شاعری اور مرزا غلام احمد قادیانی
(عبیداللہ لطیف Ubaidullah Latif, Faisalabad)
عنوان :۔ شاعری اورمرزا غلام احمد قادیانی تحریر :۔ عبیداللہ لطیف محترم قارئین! مرزا غلام احمد قادیانی نے یہ بھی دعوی کیا تھا کہ وہ ظلی طور ہر محمدرسول اللہ ہے اگر ہم مرزا غلام احمد قادیانی کی ظلی اور بروزی کی تعریف کو مدنظر رکھیں تو (’’جیسا کہ تم جب آئینہ اپنی شکل دیکھو تو تم دو نہیں ہو سکتے بلکہ ایک ہی ہو ، اگرچہ بظاہر دو نظر آتے ہیں صرف ظل اور اصل کا فرق ہے۔‘‘ (کشتی نوح ص 18، خزائن ج19 ص 16))ثابت ہوتاہے کہ محمد ی نبوت اور وحی نبوت میں شاعری کا کوئی عمل دخل نہیں ہے۔ قرآنی آیات پر جب مشرکین نے الزام لگایا کہ یہ اﷲ کا کلام نہیں بلکہ کسی کا ہن کا قول اور کسی شاعر کی شاعری ہے تو فوری طور پر رب کائنات نے اس کی نفی کرتے ہوئے فرمایا: (وَمَا ھُوَ بِقَوْلِ شَاعِرٍ ط قَلِیْلًا مَّا تُؤْمِنُوْنَ O وَلَا بِقَوْلِ کَاھِنٍ قَلِیْلًا مَّا تَذَکَّرُوْنَ O تَنْزِیْلٌ مِّنْ رَّبِّ الْعٰلَمِیْنَ ) یہ کسی شاعر کا قول نہیں(افسوس) تمھیں بہت کم یقین ہے اور نہ کسی کاہن کا قول ہے(افسوس) تم بہت کم نصیحت لے رہے ہو۔ یہ تو رب العالمین کا اتاراہوا ہے۔ (سورۃالحاقۃ:42تا44) وَ مَاعَلَّمْنٰہُ الشِّعْرَوَمَایَنْبَغِیْ لَہُ یعنی اورہم نے اسے (محمدرسول ﷲﷺکو)شعرکہنانہیں سکھایااورنہ یہ کام اس کی شان کے مطابق تھا۔ (سورہ یسین:70تفسیرصغیرازمیاں محمودبشیرالدین ابن مرزاقادیانی) مرزاقادیانی نبی کریم علیہ السلام کے برعکس شاعری کیاکرتاتھانہ صرف شاعری کیا کرتا بلکہ اس کی شاعری پر مبنی کتاب درثمین کے صفحہ ۴۹ پر ایک مصرع اسطرح درج ہے کہ اگریہ جڑرہی سب کچھ رہا ہے اس مصرع پر *کانشان لگا کرحاشیہ میں واضح کیا گیاہے کہ یہ الہامی مصرع ہے مزید مرزاقادیانی کی شاعری کے نمونے بھی ملاحظہ فرمائیں کہ وہ کسطرح عشقیہ شاعری بھی کرتا رہاہے اوراپنی شاعری میں بیہودہ الفاظ استعمال کرتے ہوئے معمولی سی بھی شرمندگی محسوس نہیں کیا کرتاتھا۔چنانچہ مرزا بشیراحمد ابن مرزاقادیانی اپنی کتاب سیرت المہدی میں رقمطرازہے کہ ’’ خاکسارعرض کرتا ہے کہ مرزا سلطان احمد صاحب سے مجھے حضرت مسیح موعود کی ایک شعروں کی کاپی ملی ہے جو بہت پرانی معلوم ہوتی ہے۔ غالباً نوجوانی کا کلام ہے۔ حضرت صاحب کے اپنے خط میں جسے میں پہچانتا ہوں بعض شعر بطور نمونہ درج ہیں:‘‘ عشق کا روگ ہے کیا پوچھتے ہو اس کی دوا ایسے بیمار کا مرنا ہی دوا ہوتا ہے کچھ مزا پایا میرے دل! ابھی کچھ پاؤ گے تم بھی کہتے تھے کہ الفت میں مزا ہوتا ہے :: :: :: :: ہائے کیوں ہجر کے الم میں پڑے مفت بیٹھے بٹھائے غم میں پڑے اس کے جانے سے صبر دل سے گیا ہوش بھی ورطۂ عدم میں پڑے :: :: :: :: سبب کوئی خداوند! بنا دے کسی صورت سے وہ صورت دکھا دے کرم فرما کے آ، او میرے جانی بہت روئے ہیں اب ہم کو ہنسادے کبھی نکلے گا آخر تنگ ہو کر دلا اک بار شوروغل مچادے :: :: :: :: نہ سر کی ہوش ہے تم کو ، نہ پاکی سمجھ ایسی ہوئی قدرت خدا کی مرے بت ! رب سے پردہ میں رہو تم کہ کافر ہو گئی خلقت خدا کی :: :: :: :: نہیں منظور تھی گر تم کو الفت تو یہ مجھ کو بھی جتلایا تو ہوتا میری دلسوزیوں سے بے خبر ہو میرا کچھ بھید بھی پایا تو ہوتا دل اپنا اس کو دوں یا ہوش یا جان کوئی اک حکم فرمایا تو ہوتا اس کاپی میں کئی شعر ناقص ہیں۔ یعنی بعض جگہ مصرع اول موجود ہے مگر دوسرا نہیں ہے اور بعض جگہ دوسرا ہے،مگر پہلا ندارد ، بعض جگہ اشعار نظر ثانی کے لیے بھی چھوڑے ہوئے معلوم ہوتے ہیں اور کئی جگہ فرخ تخلص استعمال کیا گیا ہے۔‘‘ (سیرت المہدی جلد اوّل صفحہ 214-213 طبع چہارم) مرزاقادیانی کی شاعری کے مزید کچھ نمونے بھی ملاحظہ فرمائیں
چپکے چپکے حرام کروانا
آریوں کا اصول بھاری ہے زن بیگانہ پر یہ شیدا ہیں
جس کو دیکھو وہی شکاری ہے غیر مردوں سے مانگنا نطفہ
سخت خبث اور نابکاری ہے غیر کے ساتھ جو کہ سوتی ہے
وہ نہ بیوی زن بزاری ہے نام اولاد کے حصول کا ہے
ساری شہوت کی بیقراری ہے بیٹا بیٹا پکارتی ہے غلط
یار کی اس کو آہ و زاری ہے دس سے کروا چکی زنا لیکن
پاک دامن ابھی بچاری ہے لالہ صاحب بھی کیسے احمق ہیں
ان کی لالی نے عقل ماری ہے گھر میں لاتے ہیں اس کے یاروں کو
ایسی جورو کی پاسداری ہے اس کے یاروں کو دیکھنے کے لئے
سر بازار ان کی باری ہے جورو جی پر فدا ہیں یہ جی سے
وہ نیوگی پر اپنے واری ہے شرم و غیرت ذرا نہیں باقی
کس قدر ان میں بردباری ہے ہے قوی مرد کی تلاش انہیں
خوب جورو کی حق گذاری ہے (آریہ دھرم صفحہ ی مندرجہ روحانی خزائین جلد۱۰ صفحہ۷۵‘۷۶) محترم قارئین!اب خودسوچیں کہ کیاایسی بیہودہ شاعری کے باوجود مرزاقادیانی نبی کریم علیہ السلام کا ظل اوربروز ہوسکتا ہے ۔یقینًا نہیں ہوسکتا۔اسکے باوجودقادیانی ذریت نہ صرف مرزا قادیانی کو نبی کریم علیہ السلام کا بروز مان رہی ہے تو اس کی بنیادی وجہ اندھی عقیدت اورقادیانی مربیوں کی وہ ہیراپھیریاں ہیں جو عوام الناس کو عمومًا اور قادیانیوں کوخصوصًاگمراہ کرنے اور پھراس پر قائم رہنے کے لیے کرتے ہیں۔