فہمیدہ مرزا کے نام خط

سکواش پاکستان کے ٹاپ کھیلوں میں سے ایک کھیل ہے لیکن اس کھیل کیساتھ کیا کیا ہورہا ہے اور اس کے نام پر کیا کیا جارہا ہے یہ بھی کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں. کیا آپ کو پتہ ہے کہ اس کھیل کی آڑ میں سب سے زیادہ انسانی سمگلنگ کی گئی - ایسے لوگ سکواش کے نام پر یورپ نکال دئیے گئے جنہیں ریکٹ تو کی سکواش کا پتہ نہیں تھا' کچھ کھلاڑیوں کے نام پر اور کچھ کوچز کے نام پر... اگر آپ کو یقین نہیں آتا تو سکواش کے متعلقہ فیڈریشن سے ان تمام افرادکی فہرست منگوا لیں جو مقابلوں کیلئے پاکستان سے نکالے گئے ان سے بھاری رقوم لی گئی اور پھر وہ واپس نہیں آئے - انہی افراد کی وجہ سے نہ صرف پاکستان کی بدنامی ہوئی بلکہ اب تو سکواش کے کھلاڑیوں پر اعتبار کرنے کو تیار ہی نہیں کوئی ویزہ نہیں ملتا.
محترمہ فہمیدہ مرزا صاحبہ...

