میرے آقا ﷺ کا جانثار ساتھی ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ

حضرت ابو بکر صدیق عبد اللہ بن ابو قحافہ تیمی قریشی رضی اللہ عنہ پہلے خلیفہ راشد، عشرہ مبشرہ میں شامل، پیغمبر اسلام ﷺ کے وزیر، صحابی و خسر اور ہجرت مدینہ کے وقت رفیق سفر تھے۔ اہل سنت و الجماعت کے نزدیک حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ، انبیا اور رسولوں کے بعد انسانوں میں سب سے بہتر، صحابہ میں ایمان و زہد کے لحاظ سے سب سے برتر اور ام المومنین عائشہ بنت ابی بکر رضی اللہ عنہاکے بعد پیغمبر اسلام ﷺ کے محبوب تر تھے۔ عموماً ان کی کنیت ''ابو بکر'' کے ساتھ صدیق کا لقب لگایا جاتا جسے ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہکی تصدیق و تائید کی بنا پر پیغمبر اسلام ﷺ نے دیا تھا۔
حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ عام الفیل کے دو برس اور چھ ماہ بعد سنہ 573ء میں مکہ میں پیدا ہوئے۔ دور جاہلیت میں ان کا شمار قریش کے متمول افراد میں ہوتا تھا۔ جب پیغمبر اسلام ﷺ نے ان کے سامنے اسلام پیش کیا تو انہوں نے بغیر کسی پس و پیش کے اسلام قبول کر لیا اور یوں وہ آزاد بالغ مردوں میں سب سے پہلے اسلام قبول کرنے والے کہلائے۔ قبول اسلام کے بعد تیرہ برس مکہ میں گزارے جو سخت مصیبتوں اور تکلیفوں کا دور تھا۔ بعد ازاں پیغمبر اسلام ﷺکی رفاقت میں مکہ سے یثرب ہجرت کی، نیز غزوہ بدر اور دیگر تمام غزوات میں پیغمبر اسلام ﷺکے ہم رکاب رہے۔ جب پیغمبر محمد ﷺ مرض الوفات میں ہوئے تو ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ وہ مسجد نبوی میں امامت کریں۔ پیر 12 ربیع الاول سنہ 11ھ کو پیغمبر اسلام ﷺنے وفات پائی اور اسکے بعد ابو بکر صدیق ؓ کے ہاتھوں پر مسلمانوں نے بیعت خلافت کی۔

حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا نام عبداللہ بن عثمان بن عامر بن عمرو بن کعب بن تیم بن مرہ بن کعب ہے۔ مرہ بن کعب تک آپ کے سلسلہ نسب میں کل چھ واسطے ہیں۔ مرہ بن کعب پر جاکر آپ رضی اللہ عنہ کا سلسلہ حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نسب سے جاملتا ہے۔ آپ رضی اللہ عنہ کی کنیت ابوبکر ہے۔آپ رضی اللہ عنہ کے والد محترم کا نام عثمان بن عامر بن عمرو بن کعب بن سعد بن تیم بن مرہ بن کعب بن لوی بن غالب بن فہر قرشی تیمی ہے۔ کنیت ابوقحافہ ہے۔ آپ فتح مکہ کے روز اسلام لائے اور آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیعت کی۔ حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد بھی زندہ رہے اور ان کے وارث ہوئے۔ آپ نے خلافت فاروقی میں وفات پائی۔حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی والدہ محترمہ کا نام سلمی بنت صخر بن عامر بن کعب بن سعد بن تیم بن مرہ ہے۔ کنیت ”ام الخیر“ رضی اللہ عنہا ہے۔ آپ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے والد کے چچا کی بیٹی ہیں۔ ابتدائے اسلام میں ہی آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ پر بیعت کرکے مشرف بہ اسلام ہوگئیں تھیں۔ مدینہ منورہ میں جمادی الثانی 13 ہجری میں وفات پائی۔