چنانچہ مرزاقادیانی کی شاعری پر کیے جانے والے اعتراض کاجواب دیتے ہوئے معروف قادیانی عالم ملک عبدالرحمن خادم اپنی کتاب ’’پاکٹ بک‘‘ میں رقمطراز ہے کہ ’’بے شک قرآن مجید میں ہے کہ آنحضرتﷺشاعرنہ تھے اورقرآن مجیدنے شاعرکی تعریف بھی کردی ہے فرمایا اَلَمْ تَرَ اَنَّھُمْ فِیْ کُلِّ وَادٍیَّھِیْمُوْنَo وَاَنَّھُمْ ےَقُوْلُوْنَ مَالَا یَفْعَلُوْنَo (سورۃ الشعراء:226‘227) کیاتونہیں دیکھتاکہ شاعرہروادی میں سرگرداں پھرتے ہیںیعنی ہوائی گھوڑے دوڑاتے ہیں اورجوکچھ وہ کہتے ہیں وہ کرتے نہیں۔ گویاشاعروہ ہے ۔ 1۔ جوہوائی گھوڑے دوڑائے ۔ 2۔ اس کے قول اور فعل میں مطابقت نہ ہو۔ فرمایاعلمنٰہ الشّعر(ےٰسین :70)ہم نے آنحضرتﷺکوہوائی گھوڑے دوڑانااور محض باتیں بنانانہیں سکھایاحضرت مسیح موعودمیں بھی یہ دونوں باتیں نہیں پائی جاتیں تھیں۔‘‘ (پاکٹ بک ازملک عبدالرحمٰن خادم قادیانی صفحہ515) اس کے بعد ملک عبدالرحمٰن خادم لغت کی کتابوں سے شاعر کے معنی اورمفہوم بیان کرتے ہوئے یہ نتیجہ اخذکرتاہے کہ ’’پس ثابت ہواکہ شعرسے مرادجھوٹ ہی ہے پس نفس شعربلحاظ کلام موزوں کوئی بری چیزنہیں۔‘‘ (پاکٹ بک ازملک عبدالّرحمان خادم صفحہ516) محترم قارئین!اگرملک عبدالّرحمٰن خادم قادیانی کی طرف سے کی گئی شعرکی تعریف کوصحیح مان لیاجائے توتب بھی مرزاقادیانی کے ظلی اوربروزی نبی ہونے کے دعوے پر زدپڑتی ہے ۔ اب مرزاقادیانی کے جھوٹ بھی ملاحظہ فرمائیں تاکہ ثابت ہوسکے کہ مرزاقادیانی اپنے ہی مرید ملک عبدالّرحمٰن خادم کی تعریف کے مطابق بھی شاعر ہی ثابت ہوتاہے۔چنانچہ مرزابشیراحمدرقمطرازہے کہ ’’بیان کیاہم سے حافظ حاجی عبدالحمیدصاحب نے کہ ایک دفعہ جب ازالہ اوہام شائع ہوئی ہے حضرت صاحب(مرزاقادیانی)لدھیانہ میں باہرچہل قدمی کے لیے تشریف لے گئے ‘میں اورحافظ حامدعلی ساتھ تھے۔راستہ میں حافظ حامدعلی نے مجھ سے کہاکہ آج رات یاشایدکہاان دنوں میں حضرت صاحب (مرزاقادیانی)کویہ الہام ہواہے کہ ’’سلطنت برطانیہ تاہشت سال بعدازاں ایام ضعف و اختلال‘‘ خاکسار عرض کرتاہے کہ اس مجلس میں جس میں حاجی عبدالحمیدصاحب نے یہروایت بیان کی میاں عبداللہ صاحب سنوری نے بیان کیاکہ میرے خیال میں یہ الہام اس زمانہ سے بھی پراناہے حضرت صاحب (مرزاقادیانی)نے مجھے اورحافظ حامدعلی کویہ الہام سنایاتھااورمجھے الہام اس طرح پریادہے ’’سلطنت برطانیہ تا ہفت سال بعدازاں باشدخلاف اختلال‘‘۔