علامہ سیماب اکبرآبادی
(shabbir Ibne Adil, Karachi)
|
تحریر: شبیر ابن عادل نامور اور قادر الکلام شاعرسیماب اکبر آبادی کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے قرآن کریم کا اردو زبان میں منظوم ترجمہ کیا ، اس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی ۔ وہ 5 جون 1882کو آگرہ میں پیدا ہوئے اور 31جنوری 1951 کو کراچی میں انتقال ہوا۔ میں نے جب سے ہوش سنبھالا ، تب سے سیماب صاحب کے صاحبزادے مظہر صدیقی انکل کو اپنے گھر آتے جاتے دیکھا ، وہ میرے ابو عادل جہانگیری کے بہت قریبی دوست تھے چونکہ ان دونوں کا تعلق تصنیف تالیف سے تھا۔ اس لئے پاکستان ہجرت کے بعد ہی سے مظہر صاحب کی میرے ابو سے دوستی ہوگئی تھی۔ اس کے بعد انہوں نے اپنے والد کی کئی کتب دوبارہ شائع کیں ، علامہ سیماب کےچار صاحبزادے اور دو صاحبزادیاں تھیں ۔مجھے ان کی دیگر اولادوں کا تو علم نہیں، لیکن اعجاز صدیقی اور منظر صدیقی اپنے والدین کے ساتھ پاکستان نہیں آئے بلکہ آگرہ سے بمبئی چلے گئے تھے۔ ہمارا رابطہ مظہر صدیقی ہی سے رہا ۔ جنہیں ہم لوگ انکل کہا کرتے تھے۔ پھر میرے والد سے ان کا تعلق رشتے داری میں بدل گیا ۔ جب 30 جولائی 1983 کو مظہر انکل کے صاحبزادے خرم سعید صدیقی سے میری ہمشیرہ کی شادی ہوگئی۔ مظہر صدیقی صاحب اپنے والد کی کتب کے ری پرنٹ شائع کرنے کے علاوہ ہر سال ان کی برسی کے موقع پر سمینار یا کانفرنس کا اہتمام کیا کرتے تھے۔ جس میں میں نے بھی متعدد مرتبہ شرکت کی ۔ سیماب اکبر آبادی بلا شبہ ایک بڑے شاعر تھے، ان کا ایک شعر مجھے ابھی تک یاد ہے سیماب لفظ لفظ اترتا ہے عرش سے میری کتاب شعر ، خدا کی کتاب ہے ان کا اصل نام عاشق حسین صدیقی تھا۔ان کے والد، محمّد حسین صدیقی بھی شاعر اور حکیم امیرالدین عطار اکبرآبادی کے شاگرد اور ٹائمز آف انڈیا پریس میں ملازم تھے۔ علامہ سیماب کہا کرتے تھے کہ ان کا سلسلہ نسب حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے جاملتا ہے۔ ان کے آبا واجداد مغل شہنشاہ جہانگیر کے دور میں بخارا سے ہجرت کرکے آئے اور آگرہ میں آباد ہوگئے۔ تاہم موہن لعل کے مطابق ان کے آبا واجداد شہنشاہ اورنگزیب عالمگیر کے دور میں بخارا سے ہجرت کرکے آئے تھے۔ سیماب نے فارسی اور عربی کی تعلیم جمال الدین سرحدی اورمولانا رشید احمد گنگوہی سے حاصل کی۔ گورنمنٹ کالج اجمیر سے الحاق شدہ برانچ اسکول سے میٹرک کیا۔ 1897 میں 17 سال کی عمر میں والد کا انتقال ہو گیا جس کی وجہ سے ایف اے کے آخری سال میں تعلیم ادھوری چھوڑ دی۔ 1898 میں ملازمت کے سلسلے میں کان پور گئے اور وہیں فصیح الملک داغ دہلوی کی شاگردی اختیار کی جو شاعر مشرق علامہ اقبال کے بھی استاد تھے۔ 1900 میں سکینہ بیگم سے شادی ہوئی۔ دیوہ شریف میں حاجی حافظ سید وارث علی شاہ کے دست مبارک پر بیعت کی۔ 1921 میں ریلوے کی ملازمت چھوڑ کر آگرہ میں مستقل سکونت اختیار کرلی اور قصر ادب کے نام سے ادبی ادارہ قائم کیا۔ ملازمت کے دوران ماہنامہ مرصع، ماہنامہ پردہ نشین اور آگرہ اخبار کی ادارت کے فرائض انجام دیتے رہے۔ قصر ادب ادارے سے ماہنامہ پیمانہ جاری کیا۔پھر بیک وقت ماہنامہ ثریا، ماہنامہ شاعر، ہفت روزہ تاج، ماہنامہ کنول، سہ روزہ ایشیا شائع کیا۔ ساغر نظامی جو سیماب اکبر آبادی کے شاگرد تھے وہ بھی قصر ادب سے وابستہ رہے۔ ان کی لکھی کتابوں کی تعداد 75 ہے جس میں 22 شعری مَجمُوعے ہیں جن میں "وحی منظوم" بھی شامل ہےجس کی اشاعت کی کوشش میں وہ اپنے اہل خانہ کے ہمراہ 1949میں ہجرت کرکے پاکستان کے شہرکراچی تشریف لے آئے ۔ انہیں وحی منظوم شائع کرنے کا موقع نہیں مل سکا،پاکستان ہجرت کے کچھ عرصے بعد وہ بیمار پڑے اور دوسال کے اندر ان کا انتقال ہوگیا۔ لیکن ان کے صاحبزادے مظہر صدیقی نے یہ کام مکمل کیا۔ انہوں نے اپنے عظیم والد علامہ سیماب کی وحی منظوم کو ہجرہ ایوارڈ دلوانے کے لئے بہت تگ و دو کی ، اس سلسلے میں اسلام آباد کے کئی چکر لگائے۔آخرکار اس وقت کے صدر جنرل محمد ضیاء الحق نے 1981 میں پندرہویں صدی ہجری کے موقع پر وحی منظوم کو بھی ایوارڈ دیا۔ جس دن ایوارڈ ملا، اس کی خبر پاکستان ٹیلی ویژن پر چلی تھی۔ ہندؤوں کی مذہبی کتاب بھگوت گیتا کے کچھ حصوں کا منظوم ترجمہ کرشن گیتاکے نام سے کتابی شکل میں شائع کیا۔ انیس سو چوالیس کے شروع میں قرآن مجید کا منظوم ترجمہ کرنے کا بیڑا اٹھایا اور دس ماہ میں منظوم ترجمہ مکمل کر کے علما کی خدمت میں پیش کر دیا۔ سپاروں کا ترجمہ ایک ہی بحر میں منظوم کیا گیا حاشیہ پر ضروری تشریح دی گئی علما کے تعریفی کلمات کتاب کے آخر میں شامل کیے گئے قرآن مجید کا یہ منظوم اردو ترجمہ "وحی منظوم" کے نام سے مشہور ہوا۔ 1892 سے شعر گوئی شروع کردی تھی اور داغ دہلوی کی شاگردی اختیار کرلی تھی۔ ان کا پہلا مجموعہ کلام نیستاں 1923 میں شائع ہوا تھا ۔ 1936 میں دیوان کلیم عجم شائع ہوا اور اسی سال نظموں کا مجموعہ کار امروز منظر عام پر آیا۔ علامہ سیماب کے درجنوں شاگرد تھے جن میں راز چاند پوری، ساغر نظامی، ضیاء فتح آبادی، بسمل سیدی، الطاف مشہدی اور شفا گوالیوری کے نام قابل ذکر ہیں۔ سیماب اکبر آبادی کو تاج الشعرا ءاورناخدائے سخن بھی کہا گیا۔ داغ دہلوی کے داماد سائل دہلوی سیماب کو جانشینِ داغ کہا کرتے تھے۔ وہ جس عہد میں سانس لے رہے تھے اس عہد اور اس زمانہ میں انسان مختلف قسم کے مسائل سے دوچار تھا ۔غلامی کا طوق گلے میں تھا عزت وقار ، خاندانی روایات اور قدریں دم توڑتی نظر آرہی تھیں ۔ روزی روٹی کا مسئلہ عفریت کی طرح سامنے کھڑا تھا ۔ انقلابی طاقتیں بھی سر ابھار رہی تھیں ۔ان حالات میں ہمارے شعراء جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ وقت کا نباض ہوتا ہے ۔ وہ حسن و عشق ، جام و صبواور شمع و پروانہ کی باتیں اپنی غزلوں میں کررہے تھے ۔ اس امر کو ایک حساس شاعر کیونکر برداشت کرسکتا تھا۔ اس لئے سیمابؔ یہ کہنے پر مجبور ہوئے کہ ''ایک شاعر اگر اسے اپنے فرض کا احساس ہے اور وہ زمانہ کا نبض شناس ہے توہزاروں نبرد آزما جوانوں سے بہتر ہے"۔ سیمابؔ ہمیشہ شاعری میں صحت مند رویے کے پیرو کا ر رہے اور وہ چاہتے تھے کہ وہ دوسرے شعراء خواہ وہ ان کے ہم عصر ہوں یا ان کے شاگرد ، شاعری میں حسن و عشق ، گل و بلبل، شمع و پروانہ اور جام وصبو وغیرہ جیسے پرانے اور روایتی موضوعات کو جگہ دے کر صرف تفریح کا ذریعہ نہ بنائیں بلکہ وقت کے اہم تقاضوں کو سمجھیں اور بلند خیالی اور بلند نگاہی کے ساتھ ساتھ اپنے مشاہدے اور مطالعے کا ثبوت دیتے ہوئے اول درجہ کی شاعری کا نمونہ پیش کریں اور شاعری کے وقار اور عظمت کو بلند کریں ۔ گیا (بہار) میں 24 دسمبر 1922ء کے ایک مشاعرے میں اپنے پہلے خطبہ میں سیمابؔ نے ان ہی باتوں کی جانب اشارہ کیا تھا۔ "اردو شاعری کی اجزائے ترکیبی جب تک صرف گل و بلبل ، شمع و پروانہ ، سرو قمری اور شانہ و زلف سے وابستہ رہے ، شاعری کو صرف تفریح کی خاطر ایک ذریعۂ مسرور سمجھی گئی ۔ لیکن قدرت نے لکھنؤ، دہلی اور پانی پت کے بعض فاضل عمائدین کے دماغ کو انوار شاعری سے تجلی کرکے دنیائے سخن کی فضائے بسیط پر رشد و ہدایت کی بجلیاں چمکائیں"۔ لیکن ایسی بات بھی نہیں کہ ایسی شاعری جس کے سیماب مخالف تھے ، صرف غزلوں میں ہی پائی جاتی تھیں ۔ بلکہ اس زمانے کی نظموں میں بھی اسی طرح کے اظہار جگہ پاتے تھے۔پھر بھی غزل کی مقبولیت میں کمی نہیں آئی ۔جس کی وجہ وہ اس سلسلے میں برابر تذبذب میں مبتلا رہے اور خود بھی خوب سے خوب تر غزلیں کہتے رہے۔لیکن اس احتیاط کے ساتھ کہ شگفتِ خاطر اے سیماب تھی جو شاعری پہلے طبیعت پر وہ اب اک بار سا معلوم ہوتی ہے ان کی غزلیں ’’کلیم عجم ‘‘ سدرۃ المنتہیٰ سے ’’لوح محفوظ‘‘ تک پہنچتے پہنچتے ان کے فکرو خیال کی بلندی ، احساسات و جذبات کی رنگا رنگی ، حیات و کائنات کی تنقید ، تفسیر اور تعبیر تمام تر فنی بالیدگیوں کے ساتھ نظر آنے لگی تھیں اور اپنے مخصوص اور منفرد لب و لہجہ کی وجہ کر اپنے ہم عصر شعراء میں بہت زیادہ شہرت اور مقبولیت حاصل کرچکی تھی ۔ جس سے ان کے ہم عصر شعرا ء کو حسد کا موقع ملا ۔ خاص طور پر ان کی غزل کا ایک شعر وہ سجدہ کیا رہے احساس جس میں سر اٹھانے کا عبادت اور بقید ہوش توہین ِعبادت ہے اس سے مخالفت بڑھی اور ان کے ہم عصروں کو موقع ملا کفر کا فتویٰ صادر کرنے کا۔لیکن سیمابؔ نے کبھی ان سب باتوں کی پرواہ کی اور نہ ان فضولیات میں پڑے ۔بلکہ اپنے فکر و فن ،احساس و جذبات ، مطالعہ و مشاہدہ سے اردو شاعری کا دامن بھرتے رہے۔ ’’کلیم عجم‘‘ اور سدرۃ المنتہیٰ ‘‘ سے ’’لوح محفوظ‘‘ تک سیماب ؔاکبر آبادی کی غزلیہ شاعری کا سفر خاصا طویل رہا ہے اور اس طویل سفر کا جائزہ لیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ آج جو غزلوں کا مزاج اور معیار بدلا ہوا دیکھنے کو مل رہا ہے اس کا کریڈٹ کسی حد تک سیمابؔ کو جاتا ہے کیونکہ سیمابؔ نے ہمیشہ ایسی غزلوں کی مخالفت کی جو صرف تفریح طبع کے لئے کی جاتی رہیں اور عصری مسائل اور عصری تقاضوں سے لا تعلق رہیں اس کے برعکس سیماب ؔنے اپنے ارد گرد کے حالات کا بغور مطالعہ و مشاہدہ کیا۔ اور انہیں اپنی غزلوں میں ایک نئے رنگ و آہنگ کے ساتھ پیش کیا ۔اسی لئے برسوں قبل کہے ہوئے سیمابؔ کے اشعار آج کے شاعرانہ مزاج کی نمائندگی کررہے ہیں ۔اس ضمن میں چند اشعار ملاحظہ فرمائیں کہانی میری روداد جہاں معلوم ہوتی ہے جو سنتا ہے اسی کی داستاں معلوم ہوتی ہے دبا رکھا تھا جس کو ضبط نے غربت کے سینے میں وہ شورش اب جہاں میں جابجا معلوم ہوتی ہے ٭ ہیں اب آزاد مثلِ نکہت و رنگ چمن ہم بھی وطن کو چھوڑ کر سمجھے ہیں مفہوم وطن ہم بھی ٭ جسے نہ تجربہ ہو رنج نا رسائی کا وہ کارواں ہیں میرے پیر کارواں نہ بنے ٭ کل کسی قافلے میں جن کا نہ تھا کوئی مقام آج وہ قافلہ سالار نظر آتے ہیں تغیرات ہیں مجھ میں بھی زندگی کی طرح کبھی کسی کی طرح ہوں ، کبھی کسی کی طرح ٭ بھلادوں کس طرح سیمابؔ صد سالہ تعلق کو مرا سرمایۂ ماضی ابھی ہندوستان میں ہے ٭ کہاں ہے سیمابؔ کا وہ دل اب جو اس کے پہلو میں جستجو کی گھٹا ہوا سا دھواں ملے گا ، اڑی ہوئی خاک میں ملے گی ٭ پھیلے تو یوں کہ چھاگئے کل کائنات پر سمٹے تو اس قدر کہ اک جاں میں رہ گئے ٭ نہیں جس میں تحمل مشکلات راہ منزل کا وہ پچھتائے گا اے سیمابؔ میرا ہم سفر ہوکر ٭ مجھے کیوں انقلاب حال پر سیمابؔ حیرت ہو کہ ایسے انقلاب آتے رہتے ہیں ہر زمانے میں ٭ شعر یوں کہتا ہے بے فکر و تکلف سیمابؔ جیسے اس شخص کو الہام ہوا کرتا ہے ٭ بہت سارے ایسے اشعار سیمابؔ کی غزلوں میں ملتے ہیں جو انقلابیت، وطن دوستی ، ترک وطن کا کرب، وطن کی یاد، دوستوں کی رفاقت ، حیات و کائنات کے اسرار ورموز ، خدا کیقدرت اور اس کی کرشمہ سازیاں وغیرہ جیسے اہم موضوعات میں رومانیت و اشاریت کا حسین امتزاج موجود ہیں۔ سیماب ؔکی ابتدائی غزلوں میں رومانیت اور مناظرِ فطرت کی ایسی کیفیات پوری شدت کے ساتھ ملتی ہیں ،جس میں جذباتیت بھی ہے اور احساس کی رنگینیاں بھی ۔لیکن عریانیت یا عامیانہ اور سطحی باتوں کا کہیں پر بھی دخل نہیں ہے۔ اس سے سیمابؔ نے ہمیشہ پرہیز کیا۔ وقت تنہائی میں مشکل سے کٹے تیرے وعدوں کا سہارا گر نہ ہو ٭ مطمح عشق کہاں حسن کم آویز کہاں آپ کرتے ہیں وفا ، شرم مجھے آتی ہے ٭ حُسن دنیا میں ہے جب تک باقی ترک دنیا مری نیّت میں نہیں ٭ کندن لعل سہگل نے علامہ سیماب کی غزلیں گا کر انہیں خراج عقیدت پیش کیا ، جسے خود کے ایل سہگل نے اپنے لئے اعزاز قرار دیا۔ علامہ سیماب اکبرآبادی نے شاعری کے علاوہ افسانہ نگاری کی، ناول ، ڈرامے، سوانح حیات اور تنقیدی مضامین بھی لکھے۔ انہیں اردو، فارسی اور عربی زبان و ادب کی عظیم اور قد آور شخصیت کی حیثیت حاصل ہے اور اس قدر ومنزلت میں وقت گزرنے کے ساتھ اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
|