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی ازواج (بیویوں) کی تعداد چار ہے۔ آپ نے دو نکاح مکہ مکرمہ میں کئے اور دو مدینہ منورہ میں۔ان ازواج سے آپ کے تین بیٹے اور تین بیٹیاں ہوئیں۔ جن کی تفصیل درج ذیل ہے: حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا پہلا نکاح قریش کے مشہور شخص عبدالعزی کی بیٹی ام قتیلہ سے ہوا۔ اس سے آپ رضی اللہ عنہ کے ایک بڑے بیٹے حضرت سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ اور ایک بیٹی حضرت سیدہ اسماء رضی اللہ عنہاپیدا ہوئیں۔آپ رضی اللہ عنہ کا دوسرا نکاح ام رومان (زینب) بنت عامر بن عویمر سے ہوا۔ ان سے ایک بیٹے حضرت سیدنا عبدالرحمن رضی اللہ عنہ اور ایک بیٹی ام المومنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا پیدا ہوئیں۔سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے تیسرا نکاح حبیبہ بنت خارجہ بن زید سے کیا۔ ان سے آپ رضی اللہ عنہ کی سب سے چھوٹی بیٹی حضرت سیدہ ام کلثوم رضی اللہ عنہ پیدا ہوئیں۔آپ رضی اللہ عنہ نے چوتھا نکاح سیدہ اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا سے کیا۔ یہ حضرت سیدنا جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی زوجہ تھیں، جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی جنگ موتہ کے دوران شہادت ہوگئی تھی۔ حضرت سیدنا جعفر رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے سیدہ اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا کیساتھسے نکاح کرلیا۔ حجۃ الوداع کے موقع پر ان سے آپ رضی اللہ عنہ کے بیٹے محمد بن ابی بکر پیدا ہوئے۔ جب حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے دنیا سے پردہ فرمایا تو حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے آپ سے نکاح کرلیا۔ اس طرح آپ کے بیٹے محمد بن ابی بکر کی پرورش حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے فرمائی۔

حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے گھرانے کو ایک ایسا شرف حاصل ہے جو اس گھرانے کے علاوہ کسی اور مسلمان گھرانے کو حاصل نہیں ہوا۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ خود بھی صحابی، ان کے والد حضرت ابو قحافہ رضی اللہ عنہ بھی صحابی، آپ کے تینوں بیٹے (حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ، حضرت عبدالرحمن رضی اللہ عنہ اور حضرت محمد بن ابی بکر رضی اللہ عنہ) بھی صحابی، آپ رضی اللہ عنہ کے پوتے بھی صحابی، آپکی بیٹیاں (حضرت سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا، حضرت سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا اور حضرت سیدہ ام کلثوم رضی اللہ عنہا) بھی صحابیات اور آپ کے نواسے بھی صحابی ہوئے۔حضرت سیدنا موسیٰ بن عقبہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم صرف چار ایسے افراد کو جانتے ہیں جو خود بھی مشرف بہ اسلام ہوئے اور شرف صحابیت پایا اور ان کے بیٹوں نے بھی اسلام قبول کرکے شرف صحابیت حاصل کیا۔ ان چاروں کے نام یہ ہیں: ابوقحافہ عثمان بن عمر رضی اللہ عنہ۔ ابوبکر عبداللہ بن عثمان رضی اللہ عنہ۔ عبدالرحمن بن ابی بکر رضی اللہ عنہ۔ محمد بن عبدالرحمن رضی اللہ عنہ

منصب خلافت پر فائز ہونے کے بعد ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے مسجد نبوی صل اللہ علیہ والہ واصحابہ وسلم میں ممبر پر بیعت عامہ لی، بعد ازاں کھڑے ہوکر اک تاریخی خطبہ ارشاد فرمایا، حمد و نعت کے بعد لوگوں سے مخاطب ہو کر کہا:کہ ”میں تمہارا سردار بنایا گیا ہوں“ حالانکہ میں تم سے بہتر نہیں ہوں، پس اگر میں نیک کام کروں تو تمہارا فرض ہے کہ میری مدد کرو اور اگر میں کوئی غلط راہ اختیار کروں تو فرض ہے کہ تم مجھ کو سیدھے راستہ پر قائم کرو، راستی و راست گفتاری امانت ہے اور دروغ گوئی خیانت۔ تم میں جو ضعیف ہے وہ میرے نزدیک قوی ہے، جب تک کہ میں اُس کا حق نہ دلوا دوں، اور تم میں جو قوی ہے وہ میرے نزدیک ضعیف ہے جب تک کہ میں اُس سے حق نہ لے لوں، تم لوگ جہاد کو ترک نہ کرنا، جب کوئی قوم جہاد کو ترک کر دیتی ہے تو وہ ذلیل ہوجاتی ہے، جب تک کہ میں اللہ اور رسول ﷺ کی اطاعت کروں تو تم میری اطاعت کرو، جب میں اللہ اور اُس کے رسول ﷺ کی نافرمانی کروں تو تم میرا ساتھ چھوڑ دو، کیونکہ پھر تم پر میری اطاعت فرض نہیں ہے۔ اُس روز قریبا 33 ہزار صحابہ کرام نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کی۔1,400 سال پہلے آپ رضی اللہ عنہ کا خلافت سنبھالنے کے بعد دیا گیا خطبہ آج بھی اتنا پراثر ہے اور یقینا قیامت تک آنے والے حکمرانوں کے لئے قابل تقلید ہے۔