میاں عبداللہ صاحب بیان کرتے تھے کہ دوسرامصرعہ تومجھے پتھرکی لکیرکی طرح یادہے کہ یہی تھااور ہفت کالفظ بھی یادہے جب یہ الہام ہمیں حضرت صاحب نے سنایاتواس وقت مولوی محمدحسین بٹالوی مخالف نہیں تھا۔شیخ حامدعلی نے اسے بھی جاسنایا پھرجب وہ مخالف ہواتو اس نے حضرت صاحب کے خلاف گورنمنٹ کو بدظن کرنے کے لیے اپنے رسالہ میں شائع کیاکہمرزاصاحب نے یہ الہام شائع کیاہے۔‘‘ (سیرت المہدی جلداوّل صفحہ96روایت نمبر68طبع چہارم) سیرت المہدی کی مندرجہ بالاروایت سے جوچارباتیں واضح ہوتی ہیں وہ درج ذیل ہیں 1۔ ’’سلطنت برطانیہ تا ہفت سال بعدازاں باشدخلاف واختلال‘‘یہ الہام مرزاقادیانی کوہواجس کامفہوم یہ ہے کہ سلطنت برطانیہ سات سال میں زوال پذیرہو جائے گی اسی بات کی تصدیق کے لیے ایک اور تحریربھی ساتھ ہی ملاحظہ فرمالیں جومرزاقادیانی کے مجموعہ الہامات ‘کشوف ورویاء پرمبنی ’’تذکرہ‘‘نامی کتاب میں موجودہے چنانچہ ’’تذکرہ‘‘میں1892ء کے تحت لکھاہے کہ ’’(الف)حضرت امیرالمومنین خلیفۃالمسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیزنے خطبہ جمعہ میں فرمایا: ’’ملکہ وکٹوریہ کے زمانہ میں خدا تعالیٰ نے خبردے دی:۔ سلطنت برطانیہ تاہشت سال بعدازاں ضعف وفسادواختلال اوریہ آٹھ سال جاکرملکہ وکٹوریہ کی وفات پرپورے ہوگئے۔‘‘ (الفضل جلد16نمبر78مورخہ5اپریل1929ء صفحہ5) (ب)حافظ حامدعلی صاحب نے مجھ سے کہاکہ ۔۔۔۔۔۔ان دنوں میں حضرت صاحب کوالہام ہواہے:۔ ’’سلطنت برطانیہ تا ہشت سال بعدازاں ایام ضعف واختلال‘‘ (بحوالہ سیرت المہدی جلداوّل روایت150) (سیرت المہدی حصہ اوّل صفحہ75روایت نمبر96ایڈیشن دوم) (ج)میاں عبداللہ صاحب سنوری نے بیان کیاکہ :۔ ’’مجھے(یہ)الہام اس طرح پریاد ہے:۔ ’’سلطنت برطانیہ تا ہفت سال بعدازاں باشدخلاف واختلال‘‘ (سیرت المہدی حصہ اوّل صفحہ75روایت نمبر96ایڈیشن دوم) (د)صاحبزادہ پیرسراج الحق صاحب نعمانیؓ نے بیان کیا:۔ ’’میں نے حضرت سے یہ الہام اس طرح پرسناہے :۔ ’’قوت برطانیہ تاہشت سال بعدازاں ایام ضعف واختلال‘‘ (سیرت المہدی حصہ دوم صفحہ9روایت نمبر314) (بحوالہ تذکرہ صفحہ650‘ 651طبع چہارم) 2۔ جس وقت یہ الہام ہوامولانامحمدحسین بٹالوی رحمۃاللہ علیہ مرزاقادیانی کے مخالف نہیں تھے۔ 3۔ حافظ حامدعلی جوکہ مرزاقادیانی کامریدخاص تھااس نے یہ الہام مولانامحمدحسین بٹالوی رحمۃللہ علیہ کوسنادیا۔ 