پردے کے پیچھے
از- مصباح انورمروت
(باب اول)
ھسپتال کے ایمرجنسی وارڈ میں جسم کی ٹوٹی ہڈیوں اور زخمیوں کو لیے، آج اسے
وہ دن شدت سے یاد آرہا تھا کہ جب تعلیم مکمل ہونے کی فورا بعد ہی اس
لاابالی، خورسند اور بےریا سی شازیہ کو رفیق حیات کے روپ میں فراز کے بخت
سکندر میں تالیف کردیا گیا۔ ظاہری طور پر جزررسانی اور فیض بخشی کی اختراعی
صورت رکھنے والی یہ معصوم اور خوبروحسینہ جو پیشے کے اعتبار سے ایک لیڈی
ڈاکٹر بھی تھی، زندگی کےاس نئے اور نادیدہ سفر میں عزت، تحفظ، سکون اور
خوشیوں کے خواب سجائے ایک خوبرو، نجیب، مہزب اور پیشے کے اعتبار سے ایک سول
انجنیئر کا ہم سفر بننے کا فیصلہ اس لئے کر چکی تھی کہ تعلیم یافتہ باپ اور
بھائی کے روپ میں ایک تعلیم یافتہ مرد کےوجود سے وہ اچھی طرح آشنا تھی۔
تعلیم یافتہ مرد جو زندگی کی مبہم اور تاریک حقیقتوں کو سامنے کی محدود اور
قلیل نظر سے نہیں بلکہ اوجء بینائی سے دیکھنے کا فن جانتا ہے ۔ جو زندگی کے
احساس سے آشنا ہوتا ہے۔ ایسا انسان جو فکر اور آداب فکر میں فرق کرنا جانتا
ہے ۔ وہ آداب فکر جو رشتوں میں میں کا وجود مٹا کر ہم کے تصور سے روشناس
کراتی ہے ۔ وہ اپنے ہمسفر کی خواہش، دکھ اور ضرورت کی چادر کو دور سے دیکھ
کر نہیں بلکہ اسے اوڑھ کر محسوس کرتا ہے ۔ ایسا خصم جسکی بصیرت اس ماہیت کا
قائل ہوتی ہے کہ عورت کے ناتواں وجود کے ساتھ، دیے گئے "معاشرتی صفر" کے
پہلو میں جب اسکے ساتھ کا "ایک" لگتا ہے تو دس کی اہمیت بن ہی جاتی ہے ۔
اورپھر یہ طاقت میاں بیوی کے رشتے میں اس تہذیب اور سلیقے کو پروان چڑھاتی
ہے کہ جس میں یہ دونوں ہم سمجھنا اور کہنا جانتے ہیں۔ ایسا تعلیم یافتہ
بالم کہ جو حقوق و فرائض کے مجادلے میں خدا سے ڈرنا جانتا ہے، وہ دوسروں کے
لئے خود کو مٹانا جانتا ہے۔ اپنی ذات سے اوپر دیکھنا جانتا ہے۔ رشتوں کی
تلخیوں کو ہنسی میں ٹالنا جانتا ہے۔ تعلیم اسکی شخصیت میں "اس شائستگی کو
جنم دیتی ہے جس میں وہ ہاتھ دھرنا بھول جاتا ہے نہ کسی کے دل سے، نہ کسی کے
سر سے نہ کسی کی آہ پے نہ کسی کی واہ پے"۔ ایک ایسا پڑھا لکھا انسان جو
اخلاقی قدروں کا مقید ہوتا ہے۔ وہ فکر کرنا جانتا ہے، بانٹنا جانتا ہے،
خیال رکھنا جانتا ہے عزت اور سکون دینا جانتا ہے۔ وہ اپنی شریک حیات کی
کامنی اور برجستہ آرزؤں کو مقید کرکے نہیں بلکہ انہں آزاد کر کے ان پر
اعتماد کرنا جانتا ہے، انکی معتبری پر سردھننا جانتا ہے۔ وہ امکان کے فلسفے
سے امید باندھے ہوئے ہے۔ وہ اپنے جیون ساتھی کے مقابلے میں زندہ نہیں ہوتا
وہ اس کے ساتھ زندہ ہوتا۔ شازیہ اپنے لیے ایسے تعلیم یافتہ جیون ساتھی کا
تصور لیے شاد اور مطمعین تھی۔
فراز اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھا اور اس واسطے سے اکلوتی بہو ہونے کے
ناطے پہلے دن سے ہی شازیہ کو سمجھا دیا گیا تھا کہ اب گھر والوں کا ہر طرح
سے خیال رکھن افقط اس کی ذمہ دار ہوگی۔ نسبت کے اس صفت پر رشتےداروں اور
معاشرے کے سامنے انکی عزت اور وقار کی ضامن اور محافظ بس وہی ہو گی، اس میں
زرا سی بھی کوتاہی ہوئی تو بخشش نہیں ہونی۔ ان تمام دستوروں کا توق لیے،
قہرالہی کا خوف لیے، منکوحہ کی نقیض لیے اور کامل بیوی اور بہو کی سند لیے
وہ ابتدا ہی سے معاشرتی رواجوں کے بنائے ہوئے پیمانوں میں کامیابی سے پورا
اترنے کی مشقت میں جت گئ۔ شادی کے پہلے ہی دن، ساس کی فرمائش پر خورشء
شیریں پکوا کر امور خانہ داری پر گرفت جانچنے کا پیمانہ، ہاتھوں پر لگی
مہندی کے رنگ سے خاوند سے وابستہ محبت اور وفاداری جانچھنے کا پیمانہ، اسکے
چہرے، ہاتھ اور پاؤں کی ملائم و سفید چمڑی سے اسکی خوبصورتی ماپنے کا
پیمانہ۔ اسکے ملاذمت کے انتخاب کی بنیاد پر اسکے کردار کو ماپنے کا پیمانہ۔
سوشل میڈیا کی رسائی اور تصرف کی بنیاد پر اسکے ماضی اور حال کے ناتےداریوں
کی نوعیت جانچھنے کا پیمانہ ۔ شوہر کی کمائی کا تناسب اور اولاد کی پیش و
پس پیدائش کی بنیاد پر اسکے نصیب کو جانچنے کا پیمانہ، اسکا لباس، دوپٹہ
لینے کا انداز، دھیمی اور شائستہ آواز، اٹھنے بیٹھنے اور چال چلن کی بنیاد
پر ماں کی تربیت جانچنے کا پیمانہ۔ اسکے ہاتھ سے بنی گول روٹی، اسکے ہاتھ
سے بنے کھانے کا نمک، اسکے خاندان کی معاشی حالت اور جانے اور کیا کیا۔ "وہ
