سیرت امام کائنات صلی اللہ علیہ والہ وسلم (حصہ 20)
(Babar Alyas , Chichawatni)
(سیرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں ( حصہ
اول)
صلہ رحمی کے فضائل و ثمرات اور قطع رحمی کی مذمت و نقصانات
اللہ کے بندو ! اللہ کا تقوی اختیار کرو جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے اور
اللہ تعالی کی نعمتوں کے نزول کا باعث بنتا ہے اور ترک تقوی اور اس سے دوری
کے نتیجہ میں مصیبتیں آتی ہیں ۔
اصلاح و تعمیر معاشرہ :
مسلمانو ! اسلام انسانوں کا ایک انتہائي باھمی رحم و کرم اور عطف و مہر
بانی والا معاشرہ تعمیر کرنا چاہتا ہے جس کی قیادت و سیادت محبت و بھائی
چارے کے ہاتھ میں ھو ۔ اور خیر و بھلائی اور عطا و کرم کا اس پر راج ھو ،
اور خاندان معاشرے کی اکائی ھوتا ہے ۔ جو کہ اللہ کے خوف و تقوی اور صلہ
رحمی کے نتیجہ میں سعادت و خوشحالی پاتا ہے ۔ اسلام نے خاندان کی جڑیں
مضبوط کرنے اور اس کی عمارت کو پائدار بنانے کا خاص اہتمام کیا ہے ۔
صلہ رحمی قرآن و سنت کی روشنی میں :
اللہ کی توحید اور والدین کی اطاعت کے حکم کے ساتھ جس چيز کا حکم دیا گیا
وہ یہی صلہ رحمی ہی ہے ۔ چنانچہ ارشاد الہی ہے :
[ اللہ کی عبادت و بندگی کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو اور والدین
کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آؤ اور قرابت داروں سے بھی حسن سلوک کرو ] ۔ (
النساء : 36) ۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے عبادات میں توحید الہی اور نماز و زکواﺓ
کے ساتھ ہی صلہ رحمی کو بھی شمار فرمایا ہے ۔ چنانچہ حضرت ابو ایوب انصاری
رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت
میں حاضر ھوا اور کہنے لگا : مجھے کوئی ایسا عمل بتائیں جو مجھے جنت میں
داخل کر دے ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا :
[ اللہ کی عبادت کرو اور اسکے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو ، نماز قائم کرو اور
زکواﺓ ادا کرو اور صلہ رحمی ( رشتوں کو قائم ) کرو ] ۔ ( متفق علیہ ) ۔
پہلی امتوں کو صلہ رحمی کا حکم :
ھم سے پہلی امتوں کو بھی رشتے داریوں کو قائم و بحال رکھنے کا حکم تھا ۔
چنانچہ ارشاد الہی ہے :
[ اور جب ھم نے بنی اسرائیل سے یہ عھد لیا کہ تم اللہ کے سوا کسی کی عبادت
نہ کرو گے اور والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنا ، اور قرابت داریوں کو بحال
رکھنا ] ۔ ( البقرہ : 83) -
آغاز بعثت اور صلہ رحمی کا حکم :
ھمارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی بعثت کے آغاز میں ہی صلہ
رحمی کی طرف دعوت دی تھی ۔ چنانچہ حضرت عمرو بن عبسہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں
کہ : میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی بعثت کے شروع میں ہی مکہ مکرمہ
آیا اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ھوا اور آپ صلی اللہ علیہ
و سلم سے پوچھا : آپ کیا ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : "میں
