جمعہ نامہ : اندھیرے سے اجالے کا سفر اور امت کی ذمہ داری

اہل ایمان اپنی زندگی کو اجالوں کا خوشگوار سفر سمجھتے ہیں اس لیے اندھیرے سے نکلنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتےکیونکہ تاریکی تو گمراہی ہے اورنورِ ہدایت روشنی ۔یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ شیطان لعین ایمان والوں کی راہوں میں تاریکیاں بکھیرنے سے باز نہیں آتا ۔ اسے ہر بار کامیابی تو نہیں ملتی مگر بشری کمزوریاں اس کوکامیاب بھی کرسکتی ہیں اس لیے چوکنا رہنے کی ضرورت ہے۔ اہل کتاب اس خوش فہمی میں ہدایت سے دور نکل گئے کہ وہ بخشے بخشائے ہیں ہمیں آگ نہیں چھوئے گی ۔ ارشادِ ربانی ہے: ’’اے اہل کتاب! ہمارا رسول تمہارے پاس آ گیا ہے جو کتاب الٰہی کی بہت سی اُن باتوں کو تمہارے سامنے کھول رہا ہے جن پر تم پردہ ڈالا کرتے تھے‘‘، یعنی وقت کے ساتھ جن باتوں کی پردہ پوشی کردی جائے اور وہ عام لوگوں کی نظروں سے وہ دینی پہلو اوجھل ہوجا ئیں تو رسول ان پردوں کو ہٹا دیتے ہیں اور بنی نوع انسانی کے سامنے صاف و شفاف دین واضح ہوکر آجاتا ہے۔

مثلاًسیاسی رہنمائی کے حوالے سے فی زمانہ یہ خیال عام ہوچکا ہے دینی بنیادوں پر استوار کیا جانے والا نظام ساری نوع انسانی کے درمیان عدل و انصاف نہیں قائم کرسکتا، اس لیے مذہب و سیاست کی تفریق لازمی ہےحالانکہ دین اسلام تو اس خالق و مالک کی الہام کردہ رہنمائی ہے جو سارے انسانوں کا پروردگار ہے اس لیے یہ کیونکر ممکن ہے کہ اس میں سبھی لوگوں کے حقوق کا شایانِ شان خیال نہ رکھا جائے؟ اس تناظر میں جیسے انبیاء کی ذمہ داری تمام باتوں کو کھول کر بیان کرنے کی ہے اسی طرح امت مسلمہ بھی دعوت دین کو بالکل واضح اور دوٹوک اندازمیں پیش کرنے کی سزاوار ہے تاکہ تمام شکوک و ابہام دور ہوجائیں ۔ اس موقع پر نبی کی ایک اور صفت یہ بیان کی گئی کہ وہ:’’ بہت سی باتوں سے درگزر بھی کر جاتا ہے‘‘۔ یعنی داعیانِ حق غیر ضروری معاملات میں الجھ کر اپنا وقت اور توانائی ضائع نہیں کرتے بلکہ غیر اہم چیزوں کو نظر انداز کرکے آگے کا سفر جاری رکھتے ہیں۔

اس اہم ترین ذمہ داری کو اداکرنے کی خاطر امت کو قرآن حکیم سے نوازہ گیا ہے۔ ارشادِ حق ہے:’’ تمہارے پاس اللہ کی طرف سے روشنی آگئی ہے اور ایک ایسی حق نما کتاب، جس کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ اُن لوگوں کو جو اس کی رضا کے طالب ہیں سلامتی کے طریقے بتاتا ہے‘‘۔ یہاں سلامتی کے راستے کی توفیق کو رضائے الٰہی کی طلب سے مشروط کردیا گیا ہے۔ انسان اگر صرف یہ طلب اپنے اندر پیدا کرلے تو اذن خداوندی سےبقیہ مراحل ازخود سہل ہوتے چلے جاتے ہیں ۔ حق کے طلب گاروں کو بشارت دی گئی ہےکہ :’’ اور اپنے اذن سے(اللہ) اُن کو اندھیروں سے نکال کر اجالے کی طرف لاتا ہے اور راہ راست کی طرف ان کی رہنمائی کرتا ہے ‘‘۔یہعام منادی تو سب کے لیے ہے لیکن کسی پر تھوپی نہیں جاتی ۔ جو بھی آگے بڑھ خود کو اس کااہل بنانے کی سعی کرتا ہے اسے توفیق سے نواز دیا جاتا ہے ۔اس خوش نصیب کو خود رب کائنات باطل کی تاریکی سے نکال کر ہدایت کی روشنی میں لے آتا ہے، اور وہ اذنِ خداوندی سے صراطِ مستقیم پر گامزن ہوجاتا بشرطیکہ وہ پہل کرے ۔

اللہ تبارک و تعالیٰ کی اس عظیم پیشکش سے جو لوگ منہ موڑتے ہیں ان سے کتاب ِ حق سوال کرتی ہے:’’تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ تم اللہ پر ایمان نہیں لاتے حالانکہ رسول تمہیں اپنے رب پر ایمان لانے کی دعوت دے رہا ہے اور وہ تم سے عہد لے چکا ہے اگر تم واقعی ماننے والے ہو ‘‘۔ اس آیت میں ابتدائے آفرینش کےعہدِ الست کا بھی اشارہ ہے جو سارے انسانوں نےرب سے کیا تھا یا وہ عہد بھی مراد ہے کہ جس کے بعد اہل ایمان مشرف بہ اسلام ہوتے ہیں۔ آگے رب کائنات کے عظیم ترین احسان کی یاددہانی یوں ہے کہ :’’وہ اللہ ہی تو ہے جو اپنے بندے پر صاف صاف آیتیں نازل کر رہا ہے تاکہ تمہیں تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لے آئے، اور حقیقت یہ ہے کہ اللہ تم پر نہایت شفیق اور مہربان ہے‘‘۔ اب یہ انسانوں کی مرضی پر ہے کہ اس نعمتِ عظمیٰ سے مستفید ہوکر روشنی کی جانب بڑھیں اور فلاح یاب ہوں یا گمرہی میں بھٹک کر تباہی و بربادی کو گلے لگائیں ۔
 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2045 Articles with 1217071 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.