قُرآن کا علمِ حکمت اور قُرآن کی تعلیمِ توحید

#العلمAlilm علمُ الکتاب سُورَہِ ھُود ، اٰیت 1 تا 6 قُرآن کا علمِ حکمت اور قُرآن کی تعلیمِ توحید !! ازقلم.. علامہ اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ھے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ھمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
الٓرٰ
کتٰب احکمت
اٰیٰتہ ثم فصلت من لدن
حکیم۔خبیر 1 الّا تعبدواالّااللہ
اننی لکم منہ نذیر وبشیر 2 وان استغفروا
ربکم ثم توبواالیہ یمتعکم متاعا حسنا الٰی اجل مسمََی
ویؤت کل ذی فضل فضلہ وان تولوافانی اخاف علیکم عذاب یوم
کبیر 3 الی اللہ مرجعکم وھو علٰی کل شئ قدیر 4 الاانھم یسثنون صدورھم
لیستخفوامنہ الا حین یستغشون ثیابھم یعلم مایسرون و ما یعلنون انہ علیم بذات
الصدور 5 ومادابة فی الارض الّا علی اللہ رزقھا ویعلم مستقرھا ومستودعھا کل فی کتٰب
مبین 6
زمان و مکان میں اللہ تعالٰی نے جب جب اور جہاں جہاں پر بھی جو جو وحی کی ھے وہ ساری وحی اللہ نے اپنے رسول کے لیۓ اِس کتابِ حکمت میں جمع کردی ھے ، اِس لیۓ اللہ تعالٰی کی یہ کتاب انسانی سفرِ حیات کی وہ رہنما کتاب ھے جس میں مسافرانِ حیات کی رہنمائ کے لیۓ جا بجا روشن ، پائدار اور خوش گوار نشاناتِ راہ بناۓ گۓ ہیں تاکہ انسان راہِ ھدایت پر سہولت کے ساتھ چل کر اپنی اُس منزل پر پُہنچ سکے جس منزل پر پُہنچنا مقصود بالذات ھے ، یہ کتابِ حیات جس حکمت کار اور خبردار ہستی نے اپنے جس رسول پر نازل کی ھے اُس حکمت کار ہستی نے اپنے اُس رسول کو اِس اَمر کی تلقین کی ھے کہ وہ رُوۓ زمین کے تمام انسانوں کو اِس اَمر سے آگاہ کر دے کہ میں اللہ کا وہ نمائندہ ہوں جو تُمہارے پاس اللہ کی طرف سے تُمہارے عملِ خیر کی جزاۓ خیر کی نوید اور تُمہارے عملِ شر کی سزاۓ شر کی وعید سنانے کے لیۓ آیا ہوں اور ہر انسانی جان کے لیۓ میرا پیغام یہ ھے کہ تُم میں سے کوئ انسان اللہ کے سوا کسی کی غلامی نہ کرے ، تُم میں سے کوئ انسان اللہ کے سوا کسی سے خطا پوشی کی آرزُو نہ کرے اور تُم میں سے کوئ انسان اللہ کے سوا کسی اور کی طرف رجوع کی جستجو نہ کرے ، تُم میں سے جو اللہ کے اِن اَحکام پر عمل کرے گا اللہ اُس کی زندگی کی آخری سانس تک اُس کے لیۓ اعلٰی متاعِ حیات کا بند و بست کرے گا اور تُم میں سے جو انسان اللہ کے اِس فرمان کے مطابق جتنی زیادہ محنت کرے گا وہ اتنی ہی زیادہ عظمت حاصل پاۓ گا اور تُم میں سے جو انسان اللہ کے اِس عھد و پیمان سے اعراض کرے گا تو مُجھے ڈر ھے کہ وہ ایک بہت بڑے دن کے بہت بڑے عذاب کا شکار ہو جاۓ گا کیونکہ تُم سب نے ایک نہ ایک دن اپنے اُسی اللہ کے پاس جانا ھے جو تُم سب کو جزا دینے کی بھی پُوری قُدرت رکھتا ھے اور سزا دینے کی بھی پُوری قُوت رکھتا ھے ، اللہ تعالٰی اپنی اِس کتابِ حکمت میں تُم کو اُن لوگوں کے اَحوال سے بھی آگاہ کرتا ھے جو اللہ کو اپنی زبان سے کُچھ اور حال سُنا رھے ہوتے ہیں اور اپنے دل میں کوئ اور ہی خیال چُھپاۓ ہوۓ ہوتے ہیں حالانکہ اللہ تُمہاری اُس بات کو بھی جانتا ھے جو تُمہارے دل سے اُچھل کر تُمہاری زبان پر آتی ھے اور تُمہاری اُس بات کو بھی جانتا ھے جو تُمہارے دل کے نہاں خانے میں گُھٹ کر رہ جاتی ھے ، یاد رکھو کہ اللہ زمین کے ہر ایک جاندار کا روزی رساں ھے ، وہ ہر ایک جاندار کے آج کے موجُود ٹھکانے اور کَل کے مطلُوب ٹھکانے کو جانتا ھے اور اُس کی زمین کے ہر ایک جاندار کی ہر ایک حرکت و عمل اُس کی اُس کُھلی کتاب میں موجُود ھے جو اُس کے سامنے موجُود ھے !

مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
قُرآنِ کریم کی 114 سُورتوں میں سے اللہ تعالٰی نے جن 6 سُورتوں کے نام اپنے 6 اَنبیاۓ کرام کے نام پر رکھنے پسند کیۓ ہیں اُن 6 سُورتوں میں سے پہلی سُورت ، سُورتِ یُونس ھے جو قُرآنِ کریم کی کتابی ترتیب میں آنے والی دسویں سُورت ھے جس کا نام یُونس علیہ السلام کے نام پر رکھا گیا ھے اور دُوسری سُورت یہی سُورتِ ھُود ھے جو قُرآنِ کریم کتابی ترتیب میں آنے والی گیارھویں سُورت ھے جس کا نام اللہ تعالٰی نے اپنے ایک قدیم نبی ھُود علیہ السلام کے نام پر رکھا ھے ، بعض اہلِ تحقیق کی تاریخی تحقیق کے مطابق سیدنا ھُود علیہ السلام کا زمانہ سیدنا محمد علیہ السلام کے زمانے سے 3400 سال قبل کا زمانہ ھے ، قُرآنِ کریم نے سُورةُالاَعراف میں ذکرِ آدم و نُوح کے بعد جس تیسرے نبی کا ذکر کیا ھے وہ ھُود علیہ السلام ہیں ، ھُود علیہ السلام آدم کے بعد چوھویں اور نوح علیہ السلام کے بعد پانچویں انسانی پُشت میں پیدا ہوۓ ہیں اور بائبل کے مطابق اِن کا زمانہ 2200 قبل مسیح کا زمانہ ھے ، قدیم زمانے کی قدیم اَقوام میں اکثر اَفراد اور اکثر قابلِ ذکر اَشیاء کے اَصل نام اُس زمانے کے روایتی ٹوٹم Totem کے مطابق اُن اَفراد کے کسی عظیم کام اور اُن اَشیاء کی کسی اَعلٰی سماجی شُہرت کے حوالے سے مشہور ہوا کرتے تھے اور اِس تاریخی روایت کے اعتبار سے جس زمانے میں جس انسان کا جو نام زبانِ زِدِ عام رہا ھے قُرآن نے اُس کو اُسی عام استعمال کے مطابق نقل کیا ھے ، تاریخی اعتبار سے ھُود بھی ایک ایسا ہی اِسمِ ھدایت ھے جس میں کثرتِ ھدایت کا جو مفہوم ھے وہ بھی اپنی اُسی کثرتِ ھدایت کے مفہوم کے ساتھ اُسی طرح مشہور اور نقل ہوا ھے ، سُورةُالاَعراف میں نُوح و ھُود ، صالح و لُوط اور شعیب و مُوسٰٰی کی جن اَقوام کا ذکر ہوا ھے اُن میں سے پہلی بڑی قوم نُوح علیہ السلام کی وہ قوم ھے جس کے چند اَصحابِ سفینہ کے سوا باقی ساری قوم کو اللہ نے اپنے عذاب کے ذریعے صفحہِ ہستی سے مٹا دیا تھا ، دُوسری بڑی قوم مُوسٰی علیہ السلام کی قوم ھے جس میں سے مُوسٰی کے 7 لاکھ ساتھیوں کو اللہ نے بچالیا تھا اور فرعون کے 17 لاکھ ساتھیو کو غرق کردیا تھا اور پھر اِس سلسلے کی آخری قوم یُونس علیہ السلام کی وہ قوم ھے جس کو اللہ تعالٰی نے اپنا فیصلہ کُن عذاب آنے بعد بچا کر اِس اُمت کو یہ تعلیم دی ھے کہ زمین کی جو قوم جُزوی طور پر ہلاک ہوتی ھے وہ اپنے ہلاکت کے جزوی تباہ کُن اعمال کے باعث ہلاک ہوتی ھے ، جو قوم جزوی طور پر نجات پاتی ھے وہ بھی اپنے جُوی اعمالِ ھدایت کے تحت نجات پاتی ھے اور جو قوم اجتماعی طور پر نجات پاتی ھے وہ صرف اور صرف اپنی اجتماعی توبہ کی وجہ سے نجات پاتی ھے ، اِس ایک صورت کے سوا کسی قوم کے پاس نجات کی کوئ اور صورت نہیں ہوتی ھے ، اگر یہ آخری اُمت بھی اجتماعی طور پر گُمراہ ہوگی تو اُس اُمت کے پاس بھی نجات کی راہ صرف اِس کی اجتماعی توبہ ہوگی ، چونکہ اجتماعی معصیت اور اجتماعی توبہ کی اِس تعلیم کی طرف زیادہ توجہ دلانا مقصود ھے اِس لیۓ سُورَہِ ھُود میں بھی نُوح و ھود ، صالح و لُوط اور شعیب و مُوسٰی کے اُن ہی اَحوال کا اعادہ کیا گیا ھے جو اِس سے پہلے سُورةُالاَعراف میں بیان ہوۓ اور اِس اعادہ و تکرار سبب یہ ھے کہ قُرآن کا کوئ پڑھنے والا انسانی تاریخ کی اِن ہلاک یافتہ اور نجات یافتہ قوموں کے احوال کو نظر انداز کر کے اُس راستے پر نہ چل پڑے جس راستے پر چلنے والے ہمیشہ تباہ ہوتے ہیں اور جس راستے سے بچنے والے ہمیشہ نجات پاتے ہیں ، سُورَہِ ھُود میں آنے والے اِن اَنبیاۓ کرام کے ذکر میں ابراھیم علیہ السلام کا بھی مُختصر سا اَحوال آیا ھے اور اِس غرض سے آیا ھے تا کہ ابراھیم علیہ السلام کی معنوی ذُریت سے تعلق رکھنے والی تینوں قومیں مُسلم ، یہُود اور نصارٰی اُس مرکزِ ملّت کی طرف رجوع کریں جس مرکز کی ابراھیم علیہ السلام نے اِن کی مرکزیت کے لیۓ بُنیاد رکھی تھی اور چونکہ اِن سب اَنبیاء و رُسل کا مُشترکہ مشن انسان کو علمِ قُرآن پڑھانا ، قُرآن کی حکمت سکھانا اور توحید کی تعلیم دینا تھا اِس لیۓ سُورت کا آغاز بھی کتاب و حکمت کی تعلیم اور توحید کی دعوت سے کیا گیا ھے لیکن سلسلہِ کلام میں آنے والی اٰیت 5 میں بعض روایتی عُلماء نے اپنی جو روایتی جَھک ماری ھے وہ اِس اٰیت کا خلافِ عقل ترجمہ اور اِس کی خلافِ عقل تشریح و تعبیر ھے ، اِن لوگوں نے اِس اٰیت کا ترجمہ یہ کیا ھے کہ " یاد رکھو کہ وہ لوگ اپنے سینوں کو دُھرا کیۓ دیتے ہیں تاکہ وہ اپنی باتیں اللہ سے چُھپا سکیں " اور پھر اِس کی یہ تشریح و تفسیر یہ کی ھے کہ اِن کی صحیح بخاری شریف میں بیان کی گئ شانِ نزول کے مطابق یہ اٰیت اُن مُسلمانوں کے بارے میں نازل ہوئ ھے جو غلبہِ حیا کی وجہ سے قضاۓ حاجت اور بیوی سے ہم بستری کے وقت برہنہ ہونا اِس لیۓ پسند نہیں