اسلامی مفتوح علاقوں میں والیوں، عاملوں اور قاضیوں کو مقرر کیا، جا بجا لشکر روانہ کیے، اسلام اور اس کے بعض فرائض سے انکار کرنے والے عرب قبائل سے جنگ کی یہاں تک کہ تمام جزیرہ عرب اسلامی حکومت کا مطیع ہو گیا۔ فتنہ ارتداد فرو ہو جانے کے بعد ابو بکر صدیق ؓنے عراق اور شام کو فتح کرنے کے لیے لشکر روانہ کیا۔ ان کے عہد خلافت میں عراق کا بیشتر حصہ اور شام کا بڑا علاقہ فتح ہو چکا تھا۔ خلیفہ اول سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنے زمانہ خلافت میں عقیدہ ختم نبوت ﷺ کے تحفظ کیلئے جھوٹے مدعیان نبوت کی سرکوبی کی اور اپنے عمل سے ثابت کیا کہ عشق مصطفیٰ ﷺ اور عقیدہ ختم نبوت ایمان کی اساس ہے۔ ذمیوں کو جان ومال کا تحفظ دیا اور انکے حقوق و فرائض کا تعین کیا اور ریاست مدینہ کے اندر تمام شہریوں کو ان کا جائز مقام دیا اور حسن انتظام سے تعلیمات مصطفوی کو مضبوط و مستحکم بنیادوں پر استوار کیا۔ خلیفہ اول سیدنا ابوبکر صدیق کا زمانہ خلافت نبی کریم ﷺ کے اسوہ حسنہ کا عملی پیکر تھا، آپ رضی اللہ عنہ نے اپنی خلافت کے زمانے میں جو بھی اقدامات اٹھائے وہ سب نبی اکرم ﷺ کے فرمودات کے عین مطابق تھے،آج بھی عالم اسلام کے حکمران اور مختلف النظام کے تحت کام کرنے والی حکومتیں سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے حکومتی و انتظامی ماڈل سے سیکھیں۔
محسن کائنات حضرت محمد مصطفی ﷺ کے جانثار ساتھی نے پیر 22 جمادی الاخری سنہ 13ھ کو تریسٹھ برس کی عمر میں وفات پائی اور قیامت تک کیلئے اپنے آقا و مولی اور حبیب ﷺ کے ساتھ آرام فرما ہوگئے، اللہ کی لاکھوں کروڑوں رحمتیں اور برکتیں نازل ہوں آپ ﷺ پر اور آپکی آل پاک ؓ پر اور آپ ﷺ کے اصحاب پاک رضوان اللہ تعالی اجمعین پر۔ آمین ثم آمین

نوٹ: اس تحریر میں کسی بھی قسم کی غلطی بشمول معنی،املاء یا لفظی غلطی پر اللہ کریم کے ہاں معافی کا طلبگار ہوں، اور اگر کسی مسلمان بھائی کو اس تحریر میں کسی بھی قسم کا اعتراض یا غلطی نظر آئے تو براہ کرم معاف کرتے ہوئے اصلاح کی خاطر نشان دہی ضرور فرمادیجئے گا۔ واللہ تعالی اعلم

 

Muhammad Riaz
About the Author: Muhammad Riaz Read More Articles by Muhammad Riaz: 181 Articles with 114291 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.