تعلیمی ادارے جرائم کے گڑھ ذمہ دار کون

تحریر: قمر النسا قمر

بحیثیت مسلمان اور بحیثیت پاکستانی ہماری کچھ ذمہ داریاں ہیں ،انہی میں سے ایک ذمہ داری کے تحت میں نے زندگی کے کچھ ماہ و سال یہ سوچنے اور تحقیق کرنے میں گزارے ہیں، کہ ہمارا ملک کس طرح ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکتا ہے، آخر کوئی تو نسخہ ہو گا اس کے مسائل حل کرنیکا، مجھے اس سوال کا جواب کسی مفکر کے قول، شاعر مشرق کے کسی شعر یا کسی سکول کی دیوار پر لکھے ، چند جملوں سے بھی مل جاتا، لیکن کبھی کسی بیماری کی نوعیت ایسی ہوتی ہے کہ طبیب اور دوا بدلنے کے باوجود تکلیف مزید تلاش پر ابھارتی ہے۔ کچھ اسی طرح کی تکلیف نے مجھے بھی مزید تلاش پر اکسایا ،اور اس تلاش نے جہاں میری آنکھوں سے بہت سے پردے اٹھائے، وہاں آگاہی، تکلیف کا سبب بھی بنی۔ میں نے دیکھا کہ ایک مسیحا دن میں کتنے قتل کرتا ہے، ایک وکیل کتنی زندگیوں کی خوشیوں کا سودا چند ٹکوں کی خاطر کرتا ہے۔ ایک انجینئر کتنے لوگوں کی زندگیاں قلیل قیمت میں ملبے کے ڈھیر کے حوالے کر رہا ہے، ایک تاجر ملاوٹ خورد و نوش سے ان گنت زندگیوں سے کیسے کھیل رہا، الغرض میں نے جانا کہ مجرم سے لے کر پولیس اور مزدور سے لے کر منصف ایک ہی طرح کے اصول پر پھل اور انصاف بیچ رہے ہیں اور اس کی وجہ یہ تھی کہ ان کے پاس ڈگری کے نام پر کاغدات کا پلندا،، تھا لیکن ان کا شعور، بیدار نہیں ہو سکا تھا، ان مسائل کا ذکر تو یہاں ممکن نہیں ،اب سوال یہ تھا کہ ان کا حل کیا ہے ، ہر شعبہ زندگی کا جائزہ لینے کے بعد سب مسائل کا حل، مجھے صرف ایک ذات ایک ہستی میں نظر آیا ،جن کو دنیا راہبر، راہنما اور استاد کے نام سے جانتی ہے ،کیوں کہ یہ وہ شخصیت ہیں جو معاشرے کے ان مندرجہ بالا افراد کی کھیپ تیار کرتی ہے، لیکن اس سمت رخ کرنا کتنی تکلیف کا سبب بنا یہ ناقابل بیان ہے۔ کچھ نامور اداروں میں اسناد بک رہی تھیں ،تو کچھ اداروں میں 45 فیصد لڑکے ،اور 75 فیصد لڑکیاں نشہ استعمال کر رہے تھے ،جہاں شفاف نظام تعلیم تھا وہاںselective تیاری کر کے طالب علم اچھے نمبر لے کر ادارے کا نام تو روشن کر رہا تھا ،مگر ملک کا نام اس ڈگری سے کیسے روشن کرتا، جس سے ایک درخواست بھی نہیں لکھ سکتا (اول تو ہمارا سلیبس ایسا نہیں ہے کہ طالب علم میں مذہبی اور قومی شعور بیدار کر سکے) اس پر مستزاد یہ کہ تعلیمی اداروں میں صرف اس سلیبس پر فوکس کیا جاتا ، جو امتحانی نقطہ نگاہ سے اہم ہوتا ہے، بد قسمتی سے اداروں میں ایک مقابلے کی فضا پیدا ہو گئی ہے۔اس دوڑ میں تعلیم،شعور،فرض، ملک ،انسانیت سب کچھ روندا جا رہا ہے۔ اہم ہے تو چند پوزیشنز جو ادارے کا مستقبل روشن کر کے اس کا کاروبار چمکا سکیں۔ اس ضمن میں ادارے کچھ سرگرمیاں تو (طلبا کی تعداد بڑھانے کے لئے) نوجوان نسل کی دلچسپی کے مطابق ڈیزائن کر رہے (مثلا ٹرپ،کنسرٹ وغیرہ ان کی تفصیل اور ان سے تہذیب تمدن کی بکھرتی دھجیاں بیان کرنے کیلئے ایک الگ دفتر درکار ہے ) تو کچھ وہ جو ادارے کو پوزیشن ہولڈرز کی صف میں کھڑا کر کے کاروبار کو وسعت دے سکیں۔ (معذرت لیکن تعلیم کو کاروبار بنا لیا گیا ہے تو کاروبار ہی کہوں گی) یہاں تک کہ یہ ادارے بعض امتحانات میں رشوت، کے بل بوتے پر اپنے اپنے، طلبا کے نمبر لگوا رہے ،اور نمبر لگانے والی محترم ہستیوں کی قیمت صرف کھانا اور چائے ہے۔(سوائے چند اساتذہ اور گنے چنے اداروں کے پنجاب میں ہر جگہ یہی صورت حال ہے )دوسری طرف غلامانہ ذہن کے حامل، معاشرے میں نوکری کے حصول کے بڑھتے ہوئے رحجان کے پیچھے بھاگتی قوم کو شعور اور تعلیم کی بجائے اس ڈگری سے غرض ہے ،جو نوکری دلا سکے۔ حکومت اور اپوزیشن ملک قوم سے بے نیاز، اقتدار کی چکی کے گرد گھوم رہی ہیں، تو بتائیں ہے کوئی، اس ملک کا ولی وارث جو اس کی ڈوبتی کشتی کو سہارا دے سکے ،ہے کوئی مرد آفاقی جو اداروں کو اس معمول بہا سے ہٹاکر صحیح روش پر لے جا سکے، سرکاری تعلیمی اداروں کی کارکردگی بھی تسلی بخش نہیں ہے ، لیکن سوال یہ ہے ،کہ نجی تعلیمی ادارے جو بہت بلند بانگ دعوے کرتے ہیں ،اور لاکھوں روپے فیس کے نام پر وصول کرتے ہیں، انہوں نے اتنے سالوں میں اس قوم کو کیا دیا ہے، بڑوں کے ادب سے عاری مگر چھری کانٹے کے آداب سے آشنا، یہ قوم اپنی تہذیب تاریخ سے ناواقف مگر آرٹ کے نام پر میراثیوں کی جانشین ضرور بن گئی ہے۔ مقصد کسی ادارے کو تنقید کا نشانہ بنانا نہیں ہے۔لیکن بڑے ادب کے ساتھ نا صرف میں بلکہ ہر درد دل رکھنے والا پاکستانی اساتذہ کرام سے اور خاص طور پر اداروں کے سربراہان سے یہ پوچھنا چاہتا ہے!! کیا یہ وہ نوجوان نسل ہے، جس کو جناح اور اقبال نے اپنا روشن مستقبل کہا تھا کیا یہ وہ پاکستان ہے جس کی بنیاد کو ہمارے اسلاف نے اپنے جوان بیٹوں کے لہو سے سینچاتھا، کیا یہ وہی ملک ہے ،جس کی تاریخ میں قربانیوں کی بے شمار ،اور دل کو لرزا دینے والی داستانیں رقم ہیں ، حضوروالا ! مجھے بتائیں اس سب کا ذمہ دار کون ہے ! کیا آپ نے نوجوان نسل کو با شعور مسلمان بنانے کی کوشش کی ہے، نہیں! ہمارے ہاں تو یقینا پروفیشنل لائف میں شعور بیدار کرنا practicable نہیں سمجھا جاتا ، لیکن اگر ہم اس معاملے کو سنجیدہ لیں، تو قلیل وقت میں بہت کچھ ہو سکتا ہے۔ اور اگر ہماری ترجیح دنیا ہی رہی تو، علامہ اقبال نے فرمایا تھا
نسل اگر مسلم کی مذہب پر مقدم ہو گئی
اڑ گیا دنیا سے تو مانند خاک رہ گزر