4۔ مولانامحمدحسین بٹالوی رحمۃاللہ علیہ مرزاقادیانی کی کفریات واضح ہونے کے بعد جب اس کے مخالف ہوئے توانہوں نے گورنمنٹ برطانیہ کومرزاقادیانی سے بدظن کرنے کے لیے یہ الہام مرزاقادیانی کے حوالہ سے یہ الہام اپنے رسالہ اشاعۃالسنہ میں شائع کردیا۔ محترم قارئین!سیرت المہدی کی مندرجہ بالاروایت میں مرزاقادیانی کے اس ردعمل کے بارے میں وضاحت موجودنہیں ہے جواس نے مولانامحمدحسین بٹالوی رحمۃاللہ علیہ کے اس الہام کواپنے رسالہ اشاعۃالسنہ میں شائع کرنے پرظاہرکیاتھا۔لیکن ہم مرزاقادیانی کی اپنی کتاب سے ہی اس کاردعمل اسی کے لفظوں میں تحریرکیے دیتے ہیں۔چنانچہ مرزاقادیانی اپنی کتاب’’کشف الغطاء‘‘کے ضمیمہ میں’’قابل توجہ گورنمنٹ‘‘کے عنوان سے سرخی جماکررقمطرازہے کہ ’’دوسراامرجواسی رسالہ میں محمدحسین نے لکھا ہے وہ یہ ہے کہ گویامیں نے کوئی الہام اس مضمون کاشائع کیاہے کہ گورنمنٹ عالیہ کی سلطنت آٹھ سال میں تباہ ہوجائے گی میں اس بہتان کاجواب بجزاس کے کیالکھوں کہ خداجھوٹے کوتباہ کرے ۔میں نے ایساالہام ہرگز شائع نہیں کیا۔میری تمام کتابیں گورنمنٹ کے سامنے موجودہیں میں باادب گذارش کرتاہوں کہ گورنمنٹ اس شخص سے مطالبہ کرے کہ کس کتاب یاخط یااشتہارمیں میں نے ایساالہام شائع کیاہے ؟ اورمیں امید رکھتا ہوں کہ گورنمنٹ عالیہ اس کے اس فریب سے خبرداررہے گی کہ یہ شخص اپنے اس جھوٹے بیان کی تائید کے لیے یہ تدبیرنہ کرے کہ اپنی جماعت اوراپنے گروہ میں سے ہی جومجھ سے اختلاف مذہب کی وجہ سے دلی عنادرکھتے ہیں جھوٹے بیان بطورشہادت گورنمنٹ تک پہنچادے اس شخص اوراسکے ہم خیال لوگوں کی میرے ساتھ کچھ آمدورفت اورملاقات نہیں تامیں نے ان کوکچھ زبانی کہاہو۔میں جوکچھ کہناچاہتاہوں اپنی کتابوں میں اور اشتہاروں میں شائع کرتاہوں۔اورمیرے خیالات اورمیرے الہامات معلوم کرنے کے لیے میری کتابیں اوراشتہارات متکفل ہیں اورمیری جماعت کے معززین گواہ ہیں۔غرض میں بادب التماس کرتاہوں کہ ہماری گورنمنٹ عالیہ اس خلاف واقعہ مخبری کااس شخص سے مطالبہ کرے۔‘‘ (کشف الغطاء صفحہ40مندرجہ روحانی خزائن جلد14صفحہ216) محترم قارئین!آپ نے ملاحظہ کیاکہ کس طرح مرزاقادیانی نے جھوٹ بولتے ہوئے اپنی ہی کہی ہوئی بات سے نہ صرف واضح طورپرانکارکیابلکہ بے شرمی کی انتہاکرتے ہوئے مولانا محمدحسین بٹالوی رحمۃاللہ علیہ کوجھوٹاقراردینے کی ناپاک کوشش کی؟ کیااب بھی مرزاقادیانی مؤلف پاکٹ بک کی تعریف کے مطابق شاعریعنی جھوٹاثابت نہیں ہوتا؟ قبل اس کے کہ میں مرزاقادیانی کے ہروادی میں سرگرداں رہنے اور ہوائی گھوڑے دوڑانے کاتذکرہ کروںیہ واضح کردینا چاہتامرزاقادیانی جانتاتھاکہ اس پر کوئی الہام نہیں ہوتابلکہ یہ اس کیخودتراشیدہ باتیں تھیںیہی وجہ تھی کہ وہ اپنی کہی ہوئی بات سے صاف مکرگیاتھااوراس کے وہ مرید جنہیں مرزاقادیانی اوراس کی ذریت نہ صرف صحابیت کے درجے پرپہنچاتی ہے بلکہ اصحاب بدرکے مقابل لانے کی بھی ناپاک جسارت کرتی ہے گواہی چھپاکرمرزاقادیانی کے جھوٹ میں برابر کی شریک ٹھہرتی ہے۔ مزیدبرآں مرزاقادیانی کے نزدیک اس پر نازل ہونے والے الہام کی اہمیت کااندازہ سیرت المہدی کی درج ذیل روایت سے بھی لگایا جاسکتاہے چنانچہ مرزابشیراحمد رقمطرازہے کہ ’’میاں امام دین صاحب سیکھوانی نے مجھ سے بیان کیاکہ مصنف’’عصائے موسیٰ‘‘کوجب لاہورمیں طاعون ہواتوحضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے پاس یہ بات پیش ہوئی کہ حضورنے’’ اعجازاحمدی‘‘ میں لکھاہے کہ مولوی محمدحسین اورمصنف ’’عصائے موسیٰ‘‘رجوع کرلیں گے۔اس پرآپ نے فرمایاکہ ان کومرنے دوخدائی کلام کی تاویل بھی ہوسکتی ہے ۔آخروہ طاعون سے ہی مرگیا۔ خاکسارعرض کرتاہے کہ مصنف عصائے موسیٰ سے بابوالہٰی بخش اکاؤنٹنٹ مراد ہے جوشروع میں معتقدہوتاتھا۔مگرآخرسخت مخالف ہوگیا۔اورحضرت مسیح موعودعلیہ السلام کونعوذباللہ فرعون قراردے کران کے مقابل پراپنے آپ کوموسیٰ کے طورپرپیش کیابالآخرحضرت صاحب کے سامنے طاعون سے ہلاک ہوکر خاک میں مل گیا۔‘‘ (سیرت المہدی جلداوّل صفحہ808‘809روایت نمبر 944) محترم قارئین!اب مرزاقادیانی کے ہروادی میں سرگرداں پھرنے اورہوائی گھوڑے دوڑانے کے بھی چندایک ثبوت ملاحظہ فرمائیں چنانچہ مرزاقادیانی جھوٹ بولنے کے بارے میں رقمطراز ہے کہ ’’جھوٹ بولنامرتدسے کم نہیں۔‘‘ (ضمیمہ تحفہ گولڑویہ صفحہ20مندرجہ روحانی خزائن جلد17صفحہ56) ’’جھوٹ بولنے سے بدتردنیامیں اورکوئی براکام نہیں۔‘‘ (حقیقۃالوحی صفحہ27مندرجہ روحانی خزائن جلد22صفحہ459) ’’جھوٹ کے مردار کوکسی طرح نہ چھوڑنایہ کتوں کاطریق ہے نہ انسانوں کا۔‘‘ (انجام آتھم صفحہ43مندرجہ روحانی خزائن جلد11صفحہ43) ’’خداکی جھوٹوں پرنہ ایک دم کے لیے لعنت ہے بلکہ قیامت تک لعنت ہے۔‘‘ (اربعین نمبر3مندرجہ روحانی خزائن جلد17صفحہ398) محترم قارئین!ایک طرف تو آنجہانی مرزاقادیانی کے یہ اقوال ہیں تودوسری طرف اس کافعل کہ وہ کس طرح جھوٹ بولتاتھاآپ ’’سلطنت برطانیہ تاہشت سال‘‘والے الہام کے حوالہ سے ملاحظہ کرچکے ہیں۔