سائنسی تجربہ گلے پڑ گیا، نگلی گئیں 54 مقناطیسی بالز معدے سے برآمد

image
 
”نئی نسل “ہر دور میں نئی ہوتی ہے۔ کبھی کہیں نہیں پڑھا، سنا یا لکھا دیکھا کہ نئی نسل پرانی ہوگئی ہے۔ ممتاز مفتی کی تحاریر میں بتائے گئے، ایک صدی پہلے کے برصغیر پاک و ہند کے زمانے کی منظر کشی ہمیں یہ بات اچھی طرح سے باور کراتی ہے کہ نئی نسل ایک صدی قبل بھی ویسی ہی تھی جیسے آج ہے، اسے بھی اپنے بڑوں سے یہ سننے کو ہی ملتا تھا کہ آج کے بچوں کو دیکھو،کیا زمانہ آگیا ہے،ہمارے دور میں تو ایسا نہیں ہوتا تھا۔
 
امریکی مصنف ایلون ٹوفلر کی دی تھرڈ ویو (تیسری لہر ) میں بیان کردہ تیسرے صنعتی انقلاب کے بعد سائنس وٹیکنالوجی میں تحقیق کرنے والے ماہرین اور سائنسدانوں کی کاوشوں کے نتیجے میں کرہ ارض پر اس کا پارٹ فور اور بعض ماہرین کے خیال میں، پانچواں حصہ بھی آچکا ہے۔
 
انتہائی سرعت کے ساتھ زندگی کا ردھم تیز ہوتا چلا گیا،لیکن درج بالا تینوں فقرے ہر دہائی میں کچھ نہ کچھ جدت کے ساتھ ہر گھر کی خانگی گفتگو کا ریکارڈ رہے ہیں۔ قیام پاکستان کے بعد بھی یہ فقرے ہر عشرے کی نئی نسل کی شان میں پڑھے جاتے رہے ہیں۔ اس تمہید کا مقصد یہ نشاندہی کرنا ہے کہ گزرتے وقت کے ساتھ بچوں کی تربیت کرنے والے والدین اور سرپرستوں کے لئے ان کی ذمہ داریاں بھی اسی تیزی کے ساتھ بڑھ رہی ہیں۔ والدین کے لئے صورتحال ترقی یافتہ ممالک میں بھی تیزی سے اپ ڈیٹ کی متقاضی ہے۔ مشرق اور مغرب ،ہر دو کے لئے اس اپ ڈیٹ کے ذریعے اس بات سے باخبر رہنا انتہائی ضروری ہوگیا ہے کہ ان کے بچوں کے ذہن ،اسمارٹ فون ، لیپ ٹاپ،ڈیسک ٹاپ میں کیا اپ لوڈ اور کیا ڈاﺅن لوڈ ہورہا ہے۔
 
برطانوی شہر مانچسٹر کی مثال لے لیں۔ ماں کو کیا پتہ تھا کہ سائنسی تجربات کا دھنی، تجسس و کھوج کا مارا ،اس کا 12 سالہ برطانوی بچہ رائلی اپنی چلبلی ،سائنسی اسرار کی متلاشی طبعیت سے مجبور ہوکر مقناطیس کی گولیاں نگل لے گا۔ برطانوی اخبار نے لکھا ہے کہ پہلے تو رائلی نے چند گولیوں پر اکتفا کیا ۔مقصد صرف یہ دیکھنا تھا کہ مقناطیس کی گولیاں اپنی کشش سے اس کے پیٹ پر دھاتی اشیاء کو کھینچ کر لاسکتی ہیں۔ لیکن اس کی یہ کوشش سعی لا حاصل ثابت ہوئی تو مزید گولیاں نگل گیا۔
 
image
 

رائلی کا تجربہ پھر بے سود ثابت ہوا ۔12 سالہ سائنسدان کا خیال تھا کہ یہ گولیاں اسے کے فضلے میں خارج ہوجائیں گی۔ مگر ایسا نہ ہوا اور ایک رات 2 بجے ٹھٹھرتی سردی میں اسے والدہ کے ساتھ اسپتال دوڑ لگانی پڑی۔ اس کی 30 سالہ ماں کو ڈاکٹرز نے جب ایکسر ے رپورٹ کی روشنی میں بتایا کہ برخوردار ایک دو نہیں پوری 54 مقناطیسی گولیاں نگلے بیٹھے ہیں، زندگی داﺅ پر ہے، تو ماں نے جان بچانے کے لئے فوری سرجری کی اجازت دے دی۔

 
ایک دو نہیں پورے چھ گھنٹے طویل آپریشن کے بعد رائلی کے معدے سے تمام گولیاں نکال لی گئیں ۔تاہم اس کی اسپتال سے خلاصی نہ ہوسکی۔ دو ہفتے اسپتال کے بیڈ پر گزرے۔ لیکن اس کی اسپتال سے خلاصی سے پہلے پہلے ہی اس کی ماں نے گھر میں رکھی ہر ”مشتبہ “ شے گھر سے باہر پھینک دی۔تاکہ مستقبل میں ایسی خوفناک نوبت ہی نہ آئے۔ گو کہ اخبار میں سامنے آنے والا ماں کا بیان تھا کہ بچوں کے لئے خریدی گئی ہر شے ان کےلئے محفوظ نہیں ہوتی لیکن ماں کی تربیت، اس کی حاضر طبعیت ایسی اشیاء کا استعمال بدستور کارآمد بناسکتی ہے۔
 
image
 
ہر انسان کا بچہ جب دنیا میں آتا ہے، والدین کے پاس ایک امانت ہوتا ہے ،بچے کا دل و دماغ بالکل سادہ ہوتا ہے، اس کے والدین یا معلم و معاشرہ جس طرح چاہتے ہیں‘ اس کے خیالات وافکار بناتے ہیں، اگر خیر کی طرف راہ نمائی کریں، تو وہ اس کا عادی بنتا ہے اور اگر اس کو جانوروں کی طرح چھوڑ دیا جائے تو نہ صرف یہ کہ وہ خود تباہ ہوگا، بلکہ اس کی تباہی کا وبال اس کے سرپرستوں پر بھی ہوگا۔ تربیت کے اس مرحلے میں ماں اولاد کے قریب ترین ہوتی ہے، معاشرے کی تباہی، بگاڑ اور تعمیر و ترقی میں وہ اہم ترین کردار ادا کرتی ہے، دور حاضر کی جدت، ٹیکنالوجی، طرز زندگی اور چمک دمک نے ان ذمہ داریوں کو مزید بڑھادیا ہے۔
 
آج کی عورت کے لیے اپنی اولاد، خاندان، نظام، اصول و ضوابط سب کو ان اثرات سے بچانا اور متبادل خیر کا پیغام اپنی نسلوں کو دینا انتہائی ضروری ہے۔ گھر اور بچے ہی معاشرے کی اکائی ہیں ،اگر یہیں پر گرفت مضبوط ہو تو آگے معاشرہ بھی پابند ہوجاتا ہے اور اقدار کی حفاظت ہوسکتی ہے،لہٰذا دینی اصولوں سے آگاہی اور مذہبی افکار کی روشنی میں بچوں کی تربیت انتہائی ضروری ہے۔ ایک مشہور دانش ور کا کہنا ہے یتیم وہ بچہ نہیں جس کے والدین دنیا میں اسے تنہا چھوڑ گئے ہوں ،اصل یتیم تو وہ ہیں جن کی ماؤں کو تربیتِ اولاد سے دلچسپی نہیں اور باپ کے پاس ان کو دینے کے لیے وقت نہیں۔
YOU MAY ALSO LIKE: