علی ذیشان کا جہیز کے خلاف کیا جانے والا عمل ‘اچھا نہیں بہت اچھا

یہ تو ایک طے شدہ امر ہے کہ ہم جب بھی معاشرے سے جڑے کسی حساس مسئلے کی نشاندہی کرتے ہیں تو اس پر بات کی جاتی ہے۔ آج ہمارے پاس صرف میڈیا نہیں سوشل میڈیا بھی ہے جو اپنی رائے میں بالکل آزاد ہے ‘ ایسے میں دیگر معمولات زندگی کی مانند‘ جب ایک فیشن شو کے پلیٹ فارم پر ایک حساس معاشرے مسئلے کو انتہائی متاثر کن انداز میںپیش کیا گیا تو اس پر منفی اور مثبت دونوں طرح کی آراءسامنے آئیں۔

ایک انتہائی پرکشش ‘ چمکتے دمکتے‘ خوشیوں سے بھرے ہوئے سحر انگیز ماحول میں جب ایک دلہن آنکھوں میں آنسو لئے‘ جہیز کا سامان لادے ہوئے ریمپ پر آتی ہے تو یقینا یہ دیکھنے والوں کیلئے بھی انتہائی تعجب کی بات ہوگی کیوں کہ عام طور پر رنگا رنگ محافل میں سنجیدہ موضوعات سے احتراز ہی برتا جاتا ہے لیکن یہاں ہوا کچھ یوں کہ انتہائی مایہ ناز ڈریس ڈیزائنر علی ذیشان جواپنی انفرادیت کی وجہ سے عوام الناس میں جانے جاتے ہیں‘ کا نام پکارا گیا تاکہ ان کے جدید ترین عروسی ملبوسات”بعنوان“ نمائش لوگوں کے سامنے پیش کئے جائیں ایسے میں علی ذیشان کی جانب سے ایک کمسن دلہن ریمپ پر آتی ہے جو بھاری عروسی جوڑے ‘میک اپ اور زیورات سے تو لدی پھندی ہے لیکن اس کے چہرے پر دکھ کی داستان رقم ہے‘ وہ اپنے ہمراہ ریمپ پر کچھ سامان کھینچ کر لارہی ہے جبکہ دلہا علامتی گاڑی میں گردن شان سے اکڑا یاہوا دلہا برآمد ہوا جو یقینا لوگوں کی توقعات کے برعکس تھا۔ اس ایکٹ نے و اقعتا اسٹیج پر آگ لگادی اور ایک انتہائی اہم عوامی مسئلے کی اس بھرپور عکاسی کو ساری دنیا میں ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔

چند ہی گھنٹوں کے بعد سوشل میڈیا پرعلی ذیشان کی وہ تصاویر وبائی انداز میں پھیل گئیں جو علی ذیشان کی نئی برائیڈل کلیکشن ”نمائش“ کا حصہ تھی ‘جسے پیش کرنے کا مقصد نوجوان نسل میں جہیز کی صدیوں پرانی روایت کے خلاف آگاہی کی فراہمی کے ذریعے سماجی خدمت ہے ۔ علی ذیشان گزشتہ چند ہفتوں سے جہیز کے خلاف مہم پر کام کررہے تھے۔ یہ علی ذیشان کا پہلا کارنامہ نہیں ہے بلکہ وہ گاہے بگاہے ایسے کام سرانجام دیتے نظر آتے ہیں جیسا کہ وہ 2017 میں کم عمری کی شادیوں کے خلاف’ ’یو این ویمن کیمپین“ کا حصہ بنے تھے اور ان کی ڈیزائنر 2018 کی مہم سوشل میڈیا کے ذریعے معاشرے پر ڈالے جانے والے دباﺅ سے متعلق تھی ۔لاہور میں منعقدہ ہم برائیڈل کیٹیور ویک 2020ءمیں بھی انہوں نے اپنی اس روایت کو برقرار رکھتے ہوئے جہیز کی قبیح اور قدیم رسم کے خلاف بات کی ‘ پاکستان میں اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خواتین (یو این ویمن) نے بھی ان کی حمایت کی ہے۔

افسوسناک امر یہ ہے کہ لوگوں نے ان کی نیک نیتی پر مبنی اس عمل کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ لاکھوں روپے کے عروسی جوڑے بنانے والے ڈیزائنر کا یہ عمل ذاتی تشہیر اور خود کو میڈیا پر ہائی لائیٹ کرنے کا ایک ذریعہ ہے۔ ہم نے سوشل میڈیا پر اس حوالے سے کئی میمز بھی دیکھے جو کم از کم مجھے تو پسند نہیں آئے دیگر کا میں کچھ نہیں کہہ سکتی البتہ یہ ضرور کہنا چاہتی ہوں کہ یہ مت دیکھو کہ کون کہہ رہا ہے بلکہ یہ دیکھو کہ کیا کہہ رہا ہے۔ جو کہا جارہا ہے وہ نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ ہم جس معاشرے کا حصہ ہے اس میں بے شمار بچیاں محض اس لئے اپنے والدین کے در پر بیٹھی رہ جاتی ہیں کہ ان کے والدین کے پاس انہیں جہیز میں دینے کیلئے کچھ نہیں ہوتا۔ بچیاں نوکریاں کرکے اپنا جہیز جمع کرنے پر مجبور ہیں‘ معاشی طور پر مستحکم گھرانوں کو بھی اس حوالے سے بعض اوقات پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑجاتا ہے ۔ والدین اپنی بیٹیوں کی اچھی تربیت کرتے ہیں‘ انہیں تعلیم کے زیور سے آراستہ کرتے ہیں اور یقینا ایک پڑھی لکھی‘ سمجھ دار اور باشعور لڑکی سے زیادہ قیمتی اور کیا چیز ہوسکتی ہے لیکن بدقسمتی سے معاشرہ مذہب سے روگردانی کرتے ہوئے بہو نہیں سامان سے بھرے ٹرک کے منتظر ہوتے ہیں۔

