(تحریر: رابعہ اشفاق)
آج نہ ہی اقبال کا یوم پیدائش ہے اور نہ ہی یوم وفات بلکہ آج میرا دل
مسلمانوں کے عظیم ترین شاعر کے متعلق بے قرار ہوا جو جب تک حیات رہے تب تک
مسلمانوں کے متعلق سوچتے رہے۔ صدیوں بعد ایسا کوئی ستارہ چمکتا ہے جسکی
حیات بھی پیغام اور موت بھی پیغام۔ جسکا زوال کسی زمانے میں ممکن نہ ہو اور
ہر آنے والا زمانہ اسکو یاد کر کے فخر محسوس کرے۔ وہ عالمگیر ہوتا ہے۔ اپنی
ملت کے متعلق فکرمند ہوتا ہے۔ اسکا کلام دلوں کو جلا بخشتا ہے۔ وہ نوجوان
قبیلے کی آنکھ کا تارا ہوتا ہے۔ قبیلے کو اس سے امیدیں وابستہ ہوتی ہیں۔
کیا آج کا نوجوان بھی اقبال کے معیار پے پورا اترتا ہے؟
آج کا نوجوان کیا چاہتا ہے؟ آج کا نوجوان کن چیزوں کو اپنی زندگی میں لازم
سمجھتا ہے؟ وہ کن اصولوں پے چلنا پسند کرتا ہے؟ مجھے اپنا موازنہ خود کرنا
ہوگا اقبال کی تعلیمات کی روشنی میں۔ مجھے تحقیق کرنی چاہیئے کہ اقبال اپنی
شاعری میں بار بار ایک نوجوان کو کیوں مخاطب کرتے ہیں؟ جیسے اقبال کہتے ہیں
کہ
کبھی اے نوجواں مسلم تدبر بھی کیا تو نے
وہ کیا گردوں تھا تو جس کا ہے اک ٹوٹا ہوا تارا
تجھے اس قوم نے پالا ہے آغوش محبت میں
کچل ڈالا تھا جس نے پاؤں میں تاج سر دارا
کسی بھی معاشرے کا آئینہ اسکا فرد ہوتا ہے اگر فرد ٹھیک ہے تو معاشرہ ٹھیک
ہے اگر فرد میں خرابی ہے تو معاشرے میں خرابی ہے۔ یہ وہ فکر ہے اقبال کی جس
میں وہ نوجوان کو ایک مثالی فرد اور اس مثالی فرد سے ایک مثالی معاشرے کی
تشکیل کی جانب بلاتے ہیں۔ جیسے اقبال کہتے ہیں کہ
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ
ہر فرد کو اپنی زمہ داری کا احساس ہونا چاہیے اور سب سے بڑھ کر مجھے اپنی
زمہ داری کا احساس ہونا چاہیے۔ بطور نوجوان معاشرے میں میرے قول اور فعل سے
مثبت تبدیلی آ رہی ہے یا منفی؟ میں اپنے معاشرے میں موجود لوگوں کے لیے
آسانی کا باعث بن رہا ہوں یا مشکل کا؟ اقبال قردار کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے
ہیں کہ
حسن قردار سے قرآن مجسم ہو جا
ابلیس بھی تجھے دیکھے تو مسلمان ہو جائے
میں کسی پر تنقیدی تیروں کی برسات کرنے سے پہلے خود کو تنقید کے دائرے میں
کھڑا کروں خود اپنا احتساب کروں خود اپنی غلطیوں کا وکیل بنوں خود ہی قاضی
بنوں خود ہی جلاد بن کر اپنی ''میں'' کو پھانسی دوں۔ پھر خود کو میدان عمل
میں پیش کروں تا کہ ایک تزکیہ شدہ وجود نئے جہان کی تعمیر میں کوشاں ہو
سکے۔ میرے قردار سے اگر معاشرے میں مثبت تبدیلی آتی ہے تو معاشرہ پروان
چڑھتا ہے وگرنہ معاشرے میں تباہی تو پھیل ہی رہی ہے۔ روزمرہ کی بنیاد پر
اخبار اور ٹی وی چینلز پر کونسی تربیت کو فروغ دیا جا رہا ہے جو معاشرے میں
مثبت سوچ کو فروغ دے انکی تعداد قلیل ہے۔ مجھے کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر
کے نہیں بیٹھنا اس خیال میں کہ بلی کو میں نظر نہیں آؤں گا میں شکار ہو
جاؤں گا۔ سب سے پہلے آنکھ بند کر کے موت کا انتظار کرنے والا کبوتر شکار ہو
گا۔ مجھے اس شاہین کو زندہ کرنا ہے جس کا تصور اقبال نے ان الفاظ میں دیا
کہ
عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں
نظر آتی ہے انکو اپنی منزل آسمانوں میں
بطور نوجوان میں اقبال کا شاہین ہوں جو منزل قبول نہیں کرتا جو ہر لمحہ اک
جستجو میں رہتا ہے۔ مجھے شاہین نایاب اور قلیل جبکہ کبوتر کثیر نظر آتے