اکثر سوچتی تھی کہ شادی کے لیے مرد کی شخصیت اور کردار کو ماپنے کا آلہ کیا
ہے؟ اسکا صرف اچھی ملازمت کرنا ہی اسکے سب عیبوں پر پردہ کیوں ڈال دیتا ہے"
؟۔ وقت اسی طرح پر لگا کر اڑتا رہا اور شازیہ اچھی بیوی اور بہو سے وابستہ
تمام امیدوں کو پورا کرنے کی کوشش میں مصروف رہی۔ لیکن انسان کی حیثیت سے
وہ کہیں نا کہیں رہ جاتی تھی اور یہی رہ جانا فقط اسکی خطا نہیں بلکہ جرم
گردانا جاتا تھا۔ شوہر سے ہر بار وہ گالیاں کھاتی، طلاق کی دھمکی سنتی، مار
کھاتی اور سہہ جاتی۔ صرف اور صرف اس لئے کہ اسکے ماں باپ بوڑھے تھے، اس لئے
کہ وہ عزت دار گھر کی تھی اور عزت داروں کے گھر کی بیٹاں خاوند سے ناراض
نہیں ہوا کرتیں، انکے سامنے زبان نہیں کھولتیں، ناراض ہو کر والدین کے گھر
جاتی اچھی نہیں لگتیں، اس لئے بھی کہ شادی کے پہلے چار سالوں میں شازیہ دو
بیٹوں کی ماں بن چکی تھی اور اسکی ممتا اس الزام کا بوجھ اٹھانے سے سراسر
قاصر تھی کہ وہ اپنے پے ہونے والے مظالم پر علم بغاوت بلند کرتے ہوئے اولاد
کو انکے باپ کی معتقد اور گداز چھاتا سے الگ کر کے اپنے باپ کی محفوظ چھاتا
میں چلی جائے۔ اسکے والدین اسکی ہر بار کی مار کھانے پر رنجیدہ ہوتے، اسکے
سسرال والوں سے گلہ کرتے، اسکے شوہر کو کبھی خود سمجھاتے، کبھی ثالثوں کی
مدد سے تنبیہ کرواتے، ضرورت پڑنے پر کبھی سنگین نتائج کی دھمکیاں بھی دیتے
مگر بےسود۔ بلآخر شازیہ کی والدہ اسے خاوند کے حقوق کی عظمت اور صابرہ
شاکرہ بیوی کے درجات کی بلندی کی پرچار کر کے اسے "سہہ جانے" کی تلقین کرنے
لگیں۔ اسے سمجھانے لگیں کہ اسے تسلم کر لیناچاہیےاپنی قسمت کو کہ جس میں
سکھ کا احساس اس لیے پیدا نہیں ہوتا کہ وہ یہ تسلیم کرنے سے قاصر ہے کہ
پہلے اسے ناز و نعمت میں پالا گیا تھا اور اب اس نے ناز و نعمت میں صرف
پالنا تھا اور اسکی بنیادی شرط خودی کی موت تھی، تمنائے سروری کی چاہ نہیں۔
شازیہ تھکنے لگی تھی، وہ ٹوٹنے لگی تھی اور اسکی حجت صرف یہی تھی کہ اس
رشتے کی قوت جو کہ فراز کا شازیہ کے لئے احساس، محبت اور اسکے احترام کے
ساتھ جڑا ہوا تھا وہ اسے انکے رشتے میں ناپید ہوتا ہوا دکھائی دینے لگا ۔
اسے دکھ ہوا اس مول شناسائی پر کہ "جب مرد دو علیحدہ فرائض ایک ہی وقت میں
نبھاتا ہے تو وہ مختلف انسان بن جاتا ہے۔ بیوی چونکہ اس کی ملکیت گردانی
جاتی ہے اس لئے ایک باندھی کی حیثیت سے ہر بار محبت، عزت اور حقوق کی جنگ
میں حق تلفی اسی کے حصے میں آنی چاہیے۔ اور اگر یہ نہ ہوا تو معاشرتی
پالکوں کا توڑ ہوگا اور یہ توڑ طعنہ بن کر شوہرکے ماتھے کا کلک بن کر رہ
جائے گا۔ وہ رن مرید کہلائے گا اوراس دوش کی فکر شوہر کو اپنی بیوی کے حقوق
سے زیادہ اہم تھی۔" وہ چاہتی تھی کہ اسکا خاوند بےشک اسے بیوی نہ مانے،
عورت بھی نہ مانے، انسان بھی نہ مانے مگر نجی ملکیت بھی نہ جانے"، جسکی
اپنی کوئی شناخت نہیں، جسکی رائے کی کوئی اہمیت صرف اس لئے نہیں کہ وہ
ناقصء العقل وجود ہے۔ جو کسی بھی معاملہ میں فیصلہ صرف اس لئے نہیں کر سکتی
کہ وہ جزباتی ہے۔ وہ لکھوا کر لائی ہے کہ جزبات کی بنیاد پر وہ اولاد تو
پیدا کر سکتی ہے، اولاد کی پرورش بھی کر سکتی ہے، مکان کو گھر بنا سکتی ہے
لیکن فیصلہ نہیں کر سکتی۔ شاہد یہ ساری زمےداریاں عقل اور دلیل کی بنیادوں
پر فیصلوں سے خالی ہوتے ہیں۔ اسے ماننا پڑے گا کہ اولاد کی تربیت اورمکان
کو گھر بنانے کی مشقت میں عقل کا کوئی عمل دخل نہیں اورمرد کے فیصلہ کرنے
کے قاعدے میں شعوری دیوانگی کا کوئی نصیب نہیں ۔
شازیہ اور فراز کے پاس اللہ کا دیا ہوا سب کچھ تھا۔ آسائیشوں سے بھرا اپنا
زاتی مکان ،پیسہ اور گاڑیاں، دو بیٹوں کی نعمت، اچھی ملازمتیں، والدین کا
ساتھ لیکن ان سب کے باوجود میاں بیوی میں کمی تھی تو اس محبت کی کہ جو
ایکدوسرے کا ساتھ ہوتے ہوئے بھی" ایک ساتھ" کے اثر سے خالی تھی۔ وہ
ایکدوسرے سے بات تو کر سکتے تھے لیکن اعتبار نہیں- آپس کے راز جب زبان زدے
عام ہونے لگیں تو یہ ساتھ اجنبی بن جاتا ہے۔ دونوں اس حقیقت سے نالاں تھے
کہ ہر اعتماد خاموشی کی تعظیم کے ساتھ ہی پروان چڑھتا ہے۔ وہ ایکدوسرے سے
بیزار تھے اس لیے کہ دونوں اس حقیقت سے نالاں تھے کہ زندگی اخلاقی قدروں کی
