خستہ سوچ

میری عقل کی چھوٹی سی پوٹلی میں کچھ باتیں عذاب کی طرح رقص کرتی ہیں ،اس نام نہاد معاشرے کے اس جنگل کو دیکھتی ہوں تو شرفا کی شرافت میری عقل تسلیم کرنے سے انکار کر دیتی ہے ، جن چیزوں کو ہم لوگ شان سمجھتے ہیں بعض اوقات وہ گھٹیا سوچ کا اظہار کر رہی ہوتی ہے ! لیکن افسوس کی بات ہے کہ ہمیں اس چیز کا احساس تک نہیں ہے۔۔
ایک بات پوچھنی تھی !
وہ جو نام نہاد معاشرہ ہے آپکا جس میں لڑکیوں کی عزت کا بڑا خیال ہے آپکو ، کبھی انکے احساسات کا بھی احترام کیا ہے ؟ کبھی اِنکی سوچ کا بھی احترام کیا ہے ؟ کبھی انکی زندگی کو بھی انکی نظروں سے دیکھنے کی کوشش کی ہے؟

یا آپ نے انکو بکری کی طرح اِنکو ایک طرف لگا دیا ہے کہ
چرتی رہو ، کھاتی رہو اور نسل پروان چڑھاتی رہو!
یا آپ نے بھی اُنکی بے بسی کا فائیدہ اٹھاتے ہوۓ ان قربان کر ڈالا ؟ یا اُنکے سوالات پر اُن کو آزاد خیال کا تغمہ دیا ، یا آپ نے انھیں اپنی فرضی محبوبہ انتخاب کر کے، انکی انکاری پر بے وفائ اور بے حسی کی مہر لگا دی ۔۔

جناب !
خلل معاشرے کی سوچ میں ہے ، گندگی سوچ سے ٹَپکنے والا خون معاشرے کے حقیقی چہروں کا انتخاب کر چکا ہے اس لیے آج لڑکی گھر والوں کو نہ نہیں کرتی کہ اُسکے کردار کی بے حرمتی نہ ہو جاۓ اس لیے لڑکی سوال نہیں کرتی کہ اُسکا سوال اُسکے گلے کا طوق نہ بن جاۓ۔

یاد رکھیں آج بھی کچھ لوگ لڑکی کو قربان کر رہے ہیں ، اُسے پڑھنے سے روک رہے ہوتے ہیں محض اپنے سوچ کے بند چوبارے کے تحت، معاشرے کی نا انصافی ایک طرف اور زندگی کی کہانی ایک طرف ، آپ خود سوچیں سوالوں سے ہماری جان جاتی ہے اور جواب ہم دینا پسند نہیں کرتے ، سیاست ہم نے سیاسی کاموں کے لیے ہی نہیں بچائ ہوئ اب تو یہ ہر زندگی کی داستان ہے ، ہر زندگی اسکے چنگل میں پھنس چکی ہے لحاظہ اب میرے لب جو کہ رہے ہیں، میرا ہاتھ جو type کر رہا ہے وہ باغی ہے۔ باغی ہے اس ہر انسان کی سوچ سے جو خستہ لباس اوڑھے ہوۓ ہیں جو کہتے کچھ ہیں دیکھاتے کچھ ہیں
۔
افسوس ہوتا ہے ، دل درد سے بھر جاتا ہے جب بہت سی زندگیوں کو بے بس محسوس کرتی ہوں کیونکہ وہ اپنا حق مانگنے کو بغاوت سمجھتی ہیں اور انکو باغی سمجھا جاتا ہے ،
کچھ دماغ آج بھی کنویں کے اندر دفن ہیں اور مظلومیت کی انتہا یہ کہ پیاسے کے سامنے کنواں ہے لیکن کنوایں سے پانی باہر نکلنا نہیں چاہتا تو بس پھر پڑا رہے پانی ! ہم سمجھیں کنواں تھا ہی نہی !
یا یہ سمجھیں پانی ہے ہی نہیں اور لوگ پیا سے ہی مر جائیں ؟
 

Sadia Ijaz Hussain
About the Author: Sadia Ijaz Hussain Read More Articles by Sadia Ijaz Hussain: 21 Articles with 24709 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.