عرشِ الہی کا سایہ دلانے والے اعمال - چالیس حدیثیں

بندۂ مومن جب بھی صدقِ نیت کے ساتھ نیک اعمال کرتا ہے تو اللہ تعالی کی خصوصی رحمتوں کا اس پر نزول ہوتا ہے ، اللہ تعالی اُسے اجر وثواب کے پیمانے بھر بھر کر عطا فرماتا ہے لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ مخصوص نیک اعمال پر مُرَتَّب ہونے والے ثواب سے آگاہی ہوجانے کے بعد ایک عام مسلمان کے عمل کا جذبہ بھی بڑھتا ہے اور نفس پر جو اعمال شاق و دشوارہوتے ہیں اُن کا کرنا آسان ہوجاتا ہے ، اللہ تعالی نے اپنے پیارے حبیب ﷺ کے غلاموں پر خصوصی رحمت فرما تے ہوئے انتہائی آسان اعمال پر بیش بہا انعامات کا وعدہ فرمایا ہے لیکن غفلت کی بناء پر مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد ان اعمال کی طرف متوجہ نہیں، علماء اسلام نے اعمالِ صالحہ پرمُرَتَّب ہونے والے ثواب کے عنوان پر متعدد کتب تالیف کیں مقصود یہی تھا کہ مسلمان فضائل کو دیکھ کرعمل کی ر غبت حاصل کریں لیکن ان میں سے اکثر کتب ضخیم ہیں عام لوگ ان کا مطالعہ نہیں کر پا تے پس اسی امر کو ملحوظ رکھتے ہوئےعرش کا سایہ دلانے والے اعمال کے عنوان کے تحت فقط چالیس احادیث و آثار جمع کرنے کی سعی کی ہے تاکہ نفس بَشوق و رغبت مطالعہ کرے اور توفیق اللہ ہی کی طرف سے ہے ۔اللہ پاک دنیا میں ہمیں اپنی رحمتوں کے سائے اور بروزِ قیامت اپنے عرش کے سائے میں رکھے ! آمین
۱ ۔ پیارے آقا ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ بروزِ قیامت فرمائے گا: میرے جلال کی وجہ سے آپس میں ایک دوسرے سے محبت کرنے والے کہاں ہیں؟ آج میں انہیں اپنے عرش کے سائے میں رکھوں گا، یہ وہ دن ہے جس میں میرے عرش کے سوا کوئی سایہ نہیں۔(صحیح مسلم رقم :۳۷۔(۲۵۶۶)۴/۱۹۸۸)
۲ ۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : سات شخص اللہ تعالیٰ کے عرش کے سایہ میں ہوں گے اس دن جس دن اس کے عرش کے سوا کوئی سایہ نہ ہوگا۔(۱) عادل حکمران (۲) وہ نوجوان جس کی نشوونما اللہ تعالیٰ کی عبادت میں ہوئی۔(۳) وہ شخص جس کادل مسجدوں کے ساتھ لگا رہتا ہو۔(۴) وہ دو شخص جو اللہ تعالیٰ کے لیے آپس میں محبت کرتے اس پر جمع ہوتے اور اسی پر جدا ہوتے تھے۔ ( ۵) وہ شخص جسے خاندانی، حسین و جمیل عورت نے اپنی طرف بلایا تو اس نے جواباً کہہ دیا: میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہوں۔(۶) وہ شخص جو صدقہ دے اور اسے چھپائے یہاں تک کہ اس کے بائیں ہاتھ کو پتا نہ چلے کہ دائیں ہاتھ نے کیا خرچ کیا ہے۔(۷) وہ شخص جو تنہائی میں اللہ تعالیٰ کا ذکر کرے اور اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے۔(صحیح البخاری ، برقم :۶۶۰،۱/۱۳۳)
۳ ۔ یہی حدیث پاک ایک دوسری سند سے روایت ہے اس میں ان الفاظ : وہ نوجوان الخ کی جگہ یہ الفاظ ہیں: اور وہ شخص جس نے بچپن میں قرآن پاک سیکھا اور اپنے بڑھاپے تک اس کی تلاوت کرتا رہا۔(مشیخۃ ابن الشاذان الصغری ،برقم :۳۲ ،ص:۱۱)
