عنوان : 7 ستمبر 1974 قادیانیوں پر ظلم ہوا یا ان کا دیرینہ مطالبہ پورا کیا گیا؟ فیصلہ خود کیجیے (Part:٢)
(عبیداللہ لطیف Ubaidullah Latif, Faisalabad)
|
عنوان : 7 ستمبر 1974 قادیانیوں پر ظلم ہوا یا ان کا دیرینہ مطالبہ پورا کیا گیا؟ فیصلہ خود کیجیے (Part:2)
تحریر: عبیداللہ لطیف فیصل آباد
قارئین کرام ! یہ تھا قادیانیوں کا عیسائیوں اور پارسیوں کی طرح مسلمانوں سے الگ تشخص کا مطالبہ جسے 1974 میں پاکستانی پارلیمنٹ نے پورا کیا ویسے بھی کسی بھی مہذب ملک کی پارلیمنٹ اور دیگر ادارے کسی کو اپنے ملک کے کروڑوں لوگوں کو دھوکہ دینے کی اجازت نہیں دے سکتے۔ اس حوالےسے تو تعذیرات پاکستان کی دفعہ 419 اور 420 بالکل واضح ہیں جن میں ہر طرح کے فراڈ اور دھوکہ دہی پر سزا مقرد کی گئی دفع 419 میں تو اس پر بھی سزا ہے کہ کوئی انسان اپنا آپ چھپا کر کسی دوسری شخصیت کے طور پر خود کو ظاہر کرے ۔ قارئین کرام ! آپ سوچتے ہوں گے کہ قادیانی لوگوں کو کیسے دھوکہ دیتے ہیں آئیے ہم آپ کو قادیانیوں کی دھوکہ دہی کا دیدار کرواتے ہیں ۔ جو بھی قادیانی مرزا غلام قادیانی کو اس کے تمام دعووں میں سچا جانتا ہے وہ اللہ تعالی کے ساتھ ساتھ مرزا قادیانی کو بھی "کن فیکون" کی صفت کا حامل مانتا ہے ۔ کیونکہ مرزا قادیانی کا دعوی ہے کہ اسے الہام ہوا کہ
اِنَّمَا اَمرُکَ اِذَا اَرَادتَ شَیئاً اَن تَقُولَ لَہُ کُن فَیَکُونُ ترجمہ؛ ”تو جس بات کا ارادہ کرتا ہے وہ تیرے حکم سے فی الفور ہو جاتی ہے۔ (حقیقة الوحی صح 108 مندرجہ روحانی خزائن جلد 22 ص 108) مرزا جی اپنا یہ الہام سورة یسین کی آیت اِنَّمَآاَمرُہ اِذَا اَرَادَ شَیئاً اَن یَقُولَ لَہ کُن فَیَکُون (یٰسین 82 میں لفظی تحریف کرتے ہوئے تراشا ہے اسی طرح کوئی بھی قادیانی آپ کو نہیں بتائے گا کہ ان کے خدا کے نام یلاش ، کالا اور کالو بھی ہیں اور ان کا خدا کھا جانے والی آگ بھی ہے ۔ اور مرزا قادیانی کا خدا اس کے بقول چوروں کی طرح پوشیدہ آتا ہے ۔ قارئین کرام ! قادیانی جب کلمہ پڑھتے ہیں تو کلمہ محمد رسول اللہ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم سے مراد مرزا قادیانی کو بھی مانتے ہیں کیونکہ مرزا قادیانی نے بذات خود محمد رسول اللہ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم ہونے کا دعوی بھی کیا ہے چنانچہ وہ لکھتا ہے کہ ’’مگر میں کہتا ہوں کہ آنحضرت ﷺ کے بعد جو درحقیقت خاتم النبین تھے ، مجھے رسول اور نبی کے لفظ سے پکارے جانا کوئی اعتراض کی بات نہیں، اور نہ ہی اس سے مہر ختمیت ٹوٹتی ہے۔ کیونکہ میں بار بار بتلا چکا ہوں ، میں بموجب آیت وَآخَرِیْنَ مِنْھُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِھِمْ وہی خاتم الانبیاء ہوں۔ اور خدا نے آج سے بیس برس پہلے براہین احمدیہ میں میرا نام محمد اور احمد رکھا ہے۔ اور مجھے آنحضرت ﷺ کا وجود قرار دیا ہے۔ پس اس طور سے آنحضرت ﷺ کے خاتم الانبیاء ہونے میں میری نبوت سے کوئی تزلزل نہیں آیا۔ کیونکہ ظل اپنے اصل سے علیحدہ نہیں ہوتا اور چونکہ میں ظلی طور پر محمد ﷺ ہوں ، پس اس طور سے خاتم النبین کی مہر نہیں ٹوٹی۔ کیونکہ محمد ﷺ کی نبوت محمد ہی تک محدود رہی۔یعنی بہرحال محمد ﷺہی نبی رہے اور نہ اور کوئی۔ یعنی جب کہ میں بروزی طور پر آنحضرت ﷺ ہوں اور بروزی رنگ میں تمام کمالات محمدی مع نبوت محمدیہ کے، میرے آئینہ ظلیت میں منعکس ہیں۔ تو پھر کونسا الگ انسان ہوا جس نے علیحدہ طور پر نبوت کا دعویٰ کیا۔‘‘ (ایک غلطی کا ازالہ صفحہ 8 مندرجہ قادیانی خزائن جلد 18صفحہ 212) اسی طرح ایک اور جگہ قادیانی کذاب لکھتا ہے کہ ’’ نبوت کی تمام کھڑکیاں بند کی گئیں مگر ایک کھڑکی سیرۃ صدیقی کی کھلی ہے۔ یعنی فنا فی الرسول کی ۔ پس جو شخص اس کھڑکی کی راہ سے خدا کے پاس آتا ہے اس پر ظلی طور پر وہی نبوت کی چادر پہنائی جاتی ہے جو نبوت محمدی کی چادر ہے۔ اس لیے اس کا نبی ہونا غیرت کی جگہ نہیں کیونکہ وہ اپنی ذات سے نہیں بلکہ اپنے نبی کے چشمہ سے لیتا ہے۔ اور نہ اپنے لیے بلکہ اسی کے جلال کے لیے۔ اس لیے اس کا نام آسمان پر محمد اور احمد ہے ۔ اس کے یہ معنیٰ ہیں کہ محمد کی نبوت آخر محمد کو ہی ملی۔ گو بروزی طور پر مگر نہ کسی اور کو۔۔۔۔۔۔لیکن اگر کوئی شخص اسی خاتم النبین میں ایسا گم ہو کہ بباعث نہایت اتحاد اور نفی غیریت کے اسی کا نام پالیا ہو اور صاف آئینہ کی طرح محمدی چہرہ کا اس میں انعکاس ہو گیا ہو تو وہ بغیر مہر توڑنے کے نبی کہلائے گا۔ کیونکہ وہ محمد ہے۔ گو ظلی طور پر ۔ پس باوجود اس شخص کے دعویٰ نبوت کے جس کا نام ظلی طور پر محمد اور احمد رکھا گیا ۔ پھر بھی سیدنا محمد خاتم النبین ہی رہا۔ کیونکہ یہ محمد (ثانی) (مرزا قادیانی) اسی محمد کی تصویر اور اسی کانام ہے۔‘‘ (ایک غلطی کا ازالہ صفحہ 3 تا 5 مندرجہ روحانی خزائن جلد 8 1صفحہ207 تا209) مرزا غلام احمد قادیانی کا بیٹا مرزا بشیر احمد اپنی کتاب کلمة الفصل میں ایک مقام پر لکھتا ہے کہ ’’اورچونکہ مشابہت تامہ کی وجہ سے مسیح موعود اور نبی کریم میں کوئی دوئی باقی نہیں کہ ان دونوں کے وجود بھی ایک وجود کا ہی حکم رکھتے ہیں جیساکہ خود مسیح موعود نے فرمایا کہ صاروجودی وجودہ (دیکھوخطبہ الہامیہ صفحہ171) اورحدیث میں بھی آیا ہے کہ حضرت نبی کریم نے فرمایا کہ مسیح موعود میری قبر میں دفن کیا جائے گا۔