مقید ہے اور اخلاقی قدریں انصاف کی بنیادوں پر تعمیرہیں جسکا تقاضا یہی ہے
کہ ایک دوسرے کی خواہشات کو احترام اور اعتماد دیا جائے۔ آپس میں انکی بات
کم کم ہونے لگی کہ ایکدوسرے کی بات میں احساس کے کتنے رنگ ہیں، معنی کے
کتنے تناظر ہیں، محبت کی کتنی تہحیں ہیں، اور تہزیب کا کتنا عکس ہے، وہ
دونوں اس سے لاپروا ہوتے گئے۔ بلآخر نتیجہ تقرار نکلتی، لڑائی نکلتی،
بدمزگی اور ناراضگی نکلتی اور یہ سب شازیہ کی مار پے تمام ہوتا۔ ۔یہ بندھن
وقت کے ساتھ ساتھ انہیں ایک غلطی اور بوجھ لگنے لگا۔ روز روز کے جھگڑوں سے
گھر کا ماحول بدتر ہوتا گیا۔ بچے گم سم اور سہمے سے رہنے لگے اور والدین
پریشان۔ عقد کے نام پر بننے والی یہ نسبت اس نہج کو پہنچ چکی تھی کہ جس کی
بقا کی تفرید صرف اسی میں تھی کہ کسی ایک کو گھٹنے ٹیکنے تھے، سر تسلیم خم
کرنا تھا، دوسرے کے رنگ میں مکمل رنگنا تھا، گونگا، اندھا اور بہرہ بن کے
صرف اطباع کرنی تھی، شعوری وجود کو مارنا تھا اور سراسرعام آدمی کے وجود کو
اپنانا تھا۔ ان منفی ارویات میں ایک مثبت زندگی کے حصول کے لیے کسی ایک نے
یہ زہنی ہجرت کرنی ہی تھی اور ایک عورت کی حیثیت سے شازیہ نے یہ ہجرت کرنے
کا فیصلہ کیا، وہ عام عورت بنے گی کیونکہ وہ کچھ تھی یا نہ تھی وہ ماں ضرور
تھی اورگھر کی بقا اور سکون کے لیے یہ ایک دلیل اسکے اندر موجود ہر دلیل پر
بھاری پڑ گئی ۔ اسے معلوم تھا کہ عورت کی حیثیت سے اللہ نے فطری طور پر اسے
غلام ،مجبور اور محکوم نہیں بنایا۔ ایک بادشاہ کی ملکہ بنایا ہے لیکن
معاشرتی رواجوں اور سوچ کی زنجیروں نے اسے درباری بنا دیا۔ بیوی نے خود کو
ایسا اس لیے بنا لیا کہ اس معاشرے میں اس کی خوشی کی شرط بس یہی ہے۔
روایتوں کا پالم کرتے ہوئے اس نے اپنا کردار نبھانا شروع کر دیا ۔ وہ نیند
کی سیاحی میں انگلی ڈبو کرسارے دن کا حساب لکھتی، اپنے پیشے سے جڑے بیاجی
خوابوں کو چھوڑ کر فرائض خانہ کی تکمیل میں ہوا کی طرح گھومتی تھی کبھی گھر
کے اندر کبھی گھر کے باہر۔ طبیب کے روپ میں مسیحائی کو چھوڑ کر دیکھنے لگی
تھی چولہے پر رکھی ہانڈی۔ ان کہے لفظوں میں تخلیق کرنے لگی تھی اس پرسکون
زندگی کا وہ محل جس کی بنیادی شرط تھی زاتی آسائش وآرام کی وداعی۔ ٹٹولتی
رہتی تھی شوہر کی مسکراہٹ میں اپنے لیے عزت اورمحبت کا احساس۔ مصائبء زیست
میں برداشت کرنے پڑتے تھے شوہر کے مزاج بھی اور کھٹن حالات بھی۔ شوہر کے
کردار کی ہر برائی پر بند کرنا پڑتی تھی اپنے احساس وادراک کی زبان بھی اور
منہ کی زبان بھی۔ اہم تھی تو صرف سسرال کی عزت، انا اور وقار چاہے اس کے
لیے کبھی بھی، کوئی بھی، کہیں بھی اسکی عزت، انا ، اور وقار کو اپنے پیروں
تلے روند ڈالے۔ اپنے فرائض کی قید میں کرتی تھی انتظار اس ایک اشارے کا کہ
پیار کی ایک تھپکی پر وہ بلی بن کر اپنے محبوب کے پیروں میں لیٹ جاتی، اپنی
محبت کے گداز احساس سے اسکے دل اور اس میں بسی ہر خواہش کو تسکین دیتی۔
اسکو اس بات کی پروا نہیں رہی تھی کہ سرآب وہ کیا دکھائی دینے لگی تھی اسکے
لیے اہم یہ تھا کہ فراز کی نظر سے وہ کیا دکھائی دینی چاہیے۔ چادر پہن کر
جسم اور روح کا پردہ تو وہ والد کے گھر میں بھی کرتی تھی لیکن اس میں آسانی
تھی، شریعت کی آسانیوں پرتنگ سوچ کا پردہ لپیٹ کر گھٹن اور سختی کا احساس
نہیں تھا ۔ شازیہ حق زوجیت کو رگیدنے کے وقت ایک بیوی تھی، بچوں کی تعلیم
وتربیت اور پرورش کے وقت سے ایک ماں اور بیوی تھی ، امور خانہ داری کی
انجامدہی کی وقت بہواور بیوی تھی لیکن اس کی ذاتی ضروریات کو پورا کرنے اور
اس پر خرچ کرنے کے وقت وہ اپنے فراز کی بیوی نہ تھی، اسکے بچوں کی ماں نہ
تھی اس کے والدین کی خدمت گزار بہو نہ تھی وہ صرف ایک ورکنگ وومن تھی اور
اسکے ہرحق اور زمہ داری سے فراز یہ کہہ کر سبکدوشی ہو گیا کہ شازیہ گھر اور
بچوں کا وقت اپنے پیشے کو دیتی ہے، یہ اس کا شوق ہے اور شوق کے اس پالک کی
اسے شاید سزا دی گئی۔ "اللہ کی نعمتوں میں ایک بڑی نعمت یہ بھی ہے کہ خاوند
اپنی بیوی کو اپنی ذمہ داری سمجھ کر اس پر خرچ کرے" لیکن یہ نعمت شا زیہ کے
حصے میں نہیں آئی تھی۔ شازیہ کو اس بات کی اجازت نہ تھی کہ لوگوں کے سامنے
اس رشتے کی تلخیوں کو لے کر کبھی مسکرانہ چھوڑ دے ورنہ بخشش نہیں ہونی۔ ان
