خواتین تشدد بل و این جی اوز کی خواتین کی پریس کانفرنس
(Musarrat Ullah Jan, Peshawar)
رہی خانگی معاملات کو قوانین میں لاناکیا یہ اس معاشرے میںبگاڑ پیدا کرنے کا سبب نہیں بنے گا - خواتین کے این جی اوز پر سب سے بڑا الزام ہمارے معاشرے میں خواتین کو یہی ہے کہ یہ خاندانی سسٹم کو تباہ کرنا چاہتی ہے اور ان خواتین کا یہ مطالبہ کہ خانگی مسائل کو اس قانون کی آڑ میں معاشرے میں لایا جائے.ساتھ میں یہ مطالبہ کیا کہ اگر باپ اپنے بیٹے پر تشدد کرتا ہے یا بھائی اپنے اپنے بھائی پر تشدد کرتا ہے تو اسے بھی قانون میں شامل کیا جائے.کیا والد اپنے بیٹے کو کسی بھی غلط اقدام پر روکنا اگر چاہے اور اگر کہیں تھپڑ مارے تو کیا یہ غلط ہے اگر بھائی اپنے چھوٹے بھائی کو ، بھانجے کو ، بھتیجے کو ، کسی بھی غلط کام سے روکے ، بات کرے ، تھپڑ مار دے تو اسے بھی قانون میں لایا جائے. یہ ان این جی اوز کی خواتین کا مطالبہ ہے. کیا ہمارا پختون معاشرہ اس بات کی اجازت دیتا ہے. کیا موم بتی مافیا کا صرف یہی کام رہ گیا ہے کہ یورپ کی مثالیں دیکر معاشرے میں بگاڑ پیدا کیا جائے.کیا یورپ کی مثالیں دینے والوں کو معلوم ہے کہ گذشتہ ہفتے " لاہور میں ایک طالبہ ہاسٹل میں جو کہ تعلیم کیلئے گائوں سے شہر آئی تھی حاملہ ہوگئی تھی اور ہسپتال لے جاتے ہوئے اس کے بوائے فرینڈ نے اسے چھوڑ دیا تھا اور اسی میں وہ مر گئی . " وہ لڑکی گھر والوں سے ڈیڑھ لاکھ روپے رقم بھی لیکر آئی تھی. . اب اگر والد رقم نہ دے اور تھپڑ ماردے تو پھر والد ین جیل کے اندر. یہ کونسا نظام لانے کی باتیں کررہے ہیں . یہ ان خواتین کو خود سوچنے کی ضرورت ہے. کیونکہ یہ خود بھی خواتین ہیں.. ا |
|
خواتین پر تشدد کے خاتمے سے متعلق بل کی خیبر پختونخواہ اسمبلی میں منظوری کے بعد " مختلف این جی اوز" سے تعلق رکھنے والی خواتین نے یواین وومن کے زیر سایہ کام کرنے والے " ایوا الائنس" نے پشاور پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے اسے خوش آئند قرار دیا ہے تاہم اسے تنقید کا بھی نشانہ بنایا ہے اور کہا ہے کہ اس میں خواتین کے خانگی مسائل کو زیر بحث نہیں لایا جائیگا نہ ہی خاندان سے متعلق ایشوز ڈسکس ہونگے جو کہ ان کے مطابق غلط اقدام ہے اور ا س میں مزید ترامیم کی ضرورت ہے- خواتین پر تشدد کے حق میں بھی کوئی بھی ذی عقل و شعور رکھنے والا شخص نہیں ہوسکتا - کچھ حالات واقعات ایسے ہوتے ہیں جس میں خواتین پرخواہ وہ بہن ہو ، بیٹی ہو ، بیوی ہو یا ماں ہو تشدد اسی معاشرے میں ہورہا ہے جس کی تصدیق پاکستان ہیلتھ اینڈ ڈیموگریٹک گرافک کی جانب سے کئے جانیوالے سروے میں بھی کی جاسکتی ہے جس میں اعتراف کیا گیا ہے کہ سب سے زیادہ تشدد خاندان یعنی میاں بیوی کے مابین ہوتا ہے بقول ان کے 53 فیصد تشدد شہری علاقوں میں جبکہ 66 فیصد تشدد نئے ضم ہونیوالے اضلاع میں میاں بیوی کے مابین ہونیوالا تشدد ہے.