ایک تحریر نظروں سے گزری اس کا لب لباب پوری قوم کی نظر کرتی ہوں۔ ساوتھ افریقہ کی یونیورسٹی میں یہ پوسٹ لگی تھی۔ کسی قوم کو تباہ کرنے کے لئے ایٹمی بموں کی ضرورت نہیں، نا ہی دور مار میزائل کی ضرورت ہے ،کسی قوم کو تباہ کرنے کے لئے صرف اس قوم کے معیار تعلیم کو گرا دیں، اور امتحان میں نقل کی اجازت دے دیں ،مریض ایسے ڈاکٹرز کے ہاتھوں مر جائیں گے، عمارات ایسے انجینئرز کے ہاتھوں گر جائیں گیں، معیشت ایسے معیشت دانوں کے ہاتھوں ختم ہو جائے گی۔ انسانیت ایسے سکالرز کے ہاتھوں مر جائے گی ،انصاف ایسے منصفوں کے ہاتھوں ختم ہو جائے گا
Collapes of education is the collapes of nation.

ہم اور ہمارا ملک اس کی زندہ مثال ہیں۔ جس تجزیہ کیا جائے۔ تو ہمارا ملک اسی طرح کے لوگوں کے ہاتھوں مشق ستم بن چکا ہے۔ لیکن ہم اپنی اقدار کو بھول کر مغرب پرستی میں مبتلا ہیں۔ تاریخ گواہ ہے ،جب بھی مسلمانوں، نے دنیا کو ترجیح دی ہے تو غلامی ہی ان کا مقدر ٹھہری ہے ، اور جب ترجیح دین تھا،تو ہم نے دنیا پر حکومت کی ہے۔ علم ہی وہ مشعل ہے ،جس سے ہم اپنی قوم کو بیدار کر سکتے ہیں۔ بقول شاعر مشرق
اس قوم کو شمشیر کی حاجت نہیں رہتی
ہو جس کے جوانوں کی خودی صورت فولاد