نبی ھوں "میں نے پوچھا :نبی کا کیا معنی ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے
فرمایا : " مجھے اللہ نے اپنا رسول و پیامبر بنایا ہے " ۔ میں نےعرض کیا :
اللہ نے آپ کو کیا پیغام دے کر بھیجا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے
فرمایا : " صلہ رحمی کرنے ، بتوں کو توڑنے اور اللہ کی توحید و یکتائي کا
پیغام دے کر بھیجا ہے " ۔ ( مستدرک حاکم ) ۔
دربار ہرقل میں اس کا تذکرہ :
ہرقل نے ابو سفیان سے پوچھا تھا کہ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم تمھیں
کس بات کا حکم دیتا ہے ؟ ابوسفیان نے (عھد کفر میں ھونے کے باوجود ) گواہی
دی تھی کہ وہ کہتے ہیں : " صرف ایک اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی
کو شریک نہ ٹھہراؤ ،اور وہ ھمیں نماز پڑھنے ، سچ کہنے ، عفت و پاکدامنی
اختیار کرنے اور صلہ رحمی کرنے کا حکم دیتے ہیں ] ۔ ( متفق علیہ )
ہجرت کے فورا بعد صلہ رحمی کا حکم :
نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم جب مدینہ منورہ آۓ تو سب سے پہلے آپ صلی اللہ
علیہ و سلم نے جن امور کی طرف لوگوں کی توجہ مبذول کروائی ان میں سے ہی یہ
صلہ رحمی بھی ہے ۔ چنانچہ حضرت عبد اللہ بن سلام فرماتے ہیں :
[ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم جب مدینہ منورہ تشریف لاۓ تو لوگ آپ کے پاس
جمع ھو گۓ اور آپ نے جو باتیں کیں ان میں سے جو میں نے سنا سب سے پہلے آپ
نے فرمایا :
" اے لوگو ! سلام کو عام کرو ، بھوکوں کو کھانا کھلاؤ ، صلہ رحمی کرو ،
راتوں کو جب لوگ سوۓ ھوۓ ھوتے ہیں تم نماز ( تہجد ) ادا کرو ، اس طرح آسانی
و سلامتی کے ساتھ جنت میں داخل ھو جاؤ گے " ۔ ( ترمذی ، ابن ماجہ ) ۔
وصیت مصطفی صلی اللہ علیہ و سلم :
نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے صلہ رحمی کی وصیت فرمائی تھی ۔ چنانچہ
حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : "میرے خلیل (صلی اللہ علیہ و
سلم ) نے مجھے وصیت فرمائ کہ میں صلہ رحمی کروں اگر چہ رشتہ دار میرے ساتھ
بے رخی کا سلوک ہی کیوں نہ کریں "۔( معجم طبرانی کبیر )
علامات ایمان :
قرابت داروں سے تعلقات جوڑنا اور صلہ رحمی کرنا ایمان کی نشانی ہے ۔نبی صلی
اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے :
" جو شخص اللہ پر اور روز آخرت پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہیے کہ وہ صلہ رحمی
کرے " ۔ ( متفق علیہ )
اللہ تعالی نے قطع رحمی پر قریش کی مذمت فرمائی ہے ۔
چنانچہ ارشاد الہی ہے :
"یہ تو کسی مسلمان کے حق میں کس رشہ داری یا عھد کا مطلق لحاظ نہیں کرتے "
۔ ( التوبہ : 10)
والدین سے حسن سلوک
صلہ رحمی قائم کرنے کے لۓ سب سے پہلی چیز یہ ہے کہ اپنے والدین کے ساتھ
نیکی و حسن سلوک کریں اگرچہ وہ وہ وفات ہی کیوں پا چکے ھوں ۔
" ایک آدمی نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ھوا اور اس نے
پوچھا : اے اللہ رسول صلی اللہ علیہ و سلم ! والدین کے فوت ھو جانے کے بعد