جس سے یہی مراد ہے کہ وہ میں ہی ہوں یعنی مسیح موعود نبی کریم سے الگ کوئی چیز نہیں ہے بلکہ وہی ہے جو بروزی رنگ میں دوبارہ دنیا میں آئے گا تاکہ اشاعت اسلام کا کام پورا کرے اور ھوالّذی ارسل رسولہ بالھدیٰ ودین الحق لیظھرہ علی الدین کلہ کے فرمان کے مطابق تمام ادیانِ باطلہ پر اتمام حجت کر کے اسلام کو دنیا کے کونوں تک پہنچاوے تواس صورت میں کیا اس بات میں کوئی شک رہ جاتا ہے کہ قادیاں میں اللہ تعالیٰ نے پھر محمدؐ کو اتارا تاکہ اپنے وعدہ کو پورا کرے جو اس نے آخرین منھم لم یلحقوا بھم میں فرمایا تھا۔‘‘ (کلمۃالفصل صفحہ104‘105) محترم قارئین ! بعض لوگ قادیانیوں کے کلمہ پڑھنے سے بھی دھوکا میں آجاتے ہیں کہ دیکھیں جی یہ بھی تو کلمہ پڑھتے ہیں۔ لہٰذا یہ بھی مسلمان ہی ہیں۔ حالانکہ قادیانی گروہ کلمہ میں جب ’’محمدرسول ﷲ ‘‘ کے الفاظ ادا کرتا ہے تو ان کے نزدیک اس سے مراد صرف نبی آخر الزمان علیہ السلام ہی نہیں ہوتا بلکہ مرزا غلام احمد قادیانی بھی ہوتا ہے، جیسا کہ ہم مندرجہ بالا تحریروں میں مرزا قادیانی کے دعویٰ سے ثابت کر آئے ہیں۔ آئیے! مذید قادیانی کلمہ کی حقیقت جاننے کے لیے مرزا قادیانی کے بیٹے مرزا بشیر احمد کی درج ذیل تحریر کو بھی ملاحظہ فرمائیں : ’’ہم کو نئے کلمے کی ضرورت پیش نہیں آتی کیونکہ مسیح موعود نبی کریم سے کوئی الگ چیز نہیں ہے جیسا کہ وہ خود فرماتا ہے۔ صار وجودی وجودہ نیز من فرق بینی و بین المصطفی فما عرفنی وماریٰ اور یہ اس لیے ہے کہ حق تعالیٰ کا وعدہ تھا کہ وہ ایک دفعہ اور خاتم النبین کو دنیا میں مبعوث کرے گا جیسا کہ آیت آخرین منھم سے ظاہر ہے۔ پس مسیح موعود خود محمدرسول ﷲ ہے جو اشاعت اسلام کے لیے دوبارہ دنیا میں تشریف لائے۔ اس لیے ہم کوکسی نئے کلمہ کی ضرورت نہیں۔ ہاں اگر محمدرسول ﷲ کی جگہ کوئی اور آتا تو ضرور ت پیش آتی۔ ‘‘ (کلمۃ الفصل صفحہ158از مرزا بشیر احمد ابن مرزا قادیانی ) مرزا غلام قادیانی ایک اور مقام پر لکھتا ہے کہ ’’ اور جو شخص مجھ میں اور مصطفی میں تفریق کرتا ہے اس نے مجھے نہیں دیکھا اور نہ پہچانا ہے۔‘‘ (خطبہ الہامیہ صفحہ 171 مندرجہ قادیانی خزائن جلد 16 صفحہ 259) محترم قارئین ! قادیانیوں کے اخبار الفضل 26 فروری 1924 کے شمارے میں میثاق النبیین کے عنوان سے شائع ہونے والے ایک مضمون میں قصیدہ لکھا گیا جس کا مفہوم یہ بنتا ہے کہ نبی آخرالزماں جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سمیت تمام انبیاء کرام سے یہ عہد لیا گیا ہے کہ اگر ان کی زندگی میں مرزا غلام احمد کادیانی بطور مسیح موعود آجائے تو ان سب کو بھی مرزا غلام احمد کادیانی پر ایمان لانا ہو گا ۔ یہ اتنا بڑا کفر ہے کہ جس کی مثال ملنا محال ہے حالانکہ وہ عہد نبی کریم علیہ السلام کے بارے میں تمام انبیاء کرام سے لیا گیا ہے اور اسی عہد کی پاسداری کا عملی مظاہرہ سیدنا عیسی علیہ السلام کے نزول سے ہو گا لیکن امت مرزائیہ نے ان قرآنی آیات اور میثاق النبیین کا مصداق مرزا غلام احمد کادیانی کو قرار دیا ہے آئیے اب اس قصیدے کے اشعار بھی ملاحظہ کریں۔