۴ ۔ نبی پاک ﷺنے فرمایا :جو تنگ دست کو مہلت دے ، یا بارِ قرض اس سے اتار دے ، تو اللہ تعالیٰ اسے اس روز اپنے عرش کا سایہ عطا فرمائے گا جس دن اس کے سوا سایہ نہ ہوگا۔(صحیح مسلم ، رقم :(۷۴)۳۰۰۶ ،۴/۲۳۰۱)
۵ ۔ نبی پاک ﷺ نے فرمایا : بلاشبہ انصاف کرنے والے بروزِ قیامت اللہ تعالیٰ کے یہاں عرش کی دائیں جانب نور کے منبروں پر ہوں گے یہ وہ لوگ ہوں گے جو اپنے فیصلوںمیں اور اپنے اہل خانہ کے بارے میں اور جن پر نگران ہوئے ان کے بارے میں عدل سے کام لیتے تھے۔(صحیح مسلم،۱۸۔(۱۸۲۷)۳/۱۴۵۸)
۶ ۔ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا: جس نے راہِ خدا میں جہاد کرنے والے کی مدد کی ، یاتنگ دست کی بحالتِ تنگی مدد کی یا مکاتَب غلام کو آزادی دلانے میں مدد دی ، تو اللہ تعالیٰ اسے اس روز سایۂ عرش عطا کرے گا جس دن اس کے سوا سایہ نہ ہوگا۔(المسند للأمام أحمد ،رقم :۱۵۹۸۷ ،۲۵/۳۶۳)
۷ ۔ نبی پاک ﷺنے فرمایا : جو غازی کے سر پر سایہ کرے گا ، اللہ تعالیٰ بروزِ قیامت اسے عرش کا سایہ عطا فرمائے گا۔(المسند للأمام أحمد ، رقم۱۲۶ ،۱/۲۷۷)
۸ ۔محمد مصطفی ﷺ نے فرمایا : تین خصلتیں جس شخص میں ہوں گی اللہ تعالیٰ اسے اس روز اپنے عرش کے سائے تلے جگہ دے گا جس دن اس کے سوا سایہ نہ ہوگا(۱) ناگواری کے باوجود وضو کرنا (۲) اندھیرے میں مسجد کی طرف آمد ورفت رکھنا (۳) بھوکے کو کھانا کھلانا۔(کنزالعمّال،رقم:۴۳۲۱۹ ،۱۵/۸۱۰۔۸۱۱)
۹ ۔ نبی پاک ﷺ نے فرمایا : جو بھوکے کو اتنا کھلائے حتّی کہ اسے سیر کردے ، اللہ تعالیٰ اسے اپنے عرش کے سایہ تلے رکھے گا۔(مکارم الأخلاق للطبرانی ، رقم :۱۶۴ ،۳۷۳)
۱۰ ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : سچا تاجر بروزِ قیامت اللہ تعالیٰ کے عرش کے سایہ تلے ہوگا۔(الترغیب والترھیب لقوام السنۃ ،رقم :۷۹۴ ،۱/۴۴۸)
۱۱ ۔ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا : امانت دار سچا تاجر بروزِ قیامت انبیاء و صدیقین و شہداء کے ساتھ ہوگا۔(سنن الترمذی ، رقم :۱۲۰۹ ،۳/۵۰۷ )
۱۲ ۔ حمت عالم ﷺنے فرمایا :جس نے تنگ دست کو مہلت دی اورا س کی مدد کی ، بروزِ قیامت اللہ تعالیٰ اسے اپنے عرش کا سایہ عطا فرمائے گا۔(المعجم الأوسط ، رقم :۷۹۲۰،۸/۴۸ )
۱۳ ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :جو کسی یتیم یا بیوہ کی کفالت کرے ، اللہ تعالیٰ اس کو بروزِ قیامت عرش کا سایہ عطا فرمائے گا۔(المعجم الأوسط ،رقم :۹۲۹۲،۹/۱۱۷ )
۱۴ ۔ نبی پاک ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرف وحی فرمائی : اے میرے خلیل ! اپنے اخلاق کو اچھا کرو اگرچہ معاملہ کفار کے ساتھ ہو، تم نیکوںمیں داخل ہوجائو گے اور بلاشبہ میری بات اچھے اخلاق والوں کے بارے میں سبقت کر چکی کہ میں انہیں اپنے عرش کا سایہ دوں گا۔ اور انہیں حظیرۃ القدس سے سیراب کروں گا، اور انہیں اپنے جوارِ رحمت کے قریب رکھوں گا۔(المعجم الأوسط ، رقم :۶۵۰۶،۶/۳۱۵ )
