نامور شاعر علامہ سیماب اکبر آبادی

اردو کے نامور شاعر علامہ سیماب اکبر آبادی

پیدائش: 5 جون 1880—
وفات: 31 جنوری 1951ء
اردو کے نامور اور قادرالکلام شاعر تھے۔
سیماب اکبرآبادی کی تاریخ پیدائش 5 جون 1880ءہے۔

علامہ سیماب اکبر آبادی آگرہ (اکبر آباد) میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کا اصل نام عاشق حسین صدیقی تھا۔ وہ شاعری میں داغ دہلوی کے شاگرد تھے مگر ایک وقت ایسا بھی آیا کہ خود ان کے ڈھائی ہزار تلامذہ ہندوستان بھر میں پھیلے ہوئے تھے۔

علامہ سیماب اکبر آبادی کو اردو، فارسی اور ہندی زبان کے قادر الکلام شعرا میں شمار کیا جاتا ہے ان کی تصانیف کی تعداد 300 کے لگ بھگ ہے۔ انتقال سے کچھ عرصہ قبل انہوں نے قرآن پاک کا منظوم ترجمہ وحی منظوم کے نام سے مکمل کیا تھا۔ 31جنوری1951ء کو علامہ سیماب اکبر آبادی انتقال کرگئے۔وہ کراچی میں قائداعظم کے مزار کے نزدیک آسودۂ خاک ہیں۔
تصانیف اور ادبی خدمات
قصرِ ادب ادارے سے ماہنامہ پیمانہ جاری کیا۔ پھر بیک وقت ماہنامہ ثریا، ماہنامہ شاعر، ہفت روزہ تاج، ماہنامہ کنول، سہ روزہ ایشیا شائع کیا۔ ساغر نظامی جو سیماب اکبر آبادی کے شاگرد تھے وہ بھی قصر ادب سے وابستہ رہے۔ ان کی لکھی کتابوں کی تعداد 284 ہے جس میں 22 شعری مَجمُوعے ہیں جن میں "وحی منظوم" بھی شامل ہے جس کی اشاعت کی کوشش 1949 میں ان کو پاکستان لے گئی جہاں کراچی شہر میں 1951 میں انکا انتقال ہوا۔

مثنوی روم کا منظوم اردو ترجمہ
مولوی فیروز الدین کی فرمائش پر مثنوی مولانا روم کا منظوم اردو ترجمہ شروع کیا جس کے لیے وہ لاہور منتقل ہوئے اور اپنا ادارہ قصرادب بھی لاہور ہی لے آئے۔ مثنوی مولانا روم کو فارسی سے اسی بحر میں اردو میں منظوم ترانے کام شروع کیا اور اس کا نام الہام منظوم رکھا تقریبا 45 ہزار اشعار 6 جلدوں میں ترتیب پائے۔ مولوی فیروز الدین کے بقول انہوں نے مثنوی روم کا منظوم اردو ترجمہ امیر مینائی سمیت کئی نامور شاعروں کے سپرد کرنا چاہا مگر یہ مشکل کام ان میں سے کسی کے بس کا نہ تھا۔

کرشن گیتا
ہندووں کی مذہبی کتاب بھگوت گیتا کے کچھ حصوں کا منظوم ترجمہ کرشن کیتا کے نام سے کتابی شکل میں شائع کیا۔

وحی منظوم
انیس سو چوالیس کے شروع میں قرآن مجید کا منظوم ترجمہ کرنے کا بیڑا اٹھایا اور دس ماہ میں منظوم ترجمہ مکمل کر کے علما کی خدمت میں پیش کر دیا۔ ستاروں کا ترجمہ ایک ہی بحر میں منظوم کیا گیا حاشیہ پر ضروری تشریح دی گئی علما کے تعریفی کلمات کتاب کے آخر میں شامل کیے گئے قرآن مجید کا یہ منظوم اردو ترجمہ "وحی منظوم" کے نام سے مشہور ہوا۔ 1981 کو اسلام آباد میں پندرہویں صدی ہجری کے سلسلہِ تقسیم انعامات میں قرآن پاک کے چار مختلف زبانوں کی کتابوں کو انعام سے نوازا گیا۔ وحی منظوم کتاب سرفہرست تھی۔

سیرت نبوی پر کتاب
انیس سو پچاس میں شیخ عنایت اللہ کی درخواست پر سیرت نبی پر مختصر اور انتہائی جامع کتاب ڈیڑھ ماہ کے مختصر عرصے میں جدید اسلوب اور دلنشین پیرائے میں لکھ کر پیش کردی۔
شاعری
عمر دراز مانگ کے لائی تھی چار دن
دو آرزو میں کٹ گئے، دو انتظار میں

یہ شعر بہادر شاہ ظفر کا بالکل نہیں بلکہ سیماب اکبر آبادی کا ہے۔ ان کی ۱۹۴۷ء میں شائع ہونے والی کتاب ’’کلیم عجم‘‘ میں یہ شعر آیا ہے۔ سیماب نے زیر بحث شعر کا پہلا مصرع اس طرح کہا ہے ع
عمر دراز مانگ کے لائی تھی چار دن
...........................
تم نے تو ہاتھ جوروستم سے اٹھا لیا
اب کیا مزا رہا ستمِ روز گار میں
اے پردہ دار‘ اب تو نکل آ کہ حشر ہے
دنیا کھڑی ہوئی ہے ترے انتظار میں
عمر دراز مانگ کے لائی تھی چار دن
دو آرزو میں کٹ گئے دو انتظار میں
...........................
خامشی بھی ناز سے خالی نہیں
تم نہ بولو ہم پکارے جائیں گے
______________
تم مرے پاس رہو پاسِ ملاقات رہے
نہ کہو بات کسی سے تو مری بات رہے
_______________
وہ خود لیے بیٹھے تھے آغوشِ توجہ میں
بےہوش ہی اچھا تھا ناحق مجھے ہوش آیا
_______________
بدل گئیں وہ نگاہیں یہ حادثہ تھا اخیر
پھر اسکے بعد کوئی انقلاب ہو نہ سکا
_______________
تو بھی ہو سکتا ہے جانِ رنگ و بو میری طرح
پہلے پیدا کر چمن میں آبرو میری طرح
______________
کہانی میری رودادِ جہاں معلوم ہوتی ہے
جو سنتا ہے اسی کی داستاں معلوم ہوتی
______________
مہینے اس خوابیدہ عالم کو بنایا کام کا
گرمیءِ محفل نتیجہ ہے مرے پیغام کا
______________
صداءِ سور سے میں قبر میں نہ جاگوں گا
کسی سنی ہوئی آواز سے پکار مجھے
______________
سیماب کو شگفتہ نہ دیکھا تمام عمر
کمبخت جب ملا ہمیں غم آشنا ملا
 

 وشمہ خان وشمہ
About the Author: وشمہ خان وشمہ Read More Articles by وشمہ خان وشمہ: 332 Articles with 510095 views I am honest loyal.. View More