لیا تھا جو میثاق سب انبیاء سے وہی عہد لیا حق نے مصطفےؐ سے وہ نوح و خلیل و کلیم و مسیحا سبھی سے یہ پیمان محکم لیا تھا مبارک وہ امت کا موعود آیا وہ میثاق ملت کا مقصود آیا کریں اہل اسلام اب عہد پورا بنے آج ہر ایک عبدًا شکورا
محترم قارئین ! قاضی ظہورالدین اکمل نامی شخص نہ صرف ایک شاعر تھا بلکہ مرزا غلام احمد کادیانی کا دست راست بھی جو مرزا غلام احمد کادیانی کی شان میں مدح سرائی بھی کرتا رہا اس نے ایک نظم لکھی جس کے چند اشعار یہ تھے
محمدؐ اتر آئے ہیں ہم میں اور آگے سے بڑھ کر ہیں اپنی شان میں محمدؐ دیکھنے ہوں جس نے اکمل غلام احمد کو دیکھے کادیاں میں
ان کفریہ اشعار پر مبنی یہ نظم مرزا غلام احمد قادیانی کی زندگی میں اس کے سامنے پڑھی گئی جس پر سرزنش کرنے کی بجائے مرزا قادیانی نے جزاک اللہ کہا جب اسمبلی میں مرزا ناصر کے سامنے اس بات کا تذکرہ کیا گیا تو اس نے سرے سے ہی یہ نظم مرزا غلام احمد قادیانی کے سامنے پڑھے جانے سے انکار کر دیا حالانکہ یہ نظم 25 اکتوبر 1906 کے قادیانی اخبار البدر میں بھی شائع ہوئی اور 22 اگست 1944 کے قادیانی اخبار الفضل میں قاضی اکمل کا بیان موجود ہے کہ یہ نظم مرزا غلام احمد قادیانی کے سامنے پڑھی گئی اور اس نے سن کر جزاک اللہ کہا قارئین کرام ! اسی طرح مرزا قادیانی کے ساتھیوں کو نبی صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم کے صحابہ کا درجہ بھی دیتے ہیں اور قادیانیوں کے پہلے خلیفہ حکیم نور دین کو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور بشیرالدین محمود کو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اور مرزا قادیانی کی بیوی نصرت بیگم کو سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا سے تشبیہ دیتے ہیں آئیے اب قادیانی لٹریچر سے ہی حوالہ جات ملاحظہ فرمائیں
حکیم نوردین کو مرزا غلام احمد قادیانی خود صدیق قرار دیتے ہوئے اپنی کتاب حمامة البشری میں لکھتا ہے کہ "فاشکراللہ علی ما اعطانی کمثل ھذالصدیق الصدوق ۔ الفاضل ، الجلیل الباقر ، دقیق النظر ، عمیق الفقر المجاہد للہ
