اساتذہ کی کلیدی اہمیت اور ان کا تحفظ․․․!

مشہور فاتح سکندرِ اعظم نے اپنے استاد کی تعریف میں کہا تھا،’’ارسطو زندہ رہے گا تو ہزاروں سکندر تیار ہو جائیں گے ،مگر ہزاروں سکندر مل کر بھی ایک ارسطو کو جنم نہیں دے سکتے ۔‘‘اور اس نے یہ بھی کہا کہ ’’میرا باپ وہ بزرگ ہے جو مجھے آسمان سے زمین پر لایا ، مگر میرا استاد وہ عظیم بزرگ ہے جو مجھے زمین سے آسمان پر لے گیا ۔‘‘ارسطو نے سکندرِ اعظم کو سبق دیا کہ ’’ہر انسان خدا کا بندہ ہے اور ہر کسی کو با عزت زندگی گزارنے کا پیدائشی حق حاصل ہے ۔‘‘سکندرِ اعظم نے اپنے استاد کے سنہری اصولوں کو کبھی فراموش نہ کیا۔

خیر استاد ارسطو اور شاگرد سکندرتھا،مگر آج بھی دنیا میں جتنی بڑی شخصیات روشن ستاروں کی طرح جگمگا رہی ہیں،ان کی کامیابی کے پیچھے کسی نہ کسی استاد کا بھرپور ہاتھ ہوتا ہے۔ انسان کا شرف و اختصاص ،اس کی قوت،عقل اور فکر میں مضمر ہے ۔اس بات کو سمجھانے والی شخصیت استاد کی ہوتی ہے۔آج پوری قوم جس پستی کی طرف گامزن ہے،اس کی ایک بڑی بنیادی وجہ اساتذہ کی عزت و احترام نہ کرنا ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ مادہ پرستی کا دور ہے،ہر شخص اس دوڑ میں آگے سے آگے نکلنے کی کوششوں میں اپنے اخلاقی اقدار تک کو پیچھے چھوڑ چکا ہے ۔کیوں کہ تمام معاشرہ اس کی لپیٹ میں ہے اور معاشرہ فرد سے بنتا ہے اس لئے استاد بھی اسی دوڑ کا حصہ بن گئے ہیں،اخلاقی اقدار کھو دیے،تعلیم برائے عبادت کی بجائے، تعلیم برائے تعلیم رہ گئی اور تعلیم کو مادی ترازو میں تولا جانے لگا۔حالاں کہ مادہ سب کچھ نہیں ہوتا،بلکہ اخلاقی اقدار انسانیت کی کامیابی کی کلید ہیں ۔چناں چہ حکام بالا کو اس بات کا ادراک ہونا چاہیے کہ تربیت یافتہ معاشرے کے قیام کے لئے بہترین اساتذہ کی ضرورت ہے،لیکن افسوس حکمرانوں کو اپنے اقتدار کی ہوس اور مفادات کی دوڑ نے عوام کی بہتری سے کوسوں دور کر رکھا ہے۔یہ بہترین اساتذہ کہاں سے بنائے گے ،یہ تو اساتذہ کو ہر طرح سے ذلیل و خوار کر رہے ہیں ۔ویسے تو ہر شعبہ اور ادارہ اپنی موت کی آخری سسکیاں لے رہا ہے،مگر جہاں تعلیمی ادارہ اس نہج پر پہنچ جائیں کہ اپنے اساتذہ کو دھاڑی دار اور فقیر بنا ڈالیں،ایجوکیشن کی اہمیت کو نہ جانیں،وہاں کسی قسم کی ترقی اور خوش حالی کی امید ختم ہو کر رہ جاتی ہے۔

جب سے پاکستان تحریک انصاف نے اقتدار سنبھالا ہے ،ہر شخص مسائل کی دلدل میں پھنسا ہوا ہے۔مہنگائی ،بے روزگاری ،مجبوری اور غربت انتہا کو چھو رہی ہے۔ان حالات سے اساتذہ بھی متاثر ہوئے ہیں،اسی لئے پنجاب بھر کے تمام اساتذہ نے اسلام آباد پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے احتجاجی دھرنا دے دیا ہے۔ان کے ساتھ کلرک،درجہ چہارم ملازمین اور نان ٹیچنگ اسٹاف بھی احتجاج کا حصہ بن رہے ہیں ۔یہ لوگ اپنی تنخواہوں میں اضافے کی بات کر رہے ہیں ،یوٹیلیٹی الاؤنس،کنٹریکٹ ملازمین ریگولر،خالی سیٹوں پر نئی بھرتیاں کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں ۔ان کے یہ مطالبات غلط نہیں ،کیوں کہ اس مہنگائی کے دور میں معاشی پریشانیوں میں پسا ہوا استاد بچوں کوکیا تعلیم اورتربیت دے گا۔دوسری جانب ملک کے سرکاری ملازمین ،پنشنرز ،صنعتی کارکنوں اور محنت کشوں کی ساٹھ سے زائد تنظیموں پر مشتمل اتحاد (آل پاکستان ایمپلائز،پنشنرزولیبر تحریک) نے وزیر اعظم کی قائم کردہ مذاکراتی کمیٹی کے رویے سے دلبرداشتہ ہو کر پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے احتجاج کا اعلان کر دیا ہے۔

