حیات آباد سپورٹس کمپلیکس اور سیاست کا بڑا کھیل’کھیل میدانوں میں نہیں فائلوں میں ہوگا“

حیات آباد کے پوش ایریا میں واقع سپورٹس کمپلیکس کو ہمیشہ نوجوان کھلاڑیوں کا خواب سمجھا جاتا تھا۔ یہ وہ جگہ تھی جہاں صبح دوڑتے ہوئے جوتوں کی آواز آتی تھی، شام پنجابی گانے یا پشتو بیٹ پر فٹنس کلاس ہوتی تھی اور کسی کونے میں ٹیپ بال میچ والی تکرار ”اوئے تھرڈ امپائر کو بلاو“ سنائی دیتی تھی۔ کھلاڑیوں کا اس گراو¿نڈ سے رشتہ جذباتی تھا۔ وہ اسے میدان نہیں اپنا مستقبل سمجھتے تھے۔ مگر اب مستقبل بھی تین دن کے نوٹس پر معطل کیا جا سکتا ہے۔سات دسمبر کو یہاں ایک بڑا سیاسی جلسہ ہونے جا رہا ہے۔ حیرت کی بات یہ نہیں کہ جلسہ کیوں ہو رہا ہے۔ اصل مزے کی بات تو یہ ہے کہ صوبائی حکومت کچھ عرصہ پہلے ایک انتظامی مراسلہ جاری کر چکی تھی، جس کے مطابق یہ گراونڈ سیاسی مقاصد کے لیے استعمال نہیں ہوگا۔ لیکن شاید مراسلے بھی ہوا میں تیر کی طرح ہوتے ہیں۔ جس طرف کی ہوا چل رہی ہو ادھر ہی مڑ جاتے ہیں۔

اب گراونڈ تین دن بند رہے گا۔ پہلے دن جلسے کی تیاری۔ دوسرے دن جلسہ۔ تیسرے دن سامان لپیٹنے کا مرحلہ۔ یعنی کھیلوں کی دنیا بند اور فیصلے کی دنیا کھلی۔ کھلاڑیوں کے خوابوں پر کرسیاں سجیں گی۔ سبز گھاس پر پاوں نہیں بلکہ لوہے کے اسٹینڈ رکھے جائیں گے۔ اور اگر بارش ہوگئی تو جلسے کے شرکا تو چھتر لے کر نکل جائیں گے مگر گراونڈ کئی دن روئے گا کہ اس کی مرمت کون کرے گا اور کب کرے گا۔ اس نقصان کا کوئی حساب تو کتاب میں ہوگا مگر فائلوں میں نظر نہیں آئے گا۔سوال یہ ہے کہ کھلاڑیوں کا قصور کیا ہے۔ حیات آباد جیسے علاقے میں بھی جائیں تو لوگ کہتے ہیں یہاں کے کھیلوں کے لیے سہولیات بہتر ہوں گی۔ مگر حقیقت سامنے آکر منہ چڑا رہی ہے کہ یہاں بھی فیصلہ کرسیوں کا ہو رہا ہے۔ نوجوان کھلاڑی اگر پوچھیں کہ میچ کب ہوگا تو جواب ملتا ہے ”جلسے کے بعد دیکھا جائے گا“ جیسے کھلاڑی کوئی واقعہ ہوں اور جلسہ اصل کھیل۔

سوال یہ بھی ہے کہ اس ساری داستان میں بیوروکریسی کس صف میں کھڑی ہے۔ کہیں مجبور۔ کہیں خاموش۔ کہیں سر جھکائے۔ کہیں فائل اور حکم نامہ کے درمیان جیت سیاستدانوں کی ہو جاتی ہے اور اصول کتابوں میں رہ جاتے ہیں۔ یہ بھی بڑا دلچسپ کھیل ہے کہ محکمہ کھیل میں گزشتہ ایک سال میں کم از کم پانچ سیکرٹری تبدیل ہو چکے ہیں۔ کچھ بغیر وجہ آئے۔ کچھ بغیر وجہ رخصت ہوئے۔ کسی نے پوچھا ہی نہیں کہ میرا قصور کیا ہے۔ شاید ان کا قصور یہی تھا کہ وہ اصولوں کی بات کرتے تھے اور اصول اس دور میں فیشن کی طرح ہیں۔ جب چاہا بدل دیے۔ جب چاہا بھلا دیے۔