یعنی میں اللہ کا شکر کرتا ہوں کہ اس نے مجھے ایسا اعلی درجہ کا صدیق دیا جو راست باز اور جلیل القدر فاضل ہے اور باریک بین اور نکتہ رس اور اللہ کے لیے مجاہدہ کرنے والا ہے۔" (حمامة البشری مترجم صفحہ 30,31) اسی طرح قادیانیوں کے آفیشل اخبار الفضل 14 مارچ 1946 کے شمارے میں عبدالحمید آصف قادیانی کا ایک مضمون شائع ہوا جس میں وہ لکھتا ہے کہ "مبارکہ بیگم نے ایک خواب دیکھا کہ حضرت مولوی نور دین صاحب ایک کتاب لیے بیٹھے ہیں ہیں اور کہتے ہیں کہ دیکھو اس کتاب میں میرے متعلق حضرت صاحب کے الہامات ہیں اور میں ابوبکر ہوں ۔" مزید آگے چل کر مضمون نگار لکھتا ہے کہ "کتنی شاندار صداقت ہے کہ حضرت مسیح موعود کا آنا رسول کریم کا آنا ہے اور آپ کے بعد خلیفہ اول یعنی حضرت مولوی نور دین کا وجود نبی اکرم صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم کے بعد ابوبکر صدیقؓ کا وجود ہے حضرت مولوی صاحب کی وفات 13 مارچ 1914کو ہوئی اس وقت جماعت ایک یتیم کی طرح رہ گئی مگر وہ خداتعالی جس نے یہ وعدہ کیا تھا کہ مومنین کی جماعت میں سے خلفاء چنتا رہے گا اس نے اپنے فضل سے اپنے وعدہ کو پورا کر کے دکھا دیا حضرت مسیح موعود (مرزا قادیانی) فوت ہوئے تو اس نے ہمیں صدیق عطا فرمایا اور جب صدیق فوت ہوا تو اپنے فضل سے ہمیں عمر عطا فرمایا ۔" (الفضل 14 مارچ 1946)
قارئین کرام اندازہ انداذہ کیجیے کن بدکردار لوگوں کو معاذاللہ استغفراللہ ابوبکر و عمر رضوان اللہ علیہم اجمعین جیسی مقدس اور پاکباز ہستیوں سے تشبیح دی جا رہی ہے تشبیح ہی نہیں بلکہ ابوبکر و عمر قرار دیا جا رہا ہے ۔ ابوبکر و عمر رضوان اللہ علیہم اجمعین کا کچھ تعارف تو پہلے کروا ہی چکا ہوں آئیے ذرا عمر رضی اللہ عنہ کی غیرت و حمیت کا بھی تعارف کرواتا چلوں کہ وہ عمر رضی اللہ عنہ جن کی خواہش پر پردے کا حکم نازل ہوا ۔ صحیح البخاری میں ہے کہ
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ ، قَالَ : حَدَّثَنَا اللَّيْثُ ، قَالَ : حَدَّثَنِي عُقَيْلٌ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ عُرْوَةَ ، عَنْ عَائِشَةَ ، أَنَّ أَزْوَاجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كُنَّ يَخْرُجْنَ بِاللَّيْلِ إِذَا تَبَرَّزْنَ إِلَى الْمَنَاصِعِ وَهُوَ صَعِيدٌ أَفْيَحُ ، فَكَانَ عُمَرُ يَقُولُ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : احْجُبْ نِسَاءَكَ ، فَلَمْ يَكُنْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَفْعَلُ ، فَخَرَجَتْ سَوْدَةُ بِنْتُ زَمْعَةَ زَوْجُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْلَةً مِنَ اللَّيَالِي عِشَاءً ، وَكَانَتِ امْرَأَةً طَوِيلَةً ، فَنَادَاهَا عُمَرُ : أَلَا قَدْ عَرَفْنَاكِ يَا سَوْدَةُ حِرْصًا عَلَى أَنْ يَنْزِلَ الْحِجَابُ ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ آيَةَ الْحِجَابِ .