تمام کوششوں اور قربانیوں کا اثر یہ ہوا کہ شازیہ اور فراز کے اختلافات ختم
ہونے لگے، گھر میں ہنسی کی آواز سنائی دینے لگی، ساس کے پاس اپنی سہلیوں کو
بتانے کے لئے بہو کی کہانیاں اور شکایات کم پڑنے لگیں، فراز کا گھر میں
رکنے کے لیے وقت نکلنے لگا اور اسکے دوستوں کی محفلیں کم ہونے لگیں ۔ فراز،
شازیہ اور بچوں کے لیے کبھی کبھار تحفے بھی خرید لاتا اور سیر کرانے، کھانا
کھلانے باہر بھی لے جاتا۔ ساس اور سسراس سے مسکرا کر بات کرنے لگے۔ گھر کا
ماحول خوشگوار رہنےلگا۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ پہلے اسے فراز سےمار کھا
کراور گالیاں سن کر سہنا پڑتا تھا۔ اب اسے اپنے شعوری وجود کو مار کر سہنا
آ گیا تھا ۔ یہ سب دیکھ کے شازیہ کو محسوس ہونے لگا کہ" اسکی عقل تو اس کی
سب سے بڑی دشمن تھی۔ تجزیہ کرنے کی قوت اور اس کی بنیاد پر رائے دینے کا حق
فراز کو شوہر کی حیثیت سے اسکے خاص ہونے کا یقین نہیں دلانا پا رہی تھی اور
شاید یہی چیز اسکی مردانگی کو ٹھیس پہنچا رہی تھی لیکن اب بیوی کو "سیدھا"
کر لینے کی دلیل پر تسخیر کر لینے کا احساس نے اسے بیوی کے وجود کی شناسائی
اور اس کی طرف توجہ مبزول کرنے کی خوائش کو مائل کر دیا تھا"۔
شازیہ محبت کے نام پر اور مصلحت کی دلیل پرختم ہو کر رہ گئی تھی اور فراز
کو شازیہ کے اس طرح سے ختم ہو جانے کی عادت سی ہونے لگی۔ کھانے کی میز پر
ایک رات شازیہ نے اپنے اے-ٹی-آیم کارڈ، جو کہ شوہر کی حیثیت سے فراز کی
تحویل اور تصرف میں تھا مانگ لیا تاکہ اپنی بھتیجی کے سالگرہ کا تحفہ خرید
سکے۔ یہ سن کر فراز کے چہرے کے تاثرات کچھ بدل سے گئے۔اس نے ساتھ ہی کھانے
میں نمک زیادہ ہونے کی شکایت کر ڈالی۔ شازیہ نے چکھا تونمک روزانہ کی طرح
بلکل مناسب تھا۔ اب اس سے خطا یہ ہوئی کہ اس نے رائے دے ڈالی۔ وہ شاید بھول
چکی تھی کہ اب وہ عام عورت تھی اور سامنے اسکا باپ نہیں تھا جو اسکی رائے
کو رائے سمجھتا وہ شوہر تھا جس نے اسکی رائے کو جواب سمجھا۔ اس نے کھانے کی
پلیٹ زمین پر پٹخی، اٹھا اور شازیہ کے منہ پر زوردار طمانچہ دے مارا۔ طلاق
کی دھمکی دی اور ساتھ ہی گندی گالیاں۔ شازیہ چپ چاپ اسکی طرف دیکھتی رہی
لیکن وہ وقت آن پہنچا تھا جب وہ چاہتی تھی کہ فراز سمجھ لے کہ اسکی آنکھیں
تھکن سے لال ہیں یا ضبط سے۔ بچوں کو روتا دیکھ کر فرازان پر دھاڑا ، بچے
سہم گئے اور وہ گھر سی باہر نکل گیا۔ شازیہ نے پہلو میں بیٹھے دونوں بیٹوں
کے سہمے ہوئے چہروں کی طرف دیکھا، انہیں سینے سے لگایا اور سہہ گئ۔ اتنی
کوشش اور صبر کے باوجود بھی اسکی ساری دعائیں اور ساری کوشیش رائیگاں گئیں
۔ وہ برتن سمیٹ کر کمرے میں گئی، بچوں کو سلایا اور خود دیر تک روتی رہی،
اللہ سے اپنی قسمت کے گلے کرتی رہی اور حوصلے کے متمول ہونے کی دعائیں۔
نیند اسکی آنکھوں سے کوسوں دور تھی، اور باوجود کوشش کے وہ اپنے آنسوؤں کو
بہنے سے نہیں روک پائی۔ رات گئے فراز واپس آیا اور کمرے میں داخل ہوتے ہی
فرمان جاری کیا کہ اسے بھتیجی کی سالگرہ میں شرکت کی اجازت نہیں ہے۔ شازیہ
نے ثبات میں سر ہلایا لیکن ساتھ ہی وجہ پوچھ ڈالی۔ فراز شاید اسی انتظار
میں تھا، وہ تعیش میں شازیہ کو بازو سے گھسیٹے ہوئے کمرے سے باہر لاؤنج میں
لایا اور تب تک مارتا رہا جب تک اسے یقین نہ آیا کہ شازیہ کی زبان کے ساتھ
ساتھ آنکھیں بھی بند ہو گئیں۔ بچے کونے میں ڈرے سہمے کھڑے روتے رہے، بوڑھے
والدین فراز کو روکتے رہے لیکن انکی بوڑھی ہڈیوں میں اب اتنی جان باقی نہیں
رہی تھی کہ وہ بہو کے وجود کو غصے میں بھپرے مرد کی مضبوط گرفت سے چھڑا
سکیں۔ آس پاس کے تمام پڑوسی شور سن کر گیٹ کو زور زور سے پیٹنے لگے، سسر سے
جب کچھ نہ بن پایا تو گیٹ کھول کر پڑوسیوں سے مدد طلب کی۔ لوگوں کو دیکھ کر
فراز گھر سے باہر نکل گیا۔ شازیہ زمین پر بےسدھ بےہوش پڑی تھی ۔ اسکے پھٹے
کپڑے اور جسم سے رستا ہوا خون، اس انسان کے ہاتھوں سے ہوا جسے ایک باپ نے
اپنی بیٹی کے آرام اور تحفظ کے لیے منتخب کیا تھا۔ سائبان کے ہوتے ہوئے بھی
اجنبیوں نے اس کے اوپر چادر ڈالی۔ محرم کے ہوتے ہوئے بھی نامحرم اسے سہارے
دے کر اٹھانے کی کوشش کرتے رہے۔ اسے پڑوسیوں کی مدد سے ہسپتال پہنچایا گیا
