عنوان : 7 ستمبر 1974 قادیانیوں پر ظلم ہوا یا ان کا دیرینہ مطالبہ پورا کیا گیا؟ فیصلہ خود کیجیے (Part:1)
(عبیداللہ لطیف Ubaidullah Latif, Faisalabad)
|
عنوان : 7 ستمبر 1974 قادیانیوں پر ظلم ہوا یا ان کا دیرینہ مطالبہ پورا کیا گیا؟ فیصلہ خود کیجیے (Part:1)
تحریر: عبیداللہ لطیف فیصل آباد
نوٹ : مضمون میں دئیے گئے تمام حوالہ جات کے سکین بھی طلب کرنے پر پیش کیے جا سکتے
وطن عزیز اس وقت ایک کٹھن دور سے گزر رہا ہے ایک طرف داعش اور تحریک طالبان پاکستان جیسے تکفیری گروہ ہر ایک پر کفر کے فتوے لگا کر جہادکے نام پردہشتگردی کو پروان چڑھارہے ہیں تو دوسری طرف بعض لوگ ان کی اس دہشت گردی کو اسلام اور اسلامی قوانین کے ساتھ منسلک کر کے اسلام اور اسلامی تعلیمات کے خلاف زہریلا پراپیگنڈہ کرنے میں مصروف ہیں درحقیقت یہ دونوں گروہ افراط و تفریط کا شکار ہیں دوسرے گروہ سے متاثر ہو کر ہی کبھی رانا ثناءاللہ جیسے سینیئر سیاستدان یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ قادیانیوں اور ہمارے درمیان ختم نبوت کے مسئلے پر معمولی اختلاف ہے تو کبھی حمزہ عباسی جیسے اینکر اور اداکار پارلیمنٹ کے متفقہ فیصلے کے خلاف آواز اٹھاتے نظر آتے ہیں اور یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ کیا پارلیمنٹ کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ کسی کو کافر قرار دے ؟ یاد رہے کہ امت مسلمہ اور قادیانیوں کے درمیان صرف عقیدہ ختم نبوت میں ہی فرق نہیں بلکہ قادیانیت حقیقی اسلام کے نام پر اسلام کے مقابل یہودونصاری کا پروان چڑھایا وہ پودا ہے جس کی ایک ایک چیز اسلام کے خلاف ہے یہ بات میں اپنی طرف سے نہیں کہتا بلکہ مرزا غلام احمد قادیانی کا بڑا بیٹا اور قادیانیوں کا دوسرا خلیفہ بشیرالدین محمود لکھتا ہے کہ "حضرت مسیح موعود نے تو فرمایا ہے کہ ان کا اسلام اور ہے اور ہمارا اور، ان کا خدا اور ہے اور ہمارا خدا اور ہے، ہمارا حج اور ہے اور ان کا حج اور۔ اسی طرح ان سے ہر بات میں اختلاف ہے۔‘‘
(روزنامہ الفضل قادیان 21 اگست 1917ء جلد 5 نمبر 15 صفحہ 8 )
’’حضرت مسیح موعود (مرزاکادیانی) کے منہ سے نکلے ہوئے الفاظ میرے کانوں میں گونج رہے ہیں۔ آپ نے فرمایا یہ غلط ہے کہ دوسرے لوگوں (مسلمانوں) سے ہمارا اختلاف صرف وفات مسیح یا اور چند مسائل میں ہے آپ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کی ذات، رسول کریمؐ، قرآن، نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ، غرض کہ آپ نے تفصیل سے بتایا کہ ایک ایک چیز میں ہمیں ان سے اختلاف ہے۔