تحریر:عطیہ ربانی، بیلجئم
اسکی فلائٹ میں کچھ دن ہی باقی تھے لیکن جتنی رقم عبدالمجید بھائی نے لانے
کو کہا تھا وہ بندوبست نہیں ہو پا رہا تھا- اب کام دھندا ویسا نہیں رہا تھا-
سختی بہت ذیادہ ہو گئی تھی- اسکے کافی ساتھی پکڑے گئے تھے, کچھ ملک چھوڑ کر
جا چکے تھے اور کچھ اسکے جیسے جو ابھی ملک چھوڑنے کی تیاری میں تھے-
موبائل چھیننا اور گلی کوچوں میں چھوٹی چھوٹی وارداتیں اسکا پیشہ نہیں تھا
لیکن آمدنی سے ذیادہ اخراجات نے جینا مشکل کیا ہوا تھا پھر اسکی صحبت جیسی
تھی- ضرورت یا اشد ضرورت جب مجبوری بن جاتی ہے تو حالات کے مطابق انسان کو
ڈھال لیتی ہے- انسان پڑھ لکھ کر کسی اچھے عہدے پر فائز ہو تو فائلوں کی
ہیرا پھیری سے ذرا باعزت چوری میں ملوث ہوتا ہے، کسی سرکاری محکمے میں
حفاظت کے لئے تعینات ہو تو ذرا طاقتور چور ہوتا ہے اور جو کم پڑھا لکھا بے
روزگار ہو وہ چھوٹی چھوٹی چوری چکاری میں ملوث ہو جاتا ہے- یہی حال اسکا
تھا- پہلا موبائل چھین کر جو کمائی ہوئی تھی اس سے بجلی کا بل ادا کیا تھا-
گھر کی ضروریات کے پیش نظر اپنی انا کا قتل، اپنی خودداری کا ایک بار ایثار
کر دیا لیکن اسکے بعد توبہ کرلی کہ آئندہ یہ کام نہیں کرنا مگر کیا کیا
جائے- بل صرف بجلی کا تھوڑا ہی آتا ہے اور پھر ہر مہینے--- کام نہ ہو تو
کیا کیا جائے؟ یہ اسکی سوچ تھی- جب تک کوئی ڈھنگ کا کا نہیں ملتا بس تب تک
ہی لیکن پھر جتنی کمائی ہونے لگی کوئی کام ڈھنگ کا لگتا ہی نہیں-
لیکن جب سے بڑے بھائیوں کا سیاست میں پاؤں لڑکھڑائے تب سے اس دھندے میں بھی
زور نہیں رہا-
’’سنا ہے وہ ہری کوٹھی والے سب باہر چلے گئے ہیں خالی پڑی رہتی ہے-‘‘
’’انکا باپ تو یہیں تھا-‘‘
’’نہیں یاد نہیں اس کے بیٹے نے اپنے پاس آسٹریلیا بلوا لیا تھا- اسکے بعد
تو سنسان ہی پڑی ہے-‘‘
واپسی پر اسکا دھیان اس ہری کوٹھی پر ہی لگا رہا- گھر پہنچ کر بستر پر لیٹے
لیٹے اس نے کچھ سوچا اور پھر وہ جھپاک سے کھڑا ہوا- الماری میں سامنے سے
کپڑے ہٹائے اور پیچھے دیوار میں ہاتھ سے زور لگایا تو دیوار میں پوشیدہ
دراز باہر آگئی- اس نے اپنی ریوالور نکال کر لوڈ کی اور چپکے سے گھر سے
باہر نکل آیا-
اسکے قدم ہری کوٹھی کی جانب تھے- قریب پہنچ کر اس نے آس پاس نظر دوڑائی،
اچھی طرح جائز ہ لینے کے بعد کچھ قدم پیچھے ہٹا اور پھر دوڑ کر آگے بڑھا
اور دیوار پھلانگ کر اندر داخل ہو گیا- ہر طرف اندھیرا تھا- نہ کوئی بلب
تھا نہ لیمپ کی روشنی مطلب کہ کوٹھی خالی تھی-
وہ دھیرے دھیرے آگے بڑھا- جس جگہ سے کودا, اس سے کچھ فاصلے پر دائیں جانب
پورچ تھا- اس سے آگے دائیں جانب ہی گھر کا داخلی دروازہ تھا جو یقیناً مقفل