اور شازیہ کے والدین کو اطلاع دی گئی
یہ خبر اسکے والدین اور گھر والوں پر بجلی بن کے ٹوٹی۔ ساری رات شازیہ کو
ہوش نہ آیا اوربوڑھے والدین اسکی حالت پر آنسو بہاتے رہے۔ گھر والوں کے
سامنے بستر مرگ پے شازیہ کا وجود نہیں بلکہ اس مان کا جنازہ پڑا تھا کہ جب
ایک باپ کی محبت، عزت اور تحفظ کے احساس پر پنپنے والی اسکا پھول جب مسلی
گئی تو یہ ظلم کرنے والا انکا اپنا تھا۔ وہ اپنا ہی آج اجنبی ہو گیا۔ انکی
بیٹی کے تحفظ کا آسمان ہی اسکی چادر کھینچ لے گیا۔ اور اس تمام پر اولاد کی
بے کسی اور بے بسی، اس سے جڑا حزن و رنج اور بیٹی کے ایسے نصیب کی شناسائی
کا وہ لمحہ ہی درحقیقت والدین کے لیے موت تھی۔ کسی کی لاپروائی کے سامنے
کوئی کتنا مجبور ہے وہ کتنا کمزور ہے یہ اضطراب شازیہ کے باپ کی آنکھوں سے
ٹپکنے والے وہ آنسو بتا رہے تھے کہ جو بیٹی کی زندگی کی طرح ہارے ہوئے تھے۔
دوپہر کے قریب شازیہ کو ہوش آیا تو بوڑھے والدین کو سامنے پا کر اسکے ضبط
کے تمام بندھن ٹوٹ گئے۔ " کیوں نہیں بابا ساری دنیا آپ جیسی" ؟ چاروں اطراف
کی مغموم فضاؤں میں اپنی اولاد کی تکیف سے بھری سسکتی ہوئی یہ آواز ،کاش کہ
اس سوال کا جواب دے کر وہ اسکی تکلیف پر مرحم رکھ سکتا۔ وہ شازیہ کو تسلیاں
دیتے رہے لیکن افسوس تو اس بات کا تھا کہ آج شازیہ کو جلن زخمیوں کے نہیں
بلکہ ہر مرہم کے محسوس ہو رہے تھے کہ وجود پر لگنے والے یہ نشان دھتکار کے
زخم تھے۔ شازیہ کو باپ نے گلے سے لگایا اور اتنا کہہ پائے "بیٹا تو گھر
واپس آ جا، تیرا گھر ہے نا"۔ وہ آنسو بہاتی رہی کبھی مرد کے روپ میں باپ کے
ٹھنڈے سائے کو دیکھ کر تو کبھی مرد ہی کی وجود میں اس شوہر کا سوچ کے کہ
جسکے لگائے ہوئے چوٹ کے نشان آج اسکی انا سے ہوتے ہرئے اس کے جسم پر بھی
نظر آنے لگے تھے۔ دوسرے دن ہسپتال میں سسرال کی طرف سے کوئی آیا بھی تو بس
ڈرائیور کے ساتھ اسکے دونوں بچے۔ اس نے اپنے تھکے او مجروح وجود کو مندمل
کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس نے محبت میں سر چڑھے شوہر کو زمین پر لا پھینکے کا
فیصلہ اس لیے کیا کہ اب وہ اپنی اور اپنے اولاد کی بقا کے محاربے میں اس
شخص کے سامنے کھڑی تھی کہ جس نے وقت آنے پر محبت کے مقابلے میں نفرت کو
چنا، رحم کی مقابلے میں قہر کو چنا ۔تعظیم کی مقابلے میں بےوقری کو چنا۔
بخشش کے مقابلے میں سرزنش کو چنا اور نسبت کے مقابلے میں رسم کو چنا
ایک ہفتہ ہسپتال میں قیام اور بنیادی علاج معالجہ کے بعد وہ اپنے والدین
اور بھائی کے ہمراہ اپنے میکے آ گئی۔ شازیہ کی سسر نے اسکے والد سے فون پر
اپنے خلف کے اس کہٹور فعل پر صفائیاں دیں، معافی مانگی لیکن مفاہمت کی اس
شرط پر آمادہ نہ ہوئے کہ فراز ماضی میں کیے گئے ہرستم گری پر اپنی بیوی سے
معافی مانگے گا اور آئیندہ ایسا سفاک رویہ نہ رکھنے کی ضمانت دے گا۔ فراز
کی مردانگی اور اسکے رواجوں نے یہ شرط ماننے سے انکار کر دیا۔ اس انکار پر
شازیہ نہ ہی متعجب ہوئی اور نہ ہی رنجیدہ کیونکہ نا جانے کب سے اس نے فراز
سے اچھی امیدیں لگانا چھوڑ دی تھیں ۔ والد صاحب نے گھر میں شازیہ اور اسکے
بچوں کی آسائش وآرام کا ہر طور انتظام کیا۔ شازیہ دو ماہ تک گھر میں رہی
اور اسکے بعد صحت یاب ہو کر مسیحا کی حیثیت سے اپنی ملازمت کی زمہ داریاں
دوبارہ سے اٹھانا شروع کر دیں۔ بچے سکول جانے لگے۔ ملازمت سے واپسی پر وہ
گھر کے کاموں میں بھابھی اور چھوٹی بہن کا ہاتھ بٹاتی، والدین کی خدمت
کرتی، اور بچوں کی تعلیم و تربیت میں مصروف رہتی۔ گھر والوں کو پہلی والی
اور اب کی والی شازیہ میں فرق دیکھ کر بہت دکھ ہوتا۔ وہ گھر جو شازیہ کے
قہقہے سنے کا عادی تھا اب اسکی سسکیاں سننے لگا۔ بھائی سے دیر تک باتیں
کرنے والی اور مختلف موضوعات پر دلیلں دینے والی شازیہ میں اتنی بھی سکت
باقی نہ رہی تھی کہ بھابھی کی تمام بدسلوکی اور طعنوں کے بعد وہ آگے سے اسے
کوئی جواب دے پاتی ۔ بہن کے ساتھ مل کر چھوٹی چھوٹی چیزوں کے مل جانے پر
خوش ہو جانے والی شازیہ زندگی میں آنے والی ہر نعمت اور خوشی کو بس خالی
نظروں سے دیکھا کرتی۔ آنے والی ہر مشکل کا پراسرار خاموشی سے استقبال کرتی۔
شازیہ نے بیوی کے روپ میں محبت کی تھی اور بہت سچائی سے کی تھی۔ لیکن بدلے