اسی طرح مرزاقادیانی اپنے اساتذہ کے بارے میں رقمطراز ہے کہ ’’بچپن کے زمانہ میں میری تعلیم اس طرح پر ہوئی کہ جب میں چھ سات سال کا تھا تو ایک فارسی خواں معلم میرے لیے نوکر رکھا گیا جنھوں نے قرآن شریف اور چند فارسی کتابیں مجھے پڑھائیں اور اس بزرگ کا نام فضل الٰہی تھا۔ اور جب میری عمر تقریباً دس برس کی ہوئی تو ایک عربی خواں معلم میری تربیت کے واسطے مقرر کیے گئے جن کا نام فضل احمد تھا۔۔۔۔۔میں نے صرف کی بعض کتابیں اور کچھ قواعد نحو ان سے پڑھے اوربعداس کے جب میں سترہ یااٹھارہ سال کا ہواتوایک اورمولوی صاحب سے چندسال پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ ان کا نام گلی علی شاہ تھا اور ان کو بھی میرے والد صاحب نے نوکر رکھ کر قادیان میں پڑھانے کے لیے مقرر کیا تھا۔ اور ان میں آخر الذکر مولوی صاحب سے میں نے نحو اور منطق اور حکمت وغیرہ علوم مروجہ کو جہاں تک خدا تعالیٰ نے چاہا حاصل کیا۔‘‘ (کتاب البریہ ، حاشیہ صفحہ 163 مندرجہ روحانی خزائن جلد 13صفحہ 179تا181) اسی استاد(گل علی شاہ)کامزیدتذکرہ کرتے ہوئے مرزاقادیانی ایک اورمقام پر کچھ یوں رقمطرازہے کہ ’’ہمارے استادایک شیعہ تھے۔گل علی شاہ ان کانام تھا۔کبھی نمازنہ پڑھاکرتے تھے ۔ منہ تک نہ دھوتے تھے۔‘‘ (ملفوظات مرزاغلام احمدقادیانی جلداوّل صفحہ583طبع چہارم) مزید یہ کہ مرزا قادیانی نے مختاری کا امتحان بھی دیا لیکن فیل ہوا۔اسکاتذکرہ کرتے ہوئے مرزابشیر احمد اپنی کتاب سیرت المہدی میں رقمطراز ہے کہ ’’چونکہ مرزاصاحب ملازمت کو پسند نہیں فرماتے تھے ۔اس واسطے آپ نے مختاری کے امتحان کی تیاری شروع کردی اورقانونی کتابوں کا مطالعہ شروع کیا پر امتحان میں کامیاب نہ ہوئے۔‘‘ (سیرت المہدی جلد اوّل صفحہ۱۴۲روایت نمبر ۱۵۰ طبع چہارم) اس کے برعکس دوسرے مقام پر مرزاقادیانی یوں رقمطرازہے کہ ’’سوآنے والے کانام جومہدی رکھاگیاسواس میںیہ اشارہ ہے کہ وہ آنے والاعلم دین خداسے ہی حاصل کرے گااورقرآن اورحدیث میں کسی استادکا شاگرد نہیں ہوگا۔سومیں حلفاًکہہ سکتاہوں کہ میرایہی حال ہے۔کوئی ثابت نہیں کرسکتاکہ میں نے کسی انسان سے قرآن یاحدیث یاتفسیر کا ایک سبق بھی نہیں پڑھا ہے یاکسی مفسر یامحدث کی شاگردی اختیار کی ہے ۔‘‘ (ایام الصلح صفحہ168مندرجہ روحانی خزائن جلد14صفحہ 394) محترم قارئین !