ہوتا تو اس نے سامنے بنی کھڑکیوں پر نظر ڈالی شاید کوئی کھلی ہو- ہلکے ہلکے
دباؤ سے ہرکھڑکی کھولنے کی کوشش کی لیکن سب بند تھیں وہ چلتا چلتا داخلی
دروازہ تک پہنچ چکا تھا کہ اچانک اسکا پاؤں کسی چیز سے ٹکرایا اور پاؤں کے
پاس باقاعدہ حرکت ہوئی تو ایک پل کو وہ گھبرا گیا- اور اسکا توازن کچھ خراب
ہوگیا پاؤں کے نیچے بلی کا بچہ تھا جو دوڑتا ہوا ایک طرف چھپ گیا- لیکن
اسکا توازن بگڑ چکا تھا اور وہ دروازے سے ٹکرا گیا- حیرت انگیز طور پر وہ
گھر کی اندر داخل ہوگیا- دروازہ کھلا ہوا تھا-
لگتا ہے یہاں کچھ بھی نہیں ہے تبھی دروازہ تک بند کر کے نہیں گئے - اسے کچھ
مایوسی سی ہوئی- گھر میں عجیب قسم کا سناٹا تھا- اس نے چاروں طرف نظر
دوڑائی، بائیں جانب محرابی دروازہ تھا جہاں سے اندر رکھے صوفے نظر آرہے تھے-
وہ دبے پاؤں وہاں داخل ہوا تو سامنے دیوار پر ایل ای ڈی پر نظر پڑی-
’’پرانی بھی ہوئی تو بھی ٹھیک ہے-‘‘ اس نے دھیرے اتار کر صوفے پر رکھی اور
باقی گھر کا جائزہ لینے لگا- اس ٹی وی لاؤنج کی دائیں جانب دروازہ مقفل تھا
لیکن بائیں جانب دروازہ کچھ ادھ کھلا سا لگا- وہ تیزی سے دبے پاؤں اس کمرے
میں داخل ہوا- اندھیرے کی وجہ سے کچھ ٹھیک سے دکھائی نہیں دے رہا تھا-
سامنے دیوار ایک اور ایل ای ڈی لگی تھی-
افف اسکا سانس ایک پل کو رک گیا کمرے میں ایسی بدبو آرہی تھی جیسے جانور
اپنی غلاظت یہاں کر جاتے ہوں-
کمال ہے سب ایسے کھلا چھوڑ کر چلے گئے- سامنے بستر تھا جس پر سفید چادریں
پڑی تھیں وہ بستر کے پاس سے ہوتا ہوا آگے بڑھا تو اچانک اسکا ہاتھ کسی نے
پکڑ لیا-
اسکی چیخ نکل گئی- ایک لمحے کو جیسے جسم سن سا ہو گیا- اچھا خاصا ہٹا کٹا
ستائیس سالہ نوجوان تھا لیکن اس اندھیرے میں گھبرا گیا- اسی اثناء پلنگ کے
ساتھ رکھے لیمپ روشن ہوگئے-
پستر پر ایک نہایت ہی نحیف، بوڑھا شخص لیٹا ہوا تھا-
’’آا- آپ کون ہیں؟‘‘
’’یہ سوال تو مجھے پوچھنا چاہئیے کہ تم کون ہو اور میرے گھر میں کیا کر رہے
ہو؟‘‘
’’مم-- ممیں--- میں وہ---‘‘
’’اسکا ہاتھ جیب میں جا رہا تھا کہ کیا پستول نکالے یا نہیں-‘‘
’’چور ہو، چوری کرنے آئے ہو؟‘‘
’’نن، نہیں وہ---‘‘ ایک دم اس نے گھبراہٹ ہر قابو پایا اور خود کو سنبھالا-
’’دیکھو بابا جی، گھر میں اور کون کون ہے؟ سیدھی طرح بتا دو-‘‘
’’کیا تمھیں میرے علاوہ کوئی دکھائی دے رہا ہے- جو چاہئے لے جاؤ یہاں کوئی
نہیں ہے جو روک سکے-‘‘
’’اگر کوئی ہوا بھی تو بچے گا نہیں،‘‘ اس نے ریوالور ہاتھ میں پکڑ لیا- اور
ہر طرف نظر دوڑانی شروع کی-
’’کمرے میں کتنی بو آرہی ہے یا صفائی نہیں کرواتے-‘‘
