صحافت برائے ـامن اور آزادی اظہار رائے

صحافت عربی زبان کا لفظ ہے جو صحف سے ما خوذ ہے جس کے لغوی معنی کتاب یا رسالے کے ـ ہیں یعنی ایسا مطبوعہ مواد جو مقررہ و قفوں کے بعد شا یٔع ہوتا ہو صحافت کہلاتا ہے ۔امن کے لیے جتنا مو ثر ذریعہ ذرائع ابلاغ ہے اتنا موثر شائد ہی کوئی دوسرا شعبہ ہو۔ذریعہ ابلاغ خواہ وہ اخبار ہو یا ریڈیو ، ٹیلی ویژن ہو یا انٹرنیٹ اسکی اہمیت اور اثر انگیزی ہر دور میں غالب رہی ہے۔ انسانی معاشرے کی بقا کے لئے ابلا غ و ترسیل اتنا ہی ضروری ہے جتنا غذا اور پناہ گاہ۔

انسانی زندگی میں ابلا غ و ترسیل کو شہ رگ کی حیثیت حاصل ہے۔اپنے خیالات و جذبات اور افکار و نظریات کے اظہار کے لیے اگر انسان کو موقع نہ ملے تو وہ ہیجانی کیفیت میں مبتلا ہو جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ تمام ممالک کے دستور میں ہر شخص کو اظہار رائے کی آزادی دی گئی ہے۔

صحافت برائے امن میں صحافی غیر جانبدار ہوتا ہے اور مثبت رپورٹنگ کرتا ہے جس سے انتشار اور افراتفری کی صورتحال پیدا نہ ہو ۔امن صحافت کا مقصد کسی بھی ملک کے مثبت پہلو دکھانا ہے اور انسانیت کا درس دینا ہے ۔ایسی خبروں سے گریز کرنا جس سے نفرت اور رنجشیں بڑھیں۔پیس جرنلزم یا امن صحافت میں صحافی کسی تنازعے میں فریق بننے اورانتشار پھیلانے والی خبروں سے گریز کرتا ہے اور کسی ایک فریق کے موقف کو جانبدارانہ طور پر رپورٹ کرنے کی بجائے مجموعی طور پر امن کو فرو غ دینے کی بات کرتا ہے کیونکہ جنگ میں نہ کوئی فاتح ہوتا ہے اور نہ مفتوح بلکہ جنگ انسانیت کی نفی ہوتی ہے ۔ پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جہاں مثبت امن کے اشاریے انتہائی کمزور ہیں کیونکہ پاکستان میں امن صحافت کا تصور یاتو انتہائی محدود ہے یا پھر سرے سے ہے ہی نہیں۔ ہمارے میڈیا میں یکطرفہ منفی خبروں کی ہر وقت بھرمار رہتی ہے جن میں امن صحافت کے عوامل کا خیال نہیں کیا جاتا ہمارے معاشرے میں تیزی سے ختم ہوتی رواداری کے پیچھے دراصل یہی عوامل کارفرما ہیں۔

انسانی حقوق کی فہرست میں آزادی اظہار رائے پندرہویں نمبر پر موجود ہے۔آزادی اظہار ہر انسان کا بنیادی حق ہے۔جہاں ہر معاشرے اور ملک کو دیگر اقوام کی آزادی اظہار کا احترام کرنا چاہئے وہیں آزادی اظہار کے نام پر دوسروں کی دل آزاری کرنے سے بھی بچنا چاہیے۔ فرانس سے آزادی اظہار کے نام پر جس بحران نے جنم لیا وہ غیر معمولی ہے۔

اس سے مسلم دنیا کے جذبات مجروح ہوئے اور یہ تکلیف قابل فہم ہے۔اقوام متحدہ کے بیان کے مطابق مذہب کے خلاف آزادی اظہار رائے کو استعمال نہیں کرنا چاہیے۔بیان میں واضح کہا گیا کہ مذاہب،عقیدوں یا تہذیبوں کی تذلیل کیے جانے سے ہی تشدد ، انتہاپسندی اور نفرت میں اضافہ ہوتا ہے اس لیے اقوام عالم میں امن کے فروغ اور بین المذاہب ہم آہنگی کے لیے ضروری ہے کہ آ زادی اظہار کے بنیادی حق کا استعمال انتہائی محتاط طریقے سے کیا جائے تا کہ ٹیکنالوجی کے اس دور میں دوسروں کے مذہبی،علاقائی اور قومی احساسات مجروح نہ ہوں ۔
تحریر: سیدہ نوال جاوید(طالبہ یونیورسٹی آف سندھ)

 

Nawal jawaid
About the Author: Nawal jawaid Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.