ملک کے وزیراعظم سے بھی زیادہ طاقتور تعلیمی شعبہ کے ذمہ داران ہیں، مستقبل میں اس ملک کو چلانے والوں کے اذہان آج ان کے ہاتھوں میں ہیں، یہ طبقہ اس معاشرے کی تہذیب نو کر سکتا ہے۔ ’’دنیا کو ہے پھر معرک روح و بدن پیش تہذیب نے پھر اپنے درندوں کو ابھارا‘‘ غدار صرف وہ تو نہیں جو ملک کو نقصان پہنچائے بلکہ جو بچا سکتا ہو، اور نا بچائے، میری رائے میں، تو وہ بھی غدار ہے۔اور جو اپنی ذمہ داری کے ادا کرنے میں امین نہ ہو وہ بھی بڑا مجرم ہے۔ جیسے پہلے ذکر کیا ہر noble پیشہ کے پیچھے مکروہ چہرے ہیں۔اور یہ وہ لوگ ہیں جو ان اداروں میں کم سے کم بائیس سال گزار کر میدان زندگی میں اترتے ہیں۔اگر اتنے عرصے بعد یہ صرف کاغذ کے چند ٹکڑے لے جائیں، اور یہ اپنے اپنے شعبے میں ایمان دار نا ہوں، اداروں کے ذمہ داران، اور اساتذہ ان کا شعور تک بیدار نہ کر سکیں، تو جان لیجیے گا ،کہ اس معاشرے میں ہونے والی ہر برائی میں ،شعبہ معلمی سے وابستہ ذمہ داران کا حصہ ہے۔اور وہ ڈاکٹر ،انجینئر، منصف ،وکیل الغرض وزیراعظم، سے لے کر چوکیدار تک جو کسی قاتل اور لٹیرے سے بڑھ کر اس ملک کو نقصان پہنچا رہے ہیں، اس کے ذمہ دار ان کے معمار ہیں کیا کیجیے کہ قوم کا معمار ہی بیمار ہو گیا ہے،، تعمیر کی ہر اینٹ پہ لکھا ہے میرا نام دیوار مگر آپ سے منسوب ہو گئی خدارا! اس قوم کی خودی بیدار کیجیے ! اس سے پہلے کہ ہماری آنے والی نسلیں، ذہنی جسمانی غلام بن جائیں، اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے، تقدیرکیا ہے، کوئی کہہ نہیں سکتا مومن کی فراست ہو تو کافی ہے اشارا ہم تو وہ قوم ہے، جس نے بحیثیت مسلمان ،ہزار سال دنیا پر حکومت کی ہے۔ پھر ایک ایک کر کے ہر ملک ہاتھ سے گیا۔ اور مسلمان آج بھی آزادی کے سارے دعووں کے باوجود اپنی خودی کی تعمیر کے لئے آزاد نہیں ہے۔عروج و زوال کی بحث سے صرف نظر ،صرف اتنا کہوں گی قوموں کے زوال کا عمل irreversible نہیں ہے ،کوئی قوم چاہے ، تو خود کو اوپر اٹھا سکتی ہے۔ ’’تو نے دیکھا ہے کبھی اے دیدہء عبرت کہ گل ہو کے پیدا خاک سے رنگیں قبا کیونکر ہوا ‘‘۔ہم برما،فلسطین ،کشمیر کے لیے تو کچھ نہیں کر سکے، کم ازکم اس ملک کی کشتی کو بیچ منجدھار میں ڈوبتا دیکھ کر اس کو ہی بچانے کی کوشش کر لیں۔ ورنہ افغانستان کی طرح ہمارے پروفیسر بھی کل امریکہ کی سڑکوں پر ڈرائیور، ہوں گے ، ہمیں آج اپنے دامن میں لگی آگ گو کہ نظر نہیں آ رہی ،لیکن یہ ہمارے گریبانوں تک پہنچے والی ہے۔ ترقی،ترقی کا راگ الاپنے والے کو معلوم ہونا چاہئے جب تک تعلیمی اداروں کی ترجیح انسانیت انہیں مادیتی رہی، یہ قوم ترقی کی گرد کو بھی نہیں پا سکتی، اس لیے خان صاحب کچھ نظر کرم ادھر بھی۔ اس ضمن میں تمام ذمہ داران سے التماس ہے۔ اس ملک کو تباہی سے بچانے کیلئے اپنے حصے کی شمع جلایئے ! سات دہائیوں سے بے مقصد اس بھیڑ کو سمت دیجیے! صرف شعور ہی تو بیدار کرنا ہے آپ نے بس! ویسے بھی جو تعلیم شعور بیدار نہ کر سکے کم از کم میں تو اس کو تعلیم نہیں مانتی ! مجھے یقین ہے اگر ذمہ داران اس ملک کے مستقبل کے لیے سنجیدہ طرز فکر اختیار کر لیں، تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم اٹھ نہ سکیں
نہیں ہے ناامید اقبال اپنی کشت ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی ذرخیز ہے ساقی
 

Faisal Mirza
About the Author: Faisal Mirza Read More Articles by Faisal Mirza: 6 Articles with 4315 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.