بھی میرے لۓ کوئی ایسا کام ہے کہ میں ان کے ساتھ حسن سلوک کر سکوں ؟ نبی
اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : ہاں ، ان کے لۓ رحمت کی دعائیں مانگو
،ان کے لۓ اللہ سے مغفرت و بخشش کرو اور ان کے بعد ان کے عھد و پیمان کو
پورا کرو ، اور اپنے ان قرابت داروں سے رشتہ قائم رکھو جن کا تعلق تم سے
صرف والدین کی طرف سے ہی ہے " ۔ ( ابوداؤد )
رحم اور رحیم و رحمن :
اللہ تعالی نے رحم کو پیدا فرمایا اور اس کا نام اپنے اسم گرامی سے نکالا
اور ھمارے رب نے وعدہ فرمایا ہے کہ جو شخص صلہ رحمی کرے گا میں اسی سے اپنا
تعلق رحمت قائم رکھوں گا اور جس نے اس ذات رحیم نے تعلق پیدا کر لیا اس کے
گھر میں ہر طرح کی بھلائیاں جمع ھو گئیں ۔ اور اس سے کوئی اس تعلق کو ختم
نہیں کروا سکتا ۔ اور جسے اللہ جبار نے بے تعلق و دم کٹا کر دیا ۔اسے کوئی
شخص بلندی و سرخروئی نہیں دے سکتا اور وہ ذلت و خواری ( غم و اندوہ ) میں
زندگی گزارنے پر مجبور ھو جاتا ہے ۔
اللہ رب العزت کا ارشاد ہے :
" جسے اللہ ذلیل کر دے اسے کوئی عزت و تکریم نہیں دے سکتا " ۔ ( الحج 18 )
صلہ رحمی کے انمٹ تاریخی نقوش :
صلہ رحمی کرنے والوں کا ذکر خیر اور تاریخی نقوش اللہ تعالی طویل عرصے تک
قائم رکھتا ہے ۔ قطع رحمی کرنے والوں کی طرح جلدی ہی ان کی تاریخ کمزور اور
ان کے نقوش زائل نہیں ھو جاتے ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے
:
" اللہ تعالی نے رحم سے کہا تھا : کیا تم اس پر خوش نہیں ھو کہ جو تیرے
ساتھ تعلق قائم رکھےگا میں بھی اس سے تعلق بحال رکھوں گا اور جو قطع رحمی
کرے گا میں بھی اس سے قطع تعلقی کر لوں گا " ۔ اس پر رحم نے کہا تھا : ہاں
میں اس پر راضی ھو ں ۔ اللہ تعالی نے فرمایا تھا : میں تجھے یہ عھد دیتا
ھوں " ۔ ( متفق علیہ )
اور ارشاد نبوی ہے :
" رحم عرش الہی کے ساتھ لٹک رہا ہے اور کہتا ہے : جس نے مجھے جوڑا میں اس
سے رشتہ قائم رکھوں گا اور جس نے مجھے توڑا میں اس سے ناطہ توڑ لوں گا" (
متفق علیہ )
مصائب و مشکلات کا خاتمہ :
صلہ رحمی اللہ کے حکم سے مصائب و مشکلات کو دور کرتی ہے اور اللہ کے فضل کے
ساتھ بندے سے بلائیں دور کرتی ہے ۔ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم پر
پہلی وحی ۔ اقرا باسم ربک الذی خلق ۔ نازل ھوئي تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم
( غار حراء ۔ جبل نور ) سے کانپتے ھوۓ واپس آۓ اور حضرت خدیجہ رضی اللہ
عنہا کے پاس گھر پہنچتے ہی فرمانے لگے : زمّلونی(مجھے کمبل اوڑھا دیجیۓ )
نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے معاملہ کی خبر حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا
کو دی اور فرمایا کہ میں ڈر گیا ھوں اور مجھے جان کا خطرہ لاحق ھو گیا ہے ۔
حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا : اللہ کی قسم ! آپ کو ایسا کوئی خطرہ
نہیں ھو سکتا ، اللہ آپ کو کبھی غمناک و پریشان نہیں کرے گا کیونکہ آپ صلہ
رحمی کرتے ہیں ۔ کمزوروں کی دست گیری فرماتے ہیں ، ناداروں کو کپڑا پہناتے
