سعادت حسن منٹو اور روح اللہ خمینی

معاشرے میں ناسوروں خاتمے کیلئے بڑے پیمانے پر جدوجہد کی ضرورت ہے

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔
منٹو کو معاشرے کی برائیاں آشکار کرنے والا کہنے والوں کے سامنے جب صہیونیوں کی عالمی بدمعاشیاں آشکار کی جاتی ہیں تو کیوں مضحکہ اڑاتے ہیں؟

حقیقت یہ ہے کہ سازشی افکار و اسٹریٹیجیز کو آشکار کرنے والا ایک وقت پر خود اس کا شکار ہوجاتا ہے۔ منفیات کو آشکار کرنے کیلئے اس کی حقیقت کیلئے تحقیق کرنے والے کیلئے خود منفیات سے بچے رہنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ اینٹی نارکوٹکس پولیس کے لوگ اکثر خود نارکوٹکس کے کاروبار میں شامل ہوتے ہیں۔ اکثر فلاحی ادارے کھول کر مستحقین کی امداد کے بہانے خود اپنی امداد اور جیب پری کررہے ہوتے ہیں۔ مثبت دیکھنے کی نصیحت ماہرین نفسیات اور مذہبی افراد اسی وجہ سے کرتے ہیں۔۔۔۔تاکہ خود کو منفی اثرات سے بچائے رکھیں۔

اکثر انسان کے حساس مزاج صفات کا فایدہ اٹھا کر کرپٹ افراد اپنی نفسانی یا مادی تسکین کررہے ہوتے ہیں۔۔۔۔

منٹو اور عصمت چغتائی یا اس قبیل کے دیگر محرر معاشرے کے صرف ایک فساد یا دو فساد کے خلاف کیوں ہوتے ہیں مثلا یا تو عورت کے استحصال یا پھر غریب, مستحصل اور مادی لوازمات سے محروم ناداروں مزدوروں وغیرہ کے مقابلے پر تمام مردوں, امیروں دولت مندوں وغیرہ کو ہدف تنقید بناتے ہیں۔۔۔
جبکہ حقیقت یہ ہے کہ آٹھارویں صدی کے اواخر سے عالمی سطح پر تمام شعبہ ہائے حیات میں منظم طور کرپشن دھوکہ فریب ذلالت قتل بے غیرتی وغیرہ کو فروغ دینے کی ابتدا ہوئی۔۔۔

ایک تاریخی کرپٹ اور بدیانت ٹولے نے منظم عالمی فساد کی بنیاد رکھی۔۔۔
کہنے کی بات یہ ہے کہ ایکسپوز کرنا ہے اور سچائی اور حقیقت کے نام پر چونا لگانا مقصود نہیں تو اس اٹھارویں صدی سے شروع کی گئی اس منظم فسادی گروہ کی سیاسی علمی معاشی جنسی سائنسی تہذیبی ابلاغی بینکی وغیرہ ہر فساد اور کرپشن کو ایکسپوز کیا جائے صرف عورت کے جنسی استحصال اور غریب کی روٹی چھن جانے کے خلاف ہی کیوں۔۔۔؟؟

باقی شعبہ ہائے حیات پر کیوں نہیں۔۔۔۔ کرہ ارض کی 90 فیصد آبادی جس کا شکار ہے۔۔۔۔۔

بچوں کا جنسی علمی طفلانہ استحصال, بزرگوں سے بے اعتنائی برت کر استحصال, علم کے نام پر جھوٹ پھیلا کر علم و دانش کا استحصال, سائنسی اور فکری ترقی کے بہانے خاص کاروباروں کا فروغ اور نوے فیصد عالمی سماج کا استحصال, ابلاغیات میں خاص ٹولے کے مفادات کا تحفظ کرکے صحافت کا استحصال, صحت کے نام پر بیماریاں پھیلا کر شعبہ طب کا استحصال, انٹرٹینمنٹ کے نام پر مبتذلات اور شہوانی محرکات پیدا کرکے تفریح کا استحصال, بزنس اور کاروبار کے نام پر اشتہارات اور ایڈورٹائزمنٹ سے بے سروپا ضروریات پیدا کرکے غریبوں کی جیبوں کا ایک استحصال, دولت کو چوری اور ڈاکے سے تحفظ کے بہانے بینک قائم کرکے دولت کا استحصال, خرید و فروخت کو منظم کرنے کیلئے کاغذی کرنسی کے بہانے خفیہ سرقہ(ربا) کرنا اور غریبوں کی جیبوں کا ایک اور استحصال وغیرہ وغیرہ

کیا آج انفارمیشن کے دور میں کوئی ہے جو منٹو کی نفسانی اور مادی تسکین کے بجائے ظالم اور فسادی گمراہ کن فسادی صہیونی ٹولے کو ایکسپوز کرے، چنگیزیوں، جہانگیریوں، صدامیوں، ضیاء کی ضیاع کاریوں، روتھ شیلڈوں، روک فیلروں کی بدمعاشیوں کو آشکار کرے اور عالمی معاشرے کا درد اور اذیت سے دنیا کی اس اشرافیہ کی طرف توجہ مبذول کرائے جن کے درد مند دلوں میں کوئی بدھا کی طرح کا نوجوان ہو یا جو 79 کے خمینی کی طرح عالمی استکبار کو تہس نہس کردے اور مظلوموں ناداروں بے سکوں محروموں کو ان کے حقوق واپس دلاسکے۔۔۔؟؟؟!!!!

سید جہانزیب عابدی
About the Author: سید جہانزیب عابدی Read More Articles by سید جہانزیب عابدی: 68 Articles with 57777 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.