کرتے تھے کہ اللہ تعالٰی ہمیں دیکھ رہا ھے اور وہ ایسے موقعوں پر اپنے سینوں کو دُہرا کر لیتے تھے تاکہ اللہ اُن کو نہ دیکھ سکے ، بخاری شریف کی روایت شریف میں یہ نہیں بتایا گیا کہ یہ حیادار لوگ نہاتے کس طرح تھے اور لباس کس طرح بدلتے تھے اور یہ بھی نہیں بتایا گیا کہ انسان کے سینہ دُھرا کرلینے سے اُس کا ننگ کس طرح چُھپ جاتا ھے ، اصل بات یہ ھے کہ اللہ تعالٰی نے اِس اٰیت میں انسان کے اُس ہجومِ خیال کا ذکر کیا ھے جس ہجومِ خیال میں وہ دُعا و ثنا کرتا ھے تو اُس کے خیالات اتنے مُنتشر ہوتے ہیں کہ وہ یہ تک نہیں جانتا کہ اُس کی درخواست کیا ھے ، وہ اللہ سے کیا مانگنا چاہتا ھے اور کیا مانگ رہا ھے ، اُس کی اِلتجا کُچھ اور ھے اور اَلفاظِ التجا کُچھ اور ہیں بلکہ بہت سے حریص لوگ جب اللہ سے مال و دولت طلب کر ر ھے ہوتے ہیں تو اُن کی اُس طلب کے پردے میں اُن کی خواہشاتِ حرص و ہوس کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا ایک سمندر موجُود ہوتا ھے اور بہت سے نیک دل یہ دُعا فر ما رھے ہوتے ہیں کہ یا اللہ تو مُجھے اتنا مال و دولت دے دے کہ میں دُنیا میں بانٹتا پھروں مگر سوال یہ ھے کہ آپ کو اللہ کے بانٹتے پر کیا اعتراض ھے اور آپ کو اپنے ہاتھ سے بانٹتے کا اتنا شوق کیوں ہو رہا ھے ، اٰیت ھٰذا میں انسان کے اسی نفسیاتی جذبہِ خیر اور اسی نفسیاتی طلبِ خیر کا ذکر کیا گیا ھے اور اللہ کی طرف سے اسی سلسلہِ کلام کی اٰیت 3 میں یہ اَمر واضح کیا گیا ھے کہ جو لوگ میری طرف رجوع کریں گے اور مُجھ سے اپنے لیۓ متاعِ حیات چاہیں گے تو میں اُن کو بہت اَعلٰی متاعِ حیات مُہیا کروں گا اور اسی سلسلہِ کلام کی آخری اٰیت میں اللہ تعالٰی نے انسان کی اِس خاص نفسیات کے حوالے سے انسان کو ایک اَمرِ خاص کے طور پر یہ بتایا گیا ھے کہ میری زمین پر کوئ ایک جاندار بھی ایسا نہیں ھے جس کی روزی میری دسترس میں نہیں ھے ، میں تو اپنی مخلوق کے ایک ایک جاندار کے بارے میں یہ بھی جانتا ہوں کہ وہ آج کس ٹھکانے پر موجُود ھے اور کَل اُس نے کون سے ٹھکانے پر جانا اور رہنا ھے اور میں ہر جاندار کے بارے میں یہ بات اس لیۓ جانتا ہوں کہ میں ہر روز ہر ایک جاندار کے ہر ایک ٹھکانے پر اُس کی روزی پُہنچاتا ہوں !!
 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 876 Articles with 558086 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More