکن اگر بالغ ورثاء موصِی کی موت کے بعد اس وصیّت کو جائز کردیں ، تو وہ وصیّت نافذ ہوجائے گی ۔یاد رہے عندالاحناف وارث کے لئے وصیّت کرنا جائز نہیں ، لیکن اگر ورثاء بالغ ہوں تو ان کی اجازت سے وہ وصیّت بھی نافذ ہوجائے گی ۔

وصیّت کی مشروعیّت : اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:{یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا شَہَادَۃُ بَیْنِکُمْ اِذَا حَضَرَ اَحَدَکُمُ الْمَوْتُ حِیْنَ الْوَصِیَّۃِ اثْنٰنِ ذَوَا عَدْلٍ مِّنْکُمْ اَوْ اٰخَرٰنِ مِنْ غَیْرِکُمْ اِنْ اَنْتُمْ ضَرَبْتُمْ فِی الْاَرْضِ فَاَصَابَتْکُمْ مُّصِیْبَۃُ الْمَوْتِ } (المائدۃ :۱۰۶)
ترجمہ : اے ایمان والو!تمہاری آپس کی گواہی، جب تم میں کسی کو موت آئے وصیّت کے وقت، تم میں سے دوعادل شخص ہیں یا دیگر لوگوں میں سے د و ،جب تم زمین میں سفر کوجاؤ پھر تمہیں موت کی مصیبت پہنچے۔

حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اﷲتعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ فتح مکہ کے سال میں ایسا بیمار ہوا کہ موت کے قریب ہوگیا ،رسول اﷲ ﷺ میری عیادت کے لئے تشریف لائے، تو میں نے عرض کیا: یارسول اﷲ!ﷺمیرے پاس کثیر مال ہے ، اور میرے ورثاء میں بیٹی کے سواکوئی نہیں۔ کیا میں اپنے تمام مال کی وصیّت کردوں، آپ ﷺ نے جوابًا فرمایا :نہیں! میں نے عرض کیا:تو کیا دو ثُلُث کی وصیّت کردوں ؟آپ ﷺ نے فرمایا :نہیں ! میں نے عرض کیا :تو کیا آدھے مال کی وصیّت کردوں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا :نہیں! میں نے عرض کیا کہ کیا تہائی مال کی وصیّت کردوں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا :تہائی مال کی وصیّت کرو !اور تہائی مال بہت ہے۔ تمہارا اپنے ورثاء کو مال دار چھوڑنا اس سے بہتر ہے کہ تم انہیں محتاج چھوڑو کہ وہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلائیں ۔اور بلاشبہ تم اﷲکی راہ میں اﷲکی رضاکے لئے جو بھی خرچ کرو گے ، اس پرتمہیں اجر دیا جائے گا ، یہاں تک کہ وہ لقمہ جو تم اپنی بیوی کے منہ میں اٹھا کر رکھو گے ،اس پر بھی تمہیں ثواب ملے گا ۔

وصیّت کی اہمیّت :شریعت میں وصیّت کی اہمیت یہ ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس شخص کو جو وصیت کرکے وفات کر گیا ، متقی ، شہیداور عامل بالسنۃ فرمایا ، اورا سکی مغفرت کی بشارت دی۔ ایک مسلمان کے لیے اس سے بڑی نعمت اور کیا ہوسکتی ہے کہ اس کی مغفرت ہوجائے، اور شہادت کا درجہ مل جائے اور یہ بات بھی اس کے لیے کس درجہ عزت، اجر اور نیک نامی کی ہے کہ اس کے غیر وارث اَعِزَّہ غیروں کے سامنے ہاتھ پھیلا کر ذلیل و رسوا نہ ہوں اور معاشرہ میں آبرو مندانہ زندگی بسر کریں۔