میں اسے وہ بے رخی ملی جس نے اسے توڑ کر رکھ دیا۔ محبت کی طلب سے ناامید
شازیہ نے اب سکون کا انتظار کرنا چھوڑ دیا، پروا کرنا چھوڑ دی، اسکا وجود
پتھر کا ہو گیا۔ فراز کی بدلی ہوئی کمزور اورسہمی ہوئی شازیہ اسکے وجود میں
اس قدر پختگی اختیار کر گئی تھی کہ بھائی کی طرف سے اسکے کردار کی
خواعتمادی بحال کرنے کی تمام کوششیں ضائع ہوتی ہوئی نظر آنے لگی۔ وہ باپ جو
ساری عمر ایک معلم کی حیثیت سے اخلاقی قدروں کا مقید ھو کر آرزوں کی آزادی
سکھاتا رہا آج اپنے اولاد کی خوشی کی آرزو کا مقید بن کی رہ گیا، جس نے
لوگوں کے خیال پر فہم کا اثر ڈالا، تدریس کی بنیاد پر تہزیب سکھائی آج اپنے
خیال پر رواجوں کی تہزیب کے اس نئے اثر پر حیران تھا۔ جس نے امکان کے فلسفہ
سے دوستی کرائی آج وہ مایوسی کے فلسفے سے مصافحہ اس لیے کر رہا تھا کہ ساری
عمر کی نیکنامی اپنوں کے ہاتھوں لوٹی جا چکی تھی۔ وہ معلم جس نے احساس کی
بنیاد پر خیال کی تخلیق سکھائی آج زندگی کے سوالوں کے سامنے خاموش کھڑا تھا
کیونکہ وہ لوگوں کے احساس کی حس سے خالی تھے، وہ سوال فقظ تعنے تھے۔ وہ
بیمار ہو کے چارپائی سے لگ چکے تھے یہ دیکھ کے کہ فراز کی بے رخی سہہ کے،
مار کھا کھا کے شازیہ اپنا سب کچھ کھو چکی تھی، اپنی عزت نفس، اپنا غرور
اور پھر اپنے وجود کی شناسائی۔ وہ اس قبر کی مانند ایک خاموش مٹی کا ڈھیر
تھی جسے دیکھ کر آہ تو بھری جا سکتی تھی۔ آنسو تو بہائے جا سکتے تھے، اس
ڈھیر پر پڑے پھول اسکے وجود پر رنگ تو بھر سکتے تھے ، خوشبو تو پھیلا سکتے
تھے لیکن یہ آنسو،یہ آہیں، یہ رنگ اوریہ خوشبو اس ڈھیر کے لیے زندگی کا
ضامن نہیں بن سکتے تھے۔ وہ اپنے رشتے داروں، جاننے والوں اور محلہ داروں کے
ہر گھر میں موضوع گفتگو بننے لگی ۔ "اسکے لئے یہ ماننا مشکل تھا کہ لوگ آخر
عورت کو ایک مرد کے رشتے کے ترازو پر رکھ کر ہی کیوں تولتے ہیں۔ کیا عورت
کی زات خود اپنے اندر مکمل نہیں ہوتی ؟۔ کیوں اسکے آس پاس ہمیشہ اسکی زندگی
کے کسی مرد مالک کو ہی ڈھونڈا جاتا ہے۔ اگر ایسا کوئی نہ ہو تو اسکے حصے
میں لوگوں کا عجیب سا برتاؤ آتا ہے یا پھر طرح طرح کے الزامات اسکی زات پر
منڈھ دیے جاتے ہیں"۔ وقت کے ساتھ ساتھ اسے محسوس ہونے لگا کہ والد صاحب کی
بیماری کی ذمہ داری وہ ہے ۔ شریف گھروں کی بیٹیاں میکے میں اس لیے بھی
بیٹھا نہیں کرتیں کہ باقی بہنوں کی شادی نہیں ہو پاتی، اسے اپنا آپ چھوٹی
بہن کے سامنے اسکا مجرم دکھائی دینے لگا ۔ اس نے اپنے اور اپنے بچوں کی
تمام ضروریات کا بوجھ خود اٹھایا ہوا تھا لیکن اس کے باوجود بھائی اور
بھابھی میں ہونے والی ہر تکرار کی وجہ وہ خود کو گرداننے لگی۔ اپنے بچوں کے
سہمے اور ناخوش چہروں کی زمہ دار خود کو ٹھرانے لگی۔ والدہ کی فکر اور
آنکھوں سے نکلنے والے آنسوؤں کی ذمہ دار خود کو سمجھتی تھی ۔ اس نے مار
کھائی کیونکہ فراز نے اسے کمتر سمجھا لیکن اس پر وہ ہمیشہ خاموش ہوتی
کیونکہ وہ خود بھی خود کو کمتر سمجنے لگی تھی۔ لیکن آج اسے محسوس ہو رہا
تھا کہ اسکا خود کو کمتر سمجھنا اسکی طرف سے اپنے گھر والوں اور بچوں کو
دیے گئے دکھ اور تکلیف سے زیادہ ٹھیک تھا۔ وہ ٹھیک اور غلط کے بیچ سے نکل
کر ممکن اور نہ ممکن کے درمیاں آ چکی تھی۔ اسے یہ بات ٹھیک لگنے لگی تھی کہ
ہمارے معاشرے میں مار تو ہر عورت کھاتی ہے لیکن گھر کی دہلیز کو پار کرنا
اسکی قسمت پھوٹنے کی پہلی وجہ ہے۔ اسکے بعد مرد عورت کے لیے کبھی بھی اپنی
ایڑیاں نہیں رگڑتا۔ چار شادیوں کا حق وہ لکھوا کر لایا ہے جسکے استعمال کا
موقع بیوی خود اسے دیتی ہے ۔ کبھی اسے خبر ملتی کہ فراز نے دوسری شادی کر
لی ہے ۔ کبھی اسے خبر ملتی کہ اسکی عزت کی گواہی دینے والا اب اس پر طرح
طرح کے الزامات لگا کر اسکی عزت کی جگہ جگہ دھجیاں اڑاتا پھرتا ہے۔
وقت پر لگا کر اڑتا رہا اور ایک سال کا عرصہ گزر گیا۔ اسے یقین ہونے لگا کہ
شاید وہ محبت کے لائق ہی نہیں تھی وہ ایک سائبان جسکا ساتھ وہ لکھوا کر
لائی تھی، جس کے پہلو میں سج کر، اولاد پیدا کر کے، دکھ اور سکھ میں ساتھ
دے کر بھی وہ اسے حاصل نہ کر پائی۔ اسے ہر اس عورت پر رشک آنے لگا جو پہلے
دن سے ہی اپنے خاوند کی جوان اور بےپناہ محبت کی اکیلی وارث ہوتی"۔ نہ وہ