۱۵ ۔ نبی پاکﷺنے صحابہ کرام سے فرمایا : کیا تم لوگ جانتے ہو کہ بروزِ قیامت اللہ تعالیٰ کے عرش کے سایہ میں سبقت کرنے والے لوگ کون ہوں گے؟ ہم نے عرض کیا: اللہ و رسول بہتر جانتے ہیں۔ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا: وہ لوگ جنہیں جب حق عطا کیا جائے تو اس کو قبول کرلیں ، اور جب حق کا سوال ہو تو اس کو خرچ کریں اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کریں تو یوں کریں جیسا کہ خود اپنے لیے کرتے ہیں۔(المسند للأمام أحمد ،رقم :۲۴۳۷۹،۴۰/۴۴۰)
۱۶ ۔ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا : نماز جنازہ پڑھا کرو تاکہ تم غمگین رہو کہ غمگین اللہ تعالیٰ کے عرش کے سایہ تلے ہوگا۔(شعب الأیمان رقم :۸۸۵۱ ،۱۱/۴۷۰)
۱۷ ۔ نبی پاک ﷺ نے فرمایا : عدل و انصاف سے کام لینے والا متواضع حکمران زمین میں اللہ تعالیٰ کا سایہ اور اس کا نیزہ ہے ، تو جس نے اسے اللہ تعالیٰ کے بندوں کے بارے میں اور خود اس کے بارے میں نصیحت کی ، تو اللہ تعالیٰ اسے اس دن سایہ عطا فرمائے گا جس دن اس کے عرش کے سایہ کے علاوہ سایہ نہ ہوگا، اور جس نے اسے اس کی جان کے بارے میں یا اللہ کے دیگر بندوں کے بارے میں دھوکا دیا ، اللہ تعالیٰ بروزِ قیامت اسے رسوا کردے گا۔(الترغیب والترھیب لقوام السنّۃ رقم :۲۱۸۸،۳/۱۱۳)
۱۸ ۔ رسول اللہ ﷺنے فرمایا : حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں عرض کیا :جس عورت کے بچے کا انتقال ہوجائے ، تو ایسی عورت کی تعزیت کرنے کی جزا ء کیا ہے ؟ تو اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا :میں اسے اپنے عرش کے سایہ میں رکھوں گا، جس دن میرے عرش کے سوا سایہ نہ ہوگا۔(کنزالعمّال ،رقم :۴۲۶۱۳،۱۵/۶۵۹)
۱۹ ۔ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا : جسے یہ بات پسند ہو کہ اللہ تعالیٰ اسے بروزِ قیامت جہنم کی گرمی سے بچالے اور اسے اپنے عرش کا سایہ عطا فرمائے تو اسے چاہیے کہ مسلمانوں پر سخت نہ ہو اور اسے ان پر رحم کرنے والا ہونا چاہیے۔(شعب الایمان رقم :۱۰۷۴۷ ،۱۳/۵۳۸)
۲۰ ۔ نبی پاک ﷺ نے فرمایا : تین شخص اس روز سایۂ عرش میں ہوں گے، جس دن اس کے سائے کے علاوہ سایہ نہ ہوگا۔(۱) صلہ رحمی کرنے والاا للہ تعالیٰ ایسے کے رزق میں اضافہ کرتا اور عمر کولمبا کرتا ہے۔(۲) وہ عورت جس کا شوہر انتقال کر گیا اور چھوٹے یتیم بچے پیچھے چھوڑ گیا اوروہ عورت کہے:میں نکاح نہیں کروں گی، اور ان بچوں کی پرورش کروں گی یہاں تک کہ یا تو ان کا انتقال ہوجائے یا اللہ تعالیٰ انہیں غنی کردے۔(۳) وہ بندہ جس نے مہمان کے لیے کھانا بنایا اور اس میں اچھا خرچ کیا پھر اس کھانے پر یتیم اور مسکین کو بلایا اور رضائے الہی کے لیے ان کو کھانا کھلایا۔(الفردوس بمأثور الخطاب ،برقم :۲۵۲۶،۲/۹۹)