’’میں بستر سے اٹھ نہیں سکتا- کیسے کروں-‘‘
اس نے تیزی سے دیوار سے ایل ای ڈی اتارتے ہوئے پوچھا-
’’نوکر کہاں ہیں اتنا بڑا گھر ہے ہم نے تو سن اتھا یہاں نوکروں کی قطاریں
لگی رہتی ہیں- نوکروں سے کرواؤ- کیا فائدہ ہے اتنے امیر ہونے کا چچچ چچچ!‘‘
’’ہاں تھیں کبھی اب نہیں ہیں- بچے کبھی کبھار رقم بھیج دیا کرتے تھے تو
تنخواہیں ادا ہو جاتی تھیں اب نہیں ہو پاتیں-‘‘
’’بابا جی تم تو باہر چلے گئے تھے، سنا تو ایسا ہی تھا-‘‘
’’ہاں بیٹی کینیڈا میں ہے کچھ عرصہ اس کے پاس رہا لیکن اسکا شوہر ذیادہ دن
برداشت نہیں کر پایا- پھر بیٹوں نے آسٹریلیا بلا لیا لیکن ان کی گوری
بیویاں تیمار داری نہیں کر سکتیں تو واپس بھیج دیا-‘‘
وہ کمرے میں رکھے قیمتی ڈیکیوریشن پیس اٹھا کر تھیلے میں ڈالنے لگا-
’’برا تو نہیں لگ رہا ناں اب تمہارے کس کام کے ہیں-‘‘
’’نہیں جو لے جانا چاہتے ہو لے جاؤ لیکن ایک احسان کرتے جاؤ-‘‘
اس نے واپسی کے لئے قدم بڑھائے ہی تھے کہ بات سن کر رک گیا۔ بوڑھا کیا
مانگے گا
’’کیسا احسان؟‘‘
’’مجھے جان سے مار دو- اب اور موت کا انتظار نہیں ہوتا-‘‘
’’ہاہاہاہا--- بابا جی مذاق کر رہے ہو-‘‘
اس بوڑھے کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے-
’’میری حالت دیکھو، اکیلا پڑا ہوں کوئی پانی پوچھنے والا بھی نہیں ہے-
جانتے ہو میں نے کب سے کھانا نہیں کھایا-‘‘
’’تو میں کچھ لا دیتا ہوں- کیا کھاؤ گے پیزا آرڈر کروں-‘‘
’’یہ گولی چلا دو مجھ پر- خدا کے لئیے اتنا احسان کر دو- میری دراز میں
ہتھیار ہے تم پر کوئی الزم نہیں ہو گا- یہ تو ویسے بھی خود کشی ہے-‘‘
’’میں نے آج تک کسی کو جان سے نہیں مارا- کبھی بدتر حالات بھی پیش آئے تو
صرف ٹانگ پر دیکھ کر گولی ماری کہ کسی کو بس چھو کر ہی گزرے- میں چور ہوں
لیکن قتل کا عذاب نہیں سہہ سکتا- ساری زندگی کی نیند قربان ہو جائے گی-‘‘
’’نہیں یہ تم نجات دلاؤ گے مجھے- تم پر گناہ نہیں، مجھ پر ہوگا جو اتنا
بزدل ہے کہ اپنی جان بھی نہیں لے سکتا-‘‘
’’میرا زندگی بھر کا سکون قربان ہو جائے گا- لوگ اپنوں کی خاطر زندگی بھر
ایثار سے کام لیتے ہیں کیا تم نے کبھی زندگی میں کسی کے لئیے کچھ نہیں کیا
جو اس حال میں پڑے ہو-
بابا جی کبھی تو کسی کی خاطر قربانی دی ہوگی اپنی اولاد کو واسطہ دو وہ
تمھیں بلا لے-‘‘
’’وہ ایسا نہیں کریں گے- مجھے یہیں اسی حال میں رہنا ہوگا- خدا کے لئیے مجھ
پر ترس کھاؤ- اب تو میں اٹھ کر حاجت رفع کے لئیے بھی نہیں جاسکتا- اسی بستر
پرنکل جاتا ہے-‘‘
’’اوہ--- تو یہ بدبو--- بابا جی ایسا کیا گناہ کر بیٹھے ہو؟‘‘
’’میں اپنے بیوی بچاں کے ساتھ کبھی کسی شہر کبھی کسی ملک میں کام کی خاطر