‘‘ (خطبہ جمعہ مرزا بشیر الدین خلیفہ قادیان، مندرجہ اخبار ’’الفضل‘‘ قادیان، جلد 19، نمبر 13، مورخہ 30 جولائی 1931ء) اب جہاں تک سوال ہے کہ کیا پارلیمنٹ کو یہ حق حاصل ہے کہ قادیانیوں کو کافر قرار دے درحقیقت یہ سوال ہی محض کم علمی اور جہالت کا نتیجہ ہے کیونکہ پارلیمنٹ نے قادیانیوں کو غیر مسلم قرار نہیں دیا اور نہ ہی امت سے باہر نکالا ہے بلکہ پارلیمنٹ نے تو قادیانیوں کا دیرینہ مطالبہ پورا کیا ہے جبکہ آنجہانی مرزا غلام احمد قادیانی نے خود اپنے آپ کو اور اپنے متبعین کوامت سے باہر نکالا ہے ۔ پاکستانی پارلیمنٹ نے تو متفقہ طور پر متنبی قادیاں مرزا قادیانی کے فیصلے کی نہ صرف توثیق کی ہے ۔ بلکہ قادیانیوں کا دیرینہ مطالبہ بھی پورا کیا ہے۔ قارئین کرام ! پہلے میں آپ کو مرزا قادیانی کو بذات خود اپنے آپ کو اور اپنی جماعت کو امت سے باہر نکالنے کے دلائل پیش کروں گا پھر واضح کروں گا کہ قادیانیوں کا دیرینہ مطالبہ کیسے پورا ہوا اب مرزا قادیانی کا اپنے آپ کو اور اپنی جماعت کو امت سے نکالنے کے دلائل ملاحظہ کریں چنانچہ ایک مشہور روایت ہے کہ نبی کریم علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ ((موسیٰ علیہ السلام کی قوم کے بہتر 72فرقے تھے اور میری قوم میں تہتر 73فرقے ہوں گے اور ان میں سے فقط ایک فرقہ جنتی ہو گا۔ یہ سن کر صحابہ کرام نے عرض کی یا رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم ! وہ گروہ کونسا ہو گا؟ تو نبی رحمت علیہ السلام نے فرمایا جو میرے اور میرے صحابہ کے نقش قدم پر چلے گا۔)) (رواہٗ عبداﷲ ابن عمر رضی اﷲ عنہ سنن ابو داؤد ‘ جامع ترمذی) اس حدیث مبارکہ سے واضح ہوتاہے کہ امت صرف اور صرف تہتر فرقوں پر مشتمل ہو گی جبکہ اس کے برعکس مرزاقادیانی تمام تہتر فرقوں کو پلید اور جہنمی قرار دیتے ہوئے لکھتا ہے کہ ’’درمیانی زمانہ جو آنحضرت ﷺ کے زمانہ سے بلکہ تمام خیرالقرون کے زمانہ سے بعد میں ہے اور مسیح موعود کے زمانہ سے پہلے ہے یہ زمانہ فیج اعوج کا زمانہ ہے یعنی ٹیڑھے گروہ کا زمانہ جس میں خیر نہیں مگر شاذونادر ۔یہی فیج اعوج کا زمانہ ہے جس کی نسبت آنحضرت ﷺ کی یہ حدیث ہے لیسوا منی ولست منھم۔ یعنی نہ یہ لوگ مجھ میں سے ہیں اور نہ میں ان میں سے ہوں یعنی مجھے ان سے کچھ بھی تعلق نہیں یہی زمانہ ہے جس میں ہزارہا بدعات اور بے شمار ناپاک رسومات اور ہر قسم کے شرک خداکی ذات اور صفات اور افعال میں گروہ در گروہ پلید مذہب جو تہتر تک پہنچ گئے پیدا ہو گئے۔‘‘ (تحفہ گولڑویہ صفحہ 140مندرجہ قادیانی خزائن جلد 17صفحہ226) انگریز لیفٹیننٹ گورنر کے نام درخواست میں آنجہانی مرزاقادیانی اپنا اور اپنی جماعت کا تعارف کرواتے ہوئے لکھتا ہے کہ ’’چونکہ مسلمانوں کا ایک نیا فرقہ جس کا پیشوا اور امام اور پیر یہ راقم (مرزاقادیانی) ہے پنجاب اور ہندوستان کے اکثر شہروں میں پھیلتا جاتاہے ۔