گریڈ بیس کے افسر جب خود حیران ہوں کہ میرا اگلا ہفتہ اس دفتر میں ہوگا یا نہیں تو پھر نیچے کام کرنے والے اہلکار کس تال پر کام کریں۔ عملہ خود بتاتا ہے کہ نیا سیکرٹری آئے تو پہلے ہفتے بریفنگ دیتے ہیں۔ دوسرے ہفتے وزٹ۔ تیسرے ہفتے پلان۔ چوتھے ہفتے ایک آدھ میٹنگ۔ اور پانچویں ہفتے نوٹیفکیشن آ جاتا ہے کہ شکریہ آپ نے خدمات انجام دیں۔ جیسے وزارت کے دروازے پر بورڈ لگا ہو ”یہاں ہر مہمان پانچ ہفتے کا ہے“۔یہ سلسلہ پچھلے ایک سال سے جاری ہے۔ اس دوران کھیلوں کے میدانوں کی حالت پر کبھی کوئی سنجیدہ میٹنگ نہیں ہوتی۔ کبھی کسی سینئر افسر نے یہ پوچھنے کی جسارت نہیں کی کہ نوجوان کھلاڑیوں کی تربیت کا کیا بنا۔ ان کے کیمپ کہاں ہیں۔ ان کے کوچ کہاں ہیں۔ بجٹ کا استعمال کیسے ہوا۔ گراونڈ کتنے فعال ہیں۔ کھیلوں کے مواقع بڑھ رہے ہیں یا کم ہو رہے ہیں۔

یہاں تو حال کچھ یوں ہے کہ حکومت کرنے والے بھی صوبے کو کھیل سمجھ کر چلا رہے ہیں۔ سیاسی کیمپ لگتے ہیں تو سپورٹس کیمپ اتروا دیے جاتے ہیں۔ اعلانات میدان سے زیادہ سوشل میڈیا پر ہوتے ہیں اور کامیابیاں پوسٹوں میں زیادہ اور حقیقت میں کم ہوتی ہیں۔ایک عام شہری پوچھتا ہے کہ جب کھیلوں کے لیے بنایا گیا گراونڈ سیاست کے لیے استعمال ہوگا تو پھر کھیل کہاں ہوگا۔ گلیوں میں۔ چھتوں پر۔ پارکنگ ایریاز میں۔ جب مستقبل کے فاسٹ بولر کو پچ کے بجائے کیچڑ ملے گا تو پھر قومی ٹیم میں فاسٹ بولر کہاں سے آئیں گے۔ جب ایتھلیٹ کو ٹریک کے بجائے تار کٹے میدان ملے گا تو پھر میڈل کیسے آئے گا۔ اگر میدانوں میں تقریریں ہوں گی تو پھر تعلیمی اداروں میں کھیلوں کی وجہ سے چھٹیاں کیوں ہوں گی۔

سیاست اپنے مقام پر۔ کھیل اپنے مقام پر۔ دونوں کی اپنی اہمیت ہے۔ مگر جب کھیل سیاست کی سیڑھی بن جائے تو پھر کھیل کا مزاج بدل جاتا ہے۔ دنیا میں سپورٹس نیشن امیج بدلتی ہیں۔ معیشت کو فائدہ ہوتا ہے۔ ٹورزم بڑھتا ہے۔ نوجوان محفوظ سرگرمیوں میں حصہ لیتے ہیں۔ اور یہاں ابھی تک یہ طے ہو رہا ہے کہ گراونڈ پر کرسیوں کی ترتیب کون کرے گا۔سچی بات یہ ہے کہ کھلاڑیوں کو نہیں پتا وہ کس جرم کی سزا پا رہے ہیں۔ شاید ان کا جرم یہ ہے کہ وہ امید رکھتے ہیں۔ شاید ان کا جرم یہ ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کھیل ایک عزت والا شعبہ ہے۔ شاید ان کا جرم یہ ہے کہ وہ ہر صبح سپورٹس کمپلیکس کی طرف دیکھ کر مستقبل کا خواب سجاتے ہیں۔ اور حکومت کو خواب دکھانا پسند ہے مگر خواب پورے کرنا عادت نہیں۔