زندہ تھی کہ مرنے کا سہارا ڈھونڈتی اور نہ ہی مردہ تھی کہ جینے سے وابستہ
غموں سے چھوٹ پاتی۔ اسکا وقت بگڑ چکا تھا، دنیا منہ موڑ چکی تھی، مقدر روٹھ
چکا تھا۔ وہ جائےنماز پر گھنٹوں بیٹھ کر اپنے سے باتیں کرتے کرتے اپنے رب
سے محو گفتگو ہونے لگی اور زندگی کی تمام تلخیاں بےبسی کی صورت میں رب کے
سامنے آنسوں میں بہنے لگے۔ وہ گڑگڑاتی، ، مانگتی کہ زندگی منشاوتفہیم کی
سچائیوں میں کب ڈھلے گی؟ جواب مانگتی اللہ سے کہ کیوں لایا گیا وہ شخص اسکی
زندگی جو اسکی زندگی، زات اور عزت کو روندتا ہوا چلا گیا جسکے لیے اس نے
اپنی زات کو مٹی بنا دیا تھا۔ کیوں اس رشتے کو بچانے کی ہر کوشش اسکی خامی
ہی گردانی گئی۔ وہ اپنے وجود میں ہارتی جا رہی تھی۔ اور اپنے رب کی سامنے
وجود کو ٹٹولتے ہوئے ایک دن وہ ایک سوال کے گرداب میں پھنس گئی اور وہ تھا
کہ آخر رشتوں سے جڑے ہوئے غم کی حقیقت کیا ہے ؟ کیا ٹوٹا ہے اور وہ چاہتی
کیا ہے۔ کیا وہ یہ چاہتی تھی کہ چاہی جائے ؟ پہچانی جائے؟ یا سنبھالی جائے
؟ کیا سہارا چاہتی تھی وہ ؟ اسے آشکار ہونے لگا کہ بنیادی طور پر تو اسے
خود کا اوراپنے ٹوٹنے کا غم تھا۔ اور یہ غم اسے دنیا کے قریب لے گئی تھی۔
بس یہی قربت اسکی ہر فکر اور ہر غم کا موجب بنتی جا رہی تھی۔ وہ شاید اس
بدنامی سے ڈرتی تھی جو اسکے خاکی وجود سے تو جڑا ہوا تھا لیکن روح کی ماہیت
سے نہیں ۔ اور یہی کھوٹ اسکی تباہی اور بے سکونی کی وجہ بنی۔ اسے وجود سے
لے کر ہر جنس، ہر رشتے اور ہر خواہش کی محبت وہ بت لگنے لگے جسے بنانے والی
وہ خود تھی۔ تو پھر شکایت خدا سے کیوں ؟ یہ یاد کر کے وہ روتی کہ ان بتوں
کو سینے سے لگائے ہوئے بھی اس نے جب جب خدا کو پکارا تھا تو اس نے اسے سنا
تھا، جواب دیا تھا ۔ لیکن اس نے کیا کیا تھا؟ ان بتوں کے مقابلے میں نہ ہی
اس نے رب کی سنی تھی اور نہ ہی مانی تھی۔ اس سب کی باوجود اس اللہ کو آج
بھی اسکی پروا تھی کہ اسکی دی گئی آزمائش میں اسکی محبت آج بھی جھلکتی تھی،
اسکے ساتھ کا احساس آج بھی تھا، دنیا کی ہر نعمت اور سکھ آج بھی اسکی منشا
اور کوششوں سے بڑھ کے تھا۔ ۔ اپنے رب کی محبت کی اس حقیقت نے وقت کے ساتھ
شازیہ کودنیا سے بے پروا کر دیا۔ اسکی ہر مصیبت اسے بتانے لگی کہ اسکا رب
کتنا بڑا ہے۔ اسے ہر مشکل نعمت اس لیے لگنے لگی کہ خدا کا یہ قرب اسے احساس
دیتی تھی کہ ان مشکلات میں ظاہری طور پر اسکے پاس صرف دکھ ہیں لیکن اب انکی
چبھن نہیں تھی سکون تھا۔اسے یقین ہوتا گیا کہ جب بندہ رب کو یاد کرتا ہے تو
وہ بھی اسے یاد کرتا ہے ، وجود کی قید سے آزاد اب اسے صرف زات کی طلب تھی۔
ایک سال سے خاموشی میں لپٹی ہوئی شازیہ سے اب فراز رابطہ کرنے کی کوشش کرنے
لگا۔ لیکن ہر بار اس شازیہ میں اتنی سکت باقی نہ رہتی کہ وہ اسکے رابطے کا
جواب دے پاتی۔ ایک روز وہ ہسپتال میں اپنے وارڈ میں بیٹھے مریضوں کے علاج
معالجے میں مصروف تھی کہ اسکے میڈکل آفیسر کی جانب سے اسے دفتر آنے کا
عندیہ دیا گیا۔ وہ مریضوں سے فارغ ہو کر اپنے سینئر کے دفتر پہنچی تو سامنے
فراز کو بیٹھے پایا۔۔ شازیہ کو دیکھ کر وہ پہلے تو بت بنا اسے دیکھتا رہا
لیکن بلآخر اپنے آنسو نہ روک پایا۔ شازیہ کی محبت کا وہ بت آج اپنے ہر ہر
کیے کا جواز اور دلیل پیش کرنے لگا۔ معافیاں مانگتا رہا۔ اقرار کرتا رہا کہ
شازیہ کا صبراسکے سکون اور ہر ہر خوشی میں رکاوٹ بنا بیٹھا ہے۔ ،وہ اپنے ہر
کیے پر شرمندہ تھا، وعدے کرنے لگا ، گڑگڑا رہا تھا ۔ لیکن شازیہ کے پاس
جواب میں صرف ایک ہی چیز تھی اور وہ تھی خاموشی۔ وہ چپ چاپ اسے دیکھ رہی
تھی۔ یہ سب کچھ اسے بےمعنی لگ رہا تھا۔ اسے آج نہ کسی فراز کی آواز سنائی
دے رہی تھی اور نہ اسکے وجود کے رنگ دکھائی دے رہے تھے۔ اسکا دل فراز کی
آواز پر کھچنا بھول گیا تھا۔ وہ اسکے آنسوؤں کے سامنے پگلنا بھول گئی تھی۔
اسکے وعدے شازیہ کے لیے بےمعنی ہو گئے تھے۔ اسے اپنا دل بے پروا لگا فراز
کی محبت سے، اسکے بھروسے سے، اسکے دلیلوں سے اور بنیادی طور پر اسکے وجود
سے۔ ساری بات تو دل کی ہوتی ہے اور اسکا دل فراز کے معاملے میں مر چکا تھا
وہ اب اسکے وجود اور احساس کے ہر رنگ سے خالی تھا۔ وہ اپنی جگہ سے اٹھی اور
