جمعہ نامہ : سیرت نبی ﷺ کی روشنی میں زندگی کا سفر

سورۂ انبیاء میں اللہ تبارک و تعالیٰ کی ایک بیش بہا نعمتوں کا ذکر اس طرح ہے کہ:’’اور تمہارے اوپر سات مضبوط آسمان قائم کیے ۔ اور ایک نہایت روشن اور گرم چراغ پیدا کیا‘‘ ۔ گرم چراغ کی وضاحت سورۂ نوح میں ہے: ’’کیا دیکھتے نہیں ہو کہ اللہ نے کس طرح سات آسمان تہ بر تہ بنائے اور اُن میں چاند کو نور اور سورج کو چراغ بنایا؟‘‘ گویا گرم چراغ سورج جو بے تحاشہ جوہری توانائی پیدا کرکے ساری کائنات میں پھیلاتا ہے ۔ اس کی روشنی اور گرمی سے لاکھوں میل دور انسان اور نباتات و حیوانات مستفید ہوتے ہیں ۔ اس آیت میں سورج کےساتھ چاند کا ذکر نور یعنی مینارۂ نور کے طور پر کیا گیا ہے۔ چاند توانائی پیدا تونہیں کرتا لیکن وہ سورج کی روشنی کو منعکس کرکے رات کے اندھیرے کو دور کردیتا ہے۔ یہی بات سورۂ فرقان میں اس طرح بیان کی گئی ہے کہ :’’بڑا متبرک ہے وہ جس نے آسمان میں برج بنائے اور اس میں ایک چراغ اور ایک چمکتا چاند روشن کیا ‘‘۔

قرآن حکیم میں سورج کو سراج اور چاند کے لیے نور یا منیر کی صفت سے متصف کیا گیا ہے لیکن سورۂ احزاب میں نبی کریم ﷺ کے تعارف ان دونوں القاب کے ساتھ اس طرح کرایا گیا کہ :’’(اللہ نے آپؐ کو) روشن چراغ بنا کر بھیجا ‘‘۔ یعنی آپ ﷺ چاند کی طرح آیات الٰہی کو من و عن عوام الناس تک پہنچا کر گمراہی کے اندھیرے کو دور کرتے ہیں نیز سورج کی مانند آپ کی سیرت مبارک میں اللہ کی مرضی کے نفاذ و غلبہ کی جدو جہد بھی صاف دکھائی دیتی ہے۔ رسول اللہﷺ کے مشن کی بابت یہ بیان اس طرح سے شروع ہوتا ہے کہ :اے نبی(ﷺ)! ہم نے آپ کو گواہ بنا کر اور خوشخبری دینے والا اور ڈرانے والا اور اللہ کی طرف اس کے حکم سے بلانے والا اور روشن چراغ بنا کر بھیجا ہے‘‘۔

یہاں پر نبی کریم ﷺ کی پانچ اوصاف کا ذکر کیا گیا ہے۔ سب سے پہلے شاہد یعنی گواہ ۔ اس کائنات کے عظیم حقائق مثلاً رب کائنات کی ذات و صفات اور مقصد حیات یا آخرت کا انجام وغیرہ غیب میں ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے رسول کو ان حقائق سے وحی کے ذریعہ روشناس فرماتے ہیں ۔ اس کے بعد بنی نوع انسانی پر اللہ کے بنی اس کی گواہی دیتے ہیں ۔ اس کے بغیر انسان کلمۂ شہادت پڑھ کر مشرف بہ اسلام نہیں ہوسکتا۔ انبیاء کی دوسری اہم ذمہ داری نیکو کاروں کو جنت کی خوشخبری سنانا ہے اور بدکاروں کو جہنم کے عذاب سے خبردار کرنا یا ڈرانا ہے۔ اس کے بعد چوتھا وصف اللہ کی طرف اس کے حکم سے بلانا یعنی دعوت دینا ہے۔ یعنی گواہی ، بشارت ، انذار اور دعوت الی اللہ ا نبیاء اور ان کی امت کے مشن کا اہم ترین جز ہیں ۔

ان چار اوصاف کے بعد روشن چراغ ہونے کاذکر اللہ کے رسولؐ کی سیرتِ پاک کےکتاب اللہ میں ڈھلے ہونے کا غماز ہے ۔ حضرت عائشہ ؓ سے سوال کیا گیا :’’اُم المومنین ؓ! رہبر کائنات ﷺکے کچھ اخلاق بیان فرمائیں۔ آپؓ نے فرمایا: کیا تم قرآن نہیں پڑھتے۔ امام کائنات ﷺ کا اخلاق سرتاپا قرآن تھا‘‘۔ ارشاد ربانی ہے :’’در حقیقت تم لوگوں کے لیے اللہ کے رسولؐ میں ایک بہترین نمونہ ہے‘‘۔ عاشقانِ رسول ﷺ کو نبی کریم ﷺ کا اسوہ اپنا کر ایسا روشن چراغ بن جانا چاہیے جو خود جل کر دوسروں کو روشنی دیتا ہے اور اس سے دنیا کی تاریکی کافور ہوجاتی ہے ۔اہل ایمان کی زندگی کا سفر ہدایت کے اجالے میں طے ہونا چاہیے اورانہیں دوسروں کی اخروی فلاح و کامرانی کا وسیلہبھی بننا چاہیے۔ ایسے ایمان والوں کو خوشخبری دی گئی ہے کہ:’’ اللہ کی طرف سے ان کیلئے بڑا فضل و کرم ہے‘‘اور انہیں خبردار کیا گیا ہے کہ :’’ کافروں اور منافقوں کی اطاعت نہ کیجئے اور ان کی اذیت رسانی کو چھوڑ دیجئے (اس کی پرواہ نہ کریں) اور اللہ پر بھروسہ کیجئے اور کارسازی کیلئے اللہ کافی ہے‘‘۔روشنی کے سفرکی شاہِ کلید یہی ’ توکل الی اللہ ‘ہے۔
 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1448724 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.