سسرال میں گزرے چھ سات سالوں میں اس کے کان عادی ہو چکے
تھے لفطوں کو انگاروں کی شکل میں برداشت کرنے کے ۔ دل بھی ہر بار نئے زخم
پر دھڑکن مس نہیں کرتا تھا ۔ پھر بھی رات جب پورے شہر کو سلا کر اپنے ہی گپ
اندھیرے میں خود کو چھپا کر اس کے کان میں سرگوشی کرتی تو ہمیشہ کی طرح اس
کی پلکیں بھیگی ہوتی ، سانسوں کو اندر باہر ہونے میں کافی دقت ہو رہی ہوتی
اور سسکیاں اپنی آواز دبانے کی ناکام کوشش کر رہی ہوتی ۔ پھر اندھیری رات
کسی ماں کی طرح ایک بھی لفظ کہے بغیر اس کا سر سہلاتی ہے جیسے کہہ رہی ہو
میں ساتھ ہوں تمہارے ۔ تمہاری رازدار ، تمہاری غم خوار ۔ اور ہر بار کی طرح
جب آنکھوں نے بےبس ہو کر مزید آنسوں سے انکار کر دیا تو اس نے گھپ اندھیرے
میں کالے آسمان کو دیکھ کر جیسے شکایتی نظروں سے بے لفظ زبان میں فریاد کی
کیوں مجھے بدصورت بنایا کیا قصور ہے میرا ۔ آخر کیوں ۔۔۔
|