۲۱ ۔ پیارے آقاﷺ نے فرمایا : تین شخص بروزِ قیامت عرش الہی کے سائے میں ہوں گے۔(۱) وہ شخص جس نے ہما وقت اس بات کومدِنظر رکھا کہ اللہ تعالیٰ ساتھ ہے۔(۲) وہ مرد جسے عورت نے اپنی طرف بلایا اور ا س نے خوفِ الہی کے سبب اسے چھوڑ دیا۔(۳) وہ شخص جو لوگوں سے اللہ تعالیٰ کے جلال کی وجہ سے محبت کرتا ہو۔(المعجم الکبیر ،رقم :۷۹۳۵ ،۸/۲۴۰)
۲۲ ۔ حضرت سیدنا ابوہریرہ بیان کرتے ہیں: دنیا میں بھوکے رہنے والے وہ ( خوش نصیب) ہیں جن کی روح کو اللہ تعالیٰ قبض فرمائے گا اور یہ وہ لوگ ہیں کہ جب غائب ہوجائیں تو تلاش نہ کیے جائیں اور اگر موجود ہوں تو پہچانے نہ جائیں یہ لوگوں میں پوشیدہ ہوتے ہیں اور آسمانوں میں مشہور جب جاہل انہیں دیکھے تو انہیں بیمار گمان کرے حالانکہ انہیں کچھ بیماری نہیں بلکہ خوف خدا کے سبب ان کی یہ حالت ہے بروزِ قیامت وہ عرشِ الہی کے سایہ میں ہوں گے جس دن اس کے سوا دوسرا سایہ نہ ہوگا۔(الفردوس بمأثور الخطاب ، ۱۶۵۴ ،۱/۴۰۹)
۲۳۔ رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا : لوگوں میں سے اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے مقرب وہ ہوں گے جو بھوکے پیاسے اور خوفزدہ رہے ہوں گے یہ وہ چھپے ہوئے نیک لوگ ہیں کہ اگر موجود ہو تو پہچانے نہ جائیں اور اگر غائب ہوں تو انہیں تلاش نہ کیا جائے۔(المعجم الکبیر ،رقم :۵۳ ،۲۰/۳۶)
۲۴ ۔ نبی پاک ﷺ نے فرمایا :حاملینِ عرش انبیاء کرام اور اصفیاِء کرام کے ساتھ اس روز عرش کے سائے میں ہوں گے جس دن اس کے سوا سایہ نہ ہوگا۔(البدور السافرۃ ،برقم :۳۵۸ ،ص:۱۶۹)
۲۵ ۔پیارے آقاﷺ نے فرمایا : تین شخص بروز ِقیامت بحالت ِامن عرش کے سائے میں بات چیت کررہے ہوں گے(۱) وہ شخص جسے اللہ تعالیٰ کے حق کی ادائیگی میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت نے نہ روکا ہو (۲) وہ شخص جس نے اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ شے کی طرف ہاتھ نہ بڑھایا ہو(۳) وہ شخص جس نے اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ چیز کی طرف نگاہ نہ کی ہو۔(الترغیب والترھیب رقم :۲۲۵۶ ،۳/۱۴۴)
۲۶ ۔ رسول اللہ ﷺنے فرمایا :دنیا میں زہد وورع اختیار کرنے والے کل بروزِ قیامت اللہ تعالیٰ کے قربِ خاص میں ہوں گے۔(الترغیب والترھیب ،رقم :۲۲۵۶ ،۳/۱۴۴)
۲۷ ۔ حضرت سیدنا موسیٰ بن عمران علیہ الصلوۃ والسلام نے عرض کیا :اے میرے رب عزوجل ! تو جنت میں کسے سکونت دے گا؟ اور جس دن تیرے عرش کے سوا سایہ نہ ہوگا، تو کن لوگوں کو سایۂ عرش عطا فرمائے گا؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : یہ وہ لوگ ہوں گے جنہوں نے زناکو اپنی آنکھ سے دیکھا تک نہ ہوگا، اور نہ ان کے اموال میں سود کا دخل ہواہوگا، اور نہ وہ اپنے فیصلوں پر رشوتیں لیتے ہوں گے، ان لوگوں کے لیے خوشخبری اور اچھا ٹھکانہ ہے۔(شعب الایمان ،رقم :۵۱۲۵ ،۷/۳۶۰)