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں رات میں مناصع کی طرف قضاء حاجت کے لیے جاتیں اور مناصع ایک کھلا میدان ہے۔ تو عمر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کرتے تھے کہ اپنی بیویوں کو پردہ کرائیے۔ مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر عمل نہیں کیا۔ ایک روز رات کو عشاء کے وقت سودہ بنت زمعہ رضی اللہ عنہا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اہلیہ جو دراز قد عورت تھیں، ( باہر ) گئیں۔ عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں آواز دی ( اور کہا ) ہم نے تمہیں پہچان لیا اور ان کی خواہش یہ تھی کہ پردہ ( کا حکم ) نازل ہو جائے۔ چنانچہ ( اس کے بعد ) اللہ نے پردہ ( کا حکم ) نازل فرما دیا۔
اسی طرح صحیح مسلم میں روایت ہے کہ
حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ شُعَيْبِ بْنِ اللَّيْثِ حَدَّثَنِي أَبِي عَنْ جَدِّي حَدَّثَنِي عُقَيْلُ بْنُ خَالِدٍ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ أَزْوَاجَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كُنَّ يَخْرُجْنَ بِاللَّيْلِ إِذَا تَبَرَّزْنَ إِلَى الْمَنَاصِعِ وَهُوَ صَعِيدٌ أَفْيَحُ وَكَانَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ يَقُولُ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ احْجُبْ نِسَاءَكَ فَلَمْ يَكُنْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَفْعَلُ فَخَرَجَتْ سَوْدَةُ بِنْتُ زَمْعَةَ زَوْجُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْلَةً مِنْ اللَّيَالِي عِشَاءً وَكَانَتْ امْرَأَةً طَوِيلَةً فَنَادَاهَا عُمَرُ أَلَا قَدْ عَرَفْنَاكِ يَا سَوْدَةُ حِرْصًا عَلَى أَنْ يُنْزَلَ الْحِجَابُ قَالَتْ عَائِشَةُ فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ الْحِجَابَ
عقیل بن خالد نے ابن شہاب سے ، انھوں نے عروہ بن زبیر سے ، انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج جب رات کو قضائے حاجت کے لئے باہر نکلتیں تو المناصع کی طرف جاتی تھیں ، وہ دور ایک کھلی ، بڑی جگہ ہے ۔ اور حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ عرض کرتے رہتے تھے کہ آپ اپنی ازواج کو پردہ کرائیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ( کسی حکمت کی بنا پر ) ایسا نہیں کرتے تھے ، پھر ایک رات کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اہلیہ حضرت سودہ بنت زمعہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا عشاء کے وقت ( قضائے حاجت کے لئے ) باہرنکلیں ، وہ دراز قدخاتون تھیں ، تو عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس حرص میں کہ حجاب نازل ہوجائے ، پکار کر ان سے کہا : سودہ! ہم نے آپ کو پہچان لیا ہے ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کہا : اس پر اللہ تعالیٰ نے حجاب نازل فرمادیا ۔
قادیانیوں کا دوسرا خلیفہ مرزا بشیرالدین محمود ابن مرزا قادیانی جسے قادیانیوں عمرؓ قرار دینے کی ناپاک جسارت کی ہے اس کی بدکرداری کے چرچے تو زبان زدعام تھے لوگوں کی الزام تراشیاں پیش کرنے کی بجائے بشیرالدین محمود کی اپنی زبان سے اس کی بدکرداری کا اعتراف پیش کرتے ہیں چنانچہ وہ اس نے اپنے ایک خطبے میں خود بتایا کہ