‘‘ (مجموعہ اشتہارات جلددوم صفحہ 188طبع جدید) محترم قارئین ! اب دیکھئے کہ فرمان نبوی کے مطابق تو امت صرف تہتر فرقوں پر مشتمل ہے اور مرزاقادیانی تمام تہتر فرقوں کو نہ صرف پلید قرار دے رہا ہے بلکہ ایک نئے چوہترویں فرقے کی بنیاد رکھ رہاہے جس کا اسلام کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ ایک اور جگہ پر اپنی جماعت کو فرقہ جدیدہ قراردیتے ہوئے لکھتا ہے کہ ’’اور تیسرا امر جو قابل گزارش ہے وہ یہ ہے کہ میں گورنمنٹ عالیہ کو یقین دلاتا ہوں کہ یہ فرقہ جدیدہ جو برٹش انڈیاکے اکثر مقامات میں پھیل گیا ہے جس کا میں پیشوا اور امام ہوں گورنمنٹ کے لیے ہرگز خطرناک نہیں ہے اور اس کے اصول ایسے پاک اور صاف اور امن بخش اور صلح کاری کے ہیں کہ تمام اسلام کے موجودہ فرقوں میں اس کی نظیر گورنمنٹ کو نہیں ملے گی۔ جو ہدایتیں اس فرقہ کے لیے میں نے مرتب کی ہیں جن کو میں نے ہاتھ سے لکھ کر اور چھاپ کر ہر ایک مرید کو دیا ہے کہ ان کو اپنا دستور العمل رکھے وہ ہدایتیں میرے اس رسالہ میں مندرج ہیں جو 12جنوری 1889ء میں چھپ کر عام مریدوں میں شائع ہوا ہے۔ جس کا نام تکمیل تبلیغ مع شرائط بیعت ہے جس کی ایک کاپی اسی زمانہ میں گورنمنٹ میں بھی بھیجی گئی تھی۔۔۔۔۔۔ اور میری جماعت جیسا کہ میں آگے بیان کروں گا جاہلوں اور وحشیوں کی جماعت نہیں ہے بلکہ اکثر ان میں اعلیٰ درجہ کے تعلیم یافتہ اور علوم مروجہ کے حاصل کرنے والے اور سرکاری معز ز عہدوں پر سرفراز ہیں اورمیں دیکھتا ہوں کہ انھوں نے چال چلن اور اخلاق فاضلہ میں بڑی ترقی کی ہے اور میں امید رکھتا ہوں کہ تجربہ کے وقت سرکار انگریزی ان کو اوّل درجہ کے خیرخواہ پاوے گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ غرض یہ ایک ایسی جماعت ہے جو سرکار انگریزی کی نمک پروردہ اور نیک نامی حاصل کردہ اور مورد مراحم گورنمنٹ ہے۔‘‘ (اشتہار ’’بحضور لیفٹیننٹ گورنر بہادر دام اقبالہ ‘‘ مندرجہ مجموعہ اشتہارات جلد 2 صفحہ 195 تا 197 از مرزا قادیانی طبع چہارم) قارئین کرام! امت مسلمہ میں کوئی ایسا شخص نہیں ہے جو یہ کہے کہ اسے مکہ اور مدینہ میں امن اور سکون نہیں ملتا کیونکہ ﷲ تعالی قرآن کریم میں فرماتاہی کہ اِنَّ اَوَّلَ بَیْتِِ وُضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِیْ بِبَکَّۃَ مُبٰرَکََا وَّ ھُدَی لَلْمُتَّقِیْن oفِیْہِ اٰیٰتٌ بَیِّنٰتٌ مَقَامُ اِبْرٰھِیْمَ وَمَنْ دَخَلَہٗ کَانَ اٰمِنََا (سورہ آلعمران: ۹۷،۹۸۸)ترجمہ از تفسیر صغیر:سب سے پہلا گھر جو تمام لوگوں کے(فائدہ کے ) لئے بنایا گیا تھا وہ ہے جو مکہ میں ہے وہ تمام جہانوں کے لئے برکت والا( مقام )اور (موجب) ہدایت ہے oاس میں کئی روشن نشانات ہیں (وہ)ابراہیم کی قیام گاہ ہے اور جو اس میں داخل ہو امن میں آجاتا ہے ۔ وَضَرَبَ ﷲ مَثَلََا قَرْیَۃََ کَانَتْ اٰمِنَۃََ مُّطْمَئِنَّۃ (سورہ النحل :۱۱۳) ترجمہ از تفسیر صغیر: اور ﷲ (تمہیں سمجھانے کے لئے ) ایک بستی کا حال بیان کرتا ہے۔ جسے (ہرطرح سے)امن حاصل ہے (اور)اطمینان نصیب ہے ۔ محترم قارئین!اسی آیت کی تفسیر کرتے ہوئے مرزا بشیرالدین لکھتا ہے کہ ’’اس جگہ بستی سے مراد مکہ مکرمہ ہے ۔‘‘ ﷲ تعالی قرآن کریم میں مکہ شہر کی قسم اٹھاتے ہوئے فرماتا ہے کہ وَھَذَالْبَلَدِالْاَمِیْنَo (سورہ التین :۴) ترجمہ از تفسیر صغیر: اور اس امن والے شہر (مکہ) کو بھی (نوٹ) محترم قارئین !مکہ مکرمہ کی حرمت اور امن والا شہر ہونے کے بارے میں جو بھی آیات پیش کی گئی ہیں ان کے نمبر تفسیر صغیر کے اعتبار سے دیئے گئے ہیں کیونکہ اس میں ہر سورۃ میں بسم ﷲ الرحمن الرحیم کوبھی بطور آیت پیش کر کے ایک آیت کا اضافہ کیا گیاہے ۔ لیکن مرزاقادیانی اس کے برعکس لکھتا ہے کہ ’’ میں جانتا ہوں کہ خدا تعالیٰ نے اپنے خاص فضل سے میری اور میری جماعت کی پناہ اس سلطنت کو بنا دیا ہے۔ یہ امن جو اس سلطنت (برطانیہ) کے زیر سایہ ہمیں حاصل ہے نہ یہ مکہ معظمہ میں مل سکتا ہے اور نہ مدینہ میں اور نہ سلطان روم کے پایہ تخت قسطنطنیہ میں۔‘‘ (تریاق القلوب صفحہ28مندرجہ قادیانی خزائن جلد15صفحہ 156) محترم قارئین!جس طرح اسلام کے دو حصے ہیں ﷲ تعالیٰ کی اطاعت اور محمدرسول ﷲ ﷺ کی اطاعت۔اسی طرح مرزا قادیانی نے بھی اپنے مذہب کے دو حصے بیان کیے ہیں چنانچہ مرزا قادیانی اپنے مذہب کا اظہار کرتے ہوئے رقمطراز ہے کہ ’’سو میرا مذہب جس کو میں باربار ظاہر کرتا ہوں یہی ہے کہ اسلام کے دو حصے ہیں۔ایک یہ کہ خداتعالیٰ کی اطاعت کریں‘دوسرے اس سلطنت کی جس نے امن قائم کیا ہو جس نے ظالموں کے ہاتھ سے اپنے سایہ میں پناہ دی ہو ۔سو وہ سلطنت برطانیہ ہے۔‘‘ (شہادت القرآن صفحہ84مندرجہ روحانی خزائن جلد6صفحہ380) قارئین کرام ! مرزاقادیانی کا بیٹا مرزا بشیر احمد لکھتا ہے کہ ’’ہر ایک ایسا شخص جو موسی کو تو مانتا ہے مگر عیسی کو نہیں مانتا یا عیسی کو تو مانتا ہے مگر محمد (ﷺ) کو نہیں مانتا اور یا محمد (ﷺ) کو تو مانتا ہے پر مسیح موعود (مرزا) کو نہیں مانتاوہ نہ صرف کافر پکا کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہے ۔