۲۸ ۔ نبی پاکﷺ نے فرمایا : تین لوگوںکو اللہ تعالیٰ اپنے عرش کا سایہ عطا فرمائے گا، جس دن اس کے سوا سایہ نہ ہوگا (۲) امانت دار تاجر (۲) عادل بادشاہ (۳) دن میں سورج کی (اوقاتِ نماز کے لیے) رعایت کرنے والا۔(الدر المنثور ، ۳/۳۲۷)
۲۹ ۔ نبی پاک ﷺ نے فرمایا : تین لوگ اللہ تعالیٰ کے عرش کے سایہ میں ہوں گے، جس دن اس کے سوا کوئی سایہ نہ ہوگا (۱) میرے کسی پریشان حال امتی کی پریشانی دور کرنے والا (۳) میری سنت کو زندہ کرنے والا(۳) مجھ پر باکثرت درود پڑھنے والا۔(بستان الواعظین رقم :۴۴۱ ،ص:۲۸۶)
۳۰ ۔ حضرت سیدنا عبدالعزیز بیان کرتے ہیں: کہا جاتا ہے: تین لوگ بروزِ قیامت سایۂ عرش تلے ہوں گے، بیماروں کی عیادت کرنے والا (۲) فوت شدہ افراد کا کفن دفن کرنے والا (۳) جس عورت کا بچہ مر گیا ہو ایسی عورت کی تعزیت کرنے والا۔(البدور السافرۃ ،برقم :۳۶۵ ،ص:۱۷۰) ۳۱ ۔ نبی کریم ﷺنے فرمایا :بروزِ قیامت جب لوگ حساب کتاب میں ہوں گے ایک منادی ندا کرے گا کہ وہ لوگ کہاں ہیں جو بیماروںکی عیادت کیا کرتے تھے؟ پھر انہیں نور کے منبروں پر بٹھایا جائے گا، وہ اللہ تعالیٰ سے کلام کرتے ہوں گے، حالانکہ لوگ حساب میں ہوں گے۔(الترغیب لابن شاہین ، رقم :۴۸۰ ص:۱۳۸)
۳۲ ۔ حضرت سیدنا مغیث بن سُمَیّ بیان کرتے ہیں: سورج لوگوں کے سروں پر کچھ گز کے فاصلے پر ہوگا، ا ور جہنم کے دروازے کھول دیئے جائیں گے، لوگوں پر جہنم کی گرمی اور لو چل رہی ہوگی اور جہنم کے شعلے ان پر آتے ہوں گے، لوگوں کا پسینہ زمین پر بہتا ہوگا، اس پسینہ کی بو مردار کی بدبو سے بدتر ہوگی اور روزے دار عرش ِالہی کے سائے میں ہوں گے۔(النھایۃ فی الفتن ۱/۳۴۲)
۳۳ ۔ حضرت سیدنا قیس جہنی بیان کرتے ہیں: رمضان کے جس دن میں بندے نے روزہ رکھا ہوگا، بروزِ قیامت وہ روزہ بادل کی صورت میں آئے گا اور اس بادل میں موتی کا ایک محل ہوگا، جس کے ستر دروازے ہوں گے اور ہر دروازہ سرخ یاقوت کا ہوگا۔(فضائل شہر رمضان لعبد الغنی المقدسی ،فضائل شھر رمضان ،برقم :۲۸ ،ص:۶۵)
۳۴ ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے عرض کیا : اے میرے رب عزوجل !جواپنی زبان اور دل سے تیرا ذکر کرے اس کی جزا کیا ہے ؟ ارشاد فرمایا : اے موسیٰ علیہ السلام ! بروزِ قیامت میں اسے اپنے عرش کا سایہ عطا کروں گا اور اسے اپنے قرب خاص میں رکھوں گا۔(حلیۃ الأولیاء ،فمن الطبقۃ الاولی من التابعین ،وھب بن منبہ ،۴/۴۵)