ہمارے یہاں کھیل کو سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا۔ جب حکومتی سطح پر پریس کانفرنس زیادہ ہوں اور کھیل کی ترقی پر رپورٹس کم ہوں تو سمجھ لیں میدانوں پر نہیں زبانوں پر کھیل ہو رہا ہے۔ اور یہ کھیل آنے والی نسلوں کو بھاری پڑے گا۔ ہم اپنی نوجوان نسل کو کھلاڑی نہیں تماشائی بنا رہے ہیں۔ وہ صرف دیکھیں گے۔ سکرین پر تالیاں بجائیں گے۔ مگر میدان خالی رہے گا۔جب سپورٹس بجٹ کا بڑا حصہ فائلوں میں گم ہو جائے۔ منصوبے اعلانوں میں اٹک جائیں۔ اور ترقی صرف بینرز میں دکھائی دے تو پھر کون سا والد اپنے بچے کو مشورہ دے گا کہ بیٹا کھیل میں مستقبل ہے۔ اس کے برعکس کہا جائے گا کہ پڑھ لو۔ سیاست میں آ جاو¿۔ کم از کم گراونڈ تو تمہارے لیے بند نہیں ہوں گے۔

گراونڈ بند کرنے سے نوجوانوں کا اعتماد مجروح ہوتا ہے۔ ایک کوچ کہتا ہے کہ کھلاڑیوں کو ریتم ٹوٹنے کا نقصان ہوتا ہے۔ دوسرے کہتے ہیں کہ بریک کھیل کو کمزور کرتا ہے۔ فٹنس کھو جاتی ہے۔ ڈسپلن ختم ہو جاتا ہے۔ ایک مہینے کی محنت کبھی کبھی ایک دن کی رکاوٹ سے برباد ہو جاتی ہے۔ مگر یہ بات کون سمجھائے اور کس کو۔ہماری بحث جذباتی نہیں۔ یہ حقیقت ہے۔ جب ایک شعبے کی سربراہی بار بار بدلی جائے تو پالیسی نہیں بنتی۔ سسٹم مضبوط نہیں ہوتا۔ ذمہ داری طے نہیں ہوتی۔ آنے والے وقت میں جب ریاست کو کھیلوں کی مدد سے عالمی سطح پر شناخت چاہی ہوگی تو یاد رکھنا ہوگا کہ ہم نے کبھی اپنے میدان سنبھالے نہیں۔ یہاں کھیلوں کی پالیسی کم اور سیاسی مداخلت زیادہ رہی۔

اگر حکومت واقعی چاہتی ہے کہ نوجوانوں کو سہولت ملے تو پھر سپورٹس کمپلیکس کو سپورٹس کے لیے چھوڑ دیں۔ سیاست کے لیے ہزاروں جگہیں ہیں۔ ہال ہیں۔ پلازے ہیں۔ میدان ہیں۔ سٹیڈیم کم ہیں۔ انہیں بچا لیں۔ خدارا کھیل کو کھیل رہنے دیں۔حیات آباد سپورٹس کمپلیکس صرف ایک گراو¿نڈ نہیں۔ یہ مستقبل کی نسلوں کا میدان ہے۔ اگر آج یہاں کرسیاں رکھ کر اسے سیاست کا مرکز بنا دیا گیا تو کل نوجوانوں کے پاس صرف تصاویر رہ جائیں گی۔ گراونڈ تب بھی ہوگا مگر کھیل ختم ہو چکا ہوگا۔

#SportsNotPolitics #ProtectPlaygrounds #AthletesRights #SaveSportsKP #PublicSpacesMatter #SportsForYouth #StopPoliticalUse #FutureOfSports #KhyberPakhtunkhwaSports #SportsMismanagement

Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 873 Articles with 704042 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More