وصیّت کے بعض فوائد
(۱)فوت ہونے والے کے ایسے اعزّہ جو وارثوں میں شامل نہیں ہیں ، مگر نادار اور حاجتمند ہیں، ان کو اس کے مال سے نفع پہنچے ،اور کسبِ معا ش کے لئے سہارا مل جائے ۔ جیسے : وہ بچہ جس کے باپ کا انتقال اس کے دادا کی حیات میں ہوگیا ، اور دادا کا انتقال بعد میں ہوا ، اور دادا نے وارثوں میں بیٹا بھی چھوڑا ، تو بچہ محروم ہوجائے گا۔اس کے لیے دادا کو انتقال سے پہلے وصیت کرنا چاہیے۔
(۲)ایسے پڑوسی ، یا احباب ، یا دیگر حضرات جو نہ رشتہ دار ہیں، اور نہ وارث ، مگر سخت احتیاج و تنگدستی اور پریشانی میں ہیں ، ان کو متوفی وصیت کے ذریعے اپنے مال کے ایک حصہ کا مالک بنادے، اور اس طرح ان کی مدد ہوجائے۔
(۳)متوفی اگر مدرسہ ، مسجد، سرائے ، قبرستان یا دیگر امورِ خیر اپنی موت کے بعد بھی کرنا چاہتا ہے ، اور وہ رفاہِ عامّہ اور خدمتِ خلق کے کام انجام دینا چاہے ، تو بذریعہ وصیت اپنے مال کا ایک حصہ ان کی انجام دہی کے لیے مقرر کردے، لیکن شریعت نے متوفی کو ورثاء کی موجودگی میں اپنے تمام مال کی وصیت کرنے کی اجازت نہیں دی کہ اس سے وارثوں کو ضرر پہنچتا ہے، اور ان کا حق ضائع ہوتا ہے،شریعت اسلامیہ نہ یہ اجازت دیتی ہے کہ وارث کو اس کی میراث سے محروم کردیا جائے ، نہ یہ گوارا کرتی ہے کہ اہلِ ثروت اپنے غیر وارث اعزّہ کو محتاجی و ناداری کی حالت میں چھوڑ کر وفات پائیں، بلکہ ایسے محتاج غیر وارث اعزّہ کے لیے وصیت کے ذریعے اپنے مال کا ایک حصّہ ان کو پہنچادیں۔مسلمان اگر شریعتِ مطہرہ کے احکام کے مطابق وصیت کے طریقے کو اپنائیں ، تو اس سے عظیم فائدے اور فیوض و برکات حاصل ہوں ۔

وصیت کا طریقہ مغربی اقوام میں بھی رائج ہے، اگرچہ وہ اسلامی اصولوں کے مطابق نہیں ، اُن کی اپنی خواہشات کے مطابق ہے اسی لیے اس کا نام بھی Will جس کے معنی ہیں ''خواہش'' عام طور سے وہاں لوگ مرنے سے بہت پہلے Will لکھ چھوڑتے ہیں لیکن اس ول Will اور وصیت میں زبردست فرق ہے، وصیت اسلامی احکام کے مطابق ہوتی ہے اور وِلWill اپنی خواہشات نفس کے مطابق، وِل لکھنے والا قطعاً یہ نہیں سوچتا کہ وہ جو کچھ لکھ رہا ہے وہ اخلاقی اقدار کے مطابق ہے یا نہیں۔ اس سے معاشرہ میں فلاح و بہبود آئے گی، یا تباہی و بربادی ۔ اس کا واحد مقصد یہ ہوتا ہے کہ میرا مال میرے مرنے کے بعد بھی صرف میری خواہش کے مطابق خرچ کیا جائے ، اس میں وہ اچھے بُرے، جائز و ناجائز اورحرام و حلال میں کوئی فرق نہیں کرتا، جب کہ اسلام نے وصیت کرنے والے کو کچھ ہدایات دی ہیں ، اور وصیت کا مقصد معاشرہ کی فلاح اور اعمالِ خیرکا اجراء مقرر کیا ہے۔ اسی لیے اس نے معصیت کے کاموں کے لیے اور معاشرے کو بگاڑنے والی چیزوں کے لیے وصیت کرنے کی اجازت نہیں دی۔ (ماخوذ از بہارشریعت ،ج:۳،جزء:۱۹بالتغیر والزیادۃ)اللہ پاک ہمیں ہرہر کام میں شریعت کی پاسداری کی توفیق دے !آمین

 

Imran Attari Abu Hamza
About the Author: Imran Attari Abu Hamza Read More Articles by Imran Attari Abu Hamza: 51 Articles with 52804 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.