۳۵ ۔ حضرت سیدنا موسیٰ علی نبینا وعلیہ الصلاۃ والسلام نے اللہ تعالیٰ سے سوال کیا : اے میرے رب ! تو مجھے اپنے ان اہلِ معرفت کی خبر دے جنہیں تو اس روز اپنے عرش کے سایہ میں جگہ دے گا، جس دن اس کے سوا سایہ نہ ہوگا۔ ارشاد فرمایا: یہ وہ لوگ ہیں جن کے دل پاک ہوں گے جن کے ہاتھ گناہوں، جرموں سے بَری ہوں گے جو میرے جلال کی وجہ سے ایک دوسرے سے محبت کرتے ہوں گے ا ن کے سامنے جب میرا ذکر کیا جاتا تو وہ بھی میرا ذکر کرنے لگتے۔ اور جب ان کا ذکر کیا جاتا تو میں ان کا چرچا کرتا ہوں جو مشقت کے باوجود اچھی طرح وضو کرتے اور میرے ذکر کی طرف اس طرح رجوع کرتے ہیں جیسا کہ پرندے اپنے گھونسلوں کا رخ کرتے ہیں اور میری حرمتوں کی پامالی ہوتے دیکھ کر ایسے غضبناک ہوتے ہیں جیسا کہ چیتا جنگ کے وقت غضبناک ہوتا ہے، اور وہ میری محبت کے ساتھ یوں مانوس ہوتے جیسا کہ بچہ لوگوںکی محبت سے مانوس ہوجاتا ہے۔(الزہد للأمام أحمد بن حنبل ،رقم:۳۸۹ ،ص:۶۴)
ابن عساکر نے اسے ایک اور سند سے روایت کیا ہے جس میں یہ الفاظ زائد ہیں: جو لوگ میری مسجدوںکو آباد کرتے ہیں، اور بوقتِ صبح استغفار کرتے ہیں۔(تاریخ دمشق لابن عساکر ، ۶۱/۱۴۱)
۳۶ ۔ حضرت سیدنا کعب بیان کرتے ہیں : اللہ تعالیٰ نے توریت میں حضرت موسیٰ علیہ ا لسلام کی طرف وحی فرمائی: اے موسیٰ علیہ السلام ! جو نیکی کی دعوت دے اور برائی سے منع کرے اور لوگوں کو میری فرمانبرداری کی طرف بلائے تو دنیا اور قبر میں اس کے لیے میرا ساتھ ہے( میری رحمت اس کے ساتھ ہے) اور بروز قیامت وہ میرے (عرش کے) سایہ میں ہوگا۔(حلیۃ الأولیاء ۶/۳۵)
۳۷ ۔ جب حضرت موسیٰ علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنے رب کی طرف ( ملاقات کے لیے ) جلدی کی تو آپ علیہ السلام نے ایک شخص کو سایۂ عرش میں دیکھا ،آپ نے اس کی قدر و منزلت کی تحسین فرمائی اور ارشاد فرمایا : یہ شخص اللہ تعالیٰ کے نزدیک مکرم ہے ، پھر آپ نے اللہ تعالیٰ سے سوال کیا کہ آپ کو اس کا نام بتادے اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس کا نام بتادیا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا :اب میں تمہیں اس کے عمل کی خبر دیتا ہوں اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو جو عطا فرمایا ہے یہ ا س پر حسدنہیں کرتا تھا ،نہ ہی چغلی کرتا تھا، اور نہ اپنے و الدین کا نافرمان تھا۔(حلیۃ الأولیاء ، ۴/۱۴۹)
۳۸ ۔ نبی پاک ﷺ نے فرمایا : مقتول تین طرح کے ہیں (۱) وہ مومن مرد جس نے اپنے جان اور مال کے ساتھ جہاد کیا حتی کہ جب دشمنوں سے ملا تو ان سے قتال کیا، یہاں تک کہ شہیدہوگیا۔ یہ شہید لائق فخرہے، اللہ تعالیٰ کے بنائے ہوئے خیمہ میں عرش کے نیچے ہوگا، انبیاء کرام علیہم السلام درجہ نبوت کے سبب اس سے افضل ہوں گے۔(المسند للأمام أحمد،رقم :۱۷۶۵۷،۲۹/۲۰۳)