جو کہ کہیں پر رپورٹ نہیں ہوتا اسی ایشو پر " ایوا"الائنس نے یہ پریس کانفرنس کر ڈالی ہے- اوراس کو بنیاد بنا کر یہ پریس کانفرنس بھی کی گئی. لیکن.. سوال یہ بنتا ہے کہ اس قانون کے بنانے میں "ایوا الائنس"یا سول سوسائٹی یا این جی اوز کیا کردار رہا ہے . یہ وہ سوال ہے جو ان خواتین نے خود ہی دیا ہے کہ ہم نے جو مجوزہ پروپوز قوانین دئیے تھے اسے ردی کی ٹوکری میں ڈال کر نیا قانون بنایا گیا ہے جس سے ان کی کارکردگی کا بھی اندازہ ہوتا ہے. صرف حکومتی اقدامات کو اقوا م متحدہ کے زیر انتظام اداروں کے نام پر لاکر خوشامد کرکے اپنے لئے فنڈنگ کی راہ ہموار کرنا شائد اب ان اداروں کا کام رہ گیا ہے. " ایوا الائنس" کے نام پر کام کرنے والے ان این جی اوز سے ہمارے صحافیوں نے یہ سوال نہیں کیا کہ ایوا الائنس ہے کیا چیز ہے اور گذشتہ چھ سال کی ان کی کوئی کارکردگی کوئی رپورٹ ، کوئی اجلاس ، کو ئی انتخاب ، کوئی جمہوری عمل ، کوئی فنڈنگ ، کہاں سے فنڈنگ ہوئی ،یہ وہ سوالات ہیں جو صحافیوں کے کرنے کے تھے ، غلطی سے ہم نے سوال کرڈالا جس کا جواب دینے کی کسی میں ہمت نہیں تھی ، کیونکہ مائیک ایک کے بعد دوسری خاتون کے پاس بھیجتی رہی کہ اس کا جواب دیں- لیکن وہ کوئی تسلی بخش نہیں دے سکے- آخر ایوا لائنس کو اس کا کریڈٹ دینے کی ضرورت کیا ہے- جب ان کی اپنی ہی کوئی حیثیت نہیں . ہاں یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ اقوام متحدہ کے خواتین کیلئے کام کرنے والی خواتین اس کے ذریعے اپنے من پسند ایجنڈے کو لاگو کرنا چاہتی ہیں- کیونکہ انفرادی حیثیت میں کوئی این جی او اس طرح کے سوال نہیں اٹھا سکتی البتہ یو این وومن کے زیر انتظام نام نہاد چلنے والے اس ایوا الائنس کے چھتری تلے بہت سارے کام نکل سکتے ہیں.جس پر ہر کسی کو سوچنے کی ضرورت ہے. کسی بھی سول سوسائٹی ، این جی اوز کا کام عوامی فلاح و بہبود کیلئے آواز اٹھانا یا کام کرنا ہوتا ہے لیکن حکومتی اقدامات یا قانون سازی کیلئے واہ واہ کرنا یہ اس بات کی دلیل بھی ہے کہ ان کے پاس کرنے کیلئے کچھ بھی نہیں رہا. یہی این جی اوز جو خواتین کے نام پر آتی ہیں- کیا حکومت سے یہ مطالبہ نہیں کرسکتی کہ حکومتی اقدامات کی وجہ سے تعلیم کے میدان میں کیا کچھ کیا ، کتنی خواتین صحت کی بنیادی سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے مر گئی ، معذور ہوگئی ، تعلیم سے رہ گئی ، خواتین کیلئے روزگار کے مواقع نہ ہونے پر حکومت کے خلاف کہاں پر کوئی پریس کانفرنس ہوئی ہو تو بتایا جائے کوئی آواز اٹھی ہو، کوئی فورم ہوا ہو ، دیہات اور دیگر علاقوں کی بات تو چھوڑیں شہری علاقوں میں خواتین کیلئے ان این جی اوز نے کوئی آواز اٹھائی ہو تو پھر بھی کوئی بات بنتی ہے .کبھی کسی ہسپتال میں مرنے والی خاتون پر کسی سرکاری ادارے کے خلاف احتجاج کیا ہو. کبھی کسی گرلز کالج میں یونیورسٹی میں خواتین کی سیٹوں میں اضافے کیلئے کوئی قرارداد پاس کی ہو ، کبھی کوئی مظاہرہ کیا ہو. نہیں. کبھی نہیں. کیونکہ ائیر کنڈیشنڈ اور ہیٹڈ گاڑیوں اور بنگلوں سے نکلنا ان خواتین کا کام نہیں . نہ ہی یہ آواز اٹھا سکتی ہیںکیونکہ ان خواتین میں بیشتر کا تعلق بھی ایلیٹ کلاس ہے جنہیں غربت میں پلی بڑی ، مڈل کلاس کی مائوں ، بہنوں اور بیٹیوں کے مسائل سے دور کا بھی پتہ نہیں.