‘‘ (کلمۃ الفصل صفحہ110از بشیر احمد ابن مرزاقادیانی) اسی طرح قادیانی اخبار الفضل لکھتا ہے کہ ’’غیر احمدیوں کی ہمارے مقابلہ میں وہی حیثیت ہے جو قرآن کریم ایک مومن کے مقابلہ میں اہل کتاب کی قرار دے کر تعلیم دیتا ہے کہ ایک مومن اہل کتاب عورت کو بیاہ لا سکتا ہے مگر مومنہ عورت کو اہل کتاب سے نہیں بیاہ سکتا ۔ اسی طرح ایک احمدی غیر احمدی عورت کو اپنے حبالہ عقد میں لاسکتا ہے ، مگر احمدی عورت شریعت اسلام کے مطابق غیر احمدی مرد کے نکاح میں نہیں دی جا سکتی ۔۔۔۔۔ حضور (مرزاصاحب ) فرماتے ہیں : غیر احمدی کی لڑکی لے لینے میں حرج نہیں ہے ، کیونکہ اہل کتاب عورتوں سے بھی نکاحجائز ہے ، بلکہ اس میں فائدہ ہے کہ ایک اور انسان ہدایت پاتا ہے ۔ اپنی لڑکی غیر احمدی کو نہ دینی چاہئے ۔اگر ملے تو لے لو ،بے شک لینے میں حرج نہیں اور دینے میں گناہ ہے ۔(الحکم ۱۴ ,اپریل ۱۹۲۰ء)۔‘‘ (اخبار الفضل قادیاں مورخہ ۱۶ دسمبر ۱۹۲۰ء) مزید قادیانی اخبار الفضل مرزاقادیانی کے بڑے بیٹے اور قادیانیوں کے دوسرے خلیفہ میاں بشیر الدین محمود کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ ’’ایک شخص کے سوالات کے ۔۔۔۔۔ حضرت میاں محمود احمد صاحب نے مندرجہ ذیل جوابات لکھے ۔ سوال: کیا جو شخص احمدی کہلاتا ہے ، چندہ بھی دیتا ہے ،تبلیغ بھی کرتا ہے لیکن حضرت مسیح موعود کے حکم صریحی کے خلاف کہ غیر احمدی کو اپنی لڑکی دینا جائز نہیں ۔اپنی لڑکی کا نکاح کر دیتا ہے ۔ وہ ایک ہی حکم کے توڑنے سے مسیح موعود کے منکروں میں سے ہو سکتا ہے ؟ جواب : جو شخص اپنی لڑکی کا رشتہ غیر احمدی لڑکے کو دیتا ہے میرے نزدیک وہ احمدی نہیں ، کوئی شخص کسی کو غیر مسلم سمجھتے ہوئے اپنی لڑکی اس کے نکاح میں نہیں دے سکتا۔ سوال: جو نکاح خواں ایسا نکاح پڑھاوے اس کے متعلق کیا حکم ہے ؟ جواب : ایسے نکاح خواں کے متعلق ہم وہی فتوی دیں گے جو اس شخص کی نسبت دیا جا سکتا ہے ۔ جس نے ایک مسلمان لڑکی کا نکاح ایک عیسائی یا ہندو لڑکے سے پڑھ دیاہو۔ سوال : کیا ایسا شخص جس نے غیر احمدیوں سے اپنی لڑکی کا رشتہ کیا ہے دوسرے احمدیوں کی شادی میں مدعو ہو سکتا ہے ؟ جواب : ایسی شادی میں شریک ہونا بھی جائز نہیں ۔ (ڈائری میاں محمود احمد خلیفہ قادیاں مندرجہ الفضل قادیاں جلد ۸نمبر۸۸ مورخہ ۲۲ مئی۱۹۲۱ء ) قارئین کرام ! قادیانیوں نے پہلی بار مسلمانوں سے الگ اپنی شناخت باونڈری کمشن کے سامنے 1946 میں کی جس کی بنیاد پر ضلع گوردادسپور انڈیا کا حصہ بنا اور کشمیر کو انڈیا سے ملانے کے لیے انڈیا کو واحد زمینی راستہ ملا اس کی تفصیل پیش کرنے سے پہلے آپ کے سامنے تحریک پاکستان میں قادیانیوں کے کردار پر چند حوالہ جات پیش کرنا چاہتا ہوں ملاحظہ فرمائیں ۔ قادیانیوں کا دوسرے خلیفہ اور مرزا غلام احمد قادیانی کے بڑے بیٹے بشیر الدین محمود کا ایک بیان ان کے آفیشل اخبار الفضل میں 1944 کو کچھ یوں شائع ہوا کہ "پس مسیح موعود کا ایک الہام ہے آریوں کا بادشاہ ۔ اگر ہم آریوں کو الگ کر دیں اور مسلمانوں کو الگ تو حضرت مسیح موعود کا یہ الہام کس طرح پورا ہو سکتا ہے پس ضروری ہے کہ ہندوستان کے سب لوگ متحد رہیں اگر ہندوستان نے الگ الگ ٹکڑوں میں تقسیم ہو جانا تھا تو حضرت مسیح موعود پاکستان کے بادشاہ کہلاتے آریوں کے بادشاہ نہ کہلاتے اس لیے بے شک مسلمان زور لگاتے رہیں جس مادی قسم کا پاکستان وہ۔چاہتے۔ہیں کبھی نہیں بن سکتا۔" (بیان بشیرالدین محمود الفضل 8 جون 1944) اللہ کے فضل و کرم سے پاکستان بن بھی گیا اور قائم و دائم بھی ہے بشیر الدین محمود کی طرف سے الہام کی تشریح کے مطابق مرزا جی کے الہام آریوں کا بادشاہ کو جھوٹا ثابت کر کے مرزا جی کے منہ پر کالک مل گیا خیر آگے بڑھتے ہیں بشیرالدین محمود کا ایک اور بیان ملاحظہ کریں جو 5 اپریل 1947 کے الفضل میں "اکھنڈ ہندوستان"کے عنوان سے اس طرح موجود ہے کہ "ہندوستان جیسی مضبوط بیس Base جس قوم کو مل جائے اس کی کامیابی میں کوئی شک نہیں رہتا ۔ اللہ تعالی کی اس مشیت سے کہ اس نے احمدیت کے لیے اتنی وسیع بیس Base مہیا کی ہے پتہ لگتا ہے کہ وہ سارے ہندوستان کو ایک سٹیج پر جمع کرنا چاہتا ہے اور سب کے گلے میں احمدیت کا جوا ڈالنا چاہتا ہے اس لیے ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ ہندو مسلم سوال اٹھ جائے اور ساری قومیں سیروشکر ہو کر رہیں تا ملک کے حصے بخرے نہ ہوں بے شک یہ کام بہت مشکل ہے مگر اس کے نتائج بھی بہت شاندار ہیں اور اللہ تعالی چاہتا ہے کہ ساری متحد ہوں تا احمدیت اس وسیع بیس پر ترقی کرے چنانچہ اس رویا میں اس طرف اشارہ ہے ممکن ہے عارضی طور پر افتراق پیدا ہو اور کچھ وقت کے لیے دونوں قومیں جدا جدا رہیں مگر یہ حالت عارضی ہو گی اور ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ جلد دور ہو جائے۔" (بیان بشیرالدین محمود الفضل 5 اپریل 1947) آئیے مزید آگے بڑھتے ہیں قادیانی اخبار الفضل مئی 1947 کے ایک اور شمارے میں بشیرالدین محمود کا ایک اور بیان کچھ اس طرح شائع ہوا کہ "میں قبل ازیں بتا چکا ہوں کہ اللہ تعالی کی مشیت ہندوستان کو اکٹھا رکھنا چاہتی ہے لیکن اگر قوموں کی غیر معمولی منافرت کی وجہ سے عارضی طور پر الگ بھی کرنا پڑے تو یہ اور بات ہے بسا اوقات عضو ماوف کو ڈاکٹر کاٹ دینے کا مشورہ بھی دیتے ہیں لیکن یہ خوشی سے نہیں ہوتا بلکہ مجبوری اور معذوری کے عالم میں اور صرف اس وقت ہوتا ہے جب کوئی چارہ نہ ہو اور اگر پھر یہ معلوم ہو جائے کہ اس ماوف عضو کی جگہ نیا لگ سکتا ہے تو کون جاہل انسان اس کے لیے کوشش نہیں کرے گا۔ اسی طرح ہندوستان کی تقسیم پر اگر ہم رضامند ہوئے ہیں تو خوشی سے نہیں بلکہ مجبوری سے اور پھر یہ کوشش کریں گے کہ کسی نہ کسی طرح جلد متحد ہو جائے۔" (الفضل 16 مئی 1947 صفحہ 2)