۳۹ ۔ نبی پاک ﷺ نے فرمایا : شہداء تین طرح کے ہیں(۱) وہ شخص جو اپنی جان اور مال کے ساتھ بنیتِ ثواب راہِ خدا عزوجل میں نکلا ا س کا مقصود نہ تو قتال کرنا ہے اور نہ قتل ہونا اس کا مقصود لشکر مسلمین کی بڑھوتی ہے، پس اگر یہ شخص مرجائے یا قتل کردیا جائے تو اس کے تمام ہی گناہوںکو معاف کردیا جائے گا اور عذابِ قبر سے اسے بچالیا جائے گا اور اسے سب سے بڑی گھبراہٹ سے امن دے دیا جائے گا اور اس کی شادی حورعین سے کردی جائے گی اور اسے کرامت کا حلہ پہنایاجائے گا، اس کے سر پر پر وقار کا تاج رکھا جائے گا۔(۲) وہ شخص جو ثواب کی امید لیے اپنے مال اور جان کے ساتھ راہ خدا عزوجل میں نکلا اس کا مقصو دیہ ہے کہ وہ ( کافروں کو ) قتل کرے اور خود قتل نہ کیاجائے پس اگر ایسا شخص مرجائے یا اسے شہید کردیا جائے تو اس کے گھٹنے اللہ تعالیٰ کے خلیل حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ لگتے ہوں گے اسے خلیل اللہ کا ایسا قرب حاصل ہوگا وہ دربارِ الہی میں حاضر ہوگا وہ قدرت والے بادشاہ کی سچی مجلس میں ہوگا۔( جہاں خاص مقربین کو اللہ تعالیٰ جگہ دے گا۔(۳) وہ شخص جو اپنی جان اور مال کے ساتھ نکلا اس کا مقصود ( کافروں سے) قتال کرنا اور خود شہادت پانا ہو تو ایساشخص انتقال کر جائے یا اسے شہید کردیا جائے تو بروزِ قیامت وہ اس حال میں آئے گا کہ اس کی تلوار کھلی ہوگی، وہ اسے اپنے کندھے پر لٹکائے ہوگا جب کہ لوگ گھٹنے کے بل آرہے ہوں گے وہ لوگ کہہ رہے ہوں گے ہمارے لیے جگہ کشادہ نہیں کی جائے گی،حالانکہ ہم نے اپنی جان اور مال کو اللہ تعالیٰ کے لیے خرچ کردیاپھر ان کے لیے جگہ کشادہ کردی جائے گی یہاں تک کہ وہ عرش کے نیچے موجود نور کے منبروں تک آجائیں گے، اور اس پر بیٹھ کر دیکھیں گے کہ لوگوں کے درمیان کس طرح فیصلہ کیا جارہا ہے، یہ لوگ موت کا غم نہیں پائیں گے اور نہ برزخ میں قیام کریں گے اور نہ چنگھاڑ انہیں گھبراہٹ میں مبتلا کرے گی نہ انہیں حساب، میزان اور پل صراط کا خوف ہوگا، یہ دیکھتے ہوں گے کہ لوگوں کے درمیان کس طرح فیصلہ کیا جارہا ہے، یہ لوگ جس چیز کا سوال کریں گے ، انہیں عطا کردی جائے گی اور جس چیز کے بارے میں شفاعت کریں گے ا ن کی شفاعت کو قبول کرلیا جائے گا جو کچھ پسند کریں گے، جنت میں وہ سب انہیں عطا کردیا جائے گا، وہ جہاں پسند کریں گے جنت میں اس مقام پر اپنا ٹھکانہ بنائیں گے۔(شعب الأیمان ،الجہاد ،برقم :۳۹۵۰ ،۶/۱۱۵)
۴۰ ۔ حضرت سیدنا انس سے مرفوعًا روایت ہے: بروزِ قیامت انہیں لایا جائے گا جن کے سینے ابھرے ہوئے ہوں گے، یہ مسلمانوں کے بچے ہوں گے، میدانِ محشر میں ان کا کھڑا رہنا دشوار ہوجائے گا تو وہ چیخنے چلانے لگیں گے، اللہ تعالیٰ فرمائے گا: اے جبرائیل ! انہیں میرے عرش کے سائے تلے کردو، تو حضرت جبرئیل علیہ السلام انہیں عرش کے سائے میں کردیں گے۔(الفردوس بمأثور الخطاب ، ،برقم :۸۷۵۹ ،۵/۴۶۲)
 

Imran Attari Abu Hamza
About the Author: Imran Attari Abu Hamza Read More Articles by Imran Attari Abu Hamza: 51 Articles with 52886 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.