ہیں اور مہانوں کی میزبانی کرتے ہیں " ۔ ( صحیح بخاری )
قرابت داروں سے نرمی کا حکم الہی :
اللہ تعالی نے قرابت ( رشتہ ) داروں کے ساتھ بھی اسی طرح رافت و نرمی اور
شفقت و محبت کرنے کا حکم فرمایا ہے : جیسا کہ ھم مسکینوں کے ساتھ نرمی و
شفقت سے کام لیتے ہیں ۔
ارشاد الہی ہے :
" اور قرابت داروں ، مسکینوں اور مسافروں کا حق ادا کرتے رھو " ۔
صدقہ اورقرابت داروں :
یتیموں مسکینوں پر خرچ کرنے سے بھی رشتہ داروں کا حق زیادہ ہے اور وہ ان پر
مقدم ہیں چنانچہ ارشاد الہی ہے :
" لوگ آپ سے پوچھتے ہیں کہ وہ کیا خرچ کریں ۔ آپ( ان سے ) کہہ دیں کہ
بھلائی ( مال ) سے جو بھی تم خرچ کرو وہ اپنے والدین ، رشتہ داروں ، یتیموں
، مسکینوں اور مسافروں کے لۓ ہے " ۔
( البقرہ : 215)
قرابت داروں خرچ کرنا اور دوگنا اجر و ثواب :
رشتہ داروں پر خرچ کرنا دو گنا اجر و ثواب ہے ۔ چنانچہ نبی اکرم صلی اللہ
علیہ و سلم کا ارشاد ہے :
" مسکین پر صدقہ صرف صدقہ ہے جبکہ قرابت داروں پر صدقہ ہی نہیں بلکہ ساتھ
ہی صلہ رحمی بھی ( دوگنا اجر و ثواب ) ہے " ۔ (ترمذی )
مسکین قرابت دار کا پہلا حق :
صدقہ سب سے پہلے جسے دیا جائیگا وہ ایسے قرابت دار ہیں جو مسکین بھی ھوں ،
حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہا نے اپنا باغ صدقہ کیا تو نبی صلی اللہ علیہ و
سلم نے فرمایا : " میں سمجھتا ھوں کہ اس باغ کو تم اپنے قرابت داروں پر
صدقہ کردو " ۔ تو حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ نے وہ باغ اپنے رشتہ داروں اور
چچا زادوں پر صدقہ کر دیا " ۔ ( متفق علیہ )
حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : "میں اپنے بھائیوں میں سے کسی بھائي کے
ساتھ صلہ رحمی کروں ، یہ چیز مجھے بیس درھم صدقہ کرنے سے بھی زیادہ محبوب
ہے " ۔
قرابت داروں پر خرچ کرنے والا شخص سخی اور صاحب جود و کرم ہے ۔ امام شعبی
فرماتے ہیں :
" میرے قرابت داروں میں سے جو بھی فوت ھو اور اس پر کسی کا کوئی قرض ھو ،
اس کا قرض میں ادا کروں گا" ۔
پڑوسی کا حق :
پڑوسی کو بھی قرابت دار شمار کیا گیا ہے اور وہ دوسروں سے بھی زیادہ اہتمام
و نگرانی کا مستحق ہے ۔ چنانچہ ارشاد الہی ہے :
" اور قرابت دار ھمسايہ سے اور اجنبی ھمسایہ سے اور پہلو کے ساتھ ( ھمنشین)
سے بھی " حسن سلوک کرو ۔ ( النساء 36)
قرابت داروں کو تبلیغ کرنا :
اپنے قرابت داروں کو تبلیغ و دعوت وکرنا ، ان کی راہنمائی کرنا اور ان کی
نصیحت و خیر خواہی باقی سب لوگوں سے زیادہ ضروری ہے ۔
اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا ہے :
" اور اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرائیں " ۔ ( الشعراء : 214)
قرابت داروں کی تکریم :
رشتہ داروں کی عزت و تکریم کا حکم دیا گیا ہے مگر شرط یہ ہے کہ انھیں مقدم
کرنے میں کسی کی حق تلفی یا کسی اصل حق میں کمی بیشی نہ ھونے پاۓ ۔ ارشاد
الہی ہے :
" جب بات کرو تو عدل و انصاف کرو ، اگر چہ وہ شخص قرابت دار ہی کیوں نہ ھو
" ۔
(الانعام : 162)
صلہ رحمی کے ثمرات و برکات :
صلہ رحمی پربڑے اچھے اثرات مرتب ھوتے ہیں اور اس کے ثمرات و برکات بہت