امید ہے کہ آپ بخیریت ہونگی - میںآپ کی کامیابی کیلئے دعاگو ہے. یہ خط میں آپ کو اس لئے لکھ رہا ہوں کہ موجودہ حکومت نے تبدیلی کا دعوی کیا تھا ایسی تبدیلی جس میں کرپشن نہیں ہوگی اس نعرے پر ہم نے بھی تبدیلی کا ساتھ دیا تھا اور جب آپ کو وفاق کی سطح پر سپورٹس کا شعبہ ملا تھا تو ہم جیسے بہت سارے ملازمین کو خوشی ہوئی تھی کہ اب کی تبدیلی آئی ہی آئی .. لیکن .. تبدیلی آئی ہے لیکن ہم جیسے دو ٹکے کے ملازمین کیلئے. بڑے بڑے افسروں کیلئے کوئی تبدیلی نہیں آئی..
آپ بھی سوچ رہی ہونگی کہ اس خط کا آغاز ہی کرپشن پر ہوا ہے لیکن.. میں اپنی فرض سمجھ کر آپ کو آگاہ کررہا ہوں..کہ سپورٹس کے شعبے میں وفاق کی سطح پر کام کرنے والے پی ایس بی کوچنگ سنٹر پشاور میں کرپشن کیسے ہورہی ہیں -
جناب محترمہ فہمیدہ مرزا صاحبہ..
یہ خط میں آپ کو اس لئے بھیج رہا ہوں کہ آپ اس کی انکوائری کریں کہ کون کون اس کرپشن میں ملوث ہیں میں ایک معمولی ملازم ہوں اگر اعلی افسران کو میری اس جسارت کا پتہ چل گیا کہ میں اس کے پیچھے ہوں تو پھر میری خیر نہیں نہ میری ملازمت کی خیر ہے لیکن.. آپ سے گزارش ہے کہ اس کی انکوائری کروائیں ' نیب سے کرواتی ہیں ' انٹی کرپشن سے کرواتی ہیں ' محکمے کے لوگوں سے کرواتی ہیں یا خود آکر چیک کرتی ہیں تو آپ کو اندازہ ہو جائیگا کہ کس طرح قومی خزانے کو ٹیکہ لگایا جارہا ہے..او ر ٹیکہ لگانے والے اسی ادارے کے اپنے ہی ہیں..
محترمہ فہمیدہ مرزا صاحبہ..
سکواش پاکستان کے ٹاپ کھیلوں میں سے ایک کھیل ہے لیکن اس کھیل کیساتھ کیا کیا ہورہا ہے اور اس کے نام پر کیا کیا جارہا ہے یہ بھی کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں. کیا آپ کو پتہ ہے کہ اس کھیل کی آڑ میں سب سے زیادہ انسانی سمگلنگ کی گئی - ایسے لوگ سکواش کے نام پر یورپ نکال دئیے گئے جنہیں ریکٹ تو کی سکواش کا پتہ نہیں تھا' کچھ کھلاڑیوں کے نام پر اور کچھ کوچز کے نام پر... اگر آپ کو یقین نہیں آتا تو سکواش کے متعلقہ فیڈریشن سے ان تمام افرادکی فہرست منگوا لیں جو مقابلوں کیلئے پاکستان سے نکالے گئے ان سے بھاری رقوم لی گئی اور پھر وہ واپس نہیں آئے - انہی افراد کی وجہ سے نہ صرف پاکستان کی بدنامی ہوئی بلکہ اب تو سکواش کے کھلاڑیوں پر اعتبار کرنے کو تیار ہی نہیں کوئی ویزہ نہیں ملتا.
اپنے پیاروں کو ڈالر ' یورو کمانے کے چکر میں نکلوانے کے اس عمل میں بہت سارے لوگ ملوث ہیں - اتنے بڑے بڑے نام کہ آپ ان کے نام دیکھ کر بھی حیران ہونگی کہ" شکل مومناں اور کرتوت.. اتنے کالے...کہ کالا بھی شرما جائے کہ میں اتنا کالا نہیں ہوں ..
محترمہ فہمیدہ مرزا صاحبہ..
پاکستان سپورٹس بورڈ نے سکواش کی بہتری کیلئے کھلاڑیوں کیلئے پی ایس بی پشاور میں ایک اکیڈمی کئی سال قبل قائم کی تھی جس کے ممبران کیلئے ریکٹ ' شوز اور بال تک وفاق خود فراہم کرتا تھا کیونکہ یہ مہنگا کھیل ہے تاکہ کھلاڑی اس طرف آئے لیکن بڑے بڑے افسران نے ٹھیکوں کی مدمیں لاکھو ں روپے من پسند افراد کو ٹھیکے دیکر کمیشن لئے . غیر معیاری چیزیں لی گئی اور مزے کی بات کہ تقسیم بھی نہیں کی گئی اور اگر کی گئی تو چند ہی ریکٹ ' شوز اور دیگر سامان.. زیادہ تر سامان افسران کے نام پر نکالا گیا . کوئی یہ نہیں پوچھتا کہ کھلاڑیوں کیلئے آنیوالا سامان کہاں پر جارہا ہے کاغذات میں کھلاڑیوں کو ملتا رہا لیکن.. کسی سے یہ پوچھنے کی ہمت نہیں کی کہ کونسا کھلاڑ ی سکواش کے میدان میں آگے آیا جو اس اکیڈمی میں تربیت لیتا رہا .. کوئی بھی نہیں. یہ شکر ہے کہ کچھ عرصہ قبل آڈٹ ہوئی اورآڈٹ میں یہ سب کچھ نظر آگیا . مفت سامان کی فراہمی کا سلسلہ رک گیا لیکن ذمہ دار کون تھا اس کا تعین آج تک نہیں ہوسکا. کیونکہ.بڑے بڑے مگر مچھ ملوث تھے...
محترمہ ..
پی ایس بی پشاور میں یہ اکیڈمی آج بھی چل رہی ہیں لیکن اس میں کتنے کھلاڑی تربیت حاصل کررہے ہیں یہ کسی کو نہیں پتہ . اصل میں تعداد پینتیس کھلاڑی روزانہ ایک بجے سے رات گئے تک تربیت حاصل کرتے ہیں لیکن کاغذات میں پندرہ کھلاڑی ظاہر کئے جارہے ہیںاوران سے فیس وصول کی جارہی ہیں اور یہ فیس بھی کھلاڑیوں سے حصہ بقدر جثہ کے نام پر لی جاتی ہیں. کوئی یہ پوچھنے کی ہمت نہیں کرسکتا کہ اگر پی ایس بی نے ممبرشپ کارڈ بنایا ہے تو پھر پیسے کیوں وصول کئے جارہے اور اگر پیسے وصول بھی کئے جارہے تو کتنے کھلاڑیوں سے . یہ وہ سوال ہے جس کی انکوائری کرنے کی ضرورت ہے اصل تعداد سے زائد افراد سے وصول کی جانیوالی رقم کہاں پر جارہی ہیں-یہ وہ سوال ہے جس کا جواب میرا جیسا کمزور ملازم نہیں دے سکتا.. ہاں کبھی کبھار ملازمین کا منہ بند رکھنے کیلئے انہیں سموسے کھلائے جاتے ہیں. باقی آپ خو د سمجھدار ہیں.
محترمہ فہمیدہ مرزا صاحبہ..
پی ایس بی پشاور کوچنگ سنٹر میں کوچنگ کرنے والا کون سرکار کا ملازم ہے اور وہ کوچنگ کتنی دیر کرتا ہے یہ وہ سوال ہے جو آپ خود آکر سکواش اکیڈمی میں کرسکتی ہیں کہ گذشتہ کئی سالوں سے سکواش تربیت کے نام پر تنخواہ کون لے رہا ہے اور تربیت کون دے رہا ہے .کیا سرکار کی اکیڈمی میںکوئی پرائیویٹ شخص آکر تربیت دے سکتا ہے اور اپنے لئے رقوم وصول کرسکتا ہے. حالانکہ سرکار کی طرف سے بھی کوچ کو بھاری بھر کم مشاہرہ ادا کیا جارہا ہے ..
محترمہ ..
آپ کسی دن آکر چیک کریں ' نیب والوں بھیج دیں ' انٹی کرپشن والوں کو بھیج دیں لیکن خدارا غیر جانبدار. سموسے کھا نے والے نہیں .. کہ غریب آدمی کا بیٹا اگر سکواش کھیلنے کیلئے اکیڈمی آجائے تو پھرانکے ساتھ کیا سلوک کیا جاتا ہے اور بڑے بڑ ے نام نہاد لوگوں کے بیٹوں کو کتنے وی آئی پی پروٹوکول میں تربیت دی جاتی ہیں.. لیکن.
یہ بھی اللہ کا کرم ہے کہ بڑے بڑے ناموں والے افراد جس طرح غریبوں کے بچوں کیساتھ ڈرامے کرتے ہیں اللہ تعالی ان کے بچوں سے نکال رہا ہے لیکن انہیں سمجھ نہیں آتی . اگر یقین نہیں آتا تو آپ خود فہرست دیکھ لیں کہ کتنے بڑے آدمی کا بیٹا آج کس پوزیشن میں ہے..
میرے اس خط کا مقصد آپ کوآگاہ کرنا تھا آپ خود انکوائری کروائیں ' ایسی انکوائریں جس میں پشاور سمیت اسلام آباد کے صحافی بھی ہوں ' افسران بھی ہوں ' پولیس والے بھی ہوں تو آپ کو پتہ لگ جائیگا کہ کس طرح آپ کو بھی چونا لگایا جارہا ہے.
انشاء اللہ آپ کو مستقبل میں آگاہ کرنے کیلئے خطوط کا یہ سلسلہ جاری رہیگا.

العارض

ایک معمولی ملازم

Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 636 Articles with 498144 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More