کیااب بھی اس کے ہروادی میں سرگرداں ہونے ‘جھوٹ بولنے اور ہوائی گھوڑے دوڑانا ثابت نہیں ہوتا۔توآپ لوگوں کی تسلی کے لیے مزیدچندمثالیں پیش کیے دیتاہوں چنانچہ مرزا قادیانی ایک مقام پردعویٰ کرتے ہوئے رقمطراز ہے کہ ’’خداتعالیٰ نے مجھے تمام انبیاء علیہ السلام کا مظہر ٹھہرایا ہے اور تمام نبیوں کے نام میری طرف منسوب کیے ہیں میں آدم ہوں،میں شیث ہوں‘ میں نوح ہوں ‘میں ابراہیم ہوں‘میں اسحاق ہوں‘میں اسماعیل ہوں‘میں یعقوب ہوں‘میں یوسف ہوں‘میں موسیٰ ہوں‘میں داؤد ہوں‘میں عیسیٰ ہوں اور آنحضرت ﷺ کامظہر اتم ہوں یعنی ظلی طور پر محمد اوراحمد ہوں۔‘‘ (حقیقت الوحی حاشیہ صفحہ73مندرجہ روحانی خزائن جلد 22صفحہ 76) ’’میں کبھی آدم کبھی موسیٰ کبھی یعقوب ہوں نیز ابراہیم ہوں نسلیں ہیں میری بے شمار (درثمین اردو صفحہ 123ازمرزا قادیانی) ایک طرف یہ انداز کہ تمام انبیاء کا مجموعہ اپنے آپ کوقرار دے رہا ہے تو دوسری طرف تکبر اور ہوائی گھوڑے دوڑانے کا یہ انداز کے خدائی دعویٰ کرنے سے بھی گریز نہیں کیاچنانچہ مرزا قادیانی رقمطراز ہے کہ ’’میں نے اپنے ایک کشف میں دیکھا کہ میں خود خدا ہوں اور یقین کیاکہ وہی ہوں‘‘ (کتاب البریہ صفحہ85مندرجہ روحانی خزائن جلد3 صفحہ103) محترم قارئین !یہی مرزا قادیانی جب گرنے پر آیا تو اپنے آپ کو انسان کا تخم اور بندے دا پتر ہی تسلیم کرنے سے انکار کردیا چنانچہ خود رقمطراز ہے کہ ’’کرم خاکی ہوں میر ے پیارے نہ آدم زاد ہوں ہوں بشر کی جائے نفرت اور انسانوں کی عار‘‘ (براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحہ97مندرجہ روحانی خزائن جلد21صفحہ 127) کیاان دلائل و براہین سے یہ بات ثابت نہیں ہوجاتی کہ مرزا قادیانی حقیقت میں جھوٹ بولنے والا‘دروغ گوہ ‘اور اپنے قول وفعل میں تضاد رکھنے والا ایک شاعر تھا جوکہ نبی آخرالزماں جناب محمدرسول اللہ ﷺ کاظل نہیں بلکہ ان سے متضاد صفات کا حامل تھا۔نبی آخر الزمان ﷺتوغیر محرم عورتوں کی طرف دیکھنا بھی پسند نہ کرتے تھے جب عورتیں بیعت کے لیے آتیں تو نبی کریم ﷺ پردے کے پیچھے سے بیعت لیتے تھے جب کہ اس کے برعکس مرزا قادیانی غیر محرم عورتوں سے ٹانگیں تک دبوایا کرتا تھا اور وہ بھی سردیوں کی راتوں میں جس کی تفصیل آپ مرزا قادیانی کے بیٹے مرزا بشیر احمد کی کتاب سیرت مہدی کی روایت نمبر۷۸۰ میں ملاحظہ کرسکتے ہیں ا لغرض بے شمار ایسی باتیں ہیں جو قادیانی دجال کے ظلی نبی ہونے کے دعویٰ کو جھوٹا ثابت کرتی ہیں |