قفقاز کے عظیم رہنما امام شامل

انیسویں صدی میں شمالی قفقازکے مسلمانوں کے عظیم حریت پسند رہنما اور داغستان پر پچیس برس حکومت کرنے والے حکمران امام شامل کی داستان حیات

تحریر: شبیر ابن عادل
یورپ اور ایشیا کی سرحد پر انتہائی حسین اور پرکشش علاقہ ہےاور (Caucasus)قفقاز
بحیرۂ اسود اور بحیرۂ قزوین یا کیسپئن کے درمیان واقع ہے۔ خو بصورت پہاڑی سلسلے دلفریب نظارے اور فطرت کے حسین مناظر سے بھرپور اس علاقے کو جنت ارضی کہا جاتا ہے۔ اسی علاقے میں کوہ قاف واقع ہے، جہاں کے باشندوں کے حسن وجمال کی وجہ سے مشہور ہوگیا تھا کہ وہاں پریاں اور پری زاد رہتے ہیں ۔ ماضی کی داستانیں کوہ قاف کے ذکر سے بھری پڑی ہیں۔
سیاسی اعتبار سے قفقاز کو شمالی اورجنوبی حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔اس دلکشی اور حسن کے باوجود یہ علاقے ہمیشہ سے غیرملکی اقوام کے ظلم وستم کانشانہ بنا رہا۔ اس پر صدیوں سے روس کا تسلط رہا ، سوویت یونین کے خاتمے کے بعد آرمینیا، آذربائیجان اور جارجیا آزاد ملک بن گئے۔ لیکن قفقاز کی وجہ سے ان ملکوں کے درمیان تنازعات نے جنم لیا جس کے نتیجے میں تین غیر تسلیم شدہ ریاستیں نگورنو کاراباخ یا جمہوریہ آرتساخ، آبخازیا اور جنوبی اوسیشیا وجود میں آئیں۔ قفقاز میں مسلمانوں کی اکثریت ہے اور وہ بہت بہادر، جنگجو اور حریت پسند ہیں۔ انہوں نے صدیوں سے غیرمسلم اقوام کا تسلط برداشت نہیں کیا۔


