3دسمبر 2018ء کو بیلجیم میں منعقدہ اجلاس میں قرار
داد نمبر 73/25کے ذریعے 24جنوری کو عالمی یوم ِتعلیم منانے کا فیصلہ
ہوا۔یوں 24جنوری 2019 ء کو پہلا عالمی یومِ تعلیم منایا جا رہا ہے۔ اس دِن
کو منانے کا مقصد 2030ء تک پائیدار عالمی امن اور ترقی کا حصول ہے۔ اس
سلسلہ میں منعقد ہونے والی تقریبات میں صنفی امتیاز کے بغیر معیاری تعلیم
عام کرنے پر زور دیا جارہا ہے جو امن اور خوشحالی کی ضامن ہے۔ آج نہ صرف
حکومتیں بلکہ اقوام متحدہ ٗنجی شعبہ ٗ سول سوسائٹی ٗ انسانی حقوق کی این جی
اوز ٗ اساتذہ اور نوجوان تعلیم کو سب سے اولین ترجیح کے طور پر منوانے کا
عزم کرتے ہیں۔
عالمی یوم تعلیم منانے کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ عالمی سیاسی طاقتوں کو اس
بات پر راضی کیا جائے کہ وہ معیار تعلیم کو بہتر بنائیں ٗ جہالت اور
ناخواندگی کو ختم کرنے میں اپنا کردر ادا کریں۔تعلیم ذریعہ معاش فراہم کرتی
ہے اور اسی کے ذریعے ہنر مندی میں اضافہ ٗ غربت اور جہالت کا خاتمہ ممکن
ہے۔ جرائم کی شرح میں خاطر خواہ کمی بہتر تعلیم کے ذریعے ہی ممکن ہے تعلیم
بہت سے معاشی مسائل کا فوری اور ممکن حل بھی ہے یہی وجہ ہے کہ صرف اور صرف
تعلیم ہی کو 2030ء تک پائیدار امن اور ترقی کے حصول کا واحد ذریعہ قرار دیا
گیا۔یو این او اور اس کے ادارے عالمی سطح پر پرائمری، سیکنڈری اور اعلیٰ
درجے کی تعلیم ٗفنی تعلیم ٗ فاصلاتی تعلیم کے بلا امتیاز مواقع فراہم کرنے
کیلئے اپنا کردار ادا کر رہا ہے۔صنفی امتیاز کو بالا ئے طاق رکھتے ہوئے عمر
کی حد سے آزاد تعلیم کے حصول کو ممکن بنانا بھی اس دن کا مقصد ہے۔یہ تسلیم
شدہ حقیقت ہے کہ مساوی اور معیاری تعلیم کے بغیر انسانی زندگی میں آسانیاں
پیدا کرنا ممکن نہیں۔
آج کم بیش 262ملین بچے سکول نہیں جاتے ٗ 617ملین بچے اور نوجوان نہ تو پڑھ
سکتے ہیں نہ ہی بنیادی حساب کتاب جانتے ہیں۔صحرائے افریقہ میں40%سے کم
بچیاں سیکنڈری تعلیم کے درجے سے نیچے ہیں، 4ملین مہاجرین نوجوان اور بچوں
نے کبھی سکول نہیں دیکھا۔دُنیا کی اجتماعی شرح خواندگی 86.3%ہے جس میں
مردوں کی شرح خواندگی 90%جبکہ خواتین کی شرح خواندگی 82.7%ہے۔اس فہرست میں
جاپان، کینیڈا ٗ یو کے ٗ امریکہ ٗ برطانیہ میں شرح خواندگی 99%، چائنہ میں
96.4%، متحدہ عرب امارات میں 93%، سری لنکا میں 92%، بنگلہ دیش میں
72%انڈیا میں74%اور پاکستان میں 58%ہے۔ شرح خواندگی کو بڑھانے میں ہماری
سنجیدگی اور ترجیحات میں تعلیم کا شامل ہونا ضروری ہے جنوبی کوریا اپنے کل
جی ڈی پی کا 8%، کینیڈا6.6%،روس 4.9%جبکہ انڈیا 2.7%اور پاکستان میں
2.3%تعلیم پر خرچ ہوتا ہے۔تعلیم کے فروغ کے ساتھ معیاری تعلیم فراہم کرنا
وقت کی ضرورت ہے۔د نیا کے بہترین ایجوکیشن سسٹم کے حوالہ سے دیکھا جائے تو
