چین میں چمگادڑوں کی غاروں کا کرونا وائرس سے کیا تعلق ہے؟

image
 
چین کی چمگادڑیں کرونا وائرس کے آغاز کا کھوج لگانے والے سائنس دانوں کی توجہ کا مرکز بن رہی ہیں۔ اور چین کے شہر ووہان کا دورہ کرنے والی عالمی ادارہ صحت کے سائنس دانوں اور ماہرین کی ٹیم کے ایک رکن نے کہا ہے کہ یہ بہتر طور پر سمجھنے کے لیے کہ کرونا وائرس کا آغاز کیسے ہوا، ہمیں چین میں چمگادڑوں کے غاروں کو دیکھنا چاہئے۔
 
کرونا وبا کے آغاز کے بعد کئی ماہرین نے یہ خدشہ ظاہر کیا تھا کہ کرونا وائرس چمگادڑ یا اسی طرح کے کسی جنگلی جانور سے انسانوں کو منتقل ہوا ہے۔
 
زوولوجسٹ اور جانوروں کی بیماریوں کے ماہر پیٹرک ڈائزک کا کہنا تھا کہ عالمی ادارہ صحت کا وفد کو جو ووہان میں موجود ہے ، عالمی وبا کے آغاز کے بارے میں نئی معلومات مل رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ یہ وائرس چین کی لیبارٹری میں بنایا گیا۔
 
کرونا وائرس کا آغاز کیسے ہوا؟ اس بارے میں مختلف نظریات اور خدشات پائے جاتے ہیں۔ کرونا کے ابتدائی مریض ووہاں کے اس علاقے میں سامنے آئے، جہاں زندہ جانور فروخت کرنے والی ایک مارکیٹ ہے۔ اس مارکیٹ میں جنگلی جانور بھی فروخت کیے جاتے ہیں، جو انسانی خوراک کے طور پر استعمال ہوتے ہیں۔ اس لیے یہ خدشہ ظاہر کیا جاتا ہے کہ اسی مارکیٹ کے کسی جانور سے وائرس انسان کو منتقل ہوا ہو گا۔ تاہم ابھی اس بارے میں جامع تحقیق ہونا باقی ہے۔
 
image
 
ڈائزک اس سے پہلے ایک اور وائرس سارز کے آغاز پر تحقیق کر چکے ہیں جس کا آغاز چین کے ایک صوبے کی غاروں میں موجود چمگادڑوں سے ہوا تھا۔
 
انہوں نے خبررساں ادارے رائٹرز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ “اس کے آغاز پر کام کرنا ضروری ہے۔ اگر آپ یہ معلوم کر سکتے ہیں کہ کون سی چمگادڑ سے یہ خطرناک وائرس شروع ہوا تو آپ اس جانور سے انسانوں کو دور رکھ سکتے ہیں۔”
 
یہ بات معلوم نہیں ہو سکی کہ کیا چین کی غاروں میں چمگادڑوں سے ملنے والے وائرسوں کے نمونے دیکھے جا رہے ہیں یا نہیں، تاہم اس سے پہلے کرونا وائرس جیسے وائرس کے نمونے چین کی غاروں سے مل چکے ہیں۔
 
ڈائزک کا کہنا تھا کہ ان کی ٹیم اس وقت یہ دیکھ رہی ہے کہ یہ وائرس کیسے جانوروں سے انسانوں تک منتقل ہوا۔ ان کے مطابق اس منتقلی میں کئی مہینے بلکہ کئی سال بھی لگ سکتے ہیں۔
 
تحقیقی ٹیم اب تک اسپتالوں، ریسرچ سینٹرز اور سی فوڈ مارکیٹس کا دورہ کر چکی ہے۔ تاہم عالمی ادارہ صحت کی تحقیقی ٹیم کے دورے ابھی تک ان مقامات تک محدود ہیں، جہاں چینی حکام نے انہیں جانے کی اجازت دی ہے۔
 
Partner Content: VOA
YOU MAY ALSO LIKE: