تَخلیقِ عالَم تَحقیقِ عالَم اور تصدیقِ عالَم !!

#العلمAlilm علمُ الکتاب سُورَہِ یُونس ، اٰیت 3 تا 10 تَخلیقِ عالَم تَحقیقِ عالَم اور تصدیقِ عالَم !! ازقلم.... علامہ اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ھے جس سے روزانہ 75 ہزار سے زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ھمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
ان
ربکم اللہ
الذی خلق السمٰوٰت
والارض فی ستة ایام
ثم استوٰی علی العرش یدبر
الامر مامنشفیع الا من بعد اذنہ ذٰلکم
اللہ ربکم فاعبدوہافلا تذکرون 3 الیہ مرجعکم
جمیعا وعداللہ حقا انہ یبدؤالخلق ثم یعیدہ لیجزی الذین
اٰمنواوعملواالصٰلحٰت بالقسط والذین کفروالھم شراب من حمیم
وعذاب الیم بماکانوایکفرون 4 ھوالذی جعل الشمسضیاء والقمر نورا و
قدرہ منازل لتعلموا عددالسنین والحساب ماخلق اللہ ذٰلک الا بالحق یفصل الاٰیٰت
لقوم یعلمون 5 ان فی اختلاف الیل والنھار وما خلق اللہ فی السمٰوٰت والارض لقومیتقون 6
ان الذین لا یرجون لقاءنا ورضوابالحیٰوة الدنیا واطمائنوبھا والذین ھم عن اٰیٰتنا غٰفلون 7 اولٰئک ماوٰ
ھم النار بماکانوایکسبون 8 ان الذین اٰمنواوعملواالصٰلحٰت یھدیھم ربھم بایمانھم تجری من تحتہم الانھار
فی جنٰت النعیم 9 دعوٰھم فیھا سبحٰنک اللھم وتحیتھم فیھا سلام واٰخر دعوٰھم ان الحمد للہ رب العٰلمین 10
ہر تحقیق سے اِس اَمر کی تصدیق ہو چکی ھے کہ تُم سب کا پرورش کار وہی اللہ ھے جس نے چھ زمانوں میں تُمہارے سروں پر سات پرتوں کا ایک حَدِ نظر خلاء پھیلایا اور تُمہارے پیروں میں بچھی ہوئ حرکت پزیر زمین کو تُمہاری حرکت و عمل کا مرکز بنایا اور جب تخلیق کا یہ سارا عمل مُکمل ہوا تو اُس نے خلاء کی اِن سات بلندیوں کے بعد ایک اور بلندی پر اپنا وہ انتظامی مرکز عرش قائم کیا جو عملِ تخلیق کے آغاز میں پانیوں پر قائم کیا گیا تھا اور اِس تخلیقی عمل کے بعد اُس مُدبر نے اپنے اِس تخلیق کیۓ ہوۓ جہان کو ایک خود کار نظام کے تحت چلانے کے لیۓ وہ تدبیر قائم کی کہ جس سے اُس کی تخلیق کے اِس کارخانے کا ہر ایک پُرزہ اُس کے حُکم کے مطابق تخلیق سے تکمیل کی طرف بڑھنے لگا ، سو جس طرح اُس خلّاق کی ہر ایک تخلیق ہمیشہ سے ہمیشہ کے لیۓ اُس کی فرمان بردار بنی ہوئ ھے اسی طرح تُم بھی ہمیشہ سے ہمیشہ کے لیۓ اُس کے فرمان بردار بن جاؤ ، تُم اپنی خُدائ تخلیق کی اِس خُدائ تحقیق کو ہمیشہ یاد رکھنا کہ ایک دن تُم سب نے اپنے اُسی خالق کے پاس جانا ھے اور اپنی حیات کے ہر مُثبت و مَنفی عمل کے جواز و عدمِ جواز کے بارے میں اپنے اُس خالق کو جواب دینا ھے جس نے پہلی بار تُمہاری جانوں کو اپنے جہانوں میں پیدا کیا ھے اور جو بار بار تُمہاری جانوں کو اپنے جہانوں میں پیدا کر رہا ھے ، جو لوگ اُس کے اِس جہان یا اُس کے کسی جہان میں اپنے دل کے کامل اطمینان اور اپنی جان