جایا کرتا- میری بیوی کو میری غیر موجودگی میں اپنے میکے میں رہنا پسند تھا
اسکو یہاں میرے باپ کے ساتھ نہیں رہنا تھا ور مجھے کبھی اعتراض بھی نہیں
تھا- ایک دن جب میں پاکستان واپس لوٹا تو دیکھا میرا باپ یہاں مرا ہوا تھا-
ڈاکٹر نے بتایا کہ اسکا جسم چار دن سے مردہ پڑا تھا-
اب میرے ساتھ بھی یہی ہوگا- میرے بچوں کو تو پتہ بھی نہیں چلے گا- مجھے اس
حال میں چھوڑ کر مت جاؤ- یہ میری سزا ہے مجھے بھگتنی پڑے گی-‘‘
اوہ--- ایک لمحے کو اسکا دل پسیجا
’’بابا جی مجھے معاف کرو-‘‘ وہ واپس جانے کے لئیے مڑا تو اس بوڑھے نے اسکو
بازو سے پکڑ لیا-
’’مجھ پر احسان کر جاؤ خدا کے واسطے تمہارا سکون، تتمہاری نیند قربان نہیں
ہوگی-‘‘
’’چھوڑو بابا جی، میرا بازو چھوڑو-‘‘
اس نے بوڑھے کا ہاتھ جھٹکا, سامان اٹھایا اور کمرے سے باہر نکل آیا- لیکن
اس بوڑھے کی آہ و زاری ختم نہیں ہوئی-
’’خدا کے لئیے مجھے ایسے چھوڑ کر مت جاؤ- یہ قتل نہیں ہے نہ تمہاری نیند و
سکون کا ایثار ہے یہ بس احسان ہے- میرے باپ کی لاش میری آں کھوں کے سامنے
آتی ہے- یہ اندھیرا مجھے دہلاتا ہے-‘‘
’’مجھ پر احسان کو جاؤ- میں روز روز، سسک سسک کر مر رہا ہوں - میں رے باڑھے
باپ نے میری مان کے مرنے کے بعد کبھی شادی نہیں کی، اپنی تمام خوشیاں ایثار
کر دیں اور میں نے اسے یہاں اکیلے پرنے کے لئے چھوڑ دیا- اسے بستر پر دم
توڑا تھا میرے باپ نے-!‘‘
’’اففف‘‘
اس بوڑھے کی چیخ و پکار ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی تھی-
اس نے اپنے کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیں- سب چھوڑ کر باہر نکل گیا لیکن بند
کھڑکیوں سے بھی اسکی آواز سنائی دے رہی تھی, اسکی بلندو بانگ چیخ و پکار---
’’میں اپنے باپ کی لاش پر پڑا رہتا ہوں- جیسے وہ اس بستر پر جانے کیسے تڑپ
کر اس دنیا سے گیا ہو- مجھے وہ تکلیف آج محسوس ہوتی ہے- میرے باپ کی لاش
مجھے مجھے گھور رہی ہے- اسکی کھلی آنکھیں مجھے دہلا رہی ہیں- سنو!!! مجھ پر
احسان کر جاؤ- خدا کے لئیے!‘‘
وہ واپس پلٹا--- تیزی سے کمرے کی طرف بڑھا اور ایک--- دو--- تین--- کتنی
گولیاں ایک ساتھ چلا دیں-
خود کشی کا کیس تھا کسی نے پولیس کو فوری اطلاع کر دی تھی-
تمام کاروائی کے بعد آج صبح اسکی آخری رسومات ادا کر دی گئیں- وہ فلایئٹ
میں آنکھین بند کئے بیٹھا سوچ رہا تھا کہ یہ قتل تو نہیں تھا- اسکے باپ کے
ایثار کو بھلانے کی سزا تھی بس
وہ اس بوڑھے کی کی شکل میں اپنا کل دیکھ رہا تھا- جہاز کی کھڑکی سے باہر
بادلوں میں اسے اپنا گزرا ہوا وقت اور آنے والا وقت دکھائی دے رہا تھا- |