ہیں۔ اگر علامہ صاحب کی اپنی زندگی کی مثال پیش کروں تو وہ جدوجہد سے
بھرپور ہے آپ رح کی زندگی ایک شاہین کی زندگی ہے جو میرے جیسے نوجوانوں کے
لیے نمونہ عمل ہے۔ اقبال تین سال مغرب میں رہے اور مغرب کی تین بڑی
یونیورسٹیز سے تین بڑی ڈگرز حاصل کی۔ اقبال نے کیمبرج سے گریجویٹ کیا اسکے
بعد بار ایٹ لا کی ڈگری لی پھر اقبال نے ہیڈلبرگ سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل
کی۔ ایسا شاندار تعلیمی ریکارڈ آج کے نوجوان کے لیے نمونہ عمل ہے۔ آج کے
نوجوان میں بدقسمتی سے وہ لگن اور وہ کاوش ناپید نظر آتی ہے۔ جیسے اقبال
کہتے ہیں کہ
گریز کشمکشِ زندگی سے مردوں کی
اگر شکست نہں ہے تو اور کیا ہے شکست
اقبال مجھ جیسے نوجوانوں کو یہ سمجھاتے ہیں کہ میں نے اپنا وقت ضائع نہیں
کیا۔ اس لیے برصغیر پاک و ہند میں اقبال واحد شخصیت تھے جنہوں نے صرف تیس
سال کی عمر میں دنیا کی سات زبانوں پر عبور حاصل کیا۔ جن میں چار مشرقی اور
تین مغربی زبانیں تھیں۔ اقبال نے اپنی ذات کو رول ماڈل کے طور پر نوجوانوں
کے سامنے پیش کیا۔ آج کا نوجوان جب مغربی تہذیب سے متاثر ہو کر اپنی تہذیب
کو حقیر سمجھتا ہے تو حیرت ہوتی ہے حالانکہ اقبال تین سال مغرب میں رہے
لیکن وہ انکی تہذیب سے متاثر نہیں ہوئے جیسے وہ کہتے ہیں کہ
زمستانی ہوا میں تھی گرچہ شمشیر کی تیزی
نا چھوٹے مجھ سے لندن میں بھی آداب سحر خیزی
ایک اور مقام پہ فرماتے ہیں کہ
اپنی ملت پر قیاس اقوام مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی
آپ اقبال کی کوئی بھی نظم اٹھا لیں یا کوئی اقتباس اٹھا لیں اسے نظر سے
گزراریں آپ کو معلوم ہو گا کہ اس شخص نے انقلاب سے کم کچھ بھی تحریر نہیں
کیا۔ اقبال کا پیغام ہر صدی کے نوجوان کے لیے ہے۔ اقبال امت کا حکیم ہے۔
حکیم کو معلوم ہوتا ہے کس کو کیا مرض ہے۔ اقبال نے قدیم سے قدیم اور اپنے
زمانے کے جدید تقاضوں پر بھی لکھا۔ اقبال کا پیغام مجھ جیسے نوجوانوں کو
ہیرا بنانے کی طاقت رکھتا ہے۔ مجھے محبت سے متعارف کروانے والے اقبال ہیں۔
ایک نوجوان کی محبت درجہ کمال سے کم نہیں ہونی چاہیئے جیسے اقبال کی محبت
ہے۔ اقبال جب اپنے محبوب کو مخاطب کرتے ہیں تو کہتے ہیں کہ
لوح بھی تو قلم بھی تو تیرا وجود الکتاب
گمبد آبگینہ رنگ تیرے محیط پے حباب
شوق تیرا اگر نہ ہو میری نماز کا امام
میرے قیام بھی حجاب میرے سجود بھی حجاب
نگاہ عشق و مستی میں وہی اول وہی آخر
وہی قرآن وہی فرقاں وہی یٰسین وہی طہٰ
اس امت کا حکیم مجھے اور امت مسلمہ کے نوجوانوں کو محبت، وفا، ایمان، حق،
دیانت، صداقت، شجاعت، حسن اخلاق، خودی، آزادی، حریت اور ادب کی دوا دیتے
ہیں جو کہ ایک قوم کے بہترین مستقبل کی زمانت دیتے ہیں۔ اقبال کی زندگی سے
جو سب سے اہم سبق ملا وہ سرمایہ جو کہیں کہیں ملتا ہے وہ عشق مصطفیٰ صلی اﷲ
علیہ وسلم ہے۔ اقبال کی شاعری میں جو میرے لیے سب سے اہم جس کے اقبال خود
بھی پیکر ہیں وہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم سے عشق ہے اقبال نے جب سوال دراض
کیا کہ اس امت کی زبوں حالی کی وجہ کیا ہے جواب آیا اقبال ''یہ قوم دل تو
ایک رکھتی ہے مگر اس میں محبوب ایک نہیں رکھتی۔'' اقبال ہمارا اقبال ہے۔
سادہ زبان میں اقبال کا وہ شعر جو بچپن سے دلوں میں نقش کیا گیا جو آج کے
نوجوان کی روح کا چارا ہے۔ جسے اقبال نے کہا
کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح وقلم تیرے ہیں
|