"جب میں ولایت گیا تو مجھے خصوصیت سے خیال تھا کہ یورپین سوسائٹی کا عیب والا حصہ بھی دیکھوں مگر قیام انگلستان کے دوران میں مجھے اس کا موقع نہ ملا واپسی پر جب ہم فرانس آئے ، تو میں نے چوہدری ظفر اللہ خان صاحب سے جو میرے ساتھ تھے کہا کہ مجھے کوئی ایسی جگہ دکھائیں جہاں یورپین سوسائٹی عریانی سے نظر آ سکے (اور اسلام کی میں خدمت کر سکوں۔ناقل)(لیکن بدقسمتی سے )وہ بھی فرانس سے واقف تو نہ تھے مگر مجھے ایک اوپیرا میں لے گئے ،(واقف ہوتے تھے اس سے بھی عریاں جگہ لے کر جاتے ۔شاید جناب ہیرا منڈی جانا چاہتے تھے )جس کا نام مجھے یاد نہیں رہا اور پیرا سینما کو کہتے ہیں (لو جی کر لو گل باپ تھیٹر میں اور بیٹا سینما میں ظاہر ہے جو باپ دیکھنے گیا تھا بیٹا بھی تو وہی دیکھنے جائے گا ناں)چودھری صاحب نے بتایا کہ یہ اعلیٰ سو سائٹی کی جگہ ہے جسے دیکھ کر آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ ان لوگوں کی کیا حالت ہے ،میری نظر چونکہ کمزور ہے ۔اسلئے دور کی چیز اچھی طرح نہیں دیکھ سکتا (لیکن پاس جا کر دیکھ سکتا ہوں گویا پاس جانا چاہتے ہیں)تھوڑی دیر کے بعد میں نے (کافی محنت کے بعد) جو دیکھا تو ایسا معلوم ہوا کہ سینکڑوں عورتیں بیٹھی ہیں میں نے چودھری صاحب سے کہا کیا یہ ننگی ہیں اُنہوں نے بتایا کہ یہ ننگی نہیں بلکہ کپڑے پہنے ہوئے ہیں مگر باوجود اس کے کہ وہ ننگی معلوم ہوتی ہیں (شکر ہے ابھی نظر کمزور ملی ہے )تو یہ بھی ایک لباس ہے اسی طرح ان لوگوں کے شام کی دعوتوں کے گاؤن ہوتے ہیں نام تو اس کا بھی لباس ہے مگر اس میں جسم کا ہر حصہ بالکل ننگا نظر آتا ہے ۔ (خطبات محمود ج 1ص226،اخبار الفضل قادیان 24جنوری 1934)
عزیز مسلمان ساتھیو! قادیانی گروہ مرزا غلام احمد قادیانی کی بیوی نصرت بیگم کو ام المومنین کہتا ہے چنانچہ مرزاغلام احمد قادیانی کے ملفوظات پرمشتمل کتاب میں مرزا قادیانی کا ملفوظ کچھ اس طرح درج ہے کہ : ’’ام المومنین کا لفظ جومسیح موعود کی بیوی کی نسبت استعمال کیاجاتا ہے اس پر بعض لوگ اعتراض کرتے ہیں حضرت اقدس علیہ السلام نے سن کر فرمایا: نبیوں کی بیویاں اگر امہات المومنین نہیں ہوتی ہیں تو کیا ہوتی ہیں؟ خداتعالیٰ کی سنت اور قانونِ قدرت کے اس تعامل سے بھی پتہ لگتاہے کہ کبھی کسی نبی کی بیوی سے کسی نے شادی نہیں کی ہم کہتے ہیں کہ ان لوگوں سے جو اعتراض کرتے ہیں کہ ام المومنین کیوں کہتے ہو؟ پوچھنا چاہیے کہ تم بتاؤ جو مسیح موعود تمہارے ذہن میں اورجسے تم سمجھتے ہوکہ وہ آ کر نکاح بھی کرے گا کیا اس کی بیوی کو ام المومنین کہو گے کہ نہیں؟‘‘ (ملفوظات جلداوّل صفحہ555 ایڈیشن 1988)
محترم قارئین! مرزا غلام احمد قادیانی اپنی بیوی نصرت بیگم کو سیدہ خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا سے تشبیہ دینے کی ناپاک جسارت کرتے ہوئے رقمطراز ہے کہ ’’اشکر نعمتی رئیت خدیجتی براہین احمدیہ صفحہ ۵۵۸ ترجمہ :۔ میرا شکرکر کہ تو نے میری خدیجہ کوپایا۔ یہ ایک بشارت کئی سال پہلے اس نکاح کی طرف تھی۔ جو سادات کے گھر میں دہلی میں ہوا جس سے بفضلہ تعالیٰ چار لڑکے پیدا ہوئے۔‘‘ (نزول المسیح صفحہ 146مندرجہ روحانی خزائن جلد 18صفحہ 524 از مرزا غلام قادیانی)