زیادہ ہیں جو تعمیر حیات میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں ۔ اہل و عیال اور
اہل خاندان کے ساتھ محبت کرنا رزق میں فروانی و کشادگي اورعمر میں درازی کا
باعث ہے ۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا ہے :
" صلہ رحمی اہل و عیال اور اہل خاندان میں باھمی محبت ، مال میں فروانی اور
عمر میں درازی کا باعث ھوتی ہے " ۔ ( مسنداحمد ) اور بخاری و مسلم میں ہے :
" جسے یہ بات خوشگوار لگے کہ اس کے رزق میں اضافہ ھو اور اس کی عمر دراز ھو
، اسے صلہ رحمی کرنی چاہیۓ " ۔ ( بخاری و مسلم )
شارح بخاری امام ابن التین کہتے ہیں :
" صلہ رحمی اللہ کی اطاعت و فرمانبرداری کرنے اوراس کی نافرمانی سے بچنے کی
توفیق پانے کا سبب بنتی ہے اور اس آدمی کے مرنے کے بعد بھی اس کا ذکر خیر
لوگوں کی زبانوں پر جاری رہتا ہے ۔ گویا کہ وہ آدمی ابھی مرا ہی نہی " ۔
صلہ رحمی : جلیل القدر عبادت :
صلہ رحمی کرنا تمام عبادات سے زیادہ مخصوص اور ایک جلیل القدر عبادت ہے ۔
عمرو بن دینار فرماتے ہیں :
" کسی فریضہ کی ادائيگی کے لۓ اٹھاۓ گۓ قدم کے بعد کوئی قدم ایسا نہیں جو
صلہ رحمی کے لۓ اٹھاۓ گۓ قدم سے زیادہ اجر و ثواب والا ھو ۔ اس کا فوری
ثواب دنیا میں ہی مل جاتا ہے اور اسی عمل پر آخرت کی نعمتیں محفوظ ھو جاتی
ہیں ۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد گرامی ہے :
" کوئی ایسا عمل نہیں جس میں اللہ کی اطاعت کرنا صلہ رحمی سے جلدی ثواب
پانے کا موقع ھو " ۔ (سنن کبری بیہقی ) ۔
جنت کا وعدہ :
قرابت داروں کے حقوق ادا کرنے والے شخص سے جنت کا وعدہ کیا گیا ہے ۔ چنانچہ
نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد حقیقت و بنیاد ہے :
" اہل جنت تین قسم کے لوگ ہیں : عدل و انصاف پسند حاکم ، رحم دل اور نرم
طبیعت کا مالک شخص جو ہر قرابت دار اور مسلمان کے ساتھ ہی نرم دل ھو ، اور
مالدار و غنی جو پاکدامن و پاک سیرت ھو " ۔ ( مسلم )
صلہ رحمی مودت و محبت میں اضافہ اور قرابت کے رشتوں کو مضبوط کرتی ہے ۔ اور
بغض و حقد اور دشمنی و عداوت کو ختم کرتی ہے ۔ اور باھمی تعارف و پہنچان
اور سعادت مندی کا احساس و شعور ھوتا ہے ۔
احسان وصلہ رحمی کے بہت سے ابواب و دروازے اور بہت ہی آسان راستے ہیں ۔ جن
میں سے چند ایک یہ ہیں ، کہ ملاقات کے وقت چہرہ ہشاش و بشاش ھو ، اور
معاملات میں معافی تلافی و نرمی ھو ، قول و کلام میں پاکیزگی و نظافت ھو
اور چہرے پر رونق و بشاشت ھو ، زیارتیں اور ملاقاتیں ، غمی و خوشی میں
شراکت ، احتیاج و ضرورت کے وقت احسان ، اور اچھائی و بھلائی کے کوشش ، ان
کی خير خواہی اور خیر اندیش ھونا ، ان کی مشکلات و مصائب میں مدد و تعاون
کرنا ، اور ان کے مریض کی تیماداری و عیادت کرنا ، ان کی کوتاہیوں اور
لزرشوں سے درگزر کرنا ، ان کی نقصان دہ و تکلیف دہ چیزوں کو چھوڑنا ، اور
آپ کے اہل و عیال مخلوق میں سے آپ کی وجہ سے حرمان و بدبختی کا شکار نہ ھو
جائيں۔ان تمام باتوں کا نچوڑ و خلاصہ اور جامع مانع تعریف یہ ہے :کہ حتی