کی مُکمل صلاحیتِ جان کے ساتھ کارِ جہان اَنجام دیتے رہیں گے تو اُن کو اِنعامِ رَبانی دیا جاۓ گا اور جو لوگ قُدرت کی بخشی ہوئ اِن قُدرتی صلاحیتوں کے مطابق کارِ حیات اَنجام نہیں دیں گے تو اُن کو کھولتے ہوۓ پانی کے سوا کُچھ بھی نہیں دیا جاۓ گا اور یاد رکھو کہ اللہ وہی خالقِ جان و جہان ھے جس نے سُورج کو اُجالا دینے والا اور چاند کو اُجالا لینے والا بنایا ھے اور ہر روز و شب میں اِن دونوں کی آمد و شُد کے وہ اَوقات بھی مقرر کر دیۓ ہیں جن کو دیکھ کر تُم اپنے دنوں ، اپنے ہفتوں ، اپنے مہینوں ، اپنے سالوں اور اپنی صدیوں کا حساب رَکھ سکتے ہو ، یاد رکھو کہ زمین و خلا ء کی یہ تخلیق اور اِس تخلیق کے روز و شب کے ایک دُوسرے کے آگے ہو کر اور ایک دُوسرے کے پیچھے رہ کر آنے اور جانے میں اہلِ عقل کے لیۓ بہت سی حکمتیں نہاں ہیں اور ہر تحقیق سے اِس اَمر کی بھی تصدیق ہو چکی ھے کہ جو لوگ اپنے دل کو اللہ کے وصال کے بجاۓ صرف دُنیا کے جَنجال سے لگا کر رکھیں گے تو اُن کے جسم و جان کا یہ جَنجال اُن کو اُس آتشیں جھنم کی طرف لے جاۓ گا جس میں سزا کے طور پر بار بار اُن کو جلنا ہو گا اور جو لوگ اللہ کے اَحکامِ نازلہ کے مطابق کارِ جہان اَنجام دیں گے تو اُن کو اُن کی رُوح و دل کا یہ جمال و کمال باغ و بہار اور آب و اَنہار کی اُس جنت کی طرف لے جاۓ گا جس کو دہکھتے ہی وہ سُبحان اللہ ، سُبحان اللہ کہیں گے اور جس میں داخل ہوتے ہی وہ ایک دُوسرے کو سلامتی کی دُعائیں دیں گے اور اُن جنت نشیں لوگوں کی زبان پر آخری وقت تک رہنے کے لیۓ جو آخری کلام آۓ گا وہ یہ ہو گا کہ ہر جان و جہان کا ہر تعارف اُس اللہ کے لیۓ ھے جو ہر جان و جہان کا تخلیق کار اور پالَنہار ھے !
حرفِ تَمہید !
ہر سُناۓ جانے والے ، ہر سُنے جانے والے ، ہر لکھے جانے والے اور ہر لکھاۓ جانے والے کلامِ مطلوب کا ایک حصہ مقصدِ کلام اور ایک حصہ معاونِ کلام ہوتا ھے ، کلام کا پہلا حصہ جو مقصدِ کلام ہوتا ھے وہ اُس کلام کا نفسِ موضوع ہوتا ھے اور کلام کا دُوسرا حصہ جو معاونِ کلام ہوتا ھے وہ دورانِ کلام حسبِ ضروت اُس مرکزی موضوع کی طرف متوجہ کرتا رہتا ھے تاکہ اُس کلام کے قاری پر اُس موضوع کے نمایاں اور غیر نمایاں گوشے یَکساں طور پر واضح ہو تے چلے جائیں ، اگر کلام کے دوران میں کلامِ مقصد کو نظر انداز کر دیا جاۓ تو کلام کا ہر حصہ نظر انداز ہو جاتا ھے لیکن اگر کلامِ مقصد کی مقصدیت کو وضاحت و صراحت کے ساتھ بیان کر دیا جاۓ تو معاون کلام کو اَلگ سے بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی ھے ، سُورَہِ یُونس کی اٰیاتِ بالا میں آنے والی پہلی دو اٰیات کلامِ مقصد اور بعد میں وارد ہونے والی چار اٰیات معاون بالمقصد ہیں اِس لیۓ اگر ھم اختصارِ کلام کا لحاظ کرتے ہوۓ صرف پہلی دو اٰیات پر بات کرنا چاہیں تو صرف یہ بات کرسکیں