قارئین کرام ! اب آپ باونڈری کمشن کے سامنے پارسیوں کی طرح قادیانیوں کی طرف سے مسلمانوں سے الگ شناخت کے مطالبے کا ثبوت بھی ملاحظہ فرمائیں چنانچہ 13 نومبر 1946 کے الفضل میں قادیانیوں کے اس وقت کے خلیفہ بشیرالدین محمود کا بیان کچھ یوں شائع ہوتا ہے کہ
"گورنمنٹ کا فرض ہے کہ وہ ہم سے بھی مشورہ لے اور ہمارے حقوق کا بھی خیال رکھے ہماری جماعت ہندوستان میں سات آٹھ لاکھ کے قریب ہے مگر ہماری جماعت کے افراد اس طرح پھیلے ہوئے ہیں ان کی آواز کی کوئی قیمت نہیں سمجھی جاتی لیگ ہمیں اپنے اندر شامل نہیں کرنا چاہتی اور کانگریس میں ہم شامل نہیں ہونا چاہتے اس کے مقابلہ میں پارسی ہندوستان میں تین لاکھ کے قریب ہیں لیکن حکومت کی طرف سے ایک پارسی وزیر سنٹر میں مقرر کر دیا گیا ہے اور ان کی جماعت کو قانونی جماعت تسلیم کر لیا گیا ہے حالانکہ ہماری جماعت ان سے دگنی بلکہ اس سے بھی زیادہ ہے میں نے دہلی میں ایک انگریز افسر کو کہلا بھیجا کہ ہم شکوہ نہیں کرتے لیکن حکومت نے جو فیصلہ کیا ہے وہ نہایت غیر منصفانہ ہے انہوں نے پارسیوں کا قانونی وجود تسلیم کیا مگر احمدیوں کا نہیں حالانکہ تم ایک ایک پارسی لاو میں اس کے مقابلہ میں دو دو احمدی پیش کرتا چلا جاوں گا صرف اس لیے کہ ہماری جماعت بولتی نہیں اور ہماری جماعت دوسروں کی طرح لڑتی نہیں ہمارے حقوق کا خیال نہیں رکھا جاتا ۔ اس نے کہا ہم آپ کی جماعت کو ایک مذہبی جماعت سمجھتے ہیں ۔ میرے نمائندے نے اس کو جواب دیا بے شک ہم ایک مذہبی جماعت ہیں مگر کیا ہم نے ہندوستان میں رہنا ہے یا نہیں اور کیا ہندوستان کی سیاست کا اثر ہم پر نہیں پڑتا ۔ دوسرا جواب اس کا یہ ہے کہ کیا پارسی مذہبی جماعت نہیں اور عیسائی مذہبی جماعت نہیں ان کے آدمی پارسی اور عیسائی کر کے لیے گئے ہیں یا کسی سیاسی جماعت کے نمائندے کر کے۔" (الفضل 13نومبر 1946) قارئین کرام ! یہ تھا قادیانیوں کا عیسائیوں اور پارسیوں کی طرح مسلمانوں سے الگ تشخص کا مطالبہ جسے 1974 میں پاکستانی پارلیمنٹ نے پورا کیا ویسے بھی کسی بھی مہذب ملک کی پارلیمنٹ اور دیگر ادارے کسی کو اپنے ملک کے کروڑوں لوگوں کو دھوکہ دینے کی اجازت نہیں دے سکتے آپ سوچتے ہوں گے کہ قادیانی لوگوں کو کیسے دھوکہ دیتے ہیں آئیے ہم آپ کو قادیانیوں کی دھوکہ دہی کا دیدار کرواتے ہیں ۔ (جاری ہے) |