الامکان بقدر استطاعت ان کے ساتھ نیکی و بھلائی کرنا اور شر و برائی کو ان
سے دور کرنا۔
صلہ رحمی انسان کے سخی و کریم ، وسیع الظرف ، خاندانی اور وفادار ھونے کی
نشانی و علامت ہے ۔ اسی وجہ سے کہا گیا ہے :
" جو اپنے اہل و عیال کے لۓ سعادت مند و خوشی بخت نہیں وہ آپ کے لۓ بھی
سودمند و فائدہ مند نہیں ھو گا ۔ اور جو ان سے مشکلات و مصائب کا دفاع نہیں
کر سکتا وہ آپ کے بھی کچھ کام نہیں آۓ گا ۔ اہل بصیرت و نصیحت حاصل کرنے
والے ہی ان ذمہ داریوں کو پورا کرتے ہیں ۔
ارشاد الہی ہے :
" کیا وہ شخص جو علم رکھتا ھو کہ آپ کی طرف جو آپ کے رب کی جانب سے اتارا
گیا ہے وہ حق ہے ، اس شخص جیسا ھو سکتا ہے جو اندھا ھو ، نصیحت تو وہی قبول
کرتے ہیں جو عقلمند ھوں " ۔ ( الرعد : 19)
خطار کار سے عفو و کرم کا معاملہ :
مسلمانو ! رشتہ دار کوئی معصوم تو ھوتے نہیں کہ ان سے کوئی غلطی نہ ھو ۔ وہ
بھی کبھی غلطی ولزرش میں مبتلا ھو جاتے ہیں ان کے منہ سے غلط بات نکل جاتی
ہے کوئی غلط لفظ کہہ بیٹھتے ہیں ۔ کسی کبیرہ گناہ کا ارتکاب کر گزرتے ہیں :
اگر ان سے کبھی کوئي ایسی چیز سرزد ھو جاۓ تو معافی تلافی کا رویہ اختیار
کریں کیونکہ یہ عفو و کرم کا شیوہ اہل احسان نیکوکاروں کے اوصاف میں سے ہے
۔ معاف کرنے سے اللہ تعالی اس بندے کی عزت میں اضافہ فرماتا ہے ۔ ان کی
برائي کا بدلہ احسان سے دیں ، وہ اگر اپنی کسی غلطی پر کوئی عذر معذرت پیش
کریں تو اسے قبول کر لیں ۔ حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائیوں نے ان کے ساتھ
جو سلوک کیا تھا وہ معروف ہے لیکن جب انھوں نے معذرت کی تو انھوں نے ان کی
معذرت کو قبول فرمایا اور انھیں معاف فرما دیا ، انھیں کوئی ڈانٹ نہیں
پلائي بلکہ ان کے لۓ دعاء فرمائی اور اللہ سے ان کے لۓ مغفرت و بخشش طلب
فرمائی جیسا کہ قرآن میں ہے :
" ( یوسف علیہ السلام نے) جواب دیا : آج تم پر کوئی ملامت نہیں ، اللہ
تمھیں بخشے وہ سب مہربانوں سے زیادہ مہربان ہے " ۔ ( یوسف : 92)
لالچ و بخل کا نتیجہ : ظلم و قطع رحمی :
رشتہ داروں کی غلطیون کو نظر انداز کریں ، ان کی کوتاہیوں اور لزرشوں کو
معاف کریں اور ان کا مواخذہ اور طعن و تشنیع نہ کریں ، محبت و بھائي چارہ
کی راہ اپنائيں اور نرمی و صفائی قلب کو اختیار کریں تو آپ صحیح معنوں میں
مردانہ صفات کے مالک اور اہل وفا لوگوں میں سے ھو جائيں گے ۔ وہ لوگ چاہے
آپ سے قطع تعلقی کریں مگر آپ صلہ رحمی کریں وہ اگر چہ غلطی پر غلطی کرتے
جائيں آپ معافی و تلافی کی عادت نہ چھوڑیں ۔ وہ اگر چہ برائی کریں مگر آپ
نیکی کۓ چلے جائيں ۔ اپنے قرابت دارویں کا محاسبہ نہ کریں ۔ ان سے قطع
تعلقی کر کے ان پر اپنے غصے کا اظہار نہ کریں بلکہ آپ صاحب جود و سخا اور
کریم النفس رہیں اور حرص و لالچ سے اجتناب کریں ۔ یہ چیزیں قطع رحمی کا سبب
بنتی ہیں ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کاارشاد گرامی ہے :
" حرص و لالچ سے بچیں ، اس نے پہلے لوگوں کو ھلاک کرکے رکھ دیا تھا ۔ اسی
حرص و لالچ کے جذبے نے انھیں بخل کا حکم دیا تو وہ بخل کرنے لگے ، اس نے