گے کہ قُرآنِ کریم نے قُرآنِ کریم میں مُختلف صیغ و ضمائر کے ساتھ جن 242 مقامات پر اللہ کے خالقِ عالَم ہونے کا جو ذکر کیا ھے اٰیاتِ بالا کا یہ مقام اُن 242 مقامات میں سے وہ ایک مقام ھے جس میں بتایا گیا ھے کہ انسان سات پرتی خلاء کے ایک پرت میں گھومنے والی جس زمین پر چل پھر رہا ھے اللہ نے اُس زمین و خلاء کو چھ اَیّام میں بنایا ھے ، اَیام یوم کی جمع ھے اور یوم کا معنٰی دن بھی ہوتا اور دور بھی ہوتا ھے ، یوم کو اِس بنا پر دور کہا جاتا ھے کہ یوم 60 سیکنڈ کے 1 منٹ ، 60 منٹ کے 1 گھنٹے اور 24 گھنٹے کے 86 400 سیکنڈ کے اَعداد کے ایک عددی دور پر مُمتد ہوتا ھے اور ایک بڑے زمانی دور کو بھی اِس بنا پر یوم کہا جاتا ھے کہ وہ ماہ و سال کے کئ دنوں ، کئ ہفتوں ، کئ مہینوں ، کئ سالوں ، کئ صدیوں بلکہ کئ ایک ملینیم کا ایسا ایک عددی دور ہوتا ھے کہ جس کو اصطلاحِ زبان و بیان میں یوم کہاجاتا ھے اور قُرآنِ کریم جب زمین و خلاء کی تخلیق میں 6 اَیام کا ذکر کرتا ھے اُس سے مُراد ھماری زمین کے حسابی قاعدے کے وہ معروف دن نہیں ہوتے بلکہ اُس سے مراد وہ بڑے زمانے ہوتے ہیں جن زمانوں میں ایک تدریج کے ساتھ پہلے تخلیق کی تمہید ہوتی ھے اور پھر ایک تدریج کے ساتھ اُس تمہید کی تکمیل ہوتی ھے !
حرفِ تَحقیق !
پہلی اٰیت کا پہلا دو حرفی مُرکب " اِنَ " ایک حرفِ تحقیق ھے جو کلام میں اِس اَمر کی تصدیق کے لیۓ لایا جاتا ھے کہ اِس حرفِ تحقیق کے بعد کلام کے مُخاطب کو کلام میں جو کچھ کہا جاتا ھے وہ ایک ایسا طے شُدہ اور تصدیق شُدہ قول ہوتا ھے جس میں کسی بھی شک و شُبہے کی کوئ گُنجائش موجُود نہیں ہوتی اور اِس اٰیت کے اِس مقام پر ہر شک و شُبہے سے جو بلند تر بات کہی گئ ھے وہ یہ بات ھے کہ تُمہاری پرورش کا انتظام اُس اللہ کی ذمہ داری ھے جس نے ایک بیکراں خلاء بنایا ھے اور اُس بیکراں خلاء میں اَن گنت کہکشاؤں کو پھیلایا ھے اور اُن اَنگنت کہکشاؤں میں اُن وجُود بردار سیاروں کو چلایا ھے جس میں تُمہارا وہ سیارہ زمین بھی شامل ھے جس نے تُمہارا وجُود اُٹھایا ہوا ھے اور اِن سب کہکشاؤں اور سیاروں کی اہمیت صرف یہ ھے کہ یہ سب کے سب تُمہارے لیۓ بناۓ گۓ ہیں اور کوئ وجہ نہیں ھے کہ جو اللہ تُمہارے لیۓ بناۓ گۓ اِن سارے ذرائع مقصد کی پرورش کر رہا ھے وہ اُس ایک مقصد کی پرورش نہیں کرے گا جس ایک مقصد کے لیۓ یہ سارا جہانِ زمین و خلاء پھیلایا گیا ھے ، اِس پہلی اٰیت کا دُوسرا لَفظ " رب " ھے جس کا معنٰی پرورش کار ھے اور اِس پرورش کار سے مُراد خالق کی وہ ہستی ھے جو اپنی ہر تخلیق کو اپنی تخلیقی و تدریجی پرورش کے ذریعے پَستی کے دور سے مَستی کے دور تک لے جاتی ھے اور پھر اُسی تدریج کے ساتھ اُس کو مَستی کے دور سے نکال کر پَستی کے دور میں واپس لے آتی ھے ، جو لوگ پرورش کے اِس عمل میں ایک متوازن حیات کے حامل ہوپاتے ہیں وہ ارتقاۓ حیات کے اَگلے مرحلے میں چلے جاتے ہیں اور جو لوگ پرورش کے اِس عمل میں متوازن حیات کے حامل نہیں ہو پاتے وہ ایک غیر معینہ مُدت تک ارتقاء کی اِن ہی بُھول بھلیوں میں بہٹکتے رہتے ہیں ، زمین و خلاء کے عظیم وجُود کے مقابلے میں انسان کا وجُود بہت چھوٹا ھے اِس لیۓ اِس اٰیت پر پہلی نگاہ ڈالنے والا انسان پہلی نگاہ میں یہی سمجھتا ھے کہ اِس اٰیت کا موضوعِ سخن جہانِ زمین و خلاء ھے لیکن حقیقت یہ ھے کہ اِس اٰیت کا سُخن جہان نہیں ھے بلکہ حضرتِ انسان ھے !
زمین و خلاء !
اللہ کی تخلیق اور اللہ کی مخلوق اللہ کے دائرہِ خلق و تخلیق میں تب سے موجُود ھے جب سے خود اللہ موجُود ھے اور اللہ چونکہ ہمیشہ سے موجُود ھے اِس لیۓ اُس کی خلق اور اُس کی تخلیق بھی ہمیشہ سے موجُود ھے لیکن اٰیاتِ بالا میں اللہ کی جس تخلیق کا ذکر ہو رہا ھے وہ اللہ کی وہ مُختصر اور محدُود سی تخلیق ھے جو زمین و خلاء کی شکل اور خود ھمارے اپنے وجُود کی صورت میں ھمارے سامنے موجُود ھے اور جو شاید تخلیق کی اُن لاکھوں ، کروڑوں بلکہ اربوں اور کھربوں نادیدہ و پوشیدہ صورتوں میں سے ایک ظاہری اور دیدہ صورت ھے اور تخلیق کی یہ جو نظر آنے والی صورت ھے اِس میں گیس سے بنا ہوا سات تہہ دَر تہہ پرتوں کا جو بیکراں خلاء ھے اُس کی وسعت کا کوئ اندازہ نہیں ھے سواۓ اس کے کہ انسان کی موجُودہ علمی و سائنسی معلومات کے مطابق اِس وقت اِس خلاء میں 200 اَرب ایسی کہکشائیں موجُود ہیں جن کی ہر ایک کہکشاں میں کئ اَرب سُورج موجُود ہیں اور ہر ایک سُورج اپنا ایسا ہی ایک اَلگ کہکشانی خاندان رکھتا ھے ، ھمارے سُورج کے خاندان میں ھمارے زمینی سیارے سمیت آٹھ سیارے ہیں جن کے ساتھ ھمارا یہ سُورج اِس خلاء میں 23 کروڑ سال کے بعد اپنا ایک چکر مکمل کرتا ھے ، سُورج کا طواف کرنے والے اِن سیاروں میں سیارہِ زمین کا ایک چاند ، سیارہِ نیپٹون کے 13 چاند ، سیارہِ یورینس کے 27 چاند ، سیارہِ زُحل کے 60 چاند اور سیارہِ مُشتری کے 63 چاند ہیں ، ھماری زمین کا قطر شرقا اور غربا 12756 اور جنوبا شمالا 12713 کلو میٹر اور اِس کا محیط 40091 کلومیٹر ھے ، ھمارے نظامِ شمسی کی موجُودہ شکل کا 15 اَرب سال پہلے آغاز ہواتھا اور ھماری زمین کو ھمارے سُورج کے مدار میں آۓ ہوۓ 4 . 6 برس بیت چکے ہیں اور اِس کی چٹانوں کی عُمر 3.8 ھے ، ھماری زمین کا مجموعی رقبہ 5 اَرب 10 کروڑ مربع کلو میٹر ھے جس کا 70 فیصد حصہ سمندر اور 30 فیصد حصہ اُس خُشک زمین پر مُشتمل ھے جس میں ایشیا و اسٹریلیا ، افریقہ و یورپ اور شمالی و جنوبی امریکا کے براعظم شامل ہیں اور ساتواں براعظم قطبِ جنوبی ھے جو کروڑوں من برف میں چُھپا ہوا ھے اور یہ ھماری کائنات کا وہ حصہ ھے جو اَب تک ھمارے علم میں آیا ھے اور قُرآنِ کریم نے اللہ کی جن تخلیقات کا 242 مقامات پر ذکر کیا ھے یہ اُن میں سے صرف ایک ھے !