جہیز وہ لعنت ہے جس نے شادی جیسے خوشی کے موقع اور مذہبی فریضے کو بیٹیوں کے والدین کیلئے خوف کا نشان بنادیا ہے۔ مادیت پسند ذہنوں کے مالکان کی جانب سے لڑکی کے گھر والوں پر جہیز کے حوالے سے جو دباﺅ ڈالا جاتا ہے وہ بے شمار مسائل کو جنم دے رہا ہے ۔اس قبیح رسم کی پیروی نہ کرنے پر بچیوں کوطلاقوں‘ ازدواجی عصمت دری‘ جلائے جانے‘ گھریلو زیادتیوں اور خودکشیوں سمیت دیگر مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ مختلف سماجی ادارے اور میڈیا گاہے بگاہے اس حوالے سے نشاندہی کرتے ہیں لیکن نتیجہ ندارد۔اس قدیم روایت کے خلاف منظور کئے گئے تمام قوانین بھی غیر موثر ہیں ایسے میں روشنی کی واحد کرن اس حوالے سے شعوری آگاہی اور بیداری ہی رہ جاتی ہے۔

پاکستان میں اکتوبر2020ءمیں قانونی سازی میں تجویز کیا گیا کہ دولہے کا خاندان مہنگا فرنیچر‘ گاڑیاں‘ زمین‘ جائیداد یا زیورات کا مطالبہ نہیں کر سکے گا۔ جہیز میں اسلامی تعلیمات کے مطابق بنیادی ضروریات کو نظر انداز نہیں کیا جائے گا‘ دلہن کے کچھ کپڑے جہیز میں شامل ہوں گے۔یہ بھی تجویز کیا گیا کہ جہیز کی رقم یا سامان کی قیمت 4 تولہ سونے کی قیمت سے زیادہ نہ ہو ۔وفاقی حکومت کی جانب سے جہیز کی ممانعت ایکٹ میں ترمیم کی تجاویز کابینہ کوبھی ارسال کی گئیں جن کے مطابق جہیز کا مطالبہ جرم ہوگا اور مہنگے تحائف پر پابندی ہوگی۔ دلہا دلہن کے والدین کی جانب سے نکاح نامے کے کالم میں جہیز اور تحائف کی تفصیلات اور قیمت درج ہوں گی اور قیمت بھی۔ ترمیم میں سفارش کی گئی کہ جہیز کے مطالبے اور نمائش پر پابندی لگائی جائے اور ایکٹ کی خلاف ورزی پر لازمی سزا دی جائے ‘تاہم یہ معاملات بھی بس کاغذات تک ہی محدود رہ گئے ۔جب کہ ضرورت اس امر کی تھی کہ ایسے اہم معاشرتی مسئلے کے حل کیلئے جو کچھ سوچا گیا اسے ایمانداری سے عملی جامہ بھی پہنایا جاتا ۔

علی ذیشان نے ”جہیز سے انکار کریں اور عورت کو پیارکے ساتھ قبول کریں‘ ایک پڑھی لکھی عورت کروڑوں روپے سے بہتر ہے“کے پیغام کو انتہائی موثر انداز میں لوگوں تک پہنچایا ہے اور خوشی کی بات یہ ہے کہ انہوں نے جو بات کہنی چاہی وہ لوگوں تک پہنچ گئی ‘خواہ کسی نے اسے برا کہا یا بھلا لیکن بات زیر بحث آگئی اور یہی ان کی جیت ہے ۔ یاد رہے کہ گزشتہ دنوں علی ذیشان تھیٹر اسٹوڈیو کے آفیشل انسٹاگرام پیج پر اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یو این ویمن کے اشتراک سے جہیزکیخلاف ایک پر اثر آگاہی مہم کے تحت چند تصاویر شیئرکی گئیں جنہیں بے حد عوامی پذیرائی حاصل ہوئی ہے۔جہیز یا ڈاﺅری کے خلاف اقوام متحدہ ویمن کی جانب سے ایک مہم چلائی جارہی ہے جس میں لوگوں سے یہ مطالبہ کیا جارہاہے کہ وہ جہیز دینا اور جہیز لینا دونوں بندکریں ۔یو این ویمن پاکستان میں خواتین کو بااختیار بنانے‘ صنفی مساوات کے فروغ اور چائلڈ میرج کے خاتمہ کے حوالے سے انتہائی فعال ہے۔ اقوام متحدہ ویمن کی جانب سے جہیزدیئے جانے کے خلاف جاری مہم کیلئے مخصوص اصطلاح”جہیز خوری“ استعمال کی جارہی ہے ۔معاشرے میں جہیز کی لعنت کے خاتمے اور اس ضمن میں عوامی شعور کی آگاہی کے حوالے سے علی ذیشان نے برائیڈل کیٹیور ویک2020لاہور میں جو عملی قدم اٹھایا اور اس حوالے سے یو اے این ویمن کی کوششوں کی تعریف نہ کرنا یقینا ان کے ساتھ زیادتی ہوگی ۔

Shazia Anwar
About the Author: Shazia Anwar Read More Articles by Shazia Anwar: 201 Articles with 307606 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.