محترم قارئین ! اسی طرح قادیانیوں کے نزدیک مسجد اقصی سے مراد قادیاں میں موجود ان کی عبادت گاہ ہے ۔ اور قادیاں کا جلسہ ان کا ظلی حج ہے اور اس جلسے میں شریک ہونا نفلی حج سے بہتر ہے ۔ یہ ساری باتیں میں اپنی طرف سے نہیں کہہ رہا بلکہ آپ کے سامنے قادیانی لٹریچر سے حوالہ جات پیش کرتا ہوں چنانچہ مرزا قادیانی اپنی کتاب خطبہ الہامیہ میں لکھتا ہے کہ
"مسجد اقصیٰ سے مراد مسیح موعود کی مسجد ہے جو قادیان میں واقع ہے جس کی نسبت براہین احمدیہ میں خدا کا کلام یہ ہے۔ مبارک، ومبارک کل امر مبارک یجمل فیہ اور یہ مبارک کا لفظ جو بصیغہ مفعول اور فاعل واقع ہوا ہے، قرآن شریف کی آیت بارکناحولہ کے مطابق ہے۔ پس کچھ شک نہیں جو قرآن شریف میں قادیان کا ذکر ہے جیسا کہﷲ تعالیٰ فرماتا ہے: (سُبْحَانَ الَّذِیْ اَسْرٰی بِعَبْدِہٖ لَیْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَی الْمَسْجِدِ الْاَقْصَی الَّذِیْ بَارَکْنَا حَوْلَہ‘) (خطبہ الہامیہ حاشیہ صفحہ21مندرجہ روحانی خزائن جلد 16صفحہ 21)
پھر مزید لکھا کہ
’’ والمسجد الاقصی المسجد الذی بناہ المسیح الموعود فی القادیان۔‘‘ یعنی مسجد اقصیٰ سے مراد وہ مسجد ہے جسے قادیان میں مسیح موعود نے بنایا۔‘‘ (خطبہ الہامیہ حاشیہ صفحہ 25مندرجہ روحانی خزائن جلد 16صفحہ 25) مرزا قادیانی مزید وضاحت کے ساتھ لکھتا ہے کہ ٍ’’معراج میں جو آنحضرت صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک سیر فرما ہوئے وہ مسجد اقصیٰ وہی ہے، جو قادیان میں بجانب مشرق واقع ہے۔ جس کانام خدا کے کلام نے مبارک رکھا ہے‘‘ (خطبہ الہامیہ صفحہ 22مندرجہ روحانی خزائن جلد 16صفحہ 22) ﷲ تعالیٰ نے سورہ آل عمران کی آیت نمبر97 میں بیت ﷲ کے بارے میں ارشاد فرمایا: وَمَنْ دَخَلَہُ کَانَ اٰمِنًاجو اس میں داخل ہو گیا، اس کے لیے امن ہے۔ مرزا قادیانی اس آیت کو قادیان کی مسجد پہ چسپاں کرتے ہوئے کہتا ہے کہ ’’ اس مسجد مبارک کے بار ے میں پانچ مرتبہ الہام ہوا منجملہ ان کے ایک عظیم الشّان الہام ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فِیْہِ بَرَکَاتٌ وَمَنْ دَخَلَہُ کَانَ اٰمِنًا۔‘‘ (تذکرہ صفحہ83، طبع چہارم) ایک اور مقام پر مرزا قادیانی لکھتا ہے کہ
’’لوگ معمولی اور نفلی طور پر حج کرنے کو بھی جاتے ہیں مگر اس جگہ (قادیان میں آنا) نفلی حج سے ثواب زیادہ ہے اور غافل رہنے میں نقصان اور خطرہ کیونکہ سلسلہ آسمانی ہے اور حکم ربانی۔‘‘ (آئینہ کمالات اسلام صفحہ 352 مندرجہ روحانی خزائن جلد 5صفحہ 352) محترم قارئین ! اس ضمن میں تو حوالہ جات اور بھی کافی سارے موجود ہیں لیکن آپ کے سامنے مرزا قادیانی کی شعروشاعری پر مبنی کتاب درثمین سے ایک حوالہ پیش کر کے بات آگے بڑھاتا ہوں چنانچہ مرزا قادیانی کا شعر ہے کہ
خدا کا ہم پہ بس لطف وکرم ہے وہ نعمت کون سی باقی جو کم ہے زمین قادیاں اب محترم ہے ہجوم خلق سے ارض حرم ہے (درّثمین اردو صفحہ56 ازمرزا قادیانی) (جاری ہے)
|