ڈنمارک پہلے نمبر پر ٗ اس کے بعد سویڈن ٗناروے ٗ فن لینڈ ٗ کینیڈا ٗ نیدر
لینڈ ٗ سوئٹزر لینڈ ٗنیوزی لینڈ ٗ آسٹریلیا اور آسٹریا کا شمار پہلے دس
ممالک میں ہوتا ہے۔ دوسری طرف دُنیا کے دس برے ترین ممالک کی فہرست میں چاڈ
ٗ سینٹرل ری پبلک آف افریقہ ٗ نائیجر ٗمالی ٗسوڈان ٗ بینن ٗیمن، افغانستان
اور لائبیریا شامل ہیں۔
اگر اقوام ِ عالم کی درجہ بندی دیکھیں تو کچھ یوں ہے: معیاری تعلیمی اداروں
کے حوالہ سے جنوبی ایشیاء فیصد 0.9ٗ عالمی 0.02کوSCImago(2018) کی عالمی
درجہ بندی (جنوبی ایشیاء کی صورتحال)بھارت تحقیقی ادارے271ٗ جنوبی ایشیاء
82.9فیصد ٗ عالمی فیصد 4.81ٗ پاکستان تحقیقی ادارے35ٗ جنوبی ایشیاء 10.7%ٗ
عالمی 0.62فیصد ٗ بنگلہ دیش تحقیقی ادارے 13ٗ جنوبی ایشیاء فیصد 4.0%ٗ
عالمی 0.23فیصد ٗ سری لنکا تحقیقی ادارے 06 ٗ جنوبی ایشیا ء فیصد 1.8%ٗ
عالمی فیصد 0.11ٗ نیپال تحقیقی ادارے 02ٗ جنوبی ایشیاء فیصد 0.6%ٗ عالمی
فیصد 0.04ٗ جنوبی ایشیاء میں کُل تحقیقی اداروں کی تعداد 327ٗ جنوبی ایشیاء
فیصد 100%ٗ عالمی فیصد 5.80ہے۔
ملک ٗتحقیقی جرنلز کی تعداد ٗ جنوبی ایشیاء فیصد ٗ عالمی فیصد : 1بھارت
525ٗ 79.4%ٗ عالمی فیصد 1.54ٗ 2پاکِستان تحقیقی جرنلز کی تعداد 103ٗ جنوبی
ایشیاء فیصد 15.6فیصد ٗ عالمی فیصد 0.30ٗ پھر بنگلہ دیش تحقیقی جرنلز 18ٗ
جنوبی ایشیاء فیصد 2.7%ٗ 0.05فیصد ٗسری لنکا تحقیقی جرنلز 06ٗ جنوبی ایشیاء
فیصد 0.9ٗ عالمی 0.02ٗ نیپال تحیقی جرنلز06ٗ جنوبی ایشیاء فیصد 0.9ٗ عالمی
0.02ٗ افغانستان تحقیقی جرنلز3ٗ جنوبی ایشیاء فیصد 0.5ٗ عالمی 0.01فیصد ہے
۔ کُل جنوبی ایشیاء میں تحقیقی جرنلز کی تعداد 661ٗ عالمی 1.93فیصد ہے ۔
اگر معیاری تحقیقی جرنلز کے تناسب کو دیکھا جائے تو یوں ہے (SCImagoکی
عالمی درجہ بندی 2018میں جنوبی ایشیاء کی صورتحال ) کو دیکھا جائے تووطن
عزیز کے اداروں میں اسی طرح تحقیقی کارکردگی، اختراعات اور معاشرے پر ان کے
اثرات پر مبنی پیمانے کی روشنی میں تعلیم اور تحقیق سے منسلک دُنیا کے 5637
انسٹی ٹیوٹ عالمی درجہ بندی میں پاکستان اِس وقت 35 انسٹی ٹیوٹس کی تعداد
کے ساتھ 29 ویں نمبر پر ہے۔ اس عالمی درجہ بندی میں پاکستان کے 103 ریسرچ
جرنلز شامل ہیں۔ یوں اس تعداد کے ساتھ تو وطنِ عزیز دُنیا بھر میں 33 ویں
نمبر پر ہے۔ لیکن دُنیا کے صفر عشاریہ30 (0.30) اور جنوبی ایشیاء کی 15.6
فیصد تعداد پر مبنی پاکستانی ریسرچ جرنلز میں سے ’’پلانٹ پیتھالوجی جرنل‘‘
7616 ویں نمبر پر ہے۔ یعنی دُنیا کے پہلے ساڑھے سات ہزار اعلیٰ تحقیقی
جرنلز میں ہمارا کوئی جرنل شامل ہی نہیں۔ اس کے بعد 11281 ویں نمبر پر
’’پاکستان جرنل آف اسٹیٹسٹکس اینڈ آپریشن ریسرچ‘‘ ہے۔ تیسرے نمبر پر
’’پاکستان جرنل آف میڈیکل سائینسز‘‘ ہے جو عالمی درجہ بندی میں 11494 ویں