ان ہی میں انیسویں صدی کے عظیم حریت پسند رہنما امام شامل بھی ہیں ۔ان کی قیادت میں شمالی قفقاز کے مسلمانوں نے روسی استعمار کے خلاف بے مثال شجاعت کا مظاہرہ کیا۔ وہ داغستان اور امامت قفقاز کے تیسرے سربراہ اور نقشبندی سلسلے کے تیسرے امام تھے۔
امام شامل 26 جون 1797 کو داغستان کے ایک چھوٹے سے قصبے گمری میں پیدا ہوئے اور 4 فروری 1871 کو مدینہ منورہ میں وفات پائی۔ ان کے والد ایک زمیندار تھے۔ امام شامل نے بچپن میں عربی سمیت کئی مضامین میں تعلیم حاصل کی۔ انہوں نے نقشبندی مجددی خالدیہ صوفی سلسلے میں شمولیت اختیار کرلی اور قفقاز کے علاقے کے مسلمانوں کی ایک تعلیم یافتہ اور ہر دلعزیز شخصیت بن گئے۔
جب امام شامل پیدا ہوئے تو روس سلطنت عثمانیہ اور فارس کے علاقے پر قبضے کرکے اپنے توسیع پسندانہ عزائم کی تکمیل کر رہا تھا۔ فارس کے سلطان کی حمایت سے جنگ قفقاز میں علاقے کے کئی مسلمان قبائل نے روسی استعمار کے بغاوت کردی۔ قفقازیوں کی مزاحمت کے اولین رہنماؤں میں شیخ منصور اور غازی ملا معروف ہیں۔ امام شامل غازی ملا کے بچپن کے دوست تھے۔جنگ گھمری 1834 میں غازی ملا شہید ہو گئے اور امام شامل قفقاز کے جہاد کے رہنما اور نقشبندی مجددی خالدیہ طریقت کے امام بن گئے۔
روسیوں کے قبضے سے پہلے قفقاز کے علاقے کبھی ایران کی حکومت کے تحت آجاتے تھے اور کبھی ان پر عثمانی ترک قابض ہوجاتے تھے۔ شروان کا علاقہ جہاں سے اسماعیل صفوی نے اپنی حکومت کا آغاز کیا آذربائیجان کا ایک حصہ ہے۔ جب افغانوں نے اصفہان پر قبضہ کرکے صفوی سلطنت کا خاتمہ کر دیا تھا تو ایران کے ابتر حالات سے فائدہ اٹھاکر روس نے داغستان اور شمالی آذربائیجان پر اور عثمانی ترکوں نے گرجستان اور آرمینیا پر قبضہ کر لیا تھا لیکن نادر شاہ نے ان علاقوں کو جلد ہی واپس لے لیا۔ اس کے بعد روسی 1797ء میں پھر داغستان پر قابض ہو گئے اور چند سال میں دریائے اردس تک پورے آذربائیجان پر قبضہ کر لیا۔ فتح علی شاہ قاچار 1828ء میں معاہدہ ترکمانچی کے تحت ان تمام علاقوں پر سے ایران کے حق سے دستبردار ہو گیا۔
روسیوں کی اس جارحانہ پیش قدمی کے دوران جس علاقے کے باشندوں نے حملہ آوروں کا سب سے زیادہ مقابلہ کیا وہ داغستان ہے یہاں کے جری باشندوں نے بار بار بغاوت کی اور روسیوں کو اپنے وطن سے نکال باہر کیا۔ آزادی کی اس جنگ میں سب سے زیادہ شہرت اور نیک نامی امام شامل نے حاصل کی۔ داغستان کے حکمران کی حیثیت سے انہوں نے 25 سال تک بے مثل شجاعت سے روسیوں کی لاتعداد فوج کا مقابلہ کیا اور 1845ء تک داغستان کے ہرحصے سے روسیوں کو نکال دیا لیکن روسی بار بار حملہ آور ہوتے تھے اور امام شامل کے ليے ان کی کثیر تعداد اور جدید اسلحے سے لیس افواج کا تنہا مقابلہ کرنا ممکن نہیں رہا۔ انہوں نے سلطنت عثمانیہ اور برطانیہ سے مدد حاصل کرنا چاہی لیکن ناکام رہے۔ آخر کار 1859ء میں غنیب کے سخت ترین معرکے میں روسیوں کی تمام شہریوں کو قتل کردینے کی دھمکی پر انہوں نے تمام شہریوں کی جان کے بدلے خود کو روسی فوج کے حوالے کر دیا اور ہتھیار ڈال دیے۔
روسی کمانڈر نے جو زار روس کا بھائی تھا زار کو مبارکباد کا تار دیا کہ آج سو سال سے جاری قفقاز کی جنگ ختم ہو گئی۔ اس دن کلیساؤں میں اس کامیابی پر شکرانے کی عبادت کی گئی۔
روسی حکومت امام شامل کے ساتھ عزت و احترام سے پیش آئی۔ ان کی پنشن مقرر کردی گئی اور رہنے کے ليے مکان دیا گیا۔ 1870ء تک امام شامل روس میں نظر بند رہے۔
امام شامل 1870 میں روسی حکومت کی اجازت سے حج کے ليے مکہ معظمہ گئے۔ حجاز مقدس کی جانب سفر کے دوران وہ ترکی اور مشرق وسطی کے دیگر ممالک سے گزرے جہاں کے عوام نے ان کا فقید المثال خیر مقدم کیا۔ اگلے سال 1871ء میں ان کے صاحبزادے غازی محمد روسی قید سے رہا ہوکر مکہ مکرمہ پہنچے لیکن امام شامل 4 فروری کومدینہ منورہ انتقال کر گئےاور انہیں جنت البقیع میں دفن کیا گیا۔
امام شامل کی عظمت محض ان کی دلیرانہ جنگ کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ ان کی سیاسی بصیرت، سوجھ بوجھ، انتظامی صلاحیت اور کردار کی بلندی نے عبدالقادر الجزائری اور ٹیپو سلطان کی طرح ان کی عظمت کو چار چاندلگادئیے۔ ان کا زمانہ داغستان کی تاریخ میں شریعت کا دور کہلاتا ہے۔ امام شامل تصوف کے نقشبندی سلسلے کے سربراہ تھے۔ ان کے مرتب کردہ انتظامی اور قانونی ضابطے نظام شامل کہلاتے تھے۔ ان کے تحت داغستان 32 انتظامی اضلاع میں تقسیم کیا گیا تھا۔ انتظامیہ اور عدلیہ الگ الگ تھے۔ ہر ضلع کا مفتی عدالت کے محکمے کا ذمہ دار تھا اور ضلع کا حاکم اس کے معاملات میں مداخلت نہیں کر سکتا تھا۔ ہر مفتی کے تحت 4 قاضی ہوتے تھے۔ اگر کسی معاملے کو قاضی طے نہ کرسکتے تھے تو وہ مفتی کے سامنے پیش کیا جاتا تھا اور مفتی اس معاملے کو امام شامل یا مجلس شوری کے سامنے پیش کرتا تھا جس کو دیوان کا نام دیا گیا تھا۔ امام شامل نے احتساب کا محکمہ بھی قائم کیا تھا جس کے ذریعے عہدے داروں پر نگرانی رکھی جاتی تھی۔ فوجوں کی تنظیم
جدید طرز پر کی گئی تھی۔ اور دارالحکومت ودینو میں بندوقوں اور توپوں کو ڈھالنے کا کارخانہ بھی قائم کیا گیا تھا۔ ایک زمانے میں داغستان کی افواج کی تعداد 60 ہزار سوار اور پیادہ فوج تک پہنچ گئی تھی۔ فوجی تربیت کے ليے جو مراکز قائم کیے گئے تھے ان میں قید کیے جانے والے روسی افسر تربیت دیتے تھے۔

امام شامل کے ہتھیار ڈال دینے کے بعد داغستان میں پانچ سال تک روسیوں کی مزاحمت جاری رہی یہاں تک کہ 21 مئی 1864ء کو داغستان کا آخری پہاڑی قلعہ بھی روسیوں کے قبضے میں آ گیا اور داغستان کی آزادی کی جنگ ختم ہو گئی۔ شیشان میں جاری آزادی کی تحریک شاید انہی کی خاک کی چنگاری ہے۔ چیچن جانبازوں کے سربراہ شامل بسایوف کا نام ان کے والدین نے امام شامل کے نام پر ہی رکھا تھا جو 10 جولائی 2006ء کو جاں بحق ہوئے۔
اس خطے کے باشندے بہادری اور جوانمردی کے علاوہ علم وفضل اور تصنیف و تالیف میں بھی یکتائے روزگار ہیں اور دنیا کے کسی خطے میں اتنی شاندار اور عالیشان قوم کی مثال نہیں ملتی۔ دنیا میں ترقی کی خواہشمند اقوام کو امام شامل جیسی نابغہ ٔ روزگار ہستیوں سے رہنمائی حاصل کرنا چاہئے۔

shabbir Ibne Adil
About the Author: shabbir Ibne Adil Read More Articles by shabbir Ibne Adil: 108 Articles with 110761 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.