انھیں ظلم و زیادتی کا حکم دیا تو یہ ظلم و ستم ڈھانے لگے ۔ اس نے انھیں
قطع رحمی کا حکم دیا تو وہ قطع رحمی کرنے لگے " ۔ ( متفق علیہ )
صلہ رحمی کی حقیقت :
احسان کا بدلہ احسان سے دینا برابری کا معاملہ اور مکافات عمل ہے جبکہ صلہ
رحمی تو یہ ہے کہ کوئی شخص اپنے رشتہ دار پر بدلے کی خواہش و انتظار کے
بغیر احسان کرے ۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے :
" صلہ رحمی کرنے والا وہ نہیں جو بدلے میں برابری کر لے بلکہ صلہ رحمی کرنے
والا وہ ہے کہ رشتہ دار اس قطع تعلقی کریں اور وہ ان سے اپنا رشتہ جوڑ رکھے
" ۔ ( صحیح بخاری ) ۔
عبد اللہ بن محیریز سے پوچھا گیا کہ رشتہ داروں کے حقوق کیا ہیں ؟ انھوں نے
فرمایا :
" اگر کوئی آپ کی طرف آۓ تو اس کا خوش دلی سے استقبال کریں اور اگر کوئی آپ
سے بے رخی برتے تو آ پ اس کا پیچھا ( رشتہ داری کرنا ) نہ چھوڑیں " ۔
ایک آدمی نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت اقدس میں حاضر ھوا اور اس
نے عرض کیا :
" میرے رشتہ دار ایسے ہیں کہ میں ان سے تعلق قائم کرنے کی کوشش کرتا ھوں
مگر وہ مجھ سے قطع تعلقی کا رویہ اپناتے ہیں ، میں ان پر نیکی و احسان کرنے
کی راہ اپناتا ھوں ، مگر وہ میرے ساتھ برا سلوک کرتے ہیں ۔ میں حلم و
بردباری سے کام لیتا ھوں مگر وہ مجھ پر زیادتی کرتے ہیں ۔ نبی اکرم صلی
اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : اگر تو ایسے ہی ہے جیسے تو بتا رہا ہے تو
انھیں انگاروں پر لوٹا رہا ہے اور جب تک تم اپنی اسی روش پر قائم رھو گے ۔
اللہ کی طرف سے تمھارے لۓ ایک مدد گار مقرر رہے گا "۔ ( صحیح مسلم ) ۔
رحم کی گواہی :
ہر رحم قیامت کے دن آۓ گا اور صلہ رحمی کرنے والے کے حق میں گواہی دے گا
اور قطع رحمی کرنے والے کے خلاف گواہی دے گا ۔ ارشاد الہی ہے :
" اور رشتہ ناطے والے ان میں سے بعض بعض سے زیادہ نزدیک ہیں اللہ کے حکم
میں ، بیشک اللہ تعالی ہر چیز کا جاننے والا ہے " ۔ ( الانفال : 75)
کامیاب بھی نقصان خوردہ اور فاتح بھی شکست خوردہ :
مسلمانو ! صلہ رحمی کرنے سے تعلقات میں اضافہ و قوت پیدا ھوتی ہے اور آپ کا
قریبی قرب پر آپ کو اکتاہٹ میں مبتلا نہیں کرے گا اور دوری میں آپ کو بھولے
گا نہیں ۔ اس کی عزت آپ کی عزت ہے ، اس کی رسوائی میں آپ کی بھی ذلت و
رسوائی ہے ، اعزا و اقارب کی دشمنی سراسر شر و بلاء ہے ۔ اس دشمنی میں
کامیابی پانے والا بھی نقصان اٹھانے والا ہی ہے اور اس معاملہ میں فتح و
نصرت پانے والا بھی در اصل مغلوب و شکست خوردہ ہی ہے ۔
قطع رحمی : کبیرہ گناہ :
قطع رحمی کبیرہ گناھوں میں سے ہے ۔ اس کا ارتکاب کرنے والے کو لعنت و تباہی
اور ھلاکت کی وعید سنائي گئی ہے :
چنانچہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے :
" اور تم سے یہ بھی بعید نہیں کہ اگر تمھیں حکومت و اقتدار حاصل ھو جاۓ تو
تم زمین میں فساد برپا کر دو اور رشتے ناطے توڑ ڈالو ، یہ وہی لوگ ہیں جن
پر اللہ کی پھٹکار ہے اور جن کی سماعت اور آنکھوں کی روشنی چھن لی ہے " ۔ (
محمد : 22 ۔ 23 )
زوال نعمت ، انجام بد اور فوری عقوبت کا سبب :
قرابت داروں اور عزیزوں میں ایک دوسرے سے بے رخی برتنا زوال نعمت ، انجام
بد اور جلد عقوبت و سزا کی علامت و اعلان ہے ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و
سلم کا ارشاد ہے :
" قطع رحمی کرنے والا شخص جنت میں داخل نہیں ھو گا " ۔ ( متفق علیہ )
حافظ ابن حجر رحمة الله عليه نے بخاری شریف کی شرح فتح الباری میں اس حدیث
کے تحت لکھا ہے :
" قطع رحمی کرنے والا اللہ کی رحمتوں سے منقطع و محروم ھوتا ہے ۔اور اس کی
سزا آخرت سے قبل اسی دنیا میں اسے دے دی جاتی ہے " ۔
ایسے ہی نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا ہے :
" کوئی گناہ ایسا نہیں کہ جس کی اخروی سزا کے ساتھ ساتھ اللہ اسے اس دنیا
میں بھی فوری سزا نہ دے دے سواۓ بغاوت و سرکشی اور قطع رحمی کے " ۔ (ترمذی
)
لوگوں کی نظروں سے گرانے والی چیز :
یہ قطع رحمی ذلت و رسوائی ، ضعف و کمزوری اور تنہائی کا باعث ہے اور یہ غم
و اندوہ اور پریشانیاں لاتی ہے ۔ قطع رحمی کرنے والا اخوت و بھائی چارے پر
قائم نہیں رہتا ۔ نہ ہی اس سے وفا کی امید کی جا سکتی ہے اور نہ ہی اس کی
اخوت میں صدق و سچائی کی توقع کی جاسکتی ہے ۔ وہ اپنی حالت سے اس بات کیطرف
اشارہ دے رہا ھوتا ہے کہ اس سے اللہ تعالی نے تعلق رحمت توڑ رکھا ہے ۔
لوگوں کی حقارت آمیز تظریں اس کا پیچھا کرتی رہتی ہیں بظاھر چاہے اسے کتنا
ہی اعزاز و اکرام ( گارڈآف آنرز ) سے نوازا جا رہا ھو ۔ صحابہ کرام رضی
اللہ عنہم قطع رحمی کرنے والے ساتھ بیٹھنے سے وحشت محسوس کرتے اور کنی
کتراتے تھے ۔ حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : قطع رحمی کرنے والا
شخص جب ھمارے پاس سے اٹھ کر چلا جاتا توھمیں خوشی محسوس ھوتی ، اورحضرت عبد
اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نماز فجر کے بعد اگر کسی حلقہ درس میں بیٹھے
ھوتے تو فرماتے : میں قطع رحمی کرنے والے کو اللہ کی قسم دیتا ھوں کہ وہ ھم
سے اٹھ کر چلا جاۓ کیونکہ اب ھم اپنے رب سے دعا مانگنے لگے ہیں اور قطع
رحمی کرنے والے پر آسمان و رحمت کے دروازے بند کۓ جا چکے ہیں
و الصلح خیر :
جس کی کسی رشتہ دار کے ساتھ کوئی عداوت و دشمنی چل رہی ھو اسے چاہیۓ کہ
فوری طور پر صلہ رحمی شروع کر دے اسے معاف کر دے اور اس کی طرف سے اپنے دل
کو صاف کر لے پس جس نے معاف کر دیا اور صلح و صفائی کر لی اس کا اجر و ثواب
اللہ کے پاس ہے ۔
حسن اخلاق کا صلہ رحمی میں بڑا عمل دخل اور اثر ہے قرابت داروں کے ساتھ ادب
سے پیش آئیں ۔ جس نے اپنی زبان کی حفاظت کر لی اس نے اپنے نفس کو راحت و
سکون میں رکھا لیا ۔
ھدیہ و تحفہ کی تاثیر :
ھدیہ و تحفہ دینے کا محبت و مودت پیدا کرنے اور اسے مضبوط کرنے میں بڑا رول
ہے اور دلوں کو قریب کرنے میں ھدیہ بڑا کردار ادا کرتا ہے ۔ دلوں کو محبت و
مودت پر جمع کرنے والا چیز سخی کا ہاتھ اور نیکی و احسان ہے اور جب آپ زبان
سے اچھی بات کرتے ہیں تو عمل سے بھی نیکوکاری کیجیۓ.
اللہ پاک کمی معاف فرماۓ.آمین
|
|