حکومت ہر کسی کو لولی پاپ دینے کے فارمولے پر کاربند ہے۔اس قوم کے اَن پڑھ ہونے کا یہ ثبوت ہے کہ یہاں اہل علم کی قدر نہیں ہوتی،علم کی نا قدری جہالت کی نشانی ہے۔یہ درست ہے کہ بعض اساتذہ بھی اپنے فرائض کو احسن طریقے سے ادا نہیں کرتے،ایسے اساتذہ کی وجہ سے سب کی قدر میں کمی آئی ہے،مگر اساتذہ سے تعلیم دینے کے علاوہ بھی بہت سی ڈیوٹیاں لی جاتی ہیں ،شاید انہیں دوسروں کی نسبتاً فارغ سمجھا جاتا ہے۔اس طبقے کے بارے میں دبی اور کھلی زبان میں باتیں کی جا رہی ہیں ۔اساتذہ کی کارکردگی کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے،ان پر سیاست میں ملوث ہونے کا الزام لگایا جاتا ہے ۔کسی زمانے میں استاد زمانے میں معمار قوم ہوا کرتا تھا،حالاں کہ اس زمانے میں یہ میٹرک پاس ہوتے تھے اور ان کے پاس ٹریننگ بھی برائے نام ہوا کرتی تھی، ان پر اعتماد کیا جاتا تھا،لیکن دور حاضر میں استاد کو بے حوصلہ کیا جا رہا ہے،جو کہ کسی طور پر درست نہیں ۔

وزیر اعظم عمران خان ہمیشہ سنگا پور کی ترقی کی مثال عوام کو دیتے ہیں،مگر وہاں کی معاشی ترقی اور خوش حالی کی بنیادی وجہ کو کیوں نہیں اپناتے،یعنی بہترین تعلیمی نظام ہی ترقی کی کنجی ہے۔سنگا پور کے تعلیمی نظام کو دنیا بھر میں سراہا جاتا ہے ۔وہاں حکمرانوں کا مقصد سنگاپور کو دنیا کا امیر ترین ،ترقی یافتہ اور تعلیم یافتہ ملک بنانا ہے ۔انہوں نے اپنے تعلیمی معیار کوبلند کرنے کے لئے اعلیٰ تعلیم یافتہ اساتذہ حاصل کیے۔اساتذہ کی عمدہ تنخواہ یونیورسٹی کے ہونہار طالبعلموں کو تعلیم کے شعبے کی طرف کھینچ لاتی ہے۔سنگاپور میں ایک نئے ٹیچر کی تنخواہ 1800 سے 3300ڈالر ماہانہ سے شروع ہوتی ہے ،تنخواہ کے علاوہ بھی انہیں اورٹائم اور بونس ملتا ہے۔وہ سرکاری بجٹ کا 20فیصد تعلیم پر خرچ کرتے ہیں۔یہ وہی خطہ ہے جو ایشیا کا سب سے غریب ملک تھا،1965 میں ملائیشیا سے آزادی حاصل کی،یہاں اشرافیہ کے علاوہ کسی کو تعلیم تک رسائی حاصل نہیں تھی،یہاں آدھی آبادی نا خواندہ تھی،کوئی قدرتی ذخائر بھی نہیں تھے ،انہوں نے اپنے انسانوں پر سرمایہ کاری کر کے دنیا میں اپنا مقام بنایا۔

اگر سنگا پور جیسا چھوٹا سا ملک کم وقت میں یہ سب کچھ کر سکتا ہے ،تو پاکستان کو تو اﷲ تعالیٰ نے بے شمار نعمتوں سے نوازا ہے۔حکومت کواساتذہ کی جدید ٹریننگ کے ساتھ ساتھ ان کے معاشی مسائل کو حل کرنے پر توجہ دینا ہو گی۔احتجاج کرنے والے اساتذہ ،کلرک حضرات کے مطالبات کوئی ایسے نہیں،جنہیں پورا نہیں کیا جا سکتا۔حکام بالا کواقتدار کو بچانے کے لئے تمام تر طاقتیں ضائع کرنے کی بجائے ، اپنے فرائض کی انجام دہی پر توجہ دینی چاہیے۔یہی اساتذہ بہت عرصے سے اپنے درینہ مطالبات حکمرانوں کے پاس لے کر آتے رہے ہیں ،مگر کوئی شنوائی نہیں ہوئی ،اب ان کے پاس احتجاج اور دھرنے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں چھوڑا گیا۔دیکھنا ہو گا کہ دھرنے میں اساتذہ کی عزت کو کیسے بحال رکھا جاتا ہے ۔مشکل یہ ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت کسی بھی احتجاج کو سنجیدگی سے نہیں لیتی۔حکمرانوں کی ایسی بے حسی ملک و قوم کے لئے نقصان کا باعث بن رہی ہے،جو کسی صورت خوش کن نوید نہیں ہے۔
 

Irfan Mustafa Sehrai
About the Author: Irfan Mustafa Sehrai Read More Articles by Irfan Mustafa Sehrai: 153 Articles with 94873 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.