نمبر پر ہے۔ جبکہ اس رینکنگ میں شامل ملک کا آخری جرنل ’’پاکستان جرنل آف
سائی پیتھا لوجی‘‘ 33586 ویں نمبر پر ہے۔پھر ہماری کوئی بھی یونیورسٹی
عالمی یونیورسٹیوں میں شامل نہیں ۔
SCImagoکی ویب سائیٹ کے اعدادوشمار کے تجزیہ کے مطابق 1996 سے2017 تک
پاکستان کی شائع شدہ تحقیقی دستاویزات کی تعداد میں 1773 فیصد اضافہ ہوا۔
یہ 902 سے بڑھ کر16897 ہو چکی ہیں۔یہ اضافہ ایچ ای سی کے قیام کے
بعدہوا۔کیونکہ 1996 تا2002 کے دوران (2002 کو ملک کے اعلیٰ تعلیمی کمیشن نے
کام کرنا شروع کیا) یہ اضافہ 69.6 فیصد رہا اور2002-2017 کے دوران 1004
فیصد اضافہ ہوا۔ اسی طرح 1999 میں ملک کے10 ریسرچ جرنلز عالمی درجہ بندی
میں شامل کئے گئے تھے، اب ان کی تعداد بڑھ کر103 ہوچکی ہے۔ یوں اس عرصہ کے
دوران 930 فیصداضافہ ریکارڈ ہوا جس میں ایچ ای سی کے بننے کے بعد نمایاں
اضافہ ہوا۔ اسی طرح 2009 سے2018 تک انسٹی ٹیوٹس کی عالمی رینکنگ میں شامل
ہونے والے پاکستانی اداروں کی تعداد 11 سے بڑھ کر 35 ہو چکی ہے جو 218 فیصد
اضافہ کو ظاہر کرتی ہے۔
یونیسکو کے مطابق اس وقت دُنیا بھر میں ریسرچ اینڈ ڈیویلپمنٹ کے شعبہ پر1.7
ٹریلین ڈالر سالانہ خرچ کئے جاتے ہیں۔ جبکہ ہمارے یہاں اس شعبہ پر ورلڈ
بینک کے مطابق جی ڈی پی کا صفر عشاریہ 24 (0.24) فیصد خرچ کیا جاتا ہے۔ اس
تناسب کے ساتھ پاکستان دُنیا کے96 ممالک میں 79 ویں نمبر پر ہے۔ اقوام
متحدہ کی اسپشلائزڈ ایجنسی ورلڈ انٹولیکچوول پراپرٹی آرگنائزیشن کی ورلڈ
انٹولیکچوول پراپرٹی انڈیکیٹرز 2018 نامی رپورٹ کے مطابق2017 میں پاکستان
میں رہنے والے پاکستانی شہریت کے حامل ہم وطنوں نے Patent کے حصول کے لئے
193درخواستیں دیں جبکہ مذکورہ سال صرف 10 افراد کو سند ِ حقِ ایجاد یا سندِ
حقِ اختراع جاری ہوئیں۔ اور اگر ہم 1883 سے قائم دُنیا کے قدیم ترین U.S.
PATENT AND TRADEMARK OFFICE کے اعدادوشمارکو دیکھیں تو 2015 میں مذکورہ
آفس کو UTILITY PATENT(جسے سند ِ حقِ ایجاد بھی کہا جاتا ہے) کے لئے
پاکستانیوں کی 37 درخواستیں موصول ہوئیں۔
یہ تعداد دُنیا بھر کے ممالک میں 60 ویں نمبر پر تھی جن میں سے 16 کو یہ حق
تفویض کیا گیا۔ یوں یہ تعداد بھی دُنیا کی 60 ویں درجہ پر تھی۔ تعلیم میں
تحقیق جزو لالعنی ہے ٗتحقیق نیا علم ٗ نئی مصنوعات اور نئے طریقہ کار پیدا
کرتی ہے اور تحقیقی اشاعتیں علم میں شراکت کی عکاس ہوتی ہیں جبکہ PATENT کا
حصول تحقیق کے نتیجہ میں ہونے والی ایجاد یا اختراع کی انفرادیت کا مظہر
ہے۔آج یوم ِ تعلیم ہم سے اس تجدید کا متقاضی ہے کہ ہم تیزی سے ترقی کرتی
دُنیا میں اپنے لئے معزز اور با وقار مقام کے خواہاں ہیں تو ہمیں اپنے ہاں
تعلیم و تحقیق کے لئے موزوں ماحول کی آبیاری کریں اور غربت ٗ بے روزی گاری
ٗ جہالت کا خاتمہ کر کے خوشحال قوم بن سکیں ۔
|