بس خواتین کی برابری کی بنیاد پر آواز اٹھانے والی ان خواتین کو صرف ایک آوا ز چاہئیے..جس کی بیرون ملک بڑی ڈیمانڈ ہے اور فائدے بھی بہت سارے ہیں - رہی خانگی معاملات کو قوانین میں لاناکیا یہ اس معاشرے میںبگاڑ پیدا کرنے کا سبب نہیں بنے گا - خواتین کے این جی اوز پر سب سے بڑا الزام ہمارے معاشرے میں خواتین کو یہی ہے کہ یہ خاندانی سسٹم کو تباہ کرنا چاہتی ہے اور ان خواتین کا یہ مطالبہ کہ خانگی مسائل کو اس قانون کی آڑ میں معاشرے میں لایا جائے.ساتھ میں یہ مطالبہ کیا کہ اگر باپ اپنے بیٹے پر تشدد کرتا ہے یا بھائی اپنے اپنے بھائی پر تشدد کرتا ہے تو اسے بھی قانون میں شامل کیا جائے.کیا والد اپنے بیٹے کو کسی بھی غلط اقدام پر روکنا اگر چاہے اور اگر کہیں تھپڑ مارے تو کیا یہ غلط ہے اگر بھائی اپنے چھوٹے بھائی کو ، بھانجے کو ، بھتیجے کو ، کسی بھی غلط کام سے روکے ، بات کرے ، تھپڑ مار دے تو اسے بھی قانون میں لایا جائے. یہ ان این جی اوز کی خواتین کا مطالبہ ہے. کیا ہمارا پختون معاشرہ اس بات کی اجازت دیتا ہے. کیا موم بتی مافیا کا صرف یہی کام رہ گیا ہے کہ یورپ کی مثالیں دیکر معاشرے میں بگاڑ پیدا کیا جائے.کیا یورپ کی مثالیں دینے والوں کو معلوم ہے کہ گذشتہ ہفتے " لاہور میں ایک طالبہ ہاسٹل میں جو کہ تعلیم کیلئے گائوں سے شہر آئی تھی حاملہ ہوگئی تھی اور ہسپتال لے جاتے ہوئے اس کے بوائے فرینڈ نے اسے چھوڑ دیا تھا اور اسی میں وہ مر گئی . " وہ لڑکی گھر والوں سے ڈیڑھ لاکھ روپے رقم بھی لیکر آئی تھی. . اب اگر والد رقم نہ دے اور تھپڑ ماردے تو پھر والد ین جیل کے اندر. یہ کونسا نظام لانے کی باتیں کررہے ہیں . یہ ان خواتین کو خود سوچنے کی ضرورت ہے. کیونکہ یہ خود بھی خواتین ہیں.. اس پریس کانفرنس میں ان خواتین نے یہ بھی اعتراف کیا کہ صوبہ خیبر پختونخواہ میں صرف چار شیلٹرز ہوم ہیں جس میں 72 کے قریب خواتین جنہیں گھریلو مسائل کے باعث ٹھونس کر رکھا گیا ہے میں جگہ بالکل نہیں کیایہ اس بات کی وضاحت کیلئے کافی نہیں کہ گھروں میں ہونیوالے جھگڑے مسائل کا حل شیلٹرز ہوم میں نہیں بلکہ گھروں میں ہی ہیں- کیا ان خواتین کے اپنے گھروں میں ہونیوالے مسئلے ان کے اپنے خاندانوں کے بزرگوں نے حل نہیں کئے. تشدد تو معمولی بات ہیں ہزاروں ایسے مسائل ہیں جنہیں گھروں میں بزرگ خواتین اور مردوں نے ہی حل کیااس بارے میں خدا کو حاضر و ناظر جان کر لوگوں کو بتانے کی ضرورت ہے. ویسے ایک بات جس پر تقریبا ہر کوئی متفق ہے کہ خواتین پر تشدد کا بل خیبر پختونخواہ میں نہیں تھا اس حوالے سے ملک کے دیگر صوبوں میں یہ قانون موجود تھا ،صوبائی حکومت کا یہ اقدام بہترین ہے اور یہ ترامیم اگر ہونی بھی ہے تو ایسے کی جائے کہ خانگی مسائل گھر کے اندر ہی حل کئے جائیں تویہ ایک اچھا اقدام ہوگا. لیکن اس پر سیاست کرنا اور اپنی دکانداری چمکانا این جی اوز کی خواتین کو زیب نہیں دیتا.
|