چاند اور سُورج !
ھماری زمین جس سُورج کا طواف کرتی ھے وہ ہائڈ روجن گیس کا ایک گولہ ھے جس کے مرکز پر دباؤ کی وجہ سے ہائڈروجن کے دو ایٹم باہَم ضم ہو کر Helium کا ایک ایٹم بناتے رہتے ہیں جن کے انضمام کے نتیجے میں اِس میں وہ شدید حرارت پیدا ہوتی رہتی ھے جو اِس کے حلقہِ اثر میں آنے والی ہر شئ کو حرارت پُہنچاتی ھے ، سُورج میں ہائڈروجن اِس کا سب سے چھوٹا عنصر ھے ، اِس کے مرکز میں ایک پروٹان اور اِس کے مدار میں دو الیکٹرون ہوتے ہیں جن سے سورج میں وہ روشنی اور گرمی پیدا ہوتی ھے جس کی وجہ سے اِس کے اُوپر کا درجہ حرارت 600c ھے اور مرکز کا درجہ حرارت 1.5 کروڑ ڈگری ھے ، عُلماۓ کے سائنسی اندازے کے مطابق ھمارا سُورج مزید 5.5 اَرب سال تک اسی آب و تاب کے ساتھ روشنی اور حرارت دیتا رھے گا ، ھمارے چاند کا قطر 3476 کلو میٹر ھے اور اِس کی عُمر ھماری زمین کی عُمر کے برابر ھے لیکن اس کی چٹانوں کی عُمر 130 کروڑ سال قدیم ھے ، چاند ہر شب کو جو ٹھنڈی ٹھنڈی روشنی دیتا ھے وہ ٹھنڈی روشنی وہ سُورج سے لیتا ھے ، ھمارے افق سے اُفق تک روشنی دینے والے یہ دونوں وجُود اپنے اپنے مدار میں آگے پیچھے آتے اور جاتے ہیں ، چاند کی کُل 28 منزلیں ہوتی ہیں جن کے آغاز میں چاند بہت چھوٹا ہوتا ھے مگر بتدریج بڑھتے بڑھتے 14 ویں اور 15ویں منزل پر پُہنچ کر وہ بدرِ کامل بن جاتا ھے اور پھر گھٹتے گھٹتے اُسی طرح چھوٹا ہوتا چلا جاتا ھے کہ اپنی منزلِ سفر کے آخری تین دن بالکل غائب ہو جاتا ھے اور تین دن بعد پھر ہلال بن کر طلوع ہو جاتا ھے ، اس کا چھوٹے سے بڑا وجُود بننا اور بڑا وجُود بن کر چھوٹے پن کی طرف واپس جانا اور پھر تین دن گُم ہو کر دوبارہ ظاہر ہو جانا اِنسان کو یاد دلاتا ھے کہ انسان بھی چاند کی طرح بچپن سے جوانی میں آتا ھے ، پھر جوانی سے بڑھاپے میں جاتا ھے اور پھر بڑھاپے میں جاکر بچپن کی ناتوانی میں ڈھل جاتا ھے اور پھر مرجاتا ھے لیکن چاند کا یہ طلوع و غروب انسان کو یاد کراتا ھے کہ انسان نے بھی مرنے کے بعد زندگی کی ایک نئ زمین پر ایک نۓ انسان کی صورت میں اسی طرح دوبارہ طلوع ہونا ھے جس طرح چاند غروب ہونے کے تین دن بعد دوبارہ طلوع ہو جاتا ھے !!
 
Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 876 Articles with 461770 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More