صلہ رحمی
( احادیث کی روشنی میں)
( حصہ دوم) آخری
حسن اخلاق، صلہ رحمی اور نیکی کی فضیلت
-1 رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ’’جو شخص پسند کرے کہ اس کے
رزق میں برکت ہو اور اس کی عمر دراز ہو تو وہ صلہ رحمی کرے‘‘ (یعنی رشتوں
ناتوں کو جوڑے، میل ملاپ کرے) (بخاری:)
2 اُمّ المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میرے پاس
ایک عورت آئی اور سوال کرنے لگی۔ اس کے ساتھ دو بیٹیاں بھی تھیں۔ میرے پاس
صرف ایک کھجور تھی؛ میں نے وہی دے دی۔ اس عورت نے اس کے دو ٹکڑے کئے اور
آدھی آدھی کر کے اپنی بچیوں کو دے دی۔ پھر کھڑی ہوئی اور روانہ ہو گئی۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم تشریف لائے تو سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ
عنہا نے آپ کو یہ واقعہ سنایا۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ’’جو شخص
ان بیٹیوں کا والی بنے اور وہ ان کے ساتھ حسن سلوک کرے تو یہ بیٹیاں اس
کیلئے جہنم کی طرف سے ایک آڑ بن جائیں گی‘‘ (صحیح بخاری:)۔
3 امام الانبیاء صلی اللہ علیہ و سلم کا اِرشاد ہے: ’’بیواؤں اور مساکین کے
لئے جدوجہد کرنے والا مجاہد فی سبیل اﷲ کی مانند ہے‘‘ اور آپ صلی اللہ علیہ
و سلم نے مزید فرمایا: ’’وہ ایسے ہے کہ جس طرح ہمیشہ قیام اللیل کرنے والا
اور ہمیشہ روزے رکھنے والا ہوتا ہے‘‘ یعنی اجرو ثواب میں برابر ہے (صحیح
بخاری:)
4 رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس ایک شخص آیا اور عرض کی یا رسول
اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ! میرے کچھ رشتہ دار ہیں، میں ان سے ملتا جلتا
ہوں اور وہ مجھ سے نہیں ملتے۔ میں حسن سلوک کرتا ہوں اور وہ برا سلوک کرتے
ہیں۔ میں بردباری کرتا اور وہ جہالت برتتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے
فرمایا: ’’اگر تم واقع سچ کہہ رہے ہو تو تم ان کے چہروں پر مٹی ڈالتے رہو۔
تم اسی طرح رہو اللہ تعالیٰ تمہارے ساتھ اور تمہارا مددگار ہے‘‘۔ (صحیح
مسلم:)۔
5 رسولِ عربی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ’’کسی مسلمان کے لئے جائز
نہیں ہے کہ وہ اپنے بھائی سے تین دن سے زیادہ ناراض رہے۔ دونوں ملتے ہیں
لیکن ایک دوسرے سے منہ پھیر لیتے ہیں۔ دونوں میں سے بہتر وہ ہے جو سلام کے
ساتھ ابتدا کرے‘‘۔ (صحیح بخاری:)۔
6 رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ’’ایک شخص کسی بستی کی طرف جا
رہا تھا۔ وہاں اس نے کسی کی زیارت کرنی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی راہ میں
ایک فرشتہ مقرر کر دیا۔ اس نے پوچھا کہاں جا رہے ہو؟ اس شخص نے جواب دیا:
میں اس بستی میں اپنے بھائی کی زیارت کرنے جا رہا ہوں۔ فرشتے نے پوچھا کیا
کسی فائدے کی خاطر جا رہا ہو؟ جواب دیا نہیں، میں اس سے اللہ کے لئے محبت
کرتا ہوں۔ یہ سن کر فرشتے نے کہا: میں تمہارے پاس اللہ تعالیٰ کا پیغام بر
بن کر آیا ہوں۔ اللہ تعالیٰ بھی تم سے محبت کرتا ہے‘‘۔ (صحیح مسلم:)۔
7 رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ’’جو شخص مریض کی عیادت کرتا
ہے تو وہ دورانِ عیادت جنت کی مہمانی میں رہتا ہے‘‘۔ سوال کیا گیا کہ جنت
کی مہمانی کیا ہے؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ’’جنت کے
پھل‘‘۔ (صحیح مسلم:)۔
8 رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ’’مومن کو کوئی کانٹا بھی
چبھتا ہے تو اس کے بدلے اللہ تعالیٰ مومن کا ایک درجہ بلند کرتا اور ایک
گناہ مٹا دیتا ہے‘‘۔ (صحیح مسلم:)۔
9 پیارے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ’’بے شک مومن کو اسکے اچھے
اخلاق کی وجہ سے روزے اور قیام کا اجر و ثواب ملتا ہے‘‘ (یعنی مومن حسن خلق
سے بلند درجوں پر فائز ہوتا ہے)۔ (صحیح الجامع:)
10 رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ’’جب ایک شخص اپنے گھر والوں
پر ثواب کی نیت سے خرچ کرتا ہے تو یہ بھی اس کیلئے صدقہ بن جاتا ہے‘‘۔
(صحیح بخاری:)۔
11 رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ’’تم جو بھی اللہ تعالیٰ کی
رضا کیلئے خرچ کرتے ہو اس پر تمہیں اجر دیا جاتا ہے حتی کہ تم اپنی بیوی کے
منہ میں جو لقمہ ڈالتے ہو، اس پر بھی اجر و ثواب ملتا ہے‘‘ (صحیح بخاری:)۔
12 رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ’’جو شخص غصہ کو پی جاتا ہے
حالانکہ وہ غصہ کو نافذ کرنے پر قادر ہے تو اللہ تعالیٰ اُس کو قیامت کے دن
مخلوق کے سامنے بلائے گا اور اسے خوبصورت حوروں پر اختیار دیا جائے گا کہ
جس سے چاہو شادی کر لو‘‘۔ (صحیح الجامع:)۔
13 رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ’’جو شخص آخرت کا ارادہ رکھتا
ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے معاملات کو درست فرماتا ہے اور اس کے دل کو غنی کر
دیتا ہے۔ اور اس کے پاس دنیا مطیع و فرمانبردار ہو کر آتی ہے‘‘۔ (صحیح
الجامع:)۔
14 رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ’’دو آنکھوں کو جہنم کی آگ
کبھی نہ چھو سکے گی؛ ایک آنکھ جو اللہ تعالیٰ کے ڈر سے آنسو بہائے اور
دوسری آنکھ جو اللہ کی راہ (جہاد) میں پہرہ دے‘‘ (جامع ترمذی:)۔
15 رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ’’برباد ہوا، رسوا ہوا۔ عرض
کی گئی اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کون برباد ہوا تو آپ صلی اللہ
علیہ و سلم نے فرمایا: ’’جس نے بڑھاپے میں اپنے دونوں والدین یا کسی ایک کو
پایا ـ(اور ان کی خدمت کر کے) خود کو جنتی نہ بنوا سکا‘‘۔ (صحیح مسلم:)
اللہ پاک کمی معاف فرماۓ.آمین
|