ویسے کہتے ہیں کہ آزادی ہر کسی کا حق ہے چاہے وہ مرد ہو
یا عورت۔لیکن مجھے لگتا ہے کہ اگر یہ حق ہمیں مل بھی جاۓ تب بھی ہم عورتیں
کھبی اذاد نہیں ہوپائیں گئکیونکہ اذادی ہمیں راس نہیں اتی۔ ہم ویسے ظاہری
طور پراذاد ہیں ہمیں ساری اذادیاں حاصل ہیں۔ لیکن پھر بھی ہم ایک قید میں
ہیں اس چیز کی قید میں جس سے ہمیں کھبی اذادی نہیں ملے گی اور وہ چیز ہے ڈر۔
اور ہمارے اس ڈر کی بہت ساری صورتیں اور اقسام ہیں جس میں" بےعزتی"
شرمندگی"اور لوگوں کی باتیں سرفہرست ہیں اور یہی ہمارے اصل ڈر ہیں ہم کسی
اور چیز سے اتنا نہیں ڈرتے جتنا کہ ان چیزوں سے ڈرتے ہیں کیونکہ ان چیزوں
کا سہرا ہی ہمارے سر ہیں۔ ہم پیدا ہوتے ہی ان ڈر کے ساتھ ہیں۔ہمیں بچپن سے
سکھا جاتا ہے کہ کس طرح ہماری ایک غلطی ہمارے لۓ عمر بھر کی سزاء بن سکتی
ہے کیونکہ ہمارے معاشرے میں کسی اور کی غلطی نہیں دیکھی جاتی اور اگر دیکھی
بھی جاۓ تو بھی اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ "چاقو خربوزہ پر گرے یا
خربوزہ چاقو پر کٹتا تو خربوزہ ہی ہے"کیونکے خربوزہ ایک کمزور چیزہے چاقو
کے اگے۔جس طرح پانی کا بہاؤ کمزور جگہ پر ہوتا ہے اس طرح معاشرے میں جو کچھ
بھی ہوتا ہے اس کا اثر سب سے پہلے ہم پر ہی ہوتا ہے اور میں اس بات کو
مانتی ہو۔اور ان باتوں سے ہم کھبی اذاد نہیں ہوگے اور اسلۓ ہم معاشرے میں
کسی روبوٹ کی طرح گھومتے ہیں اور اپنے احساس ظاہرنہیں کرتےتاکلوگ ہمارے
بارے میں کوئی غلط رائے قائم نہ کرسکے۔کیونکے کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ "ضروری
نہیں کہ ہر لکھا جانے والا لفظ پڑھنے والے کے معیار کے مطابق ہو کیونکہ
لکھنے والا اپنی کیفیت اور پڑھنے والا اپنی کیفیت میں ہوتا ہے" یہی حال
ہمارا بھی ہے ہم کچھ اور بیان کریں گے اور لوگ اس سے کچھ اور مطلب لۓ گے جس
سے .ہہتر ہے کہ ہم چپ رہے اور ہم اکثر یہی کرتےہے اور پھر لوگ کہتے کہ عورت
کو سمجھنا مشکل ہے تو اس کا جواب بھی یہی ہے جو میں نے اوپر بیان کیا۔
اس طرح اگر ہم کسی سیر کے لۓ جاۓ تو ہم اس طرح آزادی سے انجواۓ نہیں کرسکے
گے جس طرح ایک مرد کرتا ہے کیونکہ ہمیں ڈر ہوتا ہے کہ کہی غلطی سے ہمارے سر
سے پلو نہ سرکے اور کوئی ہمیں دیکھ نہ لے اور کوئی ہمیں غلط نا سمجھےیا پھر
کوئی ہمارا چپکے سے تصویر نہ کھینچے اور اسے سوشل میڈیا پر وائرل نا کردے۔ے
پریشانی ذیادہ تر ان کے ساتھ ہوتی ہے جوذیادہپردہ کرتے ہیں۔ اسطرح ہمیں ڈر
ہوتا ہے کہ کہی ہماری چھوٹی سی انجانے میں کی گئ غلطی ہمارے گلے کا پھندا
نہ بن جاۓ اور ساری زندگی ہمیں گھٹ گھٹ کے نہ جینی پڑے کیونکہ لوگوں کی
باتیں بدنامی اور بے عزتی ایسی چیزیں ہیں جو کہ انسان کو نہ جینے دیتی ہے
نہ مرنے۔ جیتے جی اس سے اذادی حاصل نہیں ہوسکتی اور مرنے کے بعد کوئی فائدہ
نہیں کیونکہ مرنے کے بعد ویسے ہی انسان اس دنیاکے ہر چیز سے اذاد ہوجاتا ہے
اگر مجھے اذادی چاہے تو صرف ان ڈر سے۔ اگر مجھے اذادی چاہے تواظہار راۓ کی
اور اظہار خیال کی۔ ذیادہ اذادی ویسے ہی کسی کے لۓ بھی اچھی نہیں ہوتی
کیونکہ سب سے ذیادہ اذاد تو جانور ہوتے ہیں جس پر کسی بھی چیز کی پابندی
نہیں ہوتی۔ اگر انسان ذیادہ اذاد ہوجاۓ تو وہ بھی جانور بن جاۓ گا۔
|