اسلام سے متعلق بجا طور پر کہا جاتا ہے کہ یہ دین فطرت ہے
۔ ایسے میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ فطرت سے کیا مراد ہے؟ اس دنیا میں
انسان کو اپنے خالق کی ربوبیت کے شعوراورخیروشرکی معرفتعطا کرکے بھیجا گیا
ہے ۔یہ شعور و معرفت اس کی فطرت اور دیگر جسمانی لوازمات جبلت ہیں ۔ ارشادِ
ربانی ٰ ہے:’’پس تم اپنارخ یک سوہوکر دین حنیف کی طرف کرو ، اس (دین)فطرت
کی پیروی کروجس پراللہ نے لوگوں کوپیداکیا۔‘‘ انسانوں کی یادداشت سے بغرضِ
آزمائش رب کے تعارف اور عہد و پیمان کوتو محو کر دیا گیا لیکن آفاق و
انفس میں بے شمار نشانیوں کوپھیلاکر ہدایت کی کی سہولت فراہم کردی گئی۔ یہی
وجہ ہے کہ اگلی آیت میں اللہ کی طرف متوجہ ہوکراس کا تقویٰ اختیار کرنے
اورنمازکا اہتمام کرنے کی دعوت دی گئی نیز شرک سے بچنے کی تلقین کی گئی ہے۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کی دعوت دراصل انسانوں کو ان کی اپنی فطرت سے
رجوع کرنے کا پیغام ہے۔ اس مقصد کے حصول کی خاطراِ دھر اُدھر کی ہانکنا ،
حالات حاضرہ پر طول طویل تبصرہ کرنا اور مختلف صحیفوں کی مدد لینا ضروری
نہیں ہے۔
اللہ تبارک و تعالیٰ نے فطرت کی اس رہنمائی کے ساتھ نورِ نبوت کا اہتمام
فرما کراپنے احسانات کی تکمیل فرمادی ۔ فرمانِ رسول اللہ ﷺہے: ہربچہ فطرت
پرپیدا ہوتا ہے پھر اس کے والدین اسے یہودی ، نصرانی اورمجوسی بنادیتے ہیں
‘‘ ۔ یعنی ماحول کے اثر سے انسان کے اندرموجود اپنے خالق و مالک کے شعور
اور خیروشرکی اساس میں تحریفوملاوٹ ہوجاتی ہے ۔داعیانِ کو اپنا فرضِ منصبی
ادا کرتے وقت غیر ضروری مسائل میں الجھنے کے بجائے قرآنی اسلوب اختیار
کرنا چاہیے۔ اس بابت سورۃ الحدید کی ابتدائی آیات دیکھیں :’’اللہ کی تسبیح
کی ہے ہر اُس چیز نے جو زمین اور آسمانوں میں ہے، اور وہی زبردست دانا
ہے‘‘۔ اللہ کی خلاقی کے بعد اس قدرت یوں بیان ہوتی ہے کہ:’’ زمین اور
آسمانوں کی سلطنت کا مالک وہی ہے، زندگی بخشتا ہے اور موت دیتا ہے، اور ہر
چیز پر قدرت رکھتا ہے‘‘۔انسانی زندگی اور موت اللہ کے مکمل اختیار کو بیان
کردینے کے بعد فرمایا کہ :’’ وہی اول بھی ہے اور آخر بھی، ظاہر بھی ہے اور
مخفی بھی، اور وہ ہر چیز کا علم رکھتا ہے‘‘۔ رب کائنات کی اس معرفت کے بغیر
انسان عبادت و اطاعت نہیں کرسکتا ۔
تخلیق کائنات کے بعد انتظام و انصرام کی بابت فرمایا:’’وہی ہے جس نے
آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا اور پھر عرش پر جلوہ فرما ہوا۔
اُس کے علم میں ہے جو کچھ زمین میں جاتا ہے اور جو کچھ اس سے نکلتا ہے اور
جو کچھ آسمان سے اترتا ہے اور جو کچھ اُس میں چڑھتا ہے وہ تمہارے ساتھ ہے
جہاں بھی تم ہو، جو کام بھی کرتے ہو اسے وہ دیکھ رہا ہے ۔وہی زمین اور
آسمانوں کی بادشاہی کا مالک ہے اور تمام معاملات فیصلے کے لیے اُسی کی طرف
رجوع کیے جاتے ہیں وہی رات کو دن میں اور دن کو رات میں داخل کرتا ہے، اور
دلوں کے چھپے ہوئے راز تک جانتا ہے‘‘۔ یعنی کارخانۂ ہستی کا وہ تنہا
کارساز انسانی دل میں پوشیدہ عقیدہ اور اعمال کی نیت تک سے باخبر ہے۔
انسانی اعمال بغرضِ سزا وجزا راسی کی جانب رجوع کیے جائیں گے۔
اس تناظر میں قرآن حکیم اسلام کی دعوت پیش کرتا ہے :’’ ایمان لاؤ اللہ اور
اس کے رسول پر اور خرچ کرو اُن چیزوں میں سے جن پر اس نے تم کو خلیفہ بنایا
ہے جو لوگ تم میں سے ایمان لائیں گے اور مال خرچ کریں گے ان کے لیے بڑا اجر
ہے‘‘۔ یہ فطری اور منطقی ترتیب بیک وقت انسان کو دعوت فکر و عمل دیتی ہے۔
یہاں ایمان کے شانہ بشانہ انفاق کی ترغیب دی گئی ہے۔ اس کے بعدقلب انسانی
کے دروازے پر دستک دے کر سوال کیا جاتا ہے:’’ تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ تم
اللہ پر ایمان نہیں لاتے حالانکہ رسول تمہیں اپنے رب پر ایمان لانے کی دعوت
دے رہا ہے اور وہ تم سے عہد لے چکا ہے اگر تم واقعی ماننے والے ہو وہ اللہ
ہی تو ہے جو اپنے بندے پر صاف صاف آیتیں نازل کر رہا ہے تاکہ تمہیں
تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لے آئے، اور حقیقت یہ ہے کہ اللہ تم پر
نہایت شفیق اور مہربان ہے‘‘۔کفر و شرک کی تاریکی کو مٹاکر اسلام کی روشنی
پھیلانے کا یہ قرآنی طریقۂ کار ہے۔
|