دفتر سے نکل کر گھر روانہ ہو گئی۔ والدین کو بتانے پر ہر طرح کے فیصلے کا
اختیار مکمل طور پر اسی کے سپرد کر دیا گیا۔ شازیہ اب اس چوراہے میں کھڑی
تھی جہاں یا تو وہ منطق کی بنیاد پر اپنے حقوق کی جنگ لڑتی، اپنے پر ہونے
والی ہر زیادتی کا بدلہ لیتی، طلاق کا حق استعمال کر کے ہمیشہ کے لیے فراز
سے الگ ہو جاتی۔ یا عورت ہونے کے ناطے فطرت سے مجبور ہو کر اپنے جزبات کے
ہاتھوں فیصلہ کرتی اور فراز کے پاس لوٹ جاتی۔ لیکن اسکے سامنے سوال تو یہ
تھا کہ کیا یہ سب فراز کا دل بدل سکتا تھا ؟ اسکا دل تو صرف اللہ ہی پھیر
سکتا تھا۔ اور راستہ وہ جو بھی چنتی چلنا اس نے اسی رب کے سہارے خود ہی
تھا۔ وہ بار بار سوچتی رہی، اللہ کے سامنے گڑگڑاتی رہی، دعائیں کرتی رہی کہ
اس معاملے میں صراط مستقیم کیا ہے؟ اور بلاخر وہ اس نتیجہ پر پہنچی کہ نہ
وہ منطق کو اہمیت دے کر دلیل پر فیصلہ کرے گی اور نہ ہی دل کی تڑپ کو حاوی
کر کے جزبات کی بنیاد پر فیصلہ کرے گی۔ وہ اللہ کا فیصلہ جانے اور مانے گی،
وہ اسکی کتاب کھولے گی، اسکے پیغمبرﷺ کوسنے گی۔ کیوں کہ اسکے محبوب نے کہا
ہے کہ تمہاری درمیان کتاب چھوڑ کر جا رہا ہوں۔اس نے قرآن کھولا اور اسکے
بعد سنت پڑھی تو فرط جزبات میں آنسو بہتے گئے۔ اسے اسلام میں اپنے عورت
ہونے پر فخر محسوس ہونے لگا کہ جب اس گیاں ہوا کہ اسلامی معاشرہ میں عورت
جب ماں بنتی ہے تو جنت اسکے قدموں میں رکھ دی جاتی ھے۔ ، بیٹی کی روپ میی
سلامتی کی نوید بن کے باپ کے لیے جنت کا دروازا کھولتی ہے، بہن کے روپ میں
دکھوں کا وہ سہارا جس کی ناراضگی بدنصیبی کی دلیل قرار پاٰتی ہے۔،جب یہی
عورت بیوی بنتی ہی تو اسکا وجود سکون اور ایمان مکمل کرنے کا زریعہ بنتی
ہے۔ وہ تو مرد کو کہتے ہیں کہ تم عورت کے کفیل ہو ، تمہارا درجہ بلند رکھا
تو اس لئے کہ تمہاری ذمےداری زیادہ ہے۔ تمہارے فرائض زیادہ ہیں،اگر حکمران
بن کر انصاف نہ کر پائے، کمزور وجود کی خطا نہ معاف کر پائے، محافظ بن کر
ساتھی نہ بن پائے، روٹی کپڑا اور پناہ دے کر احسان جتاتے رہے، وحشت کے
گھوڑے پر سوار ہو کر عورت کی انا کی دھجیاں اڑاتے رہے، اسے محبت اور عزت نہ
دے پائے، اسکا دکھ اور غم نہ سمجھ پائے، وہ ٹیرھی پسلی سے پیدا کی گئی ہے
اسے سیدھا کرنے کی کوشش میں اسے توڑ بیٹھے تو یاد رکھنا تمہاری پکڑ زیادہ
ہے، بخشش تو پھر تمہاری بھی نہیں ہونی۔ وہ روتی رہی، رنج یہ تھا کہ عورت کو
ہروہ مقام اسکے رب نے اور اسکے پیغمبرﷺ نے تو دیا بس اسکا معاشرہ نہ دے
سکا، اسکا مقام دین کے ٹھیکے دار چھپا گئے، مرد روند گئے، اور رواج غصب کر
گئے۔ آخر کیوں؟ کیوں ھمارے رواجوں کا دین الگ اور رب کا دین الگ دکھاٰی
دیتا ہے؟ اگر رب کا دین یہی ہے تو فیصلہ اسکے سامنے تھا اور بہت واضع تھا۔
وہ آنسو بہاتی رہی اور کہتی رہی، "بتا میرے مولا تو نے تو عورت بنا کر
انسان کی حیثیت سے میرا فیصلہ کر ڈالا، بتا اب عورت کے وجود میں رکھی اس
انسان کے لیے کیا حکم ہے؟ وہ انسان جو ایک مٹی کا کھلونا، جو تیری کن سی
تخلیق ہوئی، تیرے کرم نے زی روح کیا، تیرے حکم سے سانس چلی، تیرے فضل سے
ہستی قائم ہوئی، تو ہی ظاہر، تو ہی باطن، ایک اور کرم کر دے میرے مولا!
میرے سارے زنگ اتار دے یا رب اور اس مشکل میں کن فرما دے"۔ قرآن سے جواب
آیا کہ ھر طرح کے وقت میں انسان کی حیثیت سے انسان سے اچھا گمان رکھو۔"
ٹھیک تو کہتا ہے، میری اوقات تو اتنی بھی نہیں کہ گمان بھی کر سکوں اگر رب
نہ چاہے- وہ تو اتنا مہربان ہے کہ ہر مشکل میں ہمارے اچھے خیال سے ہمیی کو
مایوسی سے روکتا ہے، دل میں امید کی شمعیں روشن کرتا ہے - اور پھر اسی امید
پر دعا کرنا سکھاتا ہے- اپنے پاس بلاتا ہے، اپنے زکرسے دلوں کو سکون بخشتا
ہے، پھر ے یہی راستہ، یہی دعاٰہیں ھمارا مقدر بناتا ھے۔ وہ کہتا ہے کہ رکو
نہیں، جاری رکھو اس سفر کو جسکی امید صرف رب ہو- پھر وہ سہارہ بنتا ہے۔ ہٹا
دیتا ہے ساری مشکلیں چاہے راستہ کتنا ہی دشوار ہو۔ بندے کو بتاتا ہے کہ صبر
تو خیر کے خزانوں میں ایک بڑا خزانہ ہے۔ اسے درگزر کرنے کو کہتا ہے "۔
شازیہ نے آنسو پونجے، فیصلہ آ چکا تھا۔ اس نے اانسان کی حیثیت سے فراز کو
درگزر اس لیے کرنا تھا کہ وہ خود بھی انسان کی حیثیت سے اپنے رب سے